گرلز ہاسٹل - قسط نمبر 3

urdu font stories

پیاری بیٹی!
آج تم سولہ برس کی ہو گئی ہو۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی میرے پاس تمھیں دینے کو فقط بہت سی دعائیں ہیں۔ تمھاری واحد نھنھی سی خواہش میں چاہ کی بھی پوری نہیں کرسکتا۔ میں تمھیں مل نہیں سکتا، تمھارا سامنا نہیں کر سکتا۔ میری بہت سی مجبوریاں آڑے آتی ہیں۔ امید ہے کہ تم سمجھو گی۔ تمھیں میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرنے پہ ڈھیروں مبارک باد۔ میں ایک گرلز کالج کا داخلہ فارم بھیج رہا ہوں۔ ساتھ ہی کالج سے ملحقہ ہاسٹل میں رہائش رکھنے کہ لیے ایک الگ سے فارم ارسال کیا ہے۔ تمھارے نمبر خداوند کہ فضل سے اتنے ہیں کہ تمھیں اسکالرشپ پہ داخلہ مل جائے۔ پھر بھی ہمیشہ کی طرح چیک ارسال کر رہا ہوں۔ اگر زندہ رہا تو اگلے سال میرا خط تمھیں ملے گا۔
فقط تمھارا بد نصیب باپ

امراؤ نے خط کو کوئی پندرہ مرتبہ پڑھا تھا۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی خط اس کی آنسوؤں سے تر ہوا تھا۔ وہ ہمیشہ ہی اپنے باپ کی لکھائی کہ سحر میں کھو سی جاتی تھی۔ جس کی لکھائی اتنی اچھی تھی وہ خود کتنا حسین ہوگا؟ ظاہر ہے اس کا باپ تھا خوبرو تو ہونا تھا۔ اسے بے اختیار اپنے باپ پہ فخر محسوس ہوا۔ اس نے خط کو بے اختیار چوم کہ آنکھوں سے لگایا۔ اور اپنے تکیے کہ نیچے رکھ دیا۔ وہ جانتی تھی کہ اسے کیا کرنا۔ اس کہ باپ کا حکم اس کہ سر آنکھوں پر تھا۔ اسے ہر حال میں اسی کالج اور ہاسٹل میں داخلہ لینا تھا جس کا اس کہ باپ نے فارم ارسال کیا تھا۔ اسے چند لمحے لگے آن لائن کالج کی ویب سائیٹ پر لاگ ان کرنے اور فرسٹ ائیر کہ لیے اپلائی کرنے میں۔ انٹر کہ سالانہ امتحانات کہ بعد داخلے کھلے تھے۔

 امراؤ نے میٹرک میں اپنے اسکول میں فرسٹ پوزیشن حاصل کی تھی۔ وہ میرٹ سے بھی اوپر رھتی تھی۔ جتنی وہ حسین تھی اتنی ہی ذہین بھی۔ بھورے بالوں اور گوری رنگت والی امراؤ جان، بلکل کسی انگریز کی اولاد لگتی تھی۔ داخلا فارم پُر کر کہ بھیجے ابھی چند ہی لمحے ہوئے تھے کہ اس کی جی۔میل آئی ڈی پہ کالج کی جانب سے مبارک باد کی ای میل جگمگا رھی تھی۔ اس کا داخلہ فارم منظور کر لیا گیا تھا۔ اسے یہ خوشخبری سنائی گئی تھی کہ اس کی تعلیم اور ہاسٹل میں رہائش کا سارا خرچہ کالج انتظامیہ برداشت کرے گی۔ساتھ ہی ضروری ہدایات کا ایک پرچہ بھی منسلک کیا گیا تھا۔ جس پہ ہاسٹل میں رھنے اور کالج میں تعلیم حاصل کرنے کہ لیے چیدہ چیدہ اصول و ضوابط درج کیے گئے تھے۔ ماں سے اجازت لینا اور نہ لینا ایک برابر تھا۔ اسکی ماں کو اس سے زیادہ اپنے نئے نویلے شوہر میں دلچسپی تھی۔ اسے اس کی نانی نے پالا تھا۔ یا یوں کہہ لیا جائے کہ وقت نے خود ہی اسے پال پوس کہ بڑا کیا تھا۔ جن کا کوئی نہیں ہوتا ان کا رب ہوتا ہے۔ امراؤ جان کہ ساتھ بھی بلکل یہی ہوا تھا۔ جب سے اسکی ماں نے تیسرا شوہر ڈھونڈا تھا تب سے وہ اس سے بلکل لاپرواہ ہو گئی تھی۔ ظاہر ہے اس 60 سالہ “دوشیزہ” کو اپنی نئی شادی کو جو وقت دینا تھا۔

