گرلز ہاسٹل - قسط نمبر 6

urdu font stories

نگینہ یعقوب مسیح جمیکا کہ ہمراہ نئی نویلی دلہن بمع شیر خوار بچی کہ، اس کا استقبال کر رھی تھیں۔ یا کم از کم نئی دلہن یعنی “بانو کماری” کو ایسا ہی لگا تھا۔ اس نے سر تا پا حقارت و نفرت سے سامنے موجود دو خواتین کا جائزہ لیا۔ جن کہ تاثرات بانو کہ لیے بھی تقریباً ویسے ہی تھے۔ ان خواتین کو یوں آمنے سامنے کھڑے دیکھکر یہ اندازہ لگانا ایک مشکل امر تھا کہ درحقیقت مجرم کون ہے اور منصف کون؟ لیکن پھر وہی ہمارے مردانہ معاشرے کا المناک المیہ کہ، مرد ہی ہمیشہ منصف ٹھہرتا ہے۔ یہاں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال بنی۔ یعقوب مسیح نے نگینہ اور جمیکا کو یہ ذمہداری دے ڈالی کہ وہ اب سے بانو کماری اور ا سکی شیر خوار بیٹی کا خیال رکھیں گی۔ انھیں کسی بھی چیز کی کمی نہیں ہونی چاھیے اور نہ ہی انھیں شکایت کا کوئی موقع میسر آنا چاھیے۔ بانو یہ سن کر محظوظ ہو رھی تھی۔ جبکہ نگینہ اور جمیکا کی نگاہیں حیرت سے پھیلتی جا رھی تھیں۔ نگینہ نے اتنے سالوں میں پہلی دفعہ شوہر کہ سامنے احتجاج کی غرض سے منہ کھولنا چاھا لیکن اس نے ہاتھ کھڑا کر کہ یہ کہتے ہوئے منع کردیا:

“یہ حق تُو بہت پہلے ہی کھو چکی ہے نگینہ۔ مت بھول کہ تیری بیزار طبیعت نے ہی مجھے یہ سب کرنے پر مجبور کیا۔”
نگینہ جہاں تھی وہیں سُن کی سُن کھڑی رہ گئی۔ اب کہ بار جمیکا نے احتجاجاً منمنانا چاھا لیکن یعقوب مسیح نے اسے بھی ہاتھ کہ اشارے سے کچھ کہنے سے روک دیا۔ بانو نے یعقوب کی باہوں میں باہیں ڈال لیں جو اس بات کا خماز تھیں کہ اب انھیں وہاں مزید کھڑا نہیں رھنا چاھیے۔ یعقوب نے دوسرے ہاتھ سے اٹیچی کیس اٹھایا جس میں اس کہ مطابق بہت سا “مال” تھا۔ جاتے جاتے جمیکا کی سسکیوں نے اسے رکنے پر مجبور کیا۔ وہ سر جھکا کہ کھڑا رہا، جمیکا سے کچھ کہنے کو اس کہ پاس بچا ہی کیا تھا؟ جب بانو نے اسے یوں پگھلتے دیکھا تو گلا کھنکھارتے رعب سے گویا ہوئی:
“اور ہاں، اگر کوئی یہاں نہیں رھنا چاھتا تو بوریا بسترا باندھے اور نو دو گیارہ ہو جائے۔ یہاں فضول کا رونا دھونا نہیں چلے گا۔وہ کیا ہے نا، دو دن پہلے ہی میں نے ایک بیٹی کو جنم دیا ہے۔ میری طبیعت مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ میں مزید ٹنشن لوں۔”

یعقوب نے کچھ کہنے کو لب وا کیے ہی تھے کہ بانو نے اس کا ہاتھ دبا کر اسے خاموش رھنے کا حکم صادر کیا۔ اور وہ نگینہ اور جمیکا کو بے یارومددگار چھوڑ کر ،سر جھکا کہ وہاں سے چل دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جوں ہی اس کی آنکھ کھلی، درد کی ایک شدید لہر نے اس کا استقبال کیا۔ وہ سر تھامے اٹھی اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ وہ اس وقت ہاسٹل کہ بستر پر نہیں بلکہ ہاسپیٹل کہ بستر پر موجود ہے۔ اس کہ دائیں بازو میں کینولا لگا ہے۔ جو سفید رنگ کی دوائی کو اس کہ خون میں منتقل کرنے کا موجب ہے۔ اس کہ اوپر سینے تک سفید بے داغ چادر اوڑھائی گئی تھی۔ سفید چادر دیکھتے ہی اسے سفید کفن میں لپٹی وہ لڑکی یاد آگئی۔ اسے سوچتے ہی اس کی آنکھوں کہ آگے جیسے اندھیرا چھانے لگا۔ وہ پھر ہوش و خرد سے بیگانہ ہوگئی۔ آنکھیں موندتے ہی اس نے خود کو اسی کمرہ نمبر گیارہ۔بارہ میں پایا۔ جہاں وہ لڑکی اپنے اسے مخصوص بستر پر موجود تھی۔ اس کہ ساتھ پڑی بڑے دستے والی چھری اب خون میں لت پت تھی۔ اس کا بستر بھی خون سے لال ہو چکا تھا۔ وہ سر گھٹنوں میں دیے جوں کی توں بیٹھی تھی۔ امراؤ نے جب اس کہ کندھے پہ ہاتھ رکھا تو وہ کلبلا کہ سیدھی ہوئی۔ اس کی لال انگارہ آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ اس نے امراؤ کی جانب مدد طلب نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا:
“تم نے بھی مجھے چھوڑ دیا نا۔ کوئی بھی مجھ سے دوستی نہیں کرتا۔ مجھے پسند نہیں کرتا۔ مجھ سے بات نہیں کرتا۔

 میری کہانی نہیں سنتا۔ کیا میں اتنی بری ہوں؟ ہاں ؟ بتاؤ مجھے۔ اتنی بری ہوں میں؟” اس کا تنفس اب بگڑ رھا تھا۔ وہ آپے سے باہر ہورھی تھی۔ اس نے امراؤ کا ہاتھ اپنے کندھے سے درشتی سے پرے جھٹک دیا۔
“میرا من کرتا ہے، میرا من کرتا ہے، میں اپنا ہے خون کر دوں۔ نہ یہ ناپاک خون دھرتی پہ رھے گا، نہ ہی کسی کو کوئی مسئلہ ہوگا۔ ہاں میں ایسا ہی کرتی ہوں۔ “
یہ کہتے ہی اس نے بڑے دستے والی خون سے تر چھری اپنے ہی گلے پہ پھیر لی تھی۔
“نہیں۔پلیز ایسا مت کرو۔ دیکھو میں تم سے دوستی کروں گی۔ تمھاری باتیں ، تمھاری کہانی سنوں گی۔ پلیز رک جاؤ۔ پلیز رک جاؤ۔ پلیز رک جاؤ۔”
کہتے ہوئے امراؤ ایک زوردار چیخ مار کہ اٹھ بیٹھی۔ “رک جاؤ” “پلیز رک جاؤ” ابھی بھی اس کہ منہ سے یہی گردان جاری تھی۔

چیخ سنکر ہسپتال کا عملہ ڈاکٹر خضر منان کو بلاُ کر لے آیا۔ ڈاکٹر خضر نیلی جینز کہ اوپر سفید ٹی شرٹ پہنے عام سے حلیے میں تھے۔ لیکن ان کی شخصیت بلاشبہ طلسماتی تھی۔ سامنے والے کو مسحور کر دینے والی۔ مدِ مقابل کو چاروں خانے چت کر دینے والی۔ وہ قدم قدم چلتے اب امراؤ کہ بستر کی جانب بڑھ رھے تھے اور امراؤ ابھی تک ان کی شخصیت کہ حصار میں ہی کہیں کھوئی ہوئی لگتی تھی۔ اسے ویسے بھی ڈاکٹرز پسند تھے۔ اسے بھی تو سرجن ہی بننا تھا نا۔ اور اتنا خوبصورت ڈاکٹر تو کسی کو بھی پسند آجاتا۔ خیر امراؤ نے بے اختیار نگاہوں کا رخ پھیرا۔ مبادا یہ میری آنکھوں سے دل کی پسندیدگی کا اندازہ ہی نہ لگا لے۔
“جی تو اسٹوڈنٹ! کیسا فیل کر رھی ہیں آپ اب؟”
ڈاکٹر نے نہایت پروفیشنل انداز میں امراؤ سے سوال کیا تھا۔
“بہت اچھا۔ بلکہ بہت بہت بہت اچھا۔”

امراؤ بھی یکدم جذباتی ہوگئی تھی۔ جیسے دل کی بات زبان پر آگئی ہو۔
ڈاکٹر اس کی یکدم بدلتی کیفیت کو دیکھتے ہوئے بس مسکرا کر رہ گئے۔
جبکہ امراؤ نے زبان دانتوں تلے دبا لی۔ وہ جو بات کرنے کہ بعد سوچتی تھی، جان گئی کہ اس نے پھر کوئی بھونگی مار دی ہے۔ “آج تک ایسا ہوا بھی تو نہیں تھا نا کہ کوئی پہلی نظر میں ہی سانسیں اتھل پتھل کر دے۔ نجانے مجھے کیا ہو گیا ہے؟ امراؤ شرم کر ۔ شرم ۔ تُو یہاں پڑھنے آئی ہے یہ سب کرنے نہیں۔”
اس کی سوچیں نجانے کہاں کی کہاں پرواز کر رھی تھیں۔ اتنے میں وارڈن اجازت لیکر اندر داخل ہوئیں۔ آج وارڈن نے نیلے رنگ کا لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ لانگ کوٹ وہی کل والا تھا۔ شاید یہ ہاسٹل انتظامیہ کی جانب سے انھیں فراہم کیا گیا تھا۔ یعنی انکا بھی یونیفارم تھا۔ امراؤ نے اندازہ لگایا تھا۔ آج جب وارڈن اس سے اسکی طبیعت کی بابت دریافت کر رھی تھیں تو اس نے ان کہ چہرے کو غور سے دیکھا تھا تو ایک لمحے کہ لیے تو اس کہ رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ نجانے کیا تھا ان کہ چہرے پہ کہ، امراؤ کہ لیے نگاہیں مرکوز کرنا عذاب بن گیا۔ اس نے بے اختیار جھرجھری لی اور نگاہیں جھکا لیں۔ وارڈن نے امراؤ کہ سر پہ ہاتھ پھیرا اور اسے ڈرپ ختم ہونے کہ بعد ہاسٹل واپس چلنے کو کہا۔ ڈاکٹر صاحب تو کب سے وہاں سے جا چکے تھے۔ امراؤ وارڈن کہ حصار سے باہر نکلی تو اس پہ یہ ادراک ہوا۔
“دھت تیری کی۔ وارڈن کہ چکر میں اس ہینڈسم ڈاکٹر کو شکریہ بھی نہیں بول پائی تو امراؤ جان۔”

اس نے بے اختیار خود کو کوسا تھا۔ اسے اس لمحے وارڈن نہایت زہر لگی تھی۔
“ڈاکٹر کو شکریہ باہر جاکر بھی بولا جا سکتا ہے۔”
وارڈن نے باہر نکلتے ہوئے اسے کہا تھا۔
اور یہاں امراؤ کو لگا تھا کہ اس کا سانس تھم گیا ہے۔ جاتے جاتے وارڈن نے آخری نگاہ امراؤ پہ ڈالی تھی۔ اور وہ نگاہ امراؤ کو اندر تک بھسم کر گئی تھی۔ ا سکی تپش امراؤ کو اپنے دل پر محسوس ہوئی تھی۔ امراؤ نے فوراً ہی نگاہوں کا زاویہ بدل لیا۔
“یہ ہو کیا رھا ہے میرے ساتھ؟ کہاں بابا نے پھنسا دیا ہے مجھے؟ کتنی عجیب مخلوق بستی ہے یہاں۔ جی کرتا ہے واپس اپنے شہر بھاگ جاؤں۔ “
پھر نانی اور ماں کا خیال آتے ہی اس نے فوراً شہر واپس جانے کا ارادہ ترک کیا۔ کیونکہ ماں کہ خیال کہ ساتھ ان کہ نئے نویلے اور ٹھرکی دلہے کا بھی خیال آیا تھا۔ جسے دیکھتے ہی امراؤ کا جی چاھا تھا کہ اس پہ تیزاب ڈال دے۔ ابھی وہ یہی سوچ رھی تھی کہ نرس نے آکر اس کا کینولا اتارا۔ اور اسے واپس جانے کا پروانہ تھمایا۔ وہ اپنا سفید فر والا کوٹ پہنتے باہر نکلی۔ اس نے کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے تھی۔ اونی ٹوپی بھی سر پہ جما رکھی تھی۔ اور بھورے رنگ کہ بالوں کی بنی پونی ٹوپی سے باہر نکل کر کندھوں پہ جھول رھی تھی۔ اس کی رنگت کافی زرد لگ رھی تھی۔ وہ ابھی تک یہ سمجھ ہی نہ پائی تھی کہ وہ یہاں تک پہنچی کیسے۔ جو آخری منظر اس کہ ذہن پہ نقش تھا وہ اس پرسرار لڑکی کا ہاتھ میں چھری تھامے اس کی جانب بڑھنے کا تھا۔ 

بس۔ اس سے آگے اسے کچھ یاد نہیں تھا۔ در حقیقت اس کہ ساتھ ہوا کیا تھا؟ یہ بات تو وارڈن ہی بتا سکتی تھی۔ مطلب اسے ایک بار پھراس عجیب مخلوق مطلب وارڈن کہ منہ لگنا تھا۔ یہ سوچتے ہی اس نے جھرجھری لی۔ وارڈن باہر ہاسٹل کی گاڑی میں اسکا انتظار کر رھی تھی۔ وہ اپنی سوچوں میں مگن پونی گھماتے وہاں سے جارھی تھی کہ وہ سامنے سے آتے ایک شخص سے ٹکرا گئی۔
“اوہ ایم سو سو سوری۔” غلطی اسکی تھی لہذا معذرت بھی اسے ہی کرنا تھی۔
“بہت بری پھنس گئی ہو تم یہاں پر۔ اب خداوند ہے تمھیں بچا سکتا ہے۔”
سامنے موجود شخص نے امراؤ کی معذرت ان سنی کرتے ہوئے گہری کھائی سے آتی آواز میں کہا تھا۔ امراؤ اس شخص کا حلیہ دیکھ کر کانپ کہ رہ گئی۔ وہ کالے رنگ کہ لباس میں ملبوس ایک درمیانی عمر کا مضبوط جسم کا حامل مرد تھا۔ اس نے پٹھاہوا کوٹ پہن رکھا تھا۔ جس کہ ایک کونے پہ ایک ٹوٹا ہوا بیج لگا تھا۔ جس پر مٹا مٹا سا شاید ڈیوڈ لکھا ہوا تھا۔

“مسٹر ڈیوڈ! آپ ہوتے کون ہیں مجھ سے یوں بات کرنے والے؟ ٹھیک ہے میں ٹکرا گئی تو معذرت بھی کر دی نا۔ اب اتنے فری کیوں ہو رھے ہیں۔ “
بمشل اپنی کپکپاہٹ پہ قابو پاتے امراؤ نے مدمقابل کو جواب دیا تھا۔
یہ مرد بھی نا، خوبصورت لڑکی دیکھی نہیں، فلرٹنگ شروع کر دی۔ امراؤ نے اب پونی جھلاتے خود کلامی کی تھی۔ اسے یہ دیکھ کر حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا تھا کہ ڈیوڈ وہاں کہیں نہیں تھا۔ وہ وہاں سےبھک سے غائب ہوا تھا۔ امراؤ نے پورے کوریڈور میں نگاہ گھمائی تھی لیکن وہاں فقط گہرا سناٹا تھا۔
“کتنی عجیب مخلوق بستی ہے یہاں۔ یا اللہ! اب اور کس کس سے پالا پڑے گا میرا؟”
اس نے بے بسی سے اوپر دیکھتے ہوئے سوچا تھا۔ اب وہ وہاں سے نکل کر باہر آگئی تھی۔ تبھی اسے اپنی پشت پہ کسی کی نگاہوں کی تپش کا احساس ہوا تھا۔ اس نے پیچھے مڑکر دیکھا تو اپنی جگہ اچھل کہ رہ گئی کیونکہ ڈیوڈ اب اوپر بنے ٹیرس پہ کھڑا خشمگیں نگاہوں سے اسے ہی گھور رھا تھا۔

اسے لگا تھا وہ ابھی فوت ہو جائے گی۔ کیونکہ کوئی عام انسان تو سیکنڈوں میں اوپر بنے ٹیرس تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔
ابھی وہ ڈیوڈ کو ہی گھور رھی تھی کہ ڈیوڈ کہ پیچھے ہاتھ میں کافی کا مگ اٹھائے ڈاکٹر خضر برآمد ہوئے۔ انھوں نے امراؤ کی جانب دیکھ کر ہاتھ ہلایا تھا۔ ساتھ ایک کٹیلی نگاہ پاس کھڑے عجیب و غریب حلیے والے جن نما انسان پہ بھی ڈالی تھی۔ اور امراؤ سب بھول کر اب ڈاکٹر کو ہاتھ ہلانے میں مصروف تھی۔ وہ تو شکر ہے کہ وارڈن گاڑی سے اتر کر امراؤ کو لینے پہنچ گئیں۔ ورنہ کیا معلوم
کہ امراؤ رات تک انھیں یوں ہی ہاتھ ہلاتی رھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“تم میرے علاوہ کسی دوسرے کو دکھائی نہیں دیتے۔ میں نے ہسپتال کی سارے سی سی ٹی وی کیمراز کی فوٹیجز بارہا چیک کی ہیں۔ میں اس کی وجہ نہیں پوچھوں گا۔ ہاں اتنا ضرور پوچھوں گا کہ اس لڑکی کو کیوں دکھائی دیے ہو؟ یہ تو میں بھی جانتا ہوں کہ تم اسی کہ سامنے ہی اپنا آپ ظاہر کرتے ہو جس کہ سامنے تم کرنا چاھتے ہو۔ پھر اس معصوم لڑکی کو کیوں دکھائی دیے۔ میں نے خود تم دونوں کو کوریڈور میں باتیں کرتا دیکھا ہے۔”
امراؤ کہ گاڑی میں بیٹھتے ہی خضر نے پاس کھڑے ڈیوڈ سے سوال داغا تھا۔
“تمھیں بھی وہ معصوم لگتی ہے۔ اس کی رائے بھی تمھارے بارے میں کچھ ایسی ہی ہے ویسے۔”

ڈیوڈ نے بات کو کمال انداز میں گھماتے ہوئے خضر کہ ہاتھ سے کافی کا مگ لیکر اپنے لبوں سے لگاتے ہوئے کہا تھا۔ ڈیوڈ مگ لیکر اندر اس کہ آفس چلا گیا جبکہ وہ تنہا وہیں ٹیرس پہ کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ وہ جانتا تھا کہ ڈیوڈ سے کچھ بھی نہیں نکلوایا جا سکتا۔ جب تک کہ وہ خود آپکو کچھ نہ بتا دے۔ جب سے اسے ڈیوڈ دکھائی دیا تھا تب سے اس نے فرداً فرداً چوکیدار سے لیکر ہسپتال کہ سارے عملے سے پوچھ گچھ کی تھی۔ اور کسی کو بھی اس حلیے والا شخص ہسپتال میں کبھی بھی نظر نہیں آیا تھا۔ خضر نے اپنے تئیں سی سی ٹی وی کیمراز کی ساری فوٹیجز بھی چیک کی تھیں۔ لیکن نتیجہ صفر تھا۔ اسے اب مزید تفتیش کی ضرورت ہی نہیں رھی تھی۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ڈیوڈ وہ پرسرار شخصیت ہے کہ جس کہ بارے میں آپ اتنا ہی جان سکتے ہیں جتنا وہ چاھتا ہے کہ آپ جانے۔

اس دن کہ بعد خضر نے ڈیوڈ کہ پیچھے خوار ہونا چھوڑ دیا تھا۔ آج صبح کہ وقت پوسٹ مارٹم کرتے بھی اسے ڈیوڈ کا انتظار تھا لیکن وہ نہیں آیا۔ یہ قتل شاید کیتھرین کہ کیے گئے قتل سے مختلف تھا شاید اس لیے ڈیوڈ ظاہر نہیں ہوا تھا۔ ایسا خضر نے سوچا تھا۔ لیکن پھر اچانک ہی اسٹوڈنٹ کہ جانے سے پہلے وہ ظاہر ہو گیا۔ کیوں؟
یہ بات واقعتاً تشویش ناک تھی۔ مطلب اس لڑکی سے بھی ڈیوڈ کا کوئی تعلق ہے۔ یا اس لڑکی کا قتل سے کوئی تعلق ہے۔ کیونکہ وارڈن کہ مطابق یہ لڑکی رات سے ہی “غائب” تھی۔
“اف میرے اللہ! یہ کیا ہونے جا رھا تھا؟ معصوم سی اسٹوڈنٹ اور قتل جیسا بھیانک کام؟ “
خضر نے سوچتے ہی جھرجھری لی۔
“بار بار اسکی معصومیت کہ بارے میں مت سوچو۔ بتایا تو ہے اس کی نیت تمھیں لیکر بھی خراب ہورھی ہے۔ اگر تم بھی اسی چکر میں پڑ گئے تو سمجھو گئے کام سے۔”
خضر نے پھر ٹیرس پہ آکر، قدرے محظوظ ہوتے ہوئے اپنی سوچ سے خضر کو آگاہ کیا تھا۔
“مجھے سچ سچ بتاؤ اس لڑکی کا ، صبح والی لڑکی سے کیا تعلق ہے۔ اس لڑکی کا قتل بھی رات کو ہوا تھا۔ اور یہ بھی رات سے غائب تھی۔ میں جانتا ہوں کہ تم جانتے ہو کہ حقیقت کیا ہے۔ بتاؤ مجھے؟”
خضر نے ڈیوڈ کی جانب گھومتے ہوئے غصے سے کہا تھا۔ اور ابھی خضر کی بات بھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ ڈیوڈ کسی چھلاوے کی مانند وہاں سےغائب کو گیا۔
“ڈیم اٹ” خضر نے ٹیرس کہ سامنے بنی ریلنگ پہ ہاتھ مارتے ہوئے جھنجھلاتے ہوئے کہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“میم میں ہسپتال میں کیسے پہنچی؟”
امراؤ جو کب سے سامنے بیٹھی، باہر کہ منظر سے لطف اندوز ہوتی وارڈن کہ چہرے کہ اتار چڑھاؤ کا جائزہ لے رھی تھی۔ بلآخر ہمت باندھتے گویا ہوئی۔
“جب تم صبح ناشتہ کرنے نہیں آئی تو مجھے تشویش لاحق ہوئی۔ میں جب اوپر پہنچی تو تم کمرہ نمبر گیارہ۔ بارہ کہ باہر بے ہوش پڑی ملی تھی۔ وہیں سے اٹھا کر تمھیں میں ہسپتال لے آئی۔ اب تمھارے ساتھ کیا ہوا یہ میں نہیں جانتی۔ میرے مطابق تو تمھیں ساتھ والے کمرے میں رات گزارنی چاھیے تھی۔ کیونکہ رات میں نہ ہی وہ کمرہ کھولنے کا بندوبست ہو سکا اور نہ صفائی ستھرائی کا۔ میں نے میڈ کو کہلوا بھیجا تھا کہ تمھارا بستر ساتھ والے کمرے میں لگوا دے۔ اس نے لگوایا بھی لیکن تم نجانے کہاں غائب ہو گئی تھی۔ اب بتاؤ مجھے تم ساری رات کہاں تھی؟”
وارڈن نے اب مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہوئے امراؤ سے سوال داغا تھا۔ اور یہ سن کر اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔

“میم میں ۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔ کمرہ نمبر گیارہ بارہ میں تھی۔ مم مجھے وہاں ایک لڑکی ملی تھی۔۔۔۔ عجیب سے حلیے میں۔۔۔۔۔۔۔ بس پھر میں وہاں زمین پہ گر گئی۔۔۔۔۔۔ میرا سامان بھی وہیں پڑا تھا۔۔۔۔۔ مجھے نہیں پتہ میرے ساتھ کیا ہوا۔ میری آنکھ کھلی تو خود کو ہسپتال پایا۔”
امراؤ نے لرزتے کانپتے ساری بات وارڈن کہ گوشگزار کی تھی۔
“اوہ۔۔۔۔ کم آن امراؤ ۔ وہ کمرہ سالوں سے بند ہے۔ اس کی تو چابی بھی نجانے کہاں ہو گی۔ اور تم کیسے ایک بند کمرے میں گھس کہ بیٹھ گئی اور ساری رات گزار دی؟”
وارڈن نے اب امراؤ کہ چہرے پہ جھکتے ہوئے سخت لہجے میں کہا تھا۔
“مم میں سچ کہہ رہی ہوں میرا یقین کریں آپ۔ “

ہاسٹل کا گیٹ آچکا تھا۔ ڈرائیور نے گاڑی روک دی۔ وارڈن اتر چکی تھی، امراؤ نے بھی ان کہ ساتھ اترتے ہوئے، ان کہ پیچھے بھاگتے ہوئے کہا تھا۔
اس کی بات سنتے ہی تیز تیز قدم اٹھاتی وارڈن کہ پاؤں تھمے، وہ اپنے پاؤں پہ پورا گھومی اور امراؤ کہ عین سامنے آکر ایک ایک لفظ چبا کر ادا کرتے گویا ہوئی:
“امراؤ بے وقوف کسی اور کو بنانا۔ جس رات تم غائب تھی اسی رات ایک لڑکی کا قتل بھی ہوا تھا۔ جو اسی کالج کی اسٹوڈنٹ رہ چکی تھی۔ ایک ہونہار اسٹوڈنٹ۔ اور تمھارے پاس پڑا تمھارا مفلر خون میں لت پت پڑا تھا۔ جسے میں نے بروقت چھپا دیا۔ وہ تو اچھا ہوا مجھ سے پہلے تم تک کوئی نہیں پہنچا ، ورنہ ہاسٹل کہ رہی سہی پوزیشن اور عزت بھی خاک میں مل جاتی۔”

وہ اپنی سنا کر رکی نہیں بلکہ کوٹ شوز کہ ہیل سے ٹک ٹک کرتی تیزی سے اپنے آفس کی سمت بڑھ گئیں۔ اور یہ سب سننے کہ بعد خطا ہوتے اوسان لیکر امراؤ وہیں زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے