آزمائش - دوسرا حصہ

urdu stories online

شادی کے ابتدائی چند سال بہت اچھے اور خوشگوار تھے۔ کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ چنانچہ دوست، عزیز و اقارب، اور رشتہ دار بھی شمار سے باہر تھے۔ ایسا ہی ہوتا ہے، اچھے وقت میں سب اچھے ہوتے ہیں اور برے وقت میں کوئی ساتھ نہیں دیتا۔ ایسا ہی کچھ حادثہ شرف الدین کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ اگلے مہینے جب وہ چھٹی پر آیا تو بجھا بجھا اور پریشان لگ رہا تھا۔ عمومی طور پر وہ دو تین دن ہی گھر پر رہتا تھا، مگر اس بار جب اسے ایک ہفتہ ہوگیا تو اسماء کو فکر لاحق ہونے لگی۔

شرف الدین کیا بات ہے، تم جب سے آئے ہو، پریشان اور کھوئے کھوئے سے ہو۔ تم نے واپس نوکری پر جانے کی بات بھی نہیں کی۔ اسماء کے استفسار پر اس نے ایک گہری سانس لی اور افسردہ نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا: “اسما! ہماری کمپنی بند ہوگئی ہے، اب میں نوکری پر نہیں جاؤں گا۔”ایسے کیسے اچانک …؟”قسمت اچانک خراب ہوتی ہے۔” وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔ “اور مصیبت کسی سے اجازت لے کر نہیں آتی۔””مگر اب کیا ہوگا؟” وہ افسردگی سے بولی۔”ہونا تو وہی ہے، جو ازل سے ہمارے نصیب کی تختی پر لکھ دیا گیا ہے۔” وہ اس کا ہاتھ سہلاتے ہوئے بولا۔ “انسان تقدیر کے آگے بے بس اور مجبور ہے۔””بچے اسکول جاتے ہیں، پھر کرایے کا مکان اور دیگر اخراجات…” وہ بڑبڑاتے ہوئے بولی۔”ابھی تو جو کچھ پس انداز کرکے رکھا ہوا ہے، اس سے کچھ دن گزر جائیں گے۔” وہ بولا۔ “آگے جو اللہ کو منظور۔” “تم ٹھیک کہہ رہے ہو، مگر کب تک… کہتے ہیں، کنویں بھی خالی ہوجاتے ہیں۔”اسماء کی یہ بات درست ثابت ہوئی۔ آخر کار کنواں بھی خالی ہوگیا۔ بچے پرائیویٹ اسکول سے سرکاری اسکول میں آگئے، اور وہ شہر سے کرایے کا مکان چھوڑ کر گاؤں میں آگئے۔ یہاں بھی کرایے کا مکان تھا۔ جیسے تیسے زندگی گزرتی رہی، برا وقت تو جیسے آکر ٹھہر ہی گیا تھا۔

اسماء تعلیم یافتہ اور ذہین عورت تھی۔ اس نے کسی نہ کسی طرح شرف الدین کو قائل کرلیا اور ایک پرائیویٹ اسکول میں بطور ٹیچر ملازمت کرنے لگی۔”اسماء! یہ ملازمت تمہارا اپنا فیصلہ ہے۔” پہلے دن شرف الدین نے کہا تھا۔ “بس خیال رکھنا، چاروں اطراف گدھ بیٹھے ہوئے ہیں اور میرے پاس اب تمہارے سوا کچھ بھی نہیں رہا۔””شرف، تمہیں مجھ پر بھروسا نہیں ہے؟” وہ مستفسر ہوئی۔”تم پر تو بہت زیادہ بھروسا ہے، مگر اب اپنی قسمت پر بھروسا نہیں رہا۔” اس نے آزردگی سے کہا۔”یہ کیا؟ مجھے مایوس نہ ہونے کی نصیحت کرتے ہو اور خود…””اب حقیقت سے نگاہیں چرانا ممکن نہیں رہا۔” وہ بولا۔ “ہم خود کو جھوٹی تسلی دے کر بہلا تو سکتے ہیں مگر ….””چلو اب بس کرو۔” وہ نرمی سے بولی۔ “مجھے دیر ہورہی ہے۔ ویسے بھی آج پہلا دن ہے۔”وہ اسے مطمئن کر کے چلی گئی۔ پہلے ہی دن اسے اندازہ ہوگیا کہ شرف ٹھیک کہہ رہا تھا۔ یہ معاشرہ مردوں کا ہے۔ یہاں کوئی مجبور اور بے بس عورت احساس تحفظ اور عزت سے نہیں رہ سکتی۔ دنیا اچھے بُرے لوگوں کی آماجگاہ ہے، مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ بُرے وقت میں ہمیشہ برے لوگ ہی ملتے ہیں۔

یہ ایک بہت بڑا اور مشہور اسکول تھا، جس کا اندازہ اس کی پرشکوہ عمارت سے ہی ہوجاتا تھا۔ گیٹ پر باوردی گارڈ مستعد اور الرث کھڑے تھے۔ وہ آٹو سے اتری اور سست روی سے چلتی ہوئی اسکول میں داخل ہوگئی۔ خوبصورت تو وہ تھی ہی، مگر آج چونکہ اسکول میں اس کا پہلا دن تھا، چنانچہ اس نے تھوڑا سا اہتمام بھی کرلیا تھا۔ اس کی شادی کو کئی سال ہوگئے تھے، مگر کوئی ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ وہ شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں ہے۔وہ پرنسپل کے آفس میں داخل ہوئی۔”آپ اسماء شرف الدین ہیں؟” پرنسپل فاروقی نے استفسار کیا۔ وہ ایک جوان اور خوش شکل آدمی تھا۔ اسماء نے اس کی عمر کا اندازہ پینتیس کے قریب لگایا تھا۔ نہ جانے کیوں، پہلی ہی نظر میں وہ اسے اچھا نہیں لگا تھا۔”بیٹھیے۔” وہ اپنا چشمہ درست کرتے ہوئے بولا۔ اس کی چبھتی ہوئی آنکھیں اس کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں جیسے اس کا ایکسرے کر رہا ہو۔”مجھے شیخ صاحب نے آپ کے سلسلے میں خصوصی طور پر کہا ہے، پتہ نہیں کیوں…” وہ بولا۔ “ویسے تو ہمیں ٹیچر کی ضرورت نہیں ہے، مگر چونکہ آپ کو ضرورت ہے تو ہم نے بھی انکار نہیں کیا۔””Thank you, sir!” وہ یہ کہتے ہوئے اس کے “پتہ نہیں کیوں” کہنے پر غور کررہی تھی۔ ساتھ وہ شیخ صاحب سے متعلق سوچنے لگی جو شرف الدین کے اچھے وقت کے اچھے دوست تھے۔ اب تو صرف واقفیت ہی رہ گئی تھی۔

“کیا پڑھائیں گی آپ؟” وہ مستفسر ہوا۔”اردو۔” اس نے فوراً کہا۔”کیوں؟””کیونکہ مجھے اردو ہی آتی ہے۔””دیکھیے، اسماء، اردو کی ٹیچرز تو موجود ہیں اور پڑھا بھی رہی ہیں۔ دراصل ہمیں میتھ ٹیچر کی ضرورت ہے۔”وہ سوچ میں پڑگئی۔ “ابھی تو یہ کہہ رہا تھا کہ کسی ٹیچر کی ضرورت نہیں…””Any problem?” وہ اسے گھورتے ہوئے بولا۔”ہاں، سر، مجھے میتھ سے الجھن ہوتی ہے۔””الجھن ہوتی ہے، یا آپ کو ریاضی آتی ہی نہیں؟””ایسا ہی سمجھ لیں، سر۔””چائے پئیں گی؟””نہیں، سر۔””ٹھیک ہے، میں اردو ٹیچر رمشا سے بات کرتا ہوں۔ اگر وہ مان جائیں تو آپ ان کی جگہ اردو پڑھائیں گی اور وہ میتھ۔” وہ کرسی سے اٹھتے ہوئے بولا۔”Thank you, سر! میں ممنون رہوں گی، مجھے اس ملازمت کی ضرورت ہے۔””It’s okay۔ دیے سے ہی دیا جلتا ہے۔” وہ اسے معنی خیز نگاہوں سے دیکھتے ہوئے باہر نکل گیا، اور وہ سوچ میں پڑگئی۔ “دیے سے دیا جلتا ہے۔” معاً اس کے ذہن میں کوندا سا لپکا اور جھر جھری سی آگئی۔ “اس شخص سے بچ کر رہنا، اسماء!” اس نے خود سے کہا، اور گہری سانس لیتے ہوئے تاسف سے سر بلانے لگی۔

“رمشا نے تو صاف انکار کردیا ہے۔” وہ آفس میں داخل ہوتے ہوئے بولا۔ “میں اس سے یہاں آفس میں بھی بات کرسکتا تھا مگر آپ کی وجہ سے میں نے اس سے علیحدگی میں بات کی ہے۔””پتا نہیں کیوں…” اب اسے اندازہ ہوگیا کہ “پتا نہیں کیوں” شاید اس کا تکیہ کلام ہے۔”پھر سر…؟” وہ پریشان ہوگئی۔”ارے پلیز! پریشان مت ہوں، آپ کے اتنے خوبصورت چہرے پر پریشانی اچھی نہیں لگتی۔” وہ جلدی سے بولا۔ “آپ چاہیں گی تو میں رمشا کی نوکری ہی ختم کر دوں گا۔””نہیں، سر، میں کیوں چاہوں گی؟””ویسے آپ کو چاہنا چاہیے۔” اس کا جملہ ذو معنی تھا۔”میں سمجھی نہیں، سر…””کچھ نہیں، چائے لیجیے۔” وہ اس کے سامنے کپ رکھتے ہوئے بولا، جو ابھی ابھی لڑکے نے رکھا تھا۔ وہ اس کی باتوں کے ہیر پھیر کو سمجھ رہی تھی۔ اسے اپنی بے بسی پر رونا آرہا تھا مگر وہ اپنی مجبوری سے کمپرومائز نہیں کرسکتی تھی۔

“دیکھیے، میم! میرے اسکول کے اصول کافی سخت ہیں۔” وہ دوبارہ بولا، “ایک تو ماسک کی پابندی ضروری ہے کیونکہ کورونا چل رہا ہے، دوسرا بھلے آپ پر میک اپ بہت جچتا ہے، مگر اس سے بچوں پر اثر پڑتا ہے اور… بڑوں پر بھی۔””بڑوں پر بھی…؟””میرا مطلب ہے، سب دیکھتے ہیں نا!” وہ فوراً بات بدلتے ہوئے بولا۔”جہاں تک میرا خیال ہے، تم ایک انتہائی گھٹیا اور کمینے انسان ہو۔” وہ اٹھتے ہوئے بولی۔ “میں ایسی نوکری پر لعنت بھیجتی ہوں۔” یوں یہ اس کی نوکری کا پہلا اور آخری دن ثابت ہوا۔ اس کے بعد اس نے کہیں پر بھی نوکری کرنے کی کوشش نہیں کی۔ شرف الدین نے بہت جگہوں پر کام کیا مگر اس کا مقدر تو جیسے کہیں سو ہی گیا تھا۔ بیروزگاری اور مسلسل پریشانی نے اسے کئی امراض میں مبتلا کردیا تھا۔ اب وہ شرف الدین نہیں بلکہ ایک مزدور تھا جسے لوگ شرفو کے نام سے جانتے تھے۔ اگر جیب میں پیسہ نہ ہو تو کوئی سیدھا نام لے کر آواز بھی نہیں دیتا۔ دوست اور رشتے دار قسم پارینہ بن گئے، دوست احباب اور خون کے رشتوں نے اسے یکسر فراموش کردیا تھا۔

وہ جب بھی اسماء کو پریشان دیکھتا، اس کے پاس جا کر بیٹھ جاتا۔ “اسماء، میں تم سے شرمندہ ہوں کہ تم جس زندگی کی لائق تھیں، میں وہ تمہیں نہیں دے پایا۔” وہ کہتا۔وہ اسے ہمدردانہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہتی، “مجھے اپنی فکر نہیں ہے شرف الدین، میں تمہارے بارے میں سوچ کر کڑھتی رہتی ہوں۔ جس شخص نے عروج دیکھا ہو، اس کے لیے زوال بہت اذیت ناک ہوتا ہے۔””تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔” وہ بولا۔ “اسی لیے تو وقت سے پہلے بوڑھا ہو گیا ہوں۔”وہ اسے حسرت ناک نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولی، “شرف، یہ عارضی پڑاؤ ہے، مختصر زندگی ہے۔ ہمارا رب ان تکلیفوں کا اجر ہمیں یہاں نہیں، تو وہاں ضرور دے گا۔”اسماء کی باتیں اس کے متزلزل حوصلے کو مہمیز دیتی تھیں، مگر وہ اندر سے ٹوٹ چکا تھا۔ بچوں کے مرجھائے چہرے اور شکایت آمیز آنکھوں کا سامنا اس کے بس کی بات نہیں تھا۔ جوں جوں عید کا دن قریب آرہا تھا، اس کا خون سوکھتا چلا جارہا تھا۔ اس بار عین عید کے ایک دو دن آگے پیچھے مکان کا کرایہ اور بجلی کا بل بھی ادا کرنا تھا۔ طرح طرح کے وسوسوں میں گھرا شرفو خواب خرگوش کے مزے لیتے ہوئے لوگوں کو جگانے کے لیے نکل پڑا۔

“جاگو! اللہ رحمتیں لٹا رہا ہے، لوٹ لو!” اس نے باآواز بلند کہا۔ کچھ ہی دیر بعد مختلف گھروں میں روشنیاں ہونے لگیں، لوگ جاگنے لگے تھے۔ “جاگو… جاگو!” وہ یہی صدائیں لگاتا ہوا بازاروں میں گھومتا رہا۔معاً ایک دروازہ کھلا اور کسی نے اسے آہستگی سے پکارا۔ “او بھائی، ادھر آؤ!” یہ ایک نسوانی آواز تھی۔ کچھ ہی دیر میں وہ اس دروازے پر پہنچ گیا۔ وہ ایک عورت تھی۔ اس کے چہرے پر نقاب اور ہاتھ میں ایک کافی بڑا شاپر تھا۔”یہ رکھ لو، اس میں کچھ سودا سلف اور کپڑے ہیں، اور یہ بھی۔” وہ اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ہزار ہزار کے چند نوٹ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی۔ “خیال رکھنا، کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔” وہ دھیمے لہجے میں بولی اور دروازہ بند کر کے غائب ہوگئی۔

وہ اسے دیکھتا رہ گیا۔ پرسوں عید تھی اور پورے رمضان میں کسی نے اسے پوچھا تک نہیں تھا۔ وہ کسی کے احسان کا بوجھ اٹھائے اذان فجر سے پہلے گھر پہنچ گیا۔ اسماء اور بچے سو رہے تھے۔ وہ بھی بستر میں گھس گیا۔ سودا سلف اس نے اپنی چارپائی کے نیچے رکھ دیا۔ کچھ دیر بعد اسے اسماء کے جاگنے اور وضو کرنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ اس دوران وہ گہری نیند سو گیا تھا۔ دوسرے دن بھی اسے بھاگ دوڑ میں خیال نہیں رہا تھا کہ اسماء کو سودا سلف اور پیسوں کی بابت آگاہ کردے۔ تاہم وہ اس خیال سے مطمئن تھا کہ اس نے سودا سلف دیکھ لیا ہوگا۔ اس رات بھی وہ فجر سے پہلے آیا اور بستر میں گھس گیا۔ صبح ہوئی تو لوگ عید کی تیاریوں میں مشغول ہوگئے۔ خلاف توقع، اسماء بھی شیر خورمہ بنانے کے بعد اب گوشت بنا رہی تھی۔ بچے نہا دھو کر تیار تھے۔ انہوں نے کپڑے اور جوتے پرانے ہی پہن لیے تھے، تاہم ان کے ہاتھوں میں سو سو کے نوٹ دیکھ کر اسے قدرے طمانیت ہوئی۔

اسے یاد آیا کہ اس نے نقدی بھی سودا سلف کے شاپر میں رکھ دی تھی۔ کچھ دیر پہلے بڑا بیٹا شہباز اسے چائے کا کپ دے کر چلا گیا تھا۔ وہ بہت خوش اور پرجوش نظر آرہا تھا۔ اسماء اور دوسرا بیٹا وقاص بھی قدرے مطمئن تھے۔ اس نے خود بھی نہا دھو کر کپڑے تبدیل کیے اور باہر نکل گیا۔ لوگ ایک دوسرے سے عید مل رہے تھے، ایک دوسرے کو عید مبارک کہہ رہے تھے۔اسے بھی چند لوگوں نے عید کی مبارک باد دی مگر ان کے چہروں پر ناگواری کے تاثرات تھے۔ انہیں کیا ہوا …؟ وہ سوچنے لگا مگر اس وقت اس کے پاس اپنے اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ مسجد میں گیا مگر تب تک نماز ادا ہوچکی تھی۔ اس نے اکیلے نماز پڑھی اور دعا مانگ کر باہر نکل آیا۔

“ارے، ادھر آو، چاچا شرفو!” اچانک اسے اختر نامی ایک بچے نے صدا دی۔ وہ اسی کے محلے میں رہتا تھا اور اس کے بڑے بیٹے سے کھیلنے اس کے گھر بھی آتا رہتا تھا۔”ہاں بیٹا! کہو، کیا بات ہے؟” وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔”چاچا، آج میں نے نا آنٹی اسماء کی تصویر دیکھی ہے، بہت پیاری لگ رہی تھیں!” بچہ خوش ہوتے ہوئے بولا۔”کہاں دیکھی ہے؟ فوٹو …؟” وہ جلدی سے مستفسر ہوا۔”رومی موبائل والے کی دکان پر!” وہ بولا۔ “وہ نہیں جانتے تھے آنٹی کو، وہ تو میں نے بتایا کہ چاچا شرفو کی بیوی ہیں۔””کیا بکواس کر رہے ہو تم؟” وہ غصے سے بولا۔”چاچا تو غصہ کیوں ہو رہا ہے؟ جا! تو بھی دیکھ لے۔” اس نے کہا۔ “لے، وہ سونی آرہا ہے، اس سے پوچھ لے۔” اس نے دور سے آتے ہوئے ایک لڑکے کی طرف اشارہ کیا۔”اوئے سونی، ادھر!” لڑکے نے اسے خود ہی آواز دے دی۔”اختر پتر! تجھے غلط فہمی ہوئی ہے۔ ہمارے پاس تو موبائل ہی نہیں ہے۔ بھلا تیری چاچی فوٹو کیوں بنوائے گی؟” وہ پریشان ہوتے ہوئے بولا۔”سونی، چاچے شرفو کو ذرا تصویر تو دکھا چاچی اسماء کی، جو انٹرنیٹ پر آئی ہے۔” وہ اسے دیکھتے ہی بولا۔ اور پھر کچھ دیر میں شرفو کے چودہ طبق روشن ہوگئے تھے۔ وہ موبائل فون کی اسکرین پر اسماء کی تصویر دیکھ رہا تھا۔ وہ سو فیصد اسماء تھی اور اس کی نگاہیں سامنے کیمرے پر مرکوز تھیں۔”چاچا شرفو! ویسے تصویر بڑی پیاری آئی ہے چاچی کی۔ دیکھ لو، صائمہ ہی لگ رہی ہے!” سونی نے دانت نکالتے ہوئے کہا۔ اسی لمحے شرفو نے ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے چہرے پر جڑ دیا۔ وہ تیورا کر نیچے گرا اور شور مچانے لگا۔ اس کا سیل فون ٹوٹ گیا تھا۔”بکواس کرتا ہے، کمینے!” شرفو دبا کر بولا۔ لوگوں کا مجمع لگنا شروع ہوگیا۔

“ابے او بے غیرت انسان، اپنی بیوی کی تصویریں انٹرنیٹ پر وائرل کرتا ہے اور ہاتھ ہمارے بچوں پر اٹھاتا ہے!” یہ سونی کا باپ تھا۔ “خبیث نے موبائل بھی توڑ دیا ہے بچے کا، ابھی پرسوں ہی لیا ہے اس نے چالیس ہزار کا۔””اچھا تو یہ شرفو ہے، بھئی کمال کی فوٹو لگائی ہے تم نے، بالکل کترینہ کیف ہی لگ رہی ہے تمہاری بیوی!” یہ کوئی اور تہذیب سے عاری نوجوان تھا۔”نا پر، تجھے شرم نہیں آئی ایسی نیچ حرکت کرتے ہوئے۔ نکالو اسے گاؤں سے باہر، یہ شریفوں کا گاؤں ہے۔””ہاں ہاں، یہ تو ہمارے بچے خراب کریں گے، دونوں میاں بیوی!” جتنے منہ اتنی باتیں۔ ایک طوفان بدتمیزی برپا ہوگیا تھا۔ سب قہقہے لگاتے ہوئے شرفو کو چھیڑ رہے تھے، طنز و مذاق کر رہے تھے۔”پر ایک بات ہے، جو بھی ہے نا، کمال کی چیز!” یہ گاؤں کے اوباش آدمی نے تبصرہ کیا تھا۔

“بکواس کر رہے ہو تم لوگ!” شرفو چیخ کر بولا، “اور تم بے غیرت، میں تمہارے دانت توڑ دوں گا!” وہ اسی اوباش آدمی کی طرف بڑھا، اور پھر بپھرا بوا مشتعل ہجوم شرفو پر ٹوٹ پڑا۔ کچھ ہی لمحوں میں انہوں نے اسے روئی کی طرح دھنگ کے رکھ دیا تھا۔”تصویریں خود انٹرنیٹ پر دیتا ہے اور ہمیں بے غیرت کہتا ہے۔” زخموں سے چور شرفو یہ سن پایا اور بے ہوش ہو گیا۔یہ عید سے ایک دن پہلے کی بات ہے۔ صبح آٹھ بجے کے لگ بھگ اسماء کی پڑوسن ذکیہ ان کے گھر وارد ہوئی۔ اس وقت شرفو سو رہا تھا اور بچے حسرت ناک نگاہوں سے ماں کو دیکھ رہے تھے۔

“کوئی بندوبست ہوا؟” ذکیہ نے استفسار کیا۔”نہیں، ابھی تو شرف سویا ہوا ہے۔” وہ مایوسی سے بولی۔ “اٹھے گا تو کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔””وہ رات بھر جاگا ہوا ہے، دیر سے اٹھے گا۔ چل، اٹھ، میرے ساتھ چل۔””کہاں؟””وہ ماسٹر صاحب راشن دے رہے ہیں، بڑے ہی نیک اور خداترس انسان ہیں۔” ذکیہ بتانے لگی۔ذکیہ بہن! تم جانتی ہو، میں تو ہرگز نہیں جاسکتی، شرف میری جان لے لے گا۔ اسے پتا چلے گا، تب نہ۔ وہ اصرار کرتے ہوئے بولی۔ وہ ایک خرانٹ اور تیز طرار عورت تھی۔ جانتی تھی کہ شرف الدین ایک انتہائی خوددار اور شریف النفس انسان ہے۔ وہ یہ سب کچھ ایک سازش کے تحت کر رہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ جونہی اسماء کے گھر سے باہر نکلنے کی خبر شرف الدین کو ملے گی، ان کے مابین اختلافات کی ایک خلیج پیدا ہوجائے گی۔ وہ یہ سب اسی پرنسپل کے کہنے پر کر رہی تھی، جسے اسماء نے اپنے اسکول میں ملازمت سے انکار کرکے گویا اس کے منہ پر تھوک دیا تھا۔

“کیوں نہیں پتا چلے گا … سب ہوں گے وہاں، کوئی دیکھ لے گا!” اس نے خدشہ ظاہر کیا۔”ارے اسماء! بچوں کو دیکھ، رونے والی شکلیں ہوگئی ہیں ان کی…” اس نے کہا۔ “کچھ ان کا ہی سوچ، چل میرے ساتھ، وہ نقد پیسے بھی دے رہے ہیں۔ ہم دس منٹ میں آجائیں گے۔”آخر وہ آمادہ ہوگئی۔ بچوں کی اُتری صورت اور عید کا دن… اس نے چادر اوڑھی اور اس کے ساتھ چل دی۔”بھلا عین عید کے دن بھی کوئی راشن دیتا ہے؟” راستے میں اس نے کہا۔”ان کو کسی بڑے آدمی نے امداد بھیجی ہے۔ سنا ہے گاڑی خراب ہونے کی وجہ سے لیٹ ہوگئی۔” ذکیہ نے بتایا۔ وہ بازاروں سے گزرتی ہوئی ماسٹر صاحب کے گھر جارہی تھیں۔ مذکورہ گھر گاؤں کے آخری کونے پر تھا۔ متعدد نگاہیں اسماء اور ذکیہ پر جمی ہوئی تھیں۔ اسماء نے چہرے پر حجاب کر رکھا تھا کہ مبادا اسے پہچان کر کوئی شرفو کو آگاہ نہکردے۔

کافی دیر بعد وہ ماسٹر صاحب کے کوٹھی نما گھر میں پہنچ گئیں۔ بیٹھک کے باہر خواتین کی قطار لگی ہوئی تھی۔ عید کے دن بھی غربت ان کی بے بسی کا مذاق اڑا رہی تھی۔”یہاں تو بہت رش ہے، ذکیہ بہن۔” وہ گھبرائے ہوئے انداز میں بولی۔ “میں تو واپس جارہی ہوں۔””اس کی فکر نہ کرو۔ ماسٹرنی میری واقف ہے۔ ہم سیدھی اندر جائیں گی۔” اس نے کہا اور اسے لے کر سیدھی بیٹھک میں داخل ہوگئی۔”آجائیں، آجائیں۔” ایک نوجوان لڑکا نرمی سے بولا۔ وہ بیٹھک سے گزر کر اس سے ملحق کمرے میں داخل ہوگئیں۔ یہاں پر چند نوجوان آٹا، چاول، گھی، چینی اور نقد رقم دے رہے تھے۔”یہ شرفو کی بیوی ہے۔” ذکیہ نے ایک نوجوان کے کان میں سرگوشی کی۔ “ارے ہاں، اس نے تو پورا رمضان ہمیں سحری کے لیے جگایا ہے، آگے آجاؤ بہن!” وہ اسماء سے مخاطب ہوا۔ اس نے اسے کافی مقدار میں سودا سلف اور آٹے کا تھیلا دیتے ہوئے کہا۔ “میں ایک لڑکا تمہارے ساتھ بھیجتا ہوں۔ سامان چونکہ زیادہ ہے، یہ گھر پہنچا آتا ہے۔”وہ کچھ نہیں بولی، تاہم اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ “اور یہ بھی رکھ لیں۔” اس نے ہزار ہزار کے تین نوٹ اس کی طرف بڑھا دیے۔ “راستے سے دودھ اور گوشت لے لینا۔” وہ ممنون انداز میں سر ہلاتے ہوئے واپس پلٹنے لگی۔ اسی لمحے اسی لڑکے نے آہستگی سے کہا، “ذرا نقاب بتائیے! تصویر بنائی ہے، دراصل ہم نے آگے دکھانی ہوتی ہے نا!””مم… مگر…””آپ پریشان مت ہوں۔ یہ فوٹو امانت ہے اور آگے بھی ایک مخیر خاتون نے بھی دیکھنی ہے۔” وہ بولا۔”ہاں اسماء، جلدی کرو، دیر ہورہی ہے۔” ذکیہ نے کہا۔ “اور بھی بہت ساری عورتیں ہیں، اور سب نے تصویریں بنوائی ہیں۔”اس کے اصرار پر وہ چہرے سے نقاب ہٹانے پر مجبور ہوگئی تھی۔ چنانچہ کچھ ہی دیر بعد اس لڑکے کے سیل فون میں اس کی تصویر سیو ہوچکی تھی۔

اسپتال میں بیڈ پر نیم دراز زخمی شرفو نے یہ ساری کہانی اسماء کی زبانی سنی اور بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ “اسماء! جو بھی ہے، مگر اب ہماری بات پر کوئی یقین نہیں کرے گا، یہ سب معاشرے کے نام نہاد معزز معتبر اور بزعم خود شریف لوگ ہیں۔” اس کی آواز بھرانے لگی تھی۔ “تمہیں ذکیہ کی باتوں میں نہیں آنا چاہیے تھا۔””مگر شرف، میں کیا کرتی… بچے بھوکے تھے اور عید کا روز تھا!” وہ نادم لہجے میں بولی۔”میں سارا بندوبست کر کے سویا تھا، اسماء!” وہ کراہتے ہوئے بولا۔ “ہاں! وہ سب میں نے بعد میں دیکھا، جب ماسٹر کے گھر سے راشن لے کر آئی تھی۔””تم جانتی ہو، یہ ماسٹر کون ہے؟””یہ وہی پرنسپل فاروقی ہے جس کی تم نے بے عزتی کی تھی۔” وہ ایک دم چونک کر اسے دیکھتے ہوئے بولی۔”اور ذکیہ ….””وہ ان کی ملازمہ ہے۔””تو یہ سب طے شدہ منصوبہ تھا!” وہ تاسف سے بولی۔ “کس قدر منتقم مزاج نکلا یہ پرنسپل فاروقی، صرف ایک انتقام لینے کے لیے اس نے اتنے سالوں تک انتظار کیا۔ یہی تو کینہ ہے، جو انسان کو وحشی بنا دیتا ہے۔””وہ تاسف سے بولا۔ میں بات کی تہہ تک پہنچ گیا ہوں۔ انہوں نے وہ فوٹو ایڈٹ کر کے لگائی تھی۔ اس کا مقصد تمہارا گھر برباد کر کے تم سے انتقام لینا تھا۔”

شرفو کافی دن تک اسپتال میں زیر علاج رہا۔ مشتعل ہجوم نے اسے بہت زیادہ زخمی کردیا تھا۔ اس دوران وہ لوگ گاؤں سے شہر شفٹ ہوگئے۔ اس سلسلے میں نرگس نے بہت تعاون کیا اور انہیں اپنے قریب ہی مکان لے کر دیا۔ سنا تھا کہ ذکیہ کو اپنے جرم کا احساس ہوگیا تھا۔ چنانچہ اس نے گاؤں بھر کے سامنے سارا قصہ بیان کردیا۔ اسماء کی تصویر، کسی ماڈل گرل کے ساتھ ایڈٹ کر کے فاروقی نے وائرل کی تھی۔ جب گاؤں والوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے اس سے دعاسلام ہی چھوڑ دی۔ چنانچہ وہ بھی اپنا مکان اور اسکول فروخت کرکے وہاں سے چلا گیا۔ پورا گاؤں شرفو سے عیادت اور معافی مانگنے آیا تھا۔ وہ ایک نرم خو اور نیک دل انسان تھا۔ اس نے سب کو معاف کردیا۔

گاؤں والے اسے واپس لے کر جانا چاہتے تھے مگر اس نے انہیں خوشخبری سناتے ہوئے بتایا، “دراصل میری پرانی ملازمت بحال ہوگئی ہے۔ یہ خبر مجھے بھی کل ہی ملی ہے، ورنہ میں آپ کو انکار نہیں کرتا۔” سب لوگ اسے مبارکباد دیتے ہوئے رخصت ہوگئے۔ ساتھ ہی شرفو کی آزمائش کے دن بھی رخصت ہوچکے تھے۔
(THE END)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے