گرلز ہاسٹل - قسط نمبر 7

urdu font stories

نگینہ اور جمیکا کہ شب و روز نئی نویلی دلہن اور اسکی افلاطون بیٹی کی خدمت میں گزرنے لگے۔ بانو کماری نے یعقوب کو نجانے کیا گھول کہ پلایا تھا کہ وہ تو اس کہ گھٹنوں سے ہی لگ کر بیٹھا رھتا۔ اسے نگینہ اسے پہلے بھی کوئی غرض نہیں تھی اب تو یکسر اس سے بیگانہ و لاتعلق ہو چکا تھا۔ ہاں جمیکا کا سامنا وہ نہیں کر پاتا تھا۔ اس کہ سامنے آتے ہی نگاہیں جھکا کہ گزر جاتا۔ مانوں منوں بوجھ اس کہ سینے پہ دھرا ہو۔

ایک روز یعقوب گھر نہیں تھا تو جمیکا نے ناسمجھی میں یا جان بوجھ کر بانو کی تین ماہ کی بیٹی کا بازو جلا دیا۔ بازو جلانے سے کلائی پہ ایک بھدا سا نشان بن گیا۔ بچی نے تو رو رو کر آسمان سر پہ اٹھا لیا۔ بانو کماری شدید طیش میں آگئی۔ اس نے جمیکا پہ تھپڑوں کی برسات کر دی۔ نگینہ بھی اس لڑائی میں کود پڑی۔ دیکھتے ہی دیکھتے گھر میدانِ جنگ بن گیا۔ تینوں خواتین ایک دوسرے پر تاک تاک کہ حملے کرنے لگیں۔ جب شور حد سے بڑھا تو آس پڑوس کی خواتین نے آکر بمشکل بیچ بچاؤ کرایا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ چھوٹی بچی تاحیات بازو پہ بھدے سے نشان کی حقدار ٹھہری۔ اور یعقوب نے گھر آتے ہی اس اماں کو بلوایا جس نے نگینہ کا رشتہ کروایا تھا۔ اس کہ سامنے نگینہ کو طلاق دی۔ کیونکہ بانو کماری اب اس سے کم پر ہرگز راضی نہیں ہورھی تھی۔ پھر نگینہ اور جمیکا کو وہ اماں اپنے ساتھ لیکر نجانے کہاں رخصت ہو گئی۔ اس دن کہ بعد نہ تو نگینہ کو کوئی اتہ پتہ معلوم پڑ سکا اور نہ جمیکا کا۔ نجانے انھیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرہ نمبر گیارہ بارہ نہ صرف امراؤ کہ لیے کھلوا لیا گیا تھا بلکہ اس کی اچھے سے صفائی ستھرائی بھی کرا لی گئی تھی۔ امراؤ کہ ہاسٹل سے قتل والی رات غائب ہونے کی خبر فی الوقت دبی ہوئی تھی۔ وارڈن نے ہاسٹل میں مشہور کروا دیا تھا کہ امراؤ نے رات ان کہ پاس گزاری ہے۔ اب وہ کمرہ نمبر گیارہ بارہ میں رہائش رکھے گی۔ تاوقت کہ کوئی معقول بندوبست نہیں ہو جاتا۔ یا کوئی لڑکی جو ہاسٹل میں ایڈجسٹ نہیں کر سکتی ، واپس نہ چلی جاتی۔ اور اسکی جگہ ظاہر ہے امراؤ کو مل جاتی۔ وارڈن نے اپنے تئیں امراؤ کو یہ آفر بھی دی تھی کہ جب تک کسی کمرہ میں اس کہ لیے جگہ خالی نہیں ہوتی وہ ان کہ ساتھ رہائش رکھ لے۔ لیکن امراؤ نے کمرہ نمبر گیارہ بارہ میں ہی رھنے کی ضد کی۔ وہ اپنے تئیں اس راز کو پانا چاھتی تھی جو اس کمرے میں نجانے کب سے دفن تھا۔ اسے ہر حال میں اس لڑکی سے ملنا تھا اس کا مسئلہ دریافت کرنا تھا اور ہر ممکن حد تک اسکی مدد کرنا تھی۔ وارڈن کہ بقول وہاں کوئی لڑکی نہیں تھی لیکن وہ تو جانتی تھی نا کہ وہاں اسی کہ ہم عمر ایک جوان لڑکی رہائش رکھے ہوئے ہے!

امراؤ ہاسپٹل سے آکر سیدھا اپنے کمرے میں آگئی۔ کمرے میں اسکا سامان جوں کا توں پڑا تھا۔ کمرہ اسی رات کی طرح صاف ستھرا اور آراستہ تھا۔ ہاں لیکن وہ لڑکی ابھی تک دکھائی نہیں دی تھی۔ شاید واشروم گئی ہوگی امراؤ نے اندازہ لگایا تھا۔ اس کی تڑپ اور لڑکی کی مدد کرنے کی جستجو اسے اس کمرے میں پھر سے کھینچ لائی تھی۔ وہ اپنے بستر پہ نیم دراز ہوئی اور آنکھیں موندنے کی کوشش کرنے لگی کی ٹھک کی زوردار آواز سے وہ کچی نیند سے بیدار ہوئی۔ آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھی اور اپنے دائیں جانب نگاہ کی تو وہی اس دن والی لڑکی پنک رنگ کہ کرتا شلوار میں کھلتی ہوئی رنگت لیے اپنی الماری کو بند کررھی تھی۔
“تو یہ الماری بند کرنے کی آواز تھی۔”
امراؤ نے دل میں سوچا تھا۔

اس لڑکی کی آنکھیں اب لال انگارہ نہیں تھیں۔ بلکہ وہ نیلے رنگ کی ہرنی جیسی آنکھیں تھیں۔ اس کہ بالوں کا رنگ شہد جیسا تھا۔ وہ واقعتاً ایک معصومیت اور خوبصورتی کا حسین امتزاج تھی۔ امراؤ کو اس پہ رشک آیا تھا۔ لیکن اسکی آنکھوں کی ویرانی اور اداسی دیکھکر امراؤ کا دل ڈوب گیا تھا۔
“میں ہر حال میں اسکی مدد کروں گی۔ چاھے کچھ بھی ہو جائے۔”
اس نے مسمم ارادہ باندھا تھا۔

“میم وارڈن مجھ سے اول روز سے ہی کھینچی کھینچی رھتی ہیں۔ وہ کسی کو بھی مجھ سے دوستی نہیں کرنے دیتیں۔ نجانے اس میں کیا راز پوشیدہ ہے۔ اور یہاں موجود کوئی بھی لڑکی میری جانب آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتی۔ سب مجھ سے نفرت کرتی ہیں۔ مجھے دیکھکر منہ پھیر لیتی ہیں۔ تم کیوں آئی ہو یہاں؟ تم نہیں جانتی تمھیں مجھ سے دوستی کی کتنی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی گی۔ سب تم سے بھی منہ ہھیر لے گے۔ تمھیں بھی میری طرح سائیکو سمجھے گے۔”
اس لڑکی نے امراؤ کی آنکھیں میں اپنی پر نم آنکھیں ڈالتے ہوئے اپنی دکھ بھری روداد اسکہ گوشگزار کی تھی۔

اس کی باتیں سنکر امراؤ کا دل مزید اس کی جانب جھکتا چلا گیا۔
“تم کیوں پریشان ہوتی ہو۔ مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے۔ مجھے بس تم سے مطلب ہے۔ اگر کوئی ہم سے دوستی نہیں رکھے گا تو نہ رکھے ، ہم ایک دوسرے کہ لیے کافی ہو جائیں گے نا! “
امراؤ اب دونوں پیر بستر پہ کر کہ اطمینان سے دوزانو ہو بیٹھی تھی۔
“اور میں سمجھ گئی تھی کہ وارڈن مجھے تم سے دور کرنا چاھتی ہیں۔ تبھی انھوں نے مجھ سے جھوٹ بولا کہ یہاں کوئی نہیں رھتا اور یہ کمرہ کب کا بند ہے۔ میں رات کو ہی تو تم سے ملی تھی نا۔ بھلا اس بات سے کیسے انکار کر سکتی تھی کہ یہ کمرہ برسوں سے بند پڑا ہے۔”

امراؤ نے دوستانہ انداز میں اپنے تئیں اپنی نئی دوست کا دفاع کیا تھا۔
جو اسکی بات سنکر محض پھیکا سا مسکرا کہ رہ گئی۔
“میں اپنے لیے چائے بنا رھی ہوں، کیا تمھیں چاھیے؟”
اس لڑکی نے گرم پانی کی کیتلی سے بھاپ اڑاتا پانی ایک کپ میں ڈالتے ہوئے امراؤ کی جانب اجازت طلب نگاہوں سے دیکھا تھا۔
“ہاں ہاں، کیوں نہیں۔ نیکی اور پوچھ پوچھ۔”
امراؤ اب پھرسے بستر پہ نیم دراز ہو چکی تھی۔
“میرا نام گل رخ ہے۔ اس نے بھاپ اڑاتی چائے کا کپ امراؤ کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا تھا۔”
“اور میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “
امراؤ نے لپکتے ہوئے چائے کا کپ تھامنا چاہا۔ اور تب اس کہ اگلے الفاظ اس کہ حلق میں ہی رہ گئے جب گل رخ نے اس کی ادھوری بات مکمل کی تھی۔
“تمھارا نام امراؤ جان ہے۔ تمھارے بابا کا نام۔۔۔۔۔۔۔۔”
یہاں گل رخ نے بات ادھوری چھوڑی تھی۔
“کک کیا ہے میرے بابا کا نام؟ پلیز مجھے بتاؤ نا؟ “

آج تک میری ماں نے میرے اس سوال کا جواب نہیں دیا۔ تمام تعلیمی کاغذات میں والدیت کہ خانے میں میری ماں کہ دوسرے شوہر “یعقوب مسیح” کا نام بطور گارڈین کہ ڈالا جاتا رھا۔ میرے بابا مجھے خط لکھتے ہیں۔ لیکن اپنا نام نہیں بتاتے۔ میری نانی سے مجھے اتنا معلوم پڑا کہ میں کسی انگریز کی اولاد ہوں۔ بس اس سے زیادہ مجھے نہیں پتہ۔ مجھے میرے متعلق جاننا ہے۔ میری سچائی جاننی ہے۔”
امراؤ نے کپ تھام کر ایک طرف رکھتے ہوئے جذبات کی رو میں بہتے ہوئے سب کہا تھا۔ نجانے کب سے اس کہ اندر یہ لاوا پک رھا تھا جو اب پٹھا تھا۔ وہ جان چکی تھی کہ گل رخ وہ نہیں ہے جو دکھائی دیتی ہے۔ وہ ایک پرسرار شخصیت ہے۔ جو کھوجی نہیں جا سکتی۔ اور یہی وہ واحد کڑی ہے جو اسے اس کہ بابا سے ملا دے گی۔ اس بات کا انقشاف امراؤ پہ ابھی ہوا تھا۔

“بتا دوں گی۔ سب بتا دوں گی۔ میں تمھارے ماضی کہ بارے میں وہ سب جانتی ہوں جو تم جاننے کی طلبگار ہو۔ لیکن بدلے میں تمھیں میرا کام کرنا ہوگا۔”
گل رخ اب امراؤ کہ بلکل سامنے موجود اپنے سفید بے داغ بستر پہ چوکڑی مارے بیٹھ چکی تھی۔ چائے کی چسکیاں لیتے امراؤ کہ بدلتے تاثرات کا جائزہ لیتے اس نے امراؤ سے کہا تھا۔
“تم کیا سمجھتی ہو میں یہاں کیوں بیٹھی ہوں؟ گزشتہ رات وقوع پذیر ہوئے واقعات کہ باوجود۔ “
امراؤ نے دانستہ بات ادھوری چھوڑی تھی۔

جب تک میں کچھ نہ بتاؤں مجھ سے سوال مت کرنا۔ وہ کیا ہے نا بے وجہ سوالات کرنے والوں سے مجھے نفرت ہے۔ پھر مجھے غصہ آتا ہے۔ اور جب مجھے غصہ آتا ہے نا تو میں سب بھسم کر دیتی ہوں۔
گل رخ نے ڈرامائی انداز میں امراؤ کہ اوپر پورا جھکتے ہوئے کہا تھا۔ اور امراؤ کو لگا تھا کہ اس کی گرم سانسوں کی حدت سے وہ واقعی جل کر خاکستر ہو جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر خضر منان نے اس لڑکی کا پوسٹ مارٹم مکمل کر لیا تھا۔ رپورٹ بھی تیار کر لی گئی تھی۔ اس علاقے میں نئے پولیس آفیسر کی پوسٹنگ ہوئی تھی۔ پرانے والا ڈر کر اس علاقے کو چھوڑ کہ بھاگ گیا تھا۔ سپائیوں کہ مطابق اس نے جھرنے کہ پاس کسی کو دیکھا تھا۔ بس اس دن کہ بعد اس نے مڑ کر بھوربھن کا رخ نہیں کیا۔ اور اپنی پوسٹنگ دور کروا لی۔ اس علاقے میں کوئی بھی افسر مہینے سے زیادہ نہیں ٹکتا تھا۔ یہ محکمۂ پولیس کی کارکردگی پہ سوالیہ نشان تھا۔ سب سے زیادہ تبادلے اسی علاقے میں ہوتے تھے۔ میڈیا کو بھی اس بات کی بھنک لگ چکی تھی۔ اور حکومتِ پاکستان کہ علم میں تھا کہ اگر یہ بات مزید پھیل گئی تو یہاں سیاحت بلکل ناپید ہو جائے گی۔ جس سے حکومت کو خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 

نہ صرف حکومت کو بلکہ وہاں کہ مقامی گھریلو صنعت کاروں و تاجروں کو بھی۔ کیونکہ ان کی روزی روٹی کا زیادہ تر انحصار وہاں آنے والے سیاحوں سے ملنے والے رقم تھی۔ کافی سوچ بچار کہ بعد محکمہ پولیس کہ ایک بہادر اور نڈر آفیسر کو بھوربھن اور گرد ونواح کہ علاقے کا انچارج بنا کر بھیجا گیا۔ جو اپنے ڈپارٹمنٹ میں اپنی بہادری اور جواںمردی کے وجہ سے مقبول تھا۔ اس نے بصدِ شوق یہاں آنا چاھا تھا وجہ اسکی پر تجسس طبیعت اور کچھ نیا کرنے کا جذبہ تھا۔ آج اس کا پہلا دن تھا۔ اور پہلے ہی دن گزشتہ ہوئے قتل کی تحقیقات اور ڈاکٹر کا بیان قلمبند کرنے کہ لیے وہ سی ایم ایچ ہاسپیٹل میں ڈاکٹر خضر منان کہ آفس میں موجود تھا۔ اتفاقاً کہہ لیں یا کوئی نئی انہونی کہ خضر منان اور اس آفیسر میں پرانی شناسائی نکل آئی۔ وہ دونوں ایک ہی علاقے سے تھے۔ اور سکول لیول تک اکھٹے پڑھتے بھی رھے تھے۔ دونوں نہایت گرمجوشی سے ملے تھے۔ کافی دیر پرانی باتیں ہوتی رھیں۔

پھر بھوربھن کو لیکر بھی خضر نے آفیسر کو حالات و واقعات سے آگاہ کیا تھا۔ انھوں نے عزم کیا تھا کہ بھوربھن کو ہر مشکل سے نکالیں گے۔ چاھے اس کہ لیے انھیں کسی بھی حد تک ہی کیوں نہ جانا پڑے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“میرا نام گُل رخ ہے۔ میرے بابا نے میرا نام بہت مان اور پیار سے رکھا تھا۔ تمھیں میرے نام سے اندازہ تو ہو ہی گیا ہو گا۔ میں اپنے ماں باپ کی شادی کہ ٹھیک پانچ سال بعد پیدا ہوئی تھی۔ تم سوچ سکتی ہو کہ میری پیدائش پہ کتنی خوشیاں منائی گئی ہوں گی۔ سب ٹھیک چل رھا تھا۔ ہم تینوں اپنے چھوٹے سے گھر اور چھوٹی سی دنیا میں بہت خوش تھے۔ بابا میری ہر سالگرہ دھوم دھام سے مناتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ یہ دن ان کی زندگی کا ایک خوشگوار ترین دن ہے۔ اور اسے وہ ہمیشہ یادگار بناتے رھیں گے۔ میں تب سات سال کی تھی۔ جب کیک پہ سات موم بتیاں جلائے اور گھر سجائے میں اور ماما بابا کا انتظار کر رھی تھیں۔ بابا میرا تحفہ لانا بھول گئے تھے، لہذا گھر آکر پھر سے واپس چلے گئے۔ کاش میں انھیں اس دن روک لیتی۔ انھیں نہ جانے دیتی۔ لیکن میں نے ہی ماما کہ کہنے پہ تحفے کی ضد کی تھی۔ میں نے ضد کی تھی۔۔۔۔۔۔۔”

یہ کہہ کر گل رخ جذباتی ہو کر دھاڑے مار کر رونے لگی تھی۔ امراؤ کہ تو ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ وہ جو پاؤں اوپر کیے مزے سے بیٹھی، چائے کہ گھونٹ بھرتی اس کی داستانِ حیات سن رھی تھی ، تڑپ کر اٹھی اور کھڑکی سے باہر جھانکتی گل رخ کہ پاس پہنچ گئی۔ گل رخ اب اپنے آنسو صاف کر رھی تھی۔ امراؤ نے اسے تسلی دی تو گل رخ نے کہانی کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے کہا:

“میرے بابا واپس تو آۓ لیکن زندہ نہیں۔ بلکہ مردہ۔ کسی نے میرے بابا پہ فائرنگ کر دی تھی۔ وہ موقع پر ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کہ بعد ہمارے دنیا اندھیر ہو گئی۔ ہم ماما کی ایما پر دادا دادو کہ گھر آگئے۔ جہاں میرے ایک تایا تائی اور ایک چاچا رھتے تھے۔ امی عدت میں تھیں لہذا کمرے سے کم کم ہی باہر نکلتی تھیں۔ میں پورے گھر میں ہمہ وقت بولائی بولائی پھرتی رھتی۔ دن یونہی گزرتے گئے۔ ددھیال والوں نے اپنے اصل رنگ دکھانا شروع کر دیے۔ تائی اور دادو ہر وقت امی کو جلی کٹی سناتی رھتیں۔ میں چھوٹی تھی لیکن مجھ سے سارا کام کروایا جاتا۔ پورا دن تھکی ہاری جب سونے لیٹتی تو کبھی ہمارے کمرے کا پنکھا بند کر دیا جاتا تو کبھی بجلی ہی منقطع کر دے جاتی۔ غرضیکہ ہمیں ہر طرح سے اذیت دی جاتی۔ ہمارا جینا دوبھر ہو چکا تھا۔ میرے چاچا نشے کہ عادی تھے۔ 

وہ لیٹ لیٹ گھر واپس لوٹتے ، اور آکر میری ماں کہ آگے پیچھے گھومتے رھتے۔ مجھے وہ زہر لگتے تھے۔ پھر ایک دن دادا نے سب کو بڑے کمرے میں جمع کیا اور انوکھا حکم صادر کیا کہ میری ماما اب چاچا کی دلہن بن جائیں گی۔ یعنی اب میرے بابا میرے چاچا ہوں گے۔ جن سے اول روز سے ہی مجھے نفرت تھی۔ باپ کا پیار اتنی جلدی چھن گیا۔ اور ماں کا پیار اور وقت یوں بٹ گیا۔ میں یہ صدمہ برداشت کرنے سے قاصر تھی۔ میں نے خود کو کمرے میں بند کر لیا۔ اور اپنی ایک الگ دنیا بنا لی۔ جہاں میں اور میرے بابا ہوتے بس۔ وہ مجھ سے کھیلتے مجھ سے باتیں کرتے۔ میری ہر خواہش پوری کرتے۔ میں بہت خوش رھنے لگی تھی۔ تنہائی میں ہنستی باتیں کرتی۔ سب مجھے پاگل پاگل کہتے، لیکن وہ کونسا جانتے تھے کہ میں اپنے “بابا” سے بات کرتی ہوں۔

آخری بات گل رخ نے امراؤ کہ کان کہ قریب جھکتے ہوئے قدرے سرگوشی میں کہی تھی۔ مبادا کوئی دوسرا سن ہی نہ لے۔
“پر آپ کہ بب بب بابا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ وہ تو اللہ پاک کہ پاس واپس نہیں چلے گئے تھے؟”
امراؤ کہ پاس اس سے اچھے الفاظ نہیں تھے کہ وہ گل رخ کہ بابا کی موت کہ بارے میں بات کر سکتی۔
یہ سنتے ہی گل رخ کا ماتھا ٹھنکا۔ اس کہ تاثرات یکدم سخت ہوئے۔ اس کی پیشانی پہ لکیروں کا ایک جال سا نمودار ہوا۔ اور وہ غراتے ہوئے امراؤ پہ حملہ کرتے ہوئے گویا ہوئی:
“میرے۔۔۔۔ بابا ۔۔۔۔۔۔ میرے پاس ہیں۔ اور ہمیشہ رھیں گے۔ سمجھی تم؟”
اس کہ ہاتھ میں اب امراؤ کی نازک سی گردن تھی۔ امراؤ نے چائے کا کپ پرے رکھا اور دونوں ہاتھوں سے اپنا گلا اس سے چھڑانے لگی۔
“تمھیں عنقریب سمجھ آجائے گا کہ جانے کہ بعد بھی کوئی کیسے دکھائی دیتا ہے۔”
آخری بات کہہ کر اس نے درشتی سے امراؤ کو پیچھے دھکا دیا تھا۔ اور قہقہے لگاتی پھر سے کھڑکی کہ پاس چلی آئی۔

چائے اس کہ لہجے کی طرح ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ لہذا اس نے پلگ لگا کر کیتلی میں پانی پھر سے ڈال دیا تھا۔
امراؤ اب اپنے گلے پہ ہاتھ رکھ کہ رکی ہوئی سانس بحال کرنے کی سعی کر رھی تھی۔
“فکر نہ کرو۔ جب تک میرا کام نہیں ہو جاتا میں تمھیں مرنے نہیں دوں گی۔”
گل رخ کا رخ اب امراؤ کی جانب تھا۔ نجانے یہ کونسی مخلوق تھی۔ جو پل بھر میں اپنے تاثرات اور چہرے کہ زاویے بدل لیتی تھی۔ کبھی معصوم بچوں کی طرح بلک بلک کہ روتی۔ کبھی قہقہے مار کہ ہنستی۔ تو کبھی دھاڑیں مارتی۔ کیا چیز تھی یہ؟
امراؤ نے اس کہ چہرے پہ اپنی نگاہیں گاڑھے سوچا تھا۔
“میرے بارے میں جتنا سوچو گی اتنا ہی الجھو گی۔ بہتر ہے اپنے مقصد پہ دھیان دو۔ تم میری ضرورت ہو اور میں تمھاری۔ جیسے ہی میرا کام ہو جائے گا میں تمھیں تمھارے بابا سے ملوا دوں گی۔ “

ایک اور چائے کی پیالی امراؤ کی جانب بڑھاتے ہوئے گل رخ نے دوستانہ انداز میں کہا تھا۔ گویا کچھ دیر پہلے والی گل رخ نجانے کہاں غائب ہو گئی تھی۔ اور اب ایک بلکل نئی اور تازہ دم گل رخ امراؤ کہ سامنے کھڑی تھی۔ امراؤ کو اب حیرانی نہیں ہوتی تھی۔ کیونکہ یہاں آنے کہ بعد اسے اتنے جھٹکے ملے تھے کہ اس نے اب حیران ہونا ہی چھوڑ دیا تھا۔
تو میں کہہ رھی تھی کہ پھر میرے بابا کی جگہ میری ماں نے میرے اس گھٹیا چاچا کو دے دی۔ وہ دونوں ساتھ ساتھ بہت خوش تھے۔ اور مجھے ہر بار انھیں دیکھ کہ یہی لگتا تھا کہ جیسے میری ماں نے جان بوجھ کر بابا کو راستہ سے ہٹایا ہو۔ کیونکہ کوئی بھی عورت اپنے شوہر کی جگہ اتنی آسانی سے دوسرے مرد کو کیسے دے سکتی تھی؟

میں نے “بابا” سے بھی اس سلسلے میں بات کی تھی۔ اور انکی بھی اس معاملے میں یہی رائے تھی۔ میرے بابا نے انشورنس کروائی ہوئی تھی۔ جو ان کہ مرنے کہ بعد میری ماما کو ملنی تھی۔ اور چاچا سے شادی کہ بعد چاچا کی ہی کوششوں سے پچاس لاکھ جیسی خطیر رقم میری ماں کہ حصے میں آئی۔ مجھے تب سے اپنے شک پہ یقین سا ہونے لگا۔ ایک دن میں نے ماما اور چاچا کی ہونے والی گفتگو سن لی تھی۔ جس میں وہ ماما سے اپنے حصے کا مطالبہ کر رھے تھے اور ماما انھیں ٹال رھی تھیں۔ تب ان کہ منہ سے یہ نکل گیا کہ “اختر” یعنی میرے بابا کو مارتے وقت یہی طے ہوا تھا کہ رقم دونوں آپس میں بانٹ لیں گے لیکن چاچا کا حصہ ان کی ماما سے شادی کہ بعد ملے گا۔ اس لمحے مجھے سارا کھیل سمجھ آیا۔ 

ماما کب سے چاچا کہ اندھے عشق میں مبتلا تھیں۔ اور چاچا ماما کو ملنے والی رقم کہ عشق میں۔ تبھی ماما نے میری سالگرہ والے دن مجھے مجبور کیا کہ بابا کو گفٹ لینے کہ دوبارہ باہر بھیجوں۔

تب میں نے اپنے بابا کی موت کا بدلہ لینے کی ٹھانی۔ چاچا روز نشے کی حالت میں گھر لوٹتے تھے۔ میں تو ویسے بھی سارے خاندان میں پاگل اور سائیکو مشہور تھی۔ لہذا میں نے باورچی خانے سے بڑے دستے والی چھری اٹھائی اور سیڑھیوں پہ چاچا کہ انتظار میں بیٹھ گئی۔ چاچا رات گئے جھومتے ہوئے جب گھر واپس لوٹے تو مجھے دیکھکر نجانے انھیں کیا سوجھا کہ مجھ سے دست درازی شروع کر دی۔ میں اس اچانک حملہ کہ لیے تیار نہیں تھی۔ میں نے شور مچانا شروع کر دیا۔ شور کی آواز سنکر گھر والے بھی اس جگہ آنے کہ لیے بھاگے چلے آئے۔ چاچا اس اچانک افتادہ پہ بوکھلا سے گئے۔ انھوں نے مجھے خود سے دور کرنا چاھا لیکن اپنے دماغ میں چلنے والے پلان پہ عمل درآمد کرنے کہ لیے میں ان کہ مزید پاس ہوتی گئی۔ تاکہ دیکھنے والے کو یہ لگے کہ چاچا میرے ساتھ زبردستی کر رھا ہے۔ چاچا میرے ارادے کو نہ بھانپ سکا۔ اور سب کہ وہاں آتے ہی میں نے چھری چاچا کہ سینے میں گھونپ دی۔ اور خود کو اس کہ چنگل چھڑاتے ماں کی جانب بھاگی چلی گئی۔ دیکھنے والوں کو یہی لگا کہ چاچا نے میرے ساتھ زیادتی کرنے کا ارادہ باندھا اور میں نے اپنے دفاع میں چاچا پہ حملہ کیا!

دادا اور دادو اپنے بیٹے کی یہ حرکت دیکھکر شرم سے پانی پانی ہوتے رھے۔ چاچا نشئی تو پہلے سے مشہور تھے، لہذا ان سے ایسی حرکت سرزد ہونا کوئی انہونی تو تھی نہیں۔ چاچا موقع پہ ہی دم توڑ گئے۔ گھر والوں نے ہسپتال پہنچانے کی کوشش کی لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔ اور یوں میں نے فقط سولہ سال کی عمر میں “پہلا” قتل کیا!
اس نے پہلے پہ زور دیکر کہا تھا۔ اور امراؤ جو بمشکل ایک ٹرانس سے باہر آئی تھی، اسکی یہ بات سنتے ہی بدک کہ پیچھے ہٹی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے