”باقر شاہ! تم نے حلیہ اگر درست بتایا ہے اور میرا خیال ہے کہ درست ہی بتایا ہے فرضی نہیں بتایا۔ تب وہ آدمی دنیا کے خطرناک ترین چند لوگوں میں سے ایک ہے اور اس کا ہمارے ملک میں ہونا خطرے کی گھنٹی ہے۔ ظاہر ہے، وہ کسی نیک ارادے سے نہیں آیا۔ اس کا پہلا نشانہ نصیر الدین شاہ تھے، لیکن حاجو خان کی عقل مندی سے وہ بال بال بچ گئے۔ ورنہ اس وقت ہم ان کی لاش کے گرد جمع ہوتے۔ اب جناب باقر شاہ آپ کو ہمارے ساتھ دفتر چلنا ہوگا۔“
”لیکن کیوں؟ میرا اس معاملے سے کیا تعلقہے۔ میں تو بس ایک مالک مکان ہوں اور اس نے مجھ سے میرا مکان کرائے پر لیا تھا۔“
”ہاں! میں مانتا ہوں، لیکن اگر آپ کوئی عام آدمی ہوتے تو یہ بات کہی جاسکتی تھی اور کوئی شک کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی،مگر چونکہ آپ جرائم پیشہ رہے ہیں اس لیے گمان گزرتا ہے کہ اس نے آپ سے باقاعدہ رابطہ کیا ہوگا اور تعاون کرنے کے سلسلے میں کوئی رقم پیش کی ہوگی۔ اب اگر آپ نے اس سے کوئی رقم کرائے کے علاوہ وصول کی ہے….تب تو آپ پھنس گئے ہیں۔ ورنہ ہم آپ کو کچھ نہیں کہیں گے۔ کیا خیال ہے؟“ یہاں تک کہہ کر انسپکٹر جمشید خاموش ہوگئے۔
”ٹھیک ہے میں آپ کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہوں۔ آپ میرے بارے میں اپنا اطمینان کرلیں۔“
وہ اسے دفتر لے آئے۔ انہوں نے اس کے بارے میں جہاں سے بھی ہوسکا، معلومات حاصل کیں، لیکن اس کی کسی مجرمانہ سرگرمی کاپتا نہ چل سکا۔ آخر انہوں نے اسے جانے کی اجازت دے دی۔ تاہم انہوں نے اکرام کو ہدایات دیں کہ ایک آدمی اس کی نگرانی پر مقرر کردیا جائے۔ ابھی انہوں نے اسے رخصت کیا ہی تھا کہ ایک خفیہ کارکن کا فون موصول ہوا۔ وہ خوف زدہ انداز میں کہہ رہا تھا:
”سر! عمارت نمبر 1کے آس پاس کچھ پراسرار لوگ نظر آرہے ہیں۔
”کیا…. نہیں۔“
”یس سر! حاجو خان اور اس کے بیوی بچوں کو اسی عمارت میں رکھا گیا ہے۔“
”نن نہیں…. میں آرہا ہوں۔ سب لوگ ہوشیار ہوجائیں حاجو خان اور اس کے بیوی بچوں کو کچھ ہوا تو مجھے بہت افسوس ہوگا۔ میں نے اس سے کہا تھا تمہاری حفاظت کی جائے گی۔“
”ہم پوری طرح ہوشیار ہیں جناب!“
”ٹھیک ہے ہم پہنچ رہے ہیں۔“
وہ اسی وقت روانہ ہوگئے۔
”لگتا ہے یہ شخص ہمیں سکون کا سانس نہیں لینے دے گا۔ باریک ہونٹوں والے کا نام کیا ہے جمشید…. تم نے اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔“ خان عبدالرحمن بولے۔
”اس کا نام بلتان ہے۔ وہ ایک بین الاقوامی مجرم ہے۔ اس کا ہمارے ملک میں ہونا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ باقر شاہ نے جو حلیہ بتایا ہے وہ اس پر بالکل فٹ بیٹھتا ہے۔ پھر بھی میری دعا ہے کہ وہ ہمارے ملک میں نہ ہو۔“
”گویا آپ بھی اس سے خوف محسوس کررہے ہیں۔“
”اس سے تو بڑی بڑی حکومتیں خوف کھاتی ہیں۔“
”لیکن وہ خود کس ملک کے لیے کام کرتا ہے؟“
”کسی ملک کے لیے نہیں جو ملک اس سے معاملہ طے کرتا ہے، اس کا منہ مانگا معاوضہ ادا کرتا ہے۔ اسی کے واسطے کام کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے، البتہ….“ یہاں تک کہہ کر وہ رک گئے۔
”البتہ کیا؟“
”البتہ! اس نے آج تک کسی اسلامی ملک کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ جب بھی کیا اسلام دشمن ملکوں کے لیے کیا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام غیر اسلامی ممالک میں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ا س کی بہت عزت کی جاتی ہے۔ ان حکومتوں کے سربراہ اس بات کو مانتے ہیں۔ ایک طرح سے اس کی حالت یہ ہے کہ وہ کسی بھی ملک کے کسی بھی محکمے میں دخل اندازی کرڈالتا ہے اور کوئی اس سے جواب طلب نہیں کرتا۔“
”اس کامطلب ہے وہ خالص اسلام دشمن ہے۔“محمود نے پریشانی کے عالم میں کہا۔
”بالکل…. اس میں کوئی شک نہیں۔“
اسی وقت وہ خفیہ عمارت نمبر 1کے سامنے پہنچ گئے۔ انہوں نے گاڑی سے اتر کر چاروں طرف کا جائزہ لیا اور پھر ان کا رنگ اڑ گیا۔ ان کے منہ سے نکلا:
”حیرت ہے…. کمال ہے۔“
”کک…. کیا مطلب؟ جمشید کیا ہوا۔“پروفیسر داﺅدفوراً بولے۔
”عمارت چاروں طرف سے گھیرے میں ہے۔ پہلی حیرت یہ کہ انہوں نے اس کا سراغ کس طرح لگا لیا،دوسری حیرت یہ کہ ان لوگوں نے عمارت کو اس طرح گھیرے میں لیا ہے کہ وہ تو عمارت پر ہر طرف سے حملہ کرسکتے ہیں اور ہم ان پر وار نہیں کرسکتے۔“
”اوہ…. اوہ….“ ان کے منہ سے مارے خوف کے نکلا۔
”اور ایک تیسری بات۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”اور وہ کیا؟“
”عمارت کے پاس آتے ہی اب ہم بھی پوری طرح ان کی زد میں ہیں۔“
”اوہ۔“ وہ بولے۔
”بالکل ٹھیک کہا انسپکٹر جمشید نے تم بہت ذہین ہو۔ تم سے پہلی ملاقات پر خوشی ہوئی۔“
عمارت کے پاس آواز گونجی۔ انہوں نے ایک بار پھر چاروں طرف کا جائزہ لیا۔
”کیا چاہتے ہو دوست۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”صرف اور صرف ایک ہی مطالبہ ہے میرا تو حاجو خان کو میرے حوالے کردےں اور بس۔“
”پہلے ہم عمارت کے اندر جائیں گے۔ پھر آپ سے بات کریں گے۔“
”ضرور…. ضرور کوئی اعتراض نہیں۔“ ہنس کر کہا گیا۔ اس کی آواز بھی بہت باریک تھی۔
اور پھر وہ عمارت میں داخل ہوگئے۔ اندر خفیہ کارکنوں کے رنگ اڑے ہوئے تھے۔
”حاجو خان اور اس کے بیوی بچے کہاں ہیں؟“
”جی …. آخری کمرے میں۔“
”اوکے…. پروفیسر صاحب آپ کیا چاہتے ہیں؟“
”میں چھت پر جارہا ہوں جمشید تم تیاری مکمل کرلو۔ جونہی تم اشارہ دوگے۔ میں حرکت میں آجاﺅں گا۔“
”بہت خوب! بس ہم چند منٹ لگائیں گے۔“
”اوکے۔“ پروفیسر صاحب نے کہا اور فوراً اوپر کی طرف دوڑے۔
ایسے میں باہر سے آواز آئی۔
”ہاں تو انسپکٹر جمشیدکیا پروگرام ہے؟“
”دو منٹ ٹھہریں۔“
”ٹھہرنے کو تو میں تین منٹ ٹھہر جاﺅں۔“ باہر سے ہنس کر کہا گیا۔
پھر دو منٹ بعد انسپکٹر جمشید نے پروفیسر داﺅد کو اشارہ کیا۔
پروفیسر داﺅد نے پہلے سامنے کی طرف پھر دائیں، پھر بائیں اور آخر میں پچھلی طرف چار ننھی منی سی گیندیں اچھال دیں۔ فوراً ہی چار دھماکے ہوئے اور ہر طرف دھواں پھیل گیا۔ گیندیں پھینکنے کے فوراً بعد وہ نیچے اتر آئے اور وہاں پہنچ گئے جہاں باقی لو گ موجود تھے۔
خفیہ عمارت کے نیچے ایک تہ خانہ تھا۔ اس تہ خانے سے ایک راستہ نکلتا تھا۔ وہ عمارت سے کافی دور تھا۔ اس راستے سے ہوتے ہوئے وہ جنگل میں نکل گئے اور درختوں کی اوٹ لے کر اب وہ بلتان کے آدمیوں کے گھیرے سے باہر آچکے تھے۔ ادھر خفیہ ٹھکانہ ابھی تک دھوئیں میں ڈوبا ہوا تھا۔ انہوں نے سنا کوئی کہہ رہا تھا:
”خبردار ! دائرہ بڑا کرلو۔ اس دھوئیں کا سہارا لے کر وہ باہر نکلنے کی کوشش کریں گے۔ ان میں سے ایک بھی بچ کر نہ جائے۔“
یہ الفاظ سن کر وہ مسکرا دیے۔ انسپکٹر جمشید نے اپنے ساتھی کو اشارہ کیا کہ کچھ اور پیچھے ہٹ کے درختوں کی اوٹ میں پوزیشن لے لیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر جونہی دشمن پیچھے ہٹنے کے چکر میں ان کی نظروں میں آیا۔ انہوں نے تاک تاک کر گولیاں برسادیں۔ وہ اچھلا چھل کر گرے۔ ان میں سے کوئی بھی بچ کرنہ نکل سکا۔ اس کے باوجود وہ احتیاطاً کافی دیر تک اپنی جگہوں پر کھڑے رہے۔ جب پوری طرح اطمینان ہوگیا، تب وہاں سے آگے بڑھے۔ انہوں نے گرنے والوں کا جائزہ لیا۔ وہ سب کے سب بری طرح زخمی تھے، گولیاں ان کی ٹانگوں پر ماری گئی تھیں۔ پھر اکرام کو فون کیا گیا۔ وہ بڑی گاڑی کے ساتھ وہاں پہنچ گیا۔ زخمی بارہ عددتھے۔ انہیں ہسپتال بھیجنے اور اکرام کو ان کے بارے میں ہدایات دینے کے بعد انہوںنے اطمینان کا سانس لیا۔
”اب رہ گئے حاجو خان اور ان کے گھر والے ان کا کیا کریں؟“
”شاید ہمارا کوئی خفیہ ٹھکانہ بلتان کی نظروں سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ اس لیے اب ہم انہیں اپنے گھر میں رکھیں گے۔ اب جو ہوگا وہاں ہوگا۔“
”اس کامطلب ہے آپ بلتان کو اپنے گھر پر حملے کی دعوت دے رہے ہیں؟“
”کیا کیا جائے مجبوری ہے۔“ وہ مسکرائے۔
”لیکن بلتان خود کہاں ہے؟ ہم نے جس کی آواز سنی تھی۔ کیا وہ بلتان تھا۔“ خان عبدالرحمن بولے۔
”ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا، لیکن ہم یہ بات معلوم کرسکتے ہیں۔“
”وہ کیسے جمشید؟“
”زخمیوں کے ہوش میں آنے پر آخر ان سے بات چیت کی جائے گی۔ ان کی آوازیں سنی جائیں گی۔ اس سے معلوم ہوجائے گا۔ ا س کے علاوہ ان سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس کے لیے کام کررہے ہیں…. وغیرہ۔“ انہوں نے جواب دیا۔
”لیکن سب سے پہلے حاجو خان کی حفاظت کا مسئلہ ہے۔“
”آپ…. آپ میرے لیے کس قدر کوشش کررہے ہیں اور ایک میں ہوں۔“ یہ کہتے ہوئے حاجو خان رو پڑا۔
”فکر نہ کرو غلطی انسان سے ہوتی ہے، لیکن تم نے دھماکے والی گھڑی خود اس کی جگہ پر رکھ کر بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس بنیا د پر صرف میں ہی نہیں، نصیر الدین صاحب بھی تمہاری سفار ش کریں گے۔ امید ہے عدالت بھی تمہیں رہا کردے گی۔“
”اللہ آپ کا بھلا کرے۔“
پھر وہ وہاں سے گھر پہنچ گئے۔ حاجو خان اور اس کے بیوی بچوں کو بیگم جمشید کے حوالے کردیا گیا۔ صورت حال سمجھا دی گئی۔ ہسپتال فون کیا گیا تو اکرام نے بتایا۔ وہ سب ہوش میں آچکے ہیں۔ وہ اسی وقت روانہ ہوگئے۔
انہیں جس ہال میں رکھا گیا تھا۔ اس کے گرد پولیس کا پہرہ تھا۔ وہ اس ہال میں داخل ہوئے۔ اندر اکرام موجود تھا۔
”کچھ بتایا انہوں نے۔“
”جی ابھی نہیں۔“
وہ آگے بڑھے۔ انہوں نے باری باری سب سے بات کی، لیکن ان میں وہ آواز سنائی نہ دی جو وہ خفیہ عمارت کے باہر سن چکے تھے۔
”اس کا مطلب ہے تمہارا باس وہاں تھا ضرور، لیکن کسی الگ جگہ پر تھا۔“
”جی…. جی ہاں وہ ایک درخت پر تھا۔“
”اوہ!“وہ حیرت زدہ رہ گئے۔
”جب تم لوگ پیچھے ہٹے تھے۔ کیاوہ اس وقت درخت پر ہی تھا۔“
”جی ہاں بالکل۔“
”اس کا نام اور حلیہ….“
”ہم اس کا نام نہیں جانتے۔ نہ حلیہ بیان کرسکتے ہیں کیونکہ وہ نقاب میں تھا۔“
”تم اس کے لیے کب سے کام کررہے ہو؟ وہ تمہارا نیا نیا باس ہے یا کوئی پرانا آدمی ہے۔
”بہت پرانا، اس کا ہمارا ساتھ تو برسوں پرانا ہے۔“
”حیرت ہے۔ پھر بھی تم اس کا نام نہیں جانتے۔“
”بس…. ہم اسے باس کہتے ہیں۔“
”وہ تمہیں احکامات کس طرح دیتا ہے اور کہاں بلاتا ہے؟ کچھ تو بتاﺅ۔“
”ہمارا گرو ہ بہت پرانا ہے۔ وہ ہر ماہ ہمیں ہار ڈی بلڈنگ کے سامنے بلاتا ہے۔ وہیں ہمیں تنخواہ دیتا ہے۔ نئے احکامات دیتا ہے یا پھر فون پر رابطہ کرتا ہے۔“
”اس کا فون نمبر؟“
”فون اسی بلڈنگ کا ہے۔ ایکس ٹینشن نمبر دباناپڑتا ہے 8نمبرہے۔“
”فون نمبر بتاﺅ۔“
انہوں نے نمبر بتادیا۔ نمبر ڈائل کیا گیا، لیکن 8نمبر سے کسی نے فون نہ اٹھایا۔ اب وہ سمجھ گئے کہ ان لوگوں کا باس کوئی مقامی آدمی ہے۔ اس مقامی آدمی سے بلتان کام لے رہا ہے۔ وہ خود سامنے نہیں آیا گویا بلتان تک پہنچنا اتنا آسان کام نہیں تھا۔ آخر وہ ہارڈی بلڈنگ پہنچے۔ اس بلڈنگ میں بے شمار کمرے تھے۔ کمرے کرائے پر دیے جاتے تھے۔ عمارت کے مالک کا نام بھی ہارڈی تھا۔ انہوں نے اس سے ملاقات کی۔ وہ پریشان ہوگیا اور گھبرا سا گیا۔
”میں کیا خدمت کرسکتا ہوں؟“
”کمرا نمبر 302میں کون رہتا ہے۔“
”جج…. جی…. کمرا نمبر 302میں۔“ وہ بری طرح ہکلانے لگا۔
”ہاں۔“ انسپکٹر جمشید نے اسے گھورا۔
”وہ ایک پراسرار آدمی ہے۔ شاید اپنا حلیہ تبدیل کیے رہتا ہے اور جناب! ہمارا کام تو عمارت کے کمرے کرائے پر دینا ہے…. میں نے یہ عمارت اسی لیے بنوائی ہے۔“ اس نے جلدی جلدی کہا۔
”ہوں! ٹھیک ہے۔ کیا وہ اس کمرے میں آتا جاتا ہے؟“
”ہاں جی! بالکل آتا جاتا ہے۔“
”ہم اس کمر ے کو دیکھنا چاہتے ہیں۔“
”میرے پاس ہر کمرے کی چابی ہوتی ہے۔ کمرا کھول کر دکھا سکتا ہوں۔“
”چلیے پھر۔“
وہ اس کے ساتھ کمرے میں آئے۔ پھر انہوں نے اکرام کے ذریعے کمرے سے انگلیوں کے نشانات اٹھوائے۔
”اکرام اب تم ان نشانات کو چیک کرلو۔ شاید ہمارے ریکارڈ میں یہ نشانات مل جائیں۔“ انسپکٹر جمشید نے کہا۔
”جی اچھا۔“
”اور ہاں !مسٹر ہارڈی کی انگلیوں کے نشانات بھی لے لو۔“
”جی….کیا مطلب؟ یہ ….یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ میرا بھلا کسی معاملے سے کیوں تعلق ہونے لگا۔ میں تو ایک سیدھا سادہ عام سا آدمی ہوں۔“
”تب پھر انگلیوں کے نشانات دینے میں کیا ڈر؟“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”اوہ ہاں…. واقعی یہ بھی ٹھیک ہے۔“
پھر اس نے نشانات دے دیے۔ ان پر ایک نظر ڈالتے ہی اکرام کے چہرے پر حیرت کے آثار ابھر آئے۔ اس نے جلدی سے کمرے میں پائے جانے والے نشانات کو ان نشانات سے ملایا تو اچھل پڑا۔
”یہ ا س کمرے میں پائے جانے والے نشانات مسٹر ہارڈی کے ہیں۔“
”اس …. اس سے کیا ہوتا ہے؟ مجھے تو آخر ہر کمرے میں جانا آنا پڑتا ہے۔ صفائی کرانا پڑتی ہے اور کرائے داروں کے آرام کا خیال کرنا پڑتا ہے۔“
”اکرام! چند اور کمروں سے انگلیوں کے نشانات اٹھواﺅ۔“
”جی …. کیا مطلب؟ اکرام اور ہارڈی نے ایک ساتھ کہا۔
”مطلب یہ کہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں دوسرے کمروں میں بھی اسی طرح آپ کی انگلیوں کے نشانات ملتے ہیں یا نہیں۔“
”اوہ….اوہ۔“ ا س کے منہ سے نکلا۔
اکرام نے جلد ہی اپنا یہ کام بھی مکمل کر لیا۔ پھر وہ ان کی طرف آیا۔
”نہیں سر! کسی کمرے سے مسٹر ہارڈ ی کی انگلیوں کے نشانات نہیں ملے…. دوسرے ملازموں کے ضرور ملے ہیں جو صفائی کرتے ہیں۔“
ہارڈی کا چہرہ زرد پڑگیا۔ عین اس لمحے انسپکٹر جمشید کے موبائل کی گھنٹی بجی۔
جونہی انہوں نے فون آن کیا۔ دوسری طرف سے بیگم جمشید کی خوف زدہ آواز ابھری:
”میں خطرہ محسوس کررہی ہوں۔“
فون سنتے ہی انسپکٹر جمشید پریشان ہوگئے۔ انہوں نے فوراً اکرام کی طر ف رخ کیا۔
”اسے لے جاکر حوالات میں بند کردو۔ اس سے بلتان کے بارے میں ضرور کچھ معلوم ہوسکتا ہے۔ ادھر گھر میں کسی گڑبڑ کا امکان ہے۔ غالباً بلتان حاجو کو سزا دینے کے لیے بری طرح بے چین ہے اور جلد از جلد اس کام سے فارغ ہوجانا چاہتا ہے۔“
وہ اندھا دھند انداز میں گاڑی چلاتے گھر پہنچے۔ گھر کا دروازہ بند تھا۔ محمود نے دوڑ کی گھنٹی کا بٹن دبادیا۔ دس پندرہ سیکنڈ گزرنے پر اس نے پھر بٹن دبادیا۔ اندر گھنٹی بجنے کی آواز سنائی دی، لیکن بیگم جمشید نے پھر بھی دروازہ نہ کھولا۔ اب تو ان کی پریشانی بڑھ گئی کہ دروازہ اندر سے بند تھا۔
”محمود دوڑ کر جاﺅ بیگم شیرازی کی چھت سے اپنی چھت پر آجاﺅ۔ دیکھو زینہ کھلا ہے یا نہیں۔“
”جی اچھا۔“ یہ کہتے ہی اس نے دوڑ لگادی۔ پھر بیگم شیرازی کے دروازے سے اس کی خوف زدہ آواز آئی:
”ابا جان ! دروازہ اندر سے بند نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے گڑبڑ دونوں گھروں میں پھیلی ہوئی ہے۔“
وہ دوڑ پڑے۔ بیگم شیرازی کے گھر میں داخل ہوئے۔ پورا گھر سنسان پڑا تھا۔ اب وہ چھت پر آئے وہاں سے اپنی چھت پر اترے۔ زینہ کھلا تھا بے تحاشا انداز میں سیڑھیاں اترتے نیچے پہنچے۔ بیگم جمشید غائب تھیں۔ صحن کی میز پر ایک کاغذ موجود تھا۔ کاغذ میں ایک خنجر گڑا تھا اور خنجر کی نوک خون آلود تھی۔ انہوں نے جھک کر کاغذ پر لکھے الفاظ پڑھے۔
”میں حاجو خان ، اس کے بیوی بچوں ، بیگم جمشید اور بیگم شیرازی کو لے جارہا ہوں…. انہیں چھڑانے کا شوق ہو تو جزیرہ نانگا پر آجانا…. ملاقات ہوجائے گی۔“
الفاظ پڑھ کر انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
”ہم سے غلطی ہوئی حاجو خان اور اس کے بیوی بچوں کو صرف بیگم کی حفاظت میں دینا کافی نہیں تھا جب کہ مقابلہ بلتان سے ہے، لیکن اب تو غلطی ہوچکی تھی۔“
”اور یہ جزیرہ نانگا کہاں ہے؟“ پروفیسر داﺅد ہکلائے۔
”میںنے بھی اس جزیرے کا نام پہلی بار سنا ہے۔ دنیا کے نقشے میں دیکھنا ہوگا یا پھر جغرافیے کے کسی ماہر سے پوچھ لیتے ہیں۔ ہاں یاد آیا ہمارے شہر میں ایک غیر ملکی جغرافیہ دان ہے تو سہی ایک بار کسی سلسلے میں اخبار میں اس کا ذکر آیا تھا۔ اب یاد کرنا ہوگا کہ وہ کون سا اخبار تھا، لیکن…. نہیں اخبارات کے مدیروں کو فون کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔“
اب انہوں نے ایک اخبار کے مدیر کو فون کیا۔ اپنا تعارف کرانے کے بعد وہ بولے:
”ہمارے شہر میں ایک غیر ملکی جغرافیہ دان رہتے ہیں۔ ہمیں ان سے کچھ کام ہے۔ کیا آپ کو ان کے بارے میں کچھ معلوم ہے؟“
”جی ہاں! کیوں نہیں ان کانام پروفیسر جیفر سام ہے اور وہ نیومون ٹاﺅن میں رہتے ہیں۔ کوٹھی کا نمبر ہے G.108۔“
”بہت بہت شکریہ ! آپ نے تو ہمارا بہت سا وقت بچا دیا۔“
وہ فوراً پروفیسر سام کی طرف روانہ ہوگئے۔ ان کی کوٹھی تلاش کرنے میں انہیں کوئی دقت نہ ہوئی۔ وہ اس علاقے کے مشہور آدمی تھے۔ ان سے بے خوف ہوکر ملے۔
”ہم صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ جزیرہ نانگا کہاں ہے؟“
”اوہ نہیں۔“ پروفیسر سام نے خوف کے عالم میں کہا۔
”کیاہوا؟‘ پروفیسر داﺅد حیران ہوکر بولے۔
”آپ…. آپ لوگ اس جزیرے کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہیں؟“
”ہمیں وہاں جاناہے۔“
”میں اس کا مشورہ ہرگز نہیں دوں گا۔“ اس نے بوکھلائے ہوئے انداز میں کہا۔
”جی…. کیامطلب…. کیا ہے وہاں؟“
”سوائے موت کے اور کچھ نہیں۔ اس جزیرے پر جب بھی کوئی گیا، لوٹ کر نہیں آیا۔ کوئی اس جزیرے کی کہانی نہیں سنا سکا آج تک…. وہاں کیا ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔ پروفیسر نے جلدی جلدی کہا۔
”آپ نے ہمارا شوق اور بڑھادیا۔ بات یہ ہے پروفیسر صاحب کہ ایک بین الاقوامی شخص ہے۔ بلتان، کیا آپ نے اس کا نام سنا ہے؟“
”بالکل سنا ہے۔ بہت خطرناک آدمی ہے۔ حکومتیں اس سے ڈرتی ہےں۔“
”بالکل ٹھیک وہ شخص ہمارے ساتھیوں کو اغوا کرکے جزیرہ نانگا لے گیا ہے۔“
”ارے باپ رے۔“ پروفیسر سام بوکھلا اٹھے۔
”لہٰذا آپ ہمیں صرف یہ بتادیں کہ یہ جزیرہ کہاں ہے؟“
”مجھے افسوس ہے۔“ پروفیسر بولے۔
”آپ کو افسوس ہے، لیکن کس بات پر جلدی بتایئے تاکہ ہم بھی اس افسوس میں شریک ہوجائیں۔“
پروفیسر سام نے فاروق کو تیز نظروں سے دیکھا ، پھر بولے:
”یہ صاحب کچھ پاگل تونہیں ہیں۔“
”جی نہیں ان کی باتوں کا برا نہ مانیں اور مہربانی فرما کر ہمیں اس جزیرے کے بارے میں بتادیں۔“
”گویا آ پ رک نہیں سکتے۔“
”پروفیسر صاحب شاید آپ نے توجہ نہیں فرمائی۔ بلتان ہمارے ساتھیوں کو اٹھا لے گیا ہے اور ہم کیسے رک سکتے ہیں؟“
”آپ کی مرضی…. بلتان نے اگر آپ کو جزیرہ نانگا بلایا ہے تو اس نے وہاں آپ لوگوں کے خلاف جال بچھارکھا ہوگا۔ وہ ایسے ہی تو آپ کو چیلنج نہیں کرسکتا۔“
”یہ بات ہم سمجھتے ہیں، لیکن ہم مجبور ہیں۔ یہ تو ہمارے اپنے گھر کے دو افراد اور چند دوسرے افراد کی بات ہے۔ اگر وہ ہمارے گھر کے افراد کو نہ لے جاتا تو بھی ہم ضرور جاتے، لہٰذا آپ ہمیں روکنے کی بالکل کوشش نہ کریں۔“
”اچھی بات ہے۔ میں آپ لوگوں کو سمندر ی راستے کا نقشہ بنادیتا ہوں۔ اگر آپ نے اس نقشے کے مطابق سفر کیا تو سمندر میں بھٹکنے سے بچ جائیں گے یاپھر میں خود آپ لوگوں کے ساتھ چلوں اور جزیرے تک پہنچا کر لوٹ آﺅں کیا خیال ہے؟“
”یہ اور بھی اچھی بات ہوگی۔“ فاروق بول اٹھا۔
ایک بار پھر پروفیسر نے فاروق کو گھورا۔
”کیا آپ خاموش نہیں رہ سکتے۔“
”لیکن جناب! آپ کو میرے بولنے پر ہی کیوں اعتراض ہے۔“ فاروق کے لہجے میں حیرت تھی۔
”ہاں واقعی! یہ عجیب بات ہے۔“ پروفیسر بولے
”کیا فرمایا آپ نے۔“ محمود کو ان کی بات سن کر حیرت ہوئی۔
”ان صاحب کی آواز میرے کانوں میں تیر کی طرح لگتی ہے جب کہ باقی لوگوں کی آواز سن کر میں نے ایسی کوئی بات محسوس نہیں کی۔“
”اگر یہ بات ہے ، تو میں اب آپ سے کوئی بات نہیں کروں گا۔ آپ بے فکر رہیں۔“ فاروق نے برا سا منہ بنایا۔
”بہت بہت شکریہ! اس صورت میں میں آپ لوگوں کے ساتھ جاسکوں گا۔ لیکن آپ کو میرے وقت کی قیمت ادا کرنا ہوگی۔“
”اوہ ضرور ضرور…. کیوں نہیں۔“خان عبدالرحمن نے فوراً کہا۔
”چلیے ٹھیک ہے۔ پھر ہم کب چل رہے ہیں؟“
”آپ تیاری کرلیں اور ایک بڑی لانچ کا انتظام کرلیں۔ اس کو مشرقی ساحل پر بھجوادیں۔ آپ کل صبح ٹھیک آٹھ بجے یہاں آجائیں ، میں تیا رملوں گا۔“
”اور آپ کا معاوضہ کیا ہوگا“ انسپکٹر جمشید نے پوچھا۔
”اوہو جمشید ! اس کو رہنے دو جو یہ مانگیں گے دے دیں گے۔“ خان عبدالرحمن جلدی سے بولے۔
”نہیں بھئی پہلے طے کرنا اچھا ہوتا ہے۔“
”ٹھیک ہے میں دس ہزار روپے لوں گا۔ آپ لانچ کے ذریعے مجھے واپس بھجوائیں گے۔“
”لیکن اگر ہمیں وہاں دیر لگنے کا امکان نہ ہوا تو آپ ہمارے ساتھ بھی تو آسکتے ہیں۔“
”میں ذرا بزد ل سا آدمی واقع ہوا ہوں۔ لڑائی بھڑائی کا تجربہ نہیںہے۔ آپ کو تو وہاں جاکر کرنا ہوگی جنگ…. بلتان سے جنگ کرنا اتنا بھی آسان نہیں کہ میں وہاں رک کر آپ لوگوں کی فتح کا انتظار کروں گا۔ اس سے یہ بہتر ہوگا کہ جونہی آپ لوگ جزیرے پر پہنچیں پہلے آپ مجھے واپس بھجوادیں اور اپنے لیے لانچ واپس منگوالیں۔“
”اس کا مطلب ہے جزیرہ ساحل سے زیادہ دورنہیں ہے۔“
”ایک دن اور ایک رات کا فاصلہ ہے۔“ اس نے کہا۔
”خیر یونہی سہی…. پروگرام طے ہوگیا۔ ہم کل آٹھ بجے پہنچ جائیں گے۔“
”اور انکل۔“ فاروق نے کچھ کہنا چاہا، لیکن پھر یاد آنے پر اس نے فوراً اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا، سب لوگ مسکرادیے جب کہ پروفیسر سام کا چہرہ تن گیا تھا، لیکن جونہی فاروق کا …. چہرہ معمول پرآگیا۔
”شکریہ…. آپ نے جملہ درمیان میں روک دیا۔“
”کیا واقعی میری آواز آپ کے لیے اس حد تک تکلیف دہ ہے؟“
”ہاں ! مجھے اپنے کانوں کے پردے پھٹتے محسوس ہوتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میرے دماغ میں کوئی چیز ٹوٹ رہی ہے۔“
”کیا پہلے بھی کسی کی آواز سن کر آپ کو ایسا ہوا ہے؟“
”نہیں…. زندگی میں پہلی بار ایسا محسوس کررہا ہوں اور دعاکرتا ہوں کہ ان صاحب کی آواز مجھے پھر سنائی نہ دے۔“
”ہم کوشش کریں گے کہ فاروق کو آپ سے فاصلے پر رکھیں اور اس کی آواز آ پ کے کانوں تک نہ پہنچ سکے۔“
”میں ان کے سامنے سرگوشی کرتا رہوں گا۔“ فاروق بول پڑا۔
”اُف اُف۔“ پروفیسراچھل پڑا۔ اس کا رنگ زرد پڑگیا ۔ پھر اس نے کہا۔
”نہیں …. نہیں۔ میں آپ لوگوں کے ساتھ اس مہم پر نہیں جاﺅں گا۔“
”حد ہوگئی فاروق…. پروفیسر صاحب! آپ پریشان نہ ہوں۔ اس بات کی ذمے داری میں لیتا ہوں کہ اب آپ کو فاروق کی آواز سنائی نہیں دے گی۔“
”یہ …. یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔“ فاروق نے جلدی سے اشاروں میں کہا۔ اس بار اس کے صرف ہونٹ ہلے تھے۔ آواز سنائی نہیں دی تھی۔
”ہاں فاروق ! یہ ٹھیک رہے گا۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”کیاٹھیک رہے گا۔“پروفیسر سام جھلائے ہوئے اندا ز میں بولے۔
”اس بار فاروق نے اشاروں میں بات کی ہے اور ہم نے اس کی بات کو سمجھ لیا ہے۔“
”چلیے پھر یونہی سہی، لیکن آپ خیال رکھیے گا۔ اس وقت بھی میرے دماغ میں دھماکے ہورہے ہیں۔ پتا نہیں کتنی دیر تک جاری رہیں گے۔ کہیں یہ دس ہزار مجھے مہنگے نہ پڑیں۔“
”آپ فکر نہ کریں۔ ہم آپ کو 20ہزار ادا کریں گے۔“ خان عبدالرحمن جلدی سے بولے۔
انسپکٹر جمشید نے انہیں گھورا۔ پھر وہ اٹھ کر چلے آئے۔ دوسرے دن ٹھیک آٹھ بجے وہ پروفیسر سام کے دروازے کی گھنٹی بجا رہے تھے۔ وہ فوراً ہی باہر آگئے۔ اب خان عبدالرحمن کی بڑی گاڑی میں ساحل کی طرف اشاروں میں کہا:
”ابا جان! اس گاڑی میں کہیں نہ کہیں گڑ بڑ ہے۔ مہربانی فرما کر گاڑی کو چیک کرالیجیے۔“
انسپکٹر جمشید نے چونک کر فاروق کی طرف دیکھا۔
”کیا تم نے کوئی بات محسوس کی ہے؟“
”جی نہیں! بات تو کوئی محسوس نہیں کی، لیکن نہ جانے کیوں یہ خیال بار بار آرہا ہے کہ کہیں کوئی گڑ بڑ ہے۔“
”محمود ! تم کیا کہتے ہو؟“
”وہی جو فارو ق نے کہا ہے۔“ محمود نے بھی پریشانی کے عالم میں کہا۔
”خوب خوب …. خان عبدالرحمن …. تم؟“
”میں نے ایسی ویسی کوئی بات محسوس نہیں کی۔ “ انہوں نے منہ بنایا۔
”پروفیسر صاحب! آپ کیا کہتے ہیں۔“
”میں نے تو بالکل کوئی بات محسوس ہی نہیں کی۔“
”لیکن مشکل ایک اور ہے۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”اور وہ کیا جمشید۔“ پروفیسر داﺅد جلدی سے بولے۔
”یہ کہ میں بھی یہی بات محسوس کررہا ہوں اور ان دونوں کی نسبت پہلے سے محسوس کررہا ہوں ۔‘ ‘ انہوں نے پریشانی کے عالم میں کہا۔
”تب پھر آگے چلنے سے پہلے گاڑی کو چیک کرنا بہتر ہوگا۔ آپ لوگوں کے ساتھ کہیں میں بھی نہ مارا جاﺅں اور یہ دس ہزار روپے مجھے مہنگے نہ پڑیں۔“ پروفیسر جیفر سام نے گھبرا کر کہا۔
”ٹھیک ہے….گاڑی روک دو۔“
گاڑی رک گئی۔ وہ نیچے اتر آئے اب گاڑی کی اچھی طرح تلاشی لی گئی۔ یہاں تک کہ بعد میں پروفیسر داﺅد نے آلات کے ذریعے بھی تلاش لی، لیکن کوئی ایسی ویسی چیز نہ ملی۔
”میرا خیال ہے ہمیں وہم ہوا ہے آﺅ چلیں۔“
وہ ایک بار پھر روانہ ہوئے۔ فاروق نے بے چینی کے عالم میں پہلو بدلا۔ انسپکٹر جمشید اس کی طرف دیکھ کر مسکرائے۔ یہی حالت محمود کی نظر آئی گویا ان کا احساس ابھی تک باقی تھا۔
پھر وہ ساحل پر پہنچ گئے۔ لانچ بالکل تیاری کھڑی تھی۔ اکرام انہیں ساحل پر کھڑا نظر آیا۔ لانچ کا ڈرائیور اپنی سیٹ پر چوکس بیٹھا تھا۔
”ہاں اکرام ! کہیں کوئی گڑبڑ تو محسوس نہیں ہوئی؟“
”جی…. جی نہیں۔ ہر طرح خیریت ہے۔“
”ٹھیک ہے تم اپنے چند ماتحت یہاں مقرر کردو۔ پروفیسر سام ہمیں جزیرے تک پہنچا کر واپس آئیں گے۔ انہیں گھر پہنچانا ہوگا۔“
”ٹھیک ہے جناب! انہیں یہاں گاڑی تیار ملے گی۔“
اب وہ لانچ میں سوار ہوکر روانہ ہوئے۔ اکرام نے ہاتھ ہلا کر انہیں الوداع کہا۔ جلد ہی لانچ اکرام کی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ وہ اپنی گاڑی پر آیا ماتحت ساتھ تھے۔ اس نے ماتحتوں کو ہدایات دیں اور خود خان عبدالرحمن کی گاڑی کی طرف بڑھا۔ عین اس لمحے ایک زبردست دھماکا ہوا اور گاڑی کے پرخچے اُڑ گئے۔ اکرام اچھل کر دور جا گرا، وہ چند لمحے تک پھٹی پھٹی آنکھوں سے اِدھر اُدھر دیکھتا رہا۔ اس کے ماتحت بھی اپنی گاڑی سے باہر نکل آئے تھے۔ ان کے چہروںپر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔
آخر اکرام نے انسپکٹر جمشید کے نمبرملائے اور سلسلہ ملنے پر وہ بولا©:
”سر! گاڑی کے پرخچے اڑگئے۔“
”کیا مطلب ؟“ ان کے منہ سے مارے حیرت کے نکلا۔
اکرام نے وضاحت کی، تو وہ سکتے میں آگئے۔ آخر انہوں نے کہا۔
”ٹھیک ہے۔ اپنے مزید ماتحتوں کو بلا لو۔ جائے واردات پر اپنی کارروائی مکمل کرلو۔“
”بہت بہتر جناب۔“
فون بند کرکے انسپکٹر جمشید ان کی طرف مڑے۔
”ہم تینوں کا احساس درست تھا۔ گاڑی میں بم تھا۔ خان عبدالرحمن کی گاڑی ٹکڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔“
”کیا….نہیں۔“ وہ چلائے ۔
چند لمحے تک وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔
ایسے میں پروفیسر داﺅد کھوئے کھوئے انداز میں بولے۔
”لیکن ہم نے تو گاڑی کو بہت اچھی طرح دیکھا تھا۔“
”ہمارا خیال درست تھا گاڑی میں گڑ بڑ تھی۔ حیرت اس پر ہے کہ ہم اس کے بارے میںجان کیوں نہ سکے۔“
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, ,yum stories in urdu, hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,
0 تبصرے