امراؤ جان نے ابھی سے سامان پیک کرنا شروع کر دیا تھا۔ اسکا خرچہ ہر سال اس کا باپ بھیجا کرتا تھا۔ جس میں سے آدھا تو اس کی نانی اور ماں ہتھیا کہ لے جاتی تھیں جبکہ بقیا وہ سنبھال کہ رکھ دیتی تھی۔ اور اب اس کا سارا جوڑا ہوا پیسہ کام آنے والا تھا۔ ہاسٹل میں رھنے اور نئی دوستیں بنانے کا سوچ کر ہی اسے دلکش احساس نے گھیر لیا۔ اس کا ایک خواب تو ملکِ پاکستان کی ایک کامیاب سرجن بننا تھا جبکہ دوسرا بڑا خواب اپنے باپ سے ملنے اور اس کہ ساتھ ایک گھر میں رھنے کا تھا۔ اسے بچپن سے لیکر اب تک گھر والا ماحول اور پیار نصیب نہیں ہوا تھا۔ پیدائش کہ کچھ وقت تک ماں کی گود نصیب ہوئی پھر نانی ہوتی اور اس کی جھڑکیاں!
اب اس کہ دن بھی پھرنے والے تھے۔ کم از کم وہاں ہاسٹل میں نانی یا ماں سے تو سامنا نہیں ہوگا نا۔ کتنا سکون ہوگا نا وہاں پہ۔ سب کچھ جیسے ایک دم سے خوشگوار ہو گیا تھا۔ اس کہ معصوم سے چہرے پہ خوش کن سی مسکراہٹ گردش کر گئی۔ وہ معصوم تب نہیں جانتی تھی کہ اس خونی ہاسٹل میں اس کا پالا کس کس سے پڑنے والا ہے۔ اور اس کا سکون کیسے غارت ہونے والا ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علی اصغر کی لاش کٹی پھٹی حالت میں بھوربھن جانے والی پگڈنڈی پہ اگلی صبح ملی تھی۔ لاش کی حالت اتنی بری تھی کہ اسے پہچاننا مشکل ہو گیا تھا۔ پھر بھی پولیس نے نہ چاھتے ہوئے بھی، ضروری کاروائی کرنے کہ بعد لاش کو پوسٹ مارٹم کہ لیے سی ایم ایچ ہسپتال منتقل کروا دیا تھا۔ سی ایم ایچ اس پورے ایریے کا واحد ہسپتال تھا۔ جو ہاسٹل اور بھوربھن گاؤں سے تھوڑی دور مین روڈ پہ واقع تھا۔ خضر منان کو اپنی پہلی ہی پوسٹنگ میں ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑجائے گا وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ پہلی جوان لڑکی کی لاش اور اب ایک درمیانی عمر کہ مرد کی بری طرح مسخ شدہ لاش۔ کوئی اور کم ہمت و حوصلے والا سرجن ہوتا تو نجانے کب کا وہاں سے بھاگ گیا ہوتا۔ وہ آرمی سے منسلک تھا۔ 

بہادر اور نڈر جوان تھا۔ اس کہ حوصلے بلند اور عزم پختہ تھا۔ وہ ہر حال میں یہاں ہونے والی واردات کا سراغ لگانا چاھتا تھا۔ اس کہ لیے لاشوں کا بغور معائنہ ضروری تھا۔ اور فی الوقت وہ وہی کر رھا تھا۔ پچھلی رات لڑکی کی لاش دیکر غائب ہو جانے والا آدمی اگلی رات پھر نجانے کہاں سے آن ٹپکا تھا۔ وہی عجیب وغریب حلیہ اور ویسا ہی پرسرار رویہ۔ خضر لڑکی کی لاش کہ اوپر جھکا قتل کا صحیح وقت معلوم کرنے کی سعی کر رھا تھا۔ وہ آدمی چپ چاپ خضر سے فاصلے پہ رکھی کرسی پہ براجمان تھا۔ خضر نے پچھلی رات اس پرسرار بندے سے بات کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس نے خضر کی کسی بات کا جواب نہیں دیا تھا۔ وہ فقط اپنے مطلب کی بات کرتا تھا یا چپ رھتا تھا۔ دوسروں کی باتیں ایسے ان سنی کرتا جیسے وہ کوئی گونگا بہرہ ہو۔ خضر نے اسے زیادہ کریدنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ نجانے کیوں خضر کو اسکی شخصیت نہایت طلسماتی لگی تھی۔ 

وہ جو بھی تھا، دوسروں کو اپنی جانب کھینچتا تھا۔ اسی لیے خضر نے پولیس کو بھی اطلاع نہیں دی تھی۔ فی الوقت وہ اس معاملے کو اپنے تک رکھنا چاھتا تھا۔ ویسے بھی جس وقت وہ آیا تھا، ہسپتال کو مختصر سا عملہ سو رھا تھا۔ لہذا کسی نے اسے نہیں دیکھا تھا۔ ابھی بھی وہ خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھا خلا میں گھور رھا تھا۔ ابھی خضر بلآخر لڑکی کی موت کا وقت معلوم کرنے کی بعد پوسٹ مارٹم رپورٹ پہ لکھنے ہی لگا تھا کہ وہ اپنی گھمبیر آواز میں بول اٹھا:
“72 گھنٹے، 40 منٹ اور 34 سیکنڈ”

خضر کہ تیزی سے کام کرتے ہاتھ رکے۔ اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تو وہ ابھی بھی ویسے ہی بے نیاز سا بیٹھا تھا جیسے اس نے کچھ کہا ہی نہ ہو۔ خضر کہ مطابق موت کا وقت 74 گھنٹے تھا۔ جبکہ اس آدمی نے شاید بلکل صحیح کہا تھا۔ کون تھا یہ پرسرار آدمی؟ خضر کہ من میں اسے مزید جاننے کی جستجو پھر سے بیدار ہوئی۔ لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اگر اُس نے اِس سے زیادہ سوال جواب کیے تو یہ اُس دن کی طرح اٹھ کہ چلا جائے گا۔ اور پھر نجانے ہاتھ بھی آتا ہے یا نہیں؟

لہذا اس نے چپ رھنے کو ترجیع دی۔ اور سر جھکا کہ اس کا بتایا ہوا وقت رپورٹ پہ نوٹ کرنے لگا۔موت کی وجہ اس کہ مطابق کسی تیز دھار آلے سے باریک نسوں کو کاٹنے کہ بعد جسم کا خون بہہ جانا تھا۔ اب آلہ کونسا تھا یہ وہ معلوم نہیں کر سکا تھا۔ اس جیسا سرجن بھی اگر کسی جیتے جاگتے آدمی کی باریک نسیں کاٹتا تو اسے شاید دو دن لگ جاتے، پھر بھی اتنی صفائی سے نہ کاٹ پاتا۔ اور یہاں ایک رات کہ مختصر سے وقت میں اتنی مہارت و صفائی سے نسوں کا کاٹا جانا ناقابلِ یقین تھا۔ اس نے وہ خانہ خالی چھوڑا اور مرد کی لاش کی جانب متوجہ ہوا۔ تقریباً پندرہ منٹ لاش کا جائزہ لینے کہ بعد وہ اس نتیجے پہ پہنچا تھا کہ اس مرد کہ گلے اور دماغ کی باریک نسیں کاٹی گئی تھی۔ اور یہاں بھی اسی مہارت و صفائی کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ جو بھی تھا یہ بلاشبہ قاتل کی ذہانت اور کاریگری کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ مطلب دونوں کا قاتل ایک ہی تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں مرد کی لاش کو ہر ممکن حد تک مسخ کرنے کی کوشش کی گئی تھی تاکہ پہچاننا مشکل ہو جائے اور قتل کا سراغ نہ لگایا جا سکے۔ پولیس تو شاید پوسٹ مارٹم بھی نہ کرواتی، وہ تو عوام کہ دباؤ میں آکر لاش کو ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ ورنہ یہ لاش بھی دیگر لاشوں کی طرح قبر میں دفنائی جا چکی ہوتئ۔ اور سب لوگ اس پہ فاتحہ پڑھکر اپنے گھروں کو رخصت ہو جاتے۔ خضر منان نے اس لمحے یہ عہد کیا تھا کہ وہ جو کوئی بھی تھا ، خضر اسے ضرور بے نقاب کرے گا۔ چاھے اسے اس کہ لیے کسی بھی حد تک ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ کیونکہ وہ مزید معصوم لوگوں کو اس وحشی کا نشانہ نہیں بننے دینا چاھتا تھا۔ پولیس کی کاروائی اور سست روی سے وہ اتنا تو اندازہ لگا ہی چکا تھا کہ وہ اس کہ کسی کام آنے والے نہیں ہیں۔ اسے جو بھی کرنا تھا تنِ تنہا کرنا تھا۔
“بہت بھاری پڑ سکتا ہے تمھیں۔ “

پرسرار شخص نے جیسے خضر کی سوچیں پڑھکر تبصرہ داغا تھا۔ خضر کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔ یہ کہہ کر وہ شخص رکا نہیں بلکہ جانے کہ لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ خضر نے پہلی دفعہ اس کہ کالے لباس کہ اوپر پہنی کالی بوسیدہ سی جیکٹ پہ غور کیا۔ جس کہ دائیں جانب ایک ٹوٹا ہوا بیج لگا تھا، جس پہ مٹے مٹے انگریزی حروف میں شاید “David” لکھا ہوا تھا۔ اس کا نام “David” ہے۔ خضر نے اندازہ لگایا تھا۔ یہ خضر کی سوچ تک پڑھ سکتا تھا۔ مطلب یہ کوئی عام شخص نہیں تھا۔ سرجن ہونے کہ باوجود وہ کہیں نہ کہیں اس بات پہ یقین رکھتا تھا کہ اس دنیا میں ہمارے علاوہ، اللہ کی پیدا کی ہوئی بہت عجیب اور منفرد انسان نما مخلوق بھی بستی ہے۔ جو ہوتے ہم عام انسانوں جیسے ہیں لیکن وہ عام نہیں ہوتے۔ بہت خاص ہوتے ہیں۔ ڈیوڈ بھی ان میں سے ایک تھا۔ ڈیوڈ اب جانے لگا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ جس کام کہ لیے آیا تھا وہ مکمل ہو گیا تھا۔

“اگر آپ میرے ساتھ ہوں گے تو یہ اتنا بھاری نہیں پڑے گا۔”
خضر نے خلا میں تیر چلایا تھا۔ ڈیوڈ کہ تیزی سے باہر جاتے قدم زنجیر ہوئے تھے۔ وہ کچھ دیر خاموش کھڑا رھا اور پھر برق رفتاری سے مڑتا ہوا آنِ واحد میں خضر کہ سر پہ پہنچ گیا۔ کیا کوئی انسان اتنی تیزی سے حرکت کر سکتا تھا؟ خضر کی پلکیں جھپکنے کہ وقفے سے پہلے وہ اس کہ عین سامنے تھا۔ اور خضر کی گردن اس کہ مضبوط ہاتھوں کہ شکنجے میں تھی۔
“وہ۔۔۔ کوئی عام نہیں ہے۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔ کیتھرین ۔۔۔۔ ہے۔۔۔۔۔۔!!!!”

اس کہ لبوں سے جیسے شدتِ برداشت سے کف بہہ رہی تھی۔ وہ تھر تھر کانپ رھا تھا۔ خضر کہ رونگٹے کھڑے ہو چکے تھے۔ وہ دم سادھے اپنی گردن اس کی مضبوط گرفت میں دیے خطا ہوتے حواس لیے شل کھڑا تھا۔ جب خضر کا چہرہ خطرناک حد تک سرخ ہوا تو اس نے ایک جھٹکے سے اسے چھوڑ دیا۔ خضر کو بری طرح کھانسی کو دورہ پڑا۔ وہ سر جھکائے کھانستا چلا گیا، جب سر ذرا سا اوپر اٹھایا تو اس پہ یہ بھیانک انکشاف ہوا کہ ایک لمحے سے بھی کم وقت میں ڈیوڈ وہاں سے “غائب” ہو چکا تھا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمیکا کہ اندر دن رات ایک ہی لاوا پکتا رھتا تھا، اور وہ تھا نفرت کا لاوا۔ اسے انسان نما مخلوق سے نفرت تھی۔ اس کہ نزدیک سب انسان ایک جیسے تھے ماسوائے نگینہ یعقوب مسیح کہ۔ یا شاید وہ ان سے بھی بدتر تھی کیونکہ وہ اپنے اوپر ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ لینا تو درکنار ان پہ آواز تک بلند کرنے کی قوت و صلاحیت نہیں رکھتی تھی۔ جمیکا ہر حال میں یعقوب مسیح کو پل پل مرتا ہوا دیکھنا چاھتی تھی۔ اور اس جیسے ہر مرد کو۔ بلکل کرۂ ارض پہ موجود ہر انسان کو۔ کیونکہ اس کہ بقول کسی کو بھی اس کی یا نگینہ کی پرواہ نہیں تھی۔ سب مطلب پرست اور گھمنڈی تھے۔ اپنے آپ میں اپنی دنیا میں مگن۔ جنہیں جمیکا یا اس کو پالنے والی ماں کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔

اور اس بے حس دنیا میں نجانے اس کہ حقیقی ماں باپ کہاں بستے تھے؟ وہ چھوٹی تھی پھر بھی یہ واقعہ اس کہ نھنھے دماغ پہ کسی فلم کی مانند نقش ہو گیا تھا۔ اس رات وہ بہت رو رھی تھی جب یعقوب نشے میں دھت ، اسے جوے کہ اڈے سے لیکر آیا تھا۔ کوئی آدمی اس وقت کی معصوم سی جمیکا کو جوے میں ہار گیا تھا۔ اور یعقوب کہ جسکی پہلی بیوی سے کوئی اولاد نہیں تھی اسے گھر لے آیا تھا۔ پھر کچھ دن تو یعقوب کی پہلی بیوی نائلہ مسیح جمیکا کو پاکر بہت خوش اور مطمئن تھی، لیکن اچانک نجانے کیا ہوا کہ وہ اسے دیکھ کر چیخیں مارتی ہوئی کمرے سے بھاگ گئی۔ پھر وہ اتنی بوکھلائی کہ چھت سے کود گئی۔ 

لوگ کہتے ہیں اسے کسی نے دھکا دیا تھا، نجانے اسے کس نے چھت سے دھکا دیا تھا؟ پھر اسے ادھ موئی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ اور پھر وہاں سے پاگل خانے۔ کیونکہ نائلہ مسیح کہ ساتھ نجانے کیا واقعہ پیش آیا تھا کہ اس دن کہ بعد وہ اپنے حواس مکمل طور پر کھو چکی تھی۔ وہ اپنے ساتھ بیتنے والی داستان کسی کو بھی بتانے کہ لائق نہیں رھی تھی۔ اور تب یعقوب کو اپنے علاوہ جمیکا کی فکر ستانے لگی۔ اسے کون سنبھالتا کون پالتا؟ تبھی وہاں ایک عمر رسیدہ خاتوں آئی جس نے نگینہ کا رشتہ پیش کیا۔ جسے یعقوب مسیح نے بصدِ شوق قبول کر لیا۔ کیونکہ نگینہ کہ آگے پیچھے کوئی تھا نہیں، نہ ہی نگینہ کی جانب سے کبھی کسی خواہش کا اظہار کیا گیا تھا۔ یعقوب کو ایسی ہی اللہ میاں کی گائے درکار تھی۔ جو اس کا اس کہ گھر کا اور جمیکا کا خیال رکھ سکے اور بدلے میں کسی قسم کی توقع مت رکھے۔ نجانے نگینہ نے جمیکا پہ کیا جادو کیا تھا کہ ہر وقت رونے دھونے اور اودھم مچانے والی جمیکا، ایک خاموش اور سلجھی ہوئی بچی بن گئی۔ یعقوب بھی نگینہ اور جمیکا سے یکسر لاعلم ہو گیا اور اپنے کام دھندے میں مصروف ہو گیا۔ لیکن کئی بار اس نے نگینہ کا عجیب سا رویہ محسوس کیا تھا۔ نگینہ کا جھکاؤ کبھی بھی یعقوب کی جانب نہیں تھا۔ اسے بس جمیکا سے غرض تھی۔ ہر وقت اسے ہاتھوں کا چھالا بنائے رکھتی۔ یعقوب جیسے اس کی ڈکشنری میں کہیں تھا ہی نہیں۔ ہاں اس کہ سارے کام ضرور کرتی تھی لیکن اس میں کبھی بھی دلچسپی نہیں دکھائی تھی۔ تبھی یعقوب بھی اس سے کھینچا کھینچا رھنے لگا۔ یعقوب نے اپنے تئیں نگینہ کا رخ اپنی جانب کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار نتیجہ صفر۔

 نگینہ رات کو جمیکا کو لیکر الگ کمرے میں اندر سے دروازے کی چٹخی لگا کر گھس جاتی اور صبح باہر آتی۔ کبھی کبھی یعقوب کو تو وہ کوئی عجیب ہی مخلوق لگتی تھی۔ کبھی وہ کوئی جادوگرنی لگتی۔ کبھی کوئی جننی، تو کبھی انسان۔ یعقوب اس سے جگھڑ جگھڑ کہ تھک چکا تھا لیکن نگینہ کہ رویے میں ذرا سا بھی بدلاؤ نہیں آیا۔ وہ جیسی تھی ویسی ہی رھی خاموش اور پرسرار۔ اس نے اپنے ساتھ جمیکا کو بھی ویسا ہی کر لیا۔ وقت گزرنے کہ ساتھ یعقوب بھی نگینہ اور جمیکا سے مکمل بےزار ہو گیا۔ وہ آتے جاتے نگینہ کو مارتا یا ڈانٹ ڈپٹ کر کہ اپنی روح کو تسکین دلاتا تھا۔ اس کہ علاوہ اس کا جمیکا یا نگینہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ایک بات کی اسے ابھی تک سمجھ نہیں آئی تھی کہ اس کی بیوی نائلہ نے جمیکا میں ایسا کیا دیکھا تھا کہ وہ چھت سے ہی کود گئی اور اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی؟ اور نگینہ حقیقت میں کیا تھی؟ کیونکہ اگر کوئی انسان اتنی مار یا ڈانٹ کھاتا تو یقیناً وہ یہ جگہ چھوڑ جاتا یا کوئی رد عمل تو ضرور دیتا۔ لیکن وہ ہر احساس اور تاثرات سے عاری چلتی پھرتی لاش تھی۔ اس کہ ساتھ بات کرنا ایسے ہی تھا جیسے دیوار سے سر ٹکرا ٹکرا کہ زخمی کر لیا جائے ، لیکن دیوار اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہو۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے