میرے والد صاحب زمیندار تھے جبکہ فیض ایک کسان کا بیٹا تھا۔ ہم دونوں کی پرورش گاؤں کے کھلے ماحول میں ہوئی تھی۔ مجھے تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا جبکہ ہمارے یہاں لڑکیوں کو پڑھانے کا رواج نہیں تھا۔ میرے بھائی نے میٹرک کر کے تعلیم کو خیر باد کہہ دیا۔ ان دنوں میں آٹھویں میں پڑھ رہی تھی اور مزیدتعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی۔ امتحان قریب تھے اور میں پھپھو کے گھر پڑھنے جایا کرتی تھی ۔ راستے میں فیض کا گھر پڑتا تھا، جس کے آگے ایک میدان تھا۔ وہاں گاؤں کے لڑکے کرکٹ کھیلتے تھے۔ ایک دن میں اپنی پھپھو کے گھر سے لوٹ رہی تھی کہ فیض سامنے آگیا۔ وہ کرکٹ کھیل کر آرہاتھا مگر اس نے میری طرف توجہ نہ کی ۔
مجھ کو اس کا یہ انداز بے نیازی کھل گیا۔ میں پیدل جارہی تھی۔ راستہ تنگ سا تھا مگر اس نے ایک طرف ہوکر مجھ کو گزرنے کا موقع تک نہ دیا۔ یہ بات مجھے مزید بری لگی ۔سوچا خوبصورت ہے تو کیا ہوا۔ جانے یہ اپنے آپ کو سمجھتا کیا ہے؟ ہے تو کسان کا بیٹا، اس کی اوقات ہی کیا ہے۔ میں اس کو مزہ چکھاؤں گی۔
اگلے دن جب میں پھر اس کے گھر کے آگے سے گزری تو جان بوجھ کر سامنے آ گئی ،تب اس نے پوچھا….. آپ کیا چاہتی ہیں؟
میں نے مسکرا کر جواب دیا۔” آپ کو….. میرے اس جواب پر حیرت سے اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔ وہ بولا….. کیا کہہ رہی ہو…. میں کہاں اور تم کہاں؟ اب مجھ کو مزہ آنے لگا اس کو حیران کرنے کا۔ میں روزانہ اس کے راستے میں آ جاتی اور وہ مجھ سے دور جانے کی کوشش کرتا۔
ایک دن وہ گھر کی طرف جارہا تھا کہ میں اس کو حسب معمول راستے میں ملی، شام کا وقت تھا۔ میں ٹھہر گئی ، وہ بھی ٹھہر گیا۔سوال کیا ۔۔۔۔۔۔ یہاں کیا کر رہی ہو؟
تیرا انتظار کر رہی ہوں۔ جب یہ بات سنی تو اس نے بھی اپنے دل کی بات کہ دی…. میرادل بھی یہی کہتا ہے کہ تم اس جگہ روز مجھے ملا کرو۔ اچھا…. میں نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں پھیلا کر کہا۔ ایک ہفتہ بعد پھر اسی جگہ ٹکراؤ ہوا۔اس نے
میرا نام پوچھا۔ اوه ، دو ماہ گزر گئے ہیں، اب تم میرا نام پوچھ رہے ہو۔ بہرحال میں نے اس کو اور اس نے مجھے اپنا نام بتادیا۔
پھپھو کے گھر روز ٹیوشن پڑھنے جانا میرا معمول تھا تب ہی ایک دن جب سرراہ میں فیض سے کوئی بات کر رہی تھی ، والد صاحب نے ہمیں باتیں کرتے دیکھ لیا۔ پھر غضب تو ہونا ہی تھا۔ جب میں گھر پہنچی تو ابو سے بہت ڈانٹ پڑی کہ تم نوکر لوگوں سے بات کرتی ہو۔ تم کو پتہ ہے کہ وہ کسان ہے اور تم زمین کے مالک کی بیٹی ہو تم کو راستے میں ٹھہر کر اس سے ہم کلام ہونا زیب نہیں دیتا۔ آخرتم کیوں فیض سے بات کر رہی تھیں۔ میں کیا بتاتی کہ میں اس مغرور کے غرور کوتوڑنا چاہتی تھی اور ابوگرج رہے تھے۔ اب اگر کبھی تم نے راستے میں رک کر کسی سے بات کی تو میں تم کو پڑھائی سے اٹھا لوں گا۔ مجھ کو کونسی اس سے سچی محبت تھی۔ میں تو بس اس کی دل آزاری کرنا چاہتی تھی۔
انہی دنوں ابو نے میرا رشتہ چچا زاد فرمان سے طے کر دیا جبکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ابھی شادی ہو۔ وہ بیرون ملک پڑھائی کی غرض سے جانا چاہتا تھا۔ بہرحال منگنی ہوگئی ، تو میں نے بھی فیض کو ستانے کا خیال چھوڑ دیا۔ امتحان ہو گئے اور میں گھر بیٹھ گئی۔
ادھر فیض نے اپنے والدین سے رشتہ مانگنے کو کہا تو اس کے ابا بہت غصہ ہوۓ اور اسے گھر سے نکالنے کی دھمکی دے دی جبکہ ماں بولی۔ بیٹا ہم غریب ہیں۔ اگر تم پڑھ لکھ کرکسی قابل ہو جاؤ تو یقینا ہم اس لائق ہو جائیں گے کہ تمہارا رشتہ مانگنے کسی حیثیت والے کے گھر جائیں۔ یہ بات فیض نے گرہ میں باندھ لی اور ہر خیال چھوڑ کر پڑھائی میں لگ گیا۔ پھر اس نے انٹر بورڈ میں پوزیشن لی۔ فیض کی لگن سچی تھی ۔ وہ اعلی تعلیم حاصل کرنے لگا- ادھر میرے منگیتر نے شادی سے انکار کر دیا اور وہ بیرون ملک منگنی توڑ کر چلا گیا جس کا والد کو بہت قلق ہوا۔
وقت گزرنے لگا۔ میں نے کالج میں داخلہ لے لیا اور والد کو اب احساس ہوا کہ اپنوں میں گن نہ ہوں تو پھر اپنے بیکار ہوتے ہیں۔ ایک دن فیض جارہا تھا کہ میں نے اس کو آواز دی۔ وہ ٹھہر گیا… پوچھا کیا بات ہے…..تم نے تو مجھے بھلا ہی دیا۔
میں نے سنجیدگی سے کہا۔ یادرکھوں تو بھی کونسا تم سے مل پاؤں گی۔ اس لئے بھلا دینا ہی اچھا ہے۔ میری غربت میری وراثت ہے، میں کیسے اس سے جان چھڑا سکتا ہوں۔ بڑے دکھ سے اس نے کہا تھا۔
یہ بات نہیں ہے فیض … تم اگرکسی لائق ہو جاؤ تو پھر ابوتمہارے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے مگر تم میں وفا نہیں ہے۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے۔
وفا کا کیا ثبوت چاہئے، بولو …… اور پھر اس نے جیب سے پستول نکال لیا۔ میں نے کہا نہ ….نہ اپنی جان مت دے دینا بھلا تمہاری جان دینے سے مجھ کو کیا فائدہ ہوگا ۔ ہاں اگر تم ثبوت دینا چاہتے ہوتو اپنے ہاتھ میں گولی مارلو… تب ہی اس بے وقوف نے ایک لحہ کا بھی توقف نہ کیا اور اپنے ہاتھ میں گولی ماردی……حالانکہ میں نے تو مذاقا ایسا کہا تھا۔
میں سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ وہ ایسا کرے گا۔ میرے مذاق کو اس نے اپنے لئے آزمائش سمجھ لیا اور اس وقت کھڑے کھڑے اس کا ثبوت بھی دے دیا۔ اس کا ہاتھ لہو سے تر بتر ہو گیا اور میں کانپنے لگی۔ چاہتی تھی کہ اپنے دوپٹے سے اس کا ہاتھ لپیٹ دوں۔اس وقت آبا جان کی گاڑی ادھر سے گزری۔ انہوں نے ہمیں راستے میں کھڑے دیکھا تو طیش میں گاڑی سے اتر کر تیزی سے ہماری طرف آۓ ۔ جانے وہ کس ارادے سے آۓ تھے مگر فیض کے ہاتھ سے لہو بہتا دیکھ کر ان کے بھی اوسان خطا ہو گئے ۔انہوں نے جلدی سے اسے گاڑی میں بٹھالیا اور فورا اسپتال لے گئے جہاں ڈاکٹر نے طبی امداد دی اور اس کے بعد جب فیض کی طبیعت ٹھیک ہوگئی تو انہوں نے پوچھا کہ تم نے اپنے ہاتھ پر گولی کیوں چلائی… فیض نے جواب دیا کہ ماجدہ بی بی نے کیا، اپنے ہاتھ پر گولی مارلو، تو میں نے ان کے حکم کی تعمیل کی ۔ اس بات کا میرے والد صاحب کے دل پر بڑا گہرا اثر ہوا اور وہ سوچ میں پڑ گئے۔
سوچا کہ ایک طرف بھتیجا ہے جو میری بیٹی کوٹھکرا کر چلا گیا ہے اور دوسری طرف یہ غریب کا بیٹا ہے جس کی وفا اور خلوص نے اسے جان پر کھیل جانے کے لئے مجبور کیا ہے۔
انہوں نے فیض کا تعلیمی ریکارڈ چیک کیا تو اس سے بے حد متاثر ہوئے اور سوچا کہ کیوں نہ اس غریب کی سر پرستی کروں، اس کو پڑھنے میں مدد دوں اور پھر اس محنتی اور لائق لڑکے کو اپنی بیٹی دے دوں۔ والد صاحب کے پاس روپے پیسے کی کمی نہ تھی۔ لائق داماد کسے اچھا نہیں لگتا۔ والد صاحب نے چاچا دین احمد سے بات کی کہ میں تمہارے بیٹے کو آگے پڑھانا چاہتا ہوں ۔ داماد بنانا چاہتا ہوں تم کو منظور ہو تو منگنی کر دیں۔ میں لڑکے کو بعد میں پڑھنے کے لئے انگلینڈ بھیج دوں گا۔
اندھے کو کیا چاہئے دو آنکھیں ۔ وہ بہت خوش ہوا۔ بہر حال رشتہ طے ہو گیا۔ جب مجھے اس بات کا پتہ چلا ، میں تو چکرا کر رہ گئی کیونکہ میں فیض کے ساتھ سنجیدہ تھی ہی نہیں اور میں نے یہ بھی نہ چاہا تھا کہ میرا اس کے ساتھ رشتہ ہو، بس مذاق مذاق میں ایسی باتیں کرتی تھی۔
مجھ کو اس سے خارتھی ۔ پر خاش تھی کہ اس نے ایک بار مجھ کو راستہ نہیں دیا تھا اور میرا احترام نہ کیا تھا جبکہ وہ کسان کا بیٹا تھا اور میں زمیندار کی بیٹی تھی۔ میں مغرور تھی مگر غرور سے کام اس نے لیا تھا، تب ہی میں نے قسم کھائی تھی کہ اس کو بے عزت کر کے رہوں گی مگر تقدیر نے پھر میرے ساتھ ہی عجیب کھیل کھیلا کہ اس کی بجاۓ مجھ کو بے عزت کر ڈالا۔ میری اس کے ساتھ منگنی بےعزتی نہیں تھی تو اور کیا تھی جبکہ میں اس کو اپنے قابل نہیں سمجھتی تھی۔ یہ تو میں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا، والد صاحب اتنا بڑا فیصلہ کر لیں گے ۔ شاید ان کوغلط فہمی ہوگئی تھی کہ میں فیض کو پسند کرتی ہوں جبکہ سر راہ بات کر لینے کا مطلب ہرگز یہ نہ تھا کہ میں اس کو پسند کرتی ہوں ۔ بہر حال انہونی ہوگئی کہ ہیرے کی قدر جوہری ہی جانتا ہے۔
منگنی ہوگئی تو لوگوں کو حیرت بھی ہوئی کہ کیسے زمیندار نے اپنی بیٹی کا رشتہ ایک کسان کے بیٹے کو دے دیا۔ لوگوں میں چہ میگوئیاں ہوئیں مگر والد کے سامنے کسی کو دم مارنے کی جرات نہیں تھی۔ تاہم جب میں اسکول جاتی ، لڑکیاں مجھے عجیب نظروں سے دیکھتی تھیں ،تب مجھے بہت غصہ آتا تھا۔ اب فیض راستے میں ملتا تو بات کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا مگر میں غصے سے منہ پھیر لیتی ۔کہاں میں اس کو سبق پڑھانے چلی تھی اور کہاں تقدیر نے مجھے ہی سبق پڑھا دیا تھا۔ پہلے وہ غرور کرتا تھا، اب میں غرور سے اس کی چاہت کو ٹھوکر مار دیتی تھی اور منہ دوسری طرف کر کے چل دیتی تھی حالانکہ میری اور اس کی جان پہچان کافی عرصے سے چل رہی تھی مگر منگنی کے بعد جانے کیوں میں اس کو پسند کرتے ہوۓ بھی ناپسند کرنے لگی تھی۔
اس کی وجہ یہی احساس تھا کہ ہم برتر ہیں، یہ کم تر ہیں۔ ہمارا ان کا میل نہیں ۔ پھر میں کیوں اس کو قبول کروں کہ ہم صوفوں پر اور یہ زمین پر بیٹھنے والے لوگ ہیں۔
میری سہیلیوں نے بھی اس بیزاری کو سمجھ لیا کیونکہ اکثر وہ میرے ساتھ ہی اس میدان سے گزرتی تھیں جدھر فیض کا گھر واقع تھا۔ جب میں فیض کو دیکھ کر نفرت سے منہ دوسری جانب کر لیتی تو وہ مجھے سمجھاتیں کہ یوں نہ کیا کرو۔ یہ بات اللہ کو پسند نہیں ہے۔ دیکھو یہ کتنا اچھا،سلجھا ہوا اور لائق لڑکا ہے ۔کتنی ٹرافیاں لی ہیں اور اسکالر شپ لیا ہے۔سارے گاؤں میں تعلیمی لحاظ سے اس کا ریکارڈ شاندار ہے۔ پھر کیوں تم اس سے نفرت کرتی ہو۔ تمہارے والد نے اس لڑکے میں کوئی جوہر دیکھ کر ہی اسے تمہارے لیے منتخب کیا ہے-
میں سوچتی تھی کہ یہ کتنی عجیب بات ہے شاید کہ یہ پہلی مثال ہے جب کسی زمیندار نے کسان کے بیٹے کو اتنی اہمیت دی ہو کہ اس کو داماد بنا لیا۔ ورنہ تو اس جرم میں یہ لوگ کوڑے ہی کھاتے ہیں ۔شاید کہ زمانہ ہی بدل رہا تھا یا پھر والد کی سوچیں دوسرے لوگوں سے الگ تھیں کہ وہ کافی عرصہ بیرون ملک بھی رہے تھے۔
تنہائی میں سوچتی تو دل نرم پڑ جاتا تھا۔ آخر فیض میں کیا برائی تھی ، ٹاپ کر رہا تھا، کھیلوں میں ٹرافیاں لیتا تھا، خوبصورت تھا، سارا گاؤں اس کو اچھا کہتا تھا۔ اس کی عزت قابلیت کے باعث تھی ۔اس میں کوئی بری عادت بھی تھی۔
0 تبصرے