یہ سن کر شمشاد اور زیادہ رونے لگا ان کا رونا دھونا سن کر آس پڑوس کے لوگ بھی ان کے گھر آگئے اور اس دن پورا گھر سوگوار ہو گیا۔ پھر صغریٰ کا کفن دفن ہوا اور لوگ شمشاد سے تعزیت کے لیئے آنے جانے لگے کہ اتنے میں ایک آدمی شمشاد سے تعزیت کر واپس جانے لگا کہ اچانک اس کی نظر اس کالی بکری پر پڑی تو وہ وہیں رک کر اس بکری کو غور سے دیکھنے لگا اور منہ میں کچھ پڑھنے لگا اسی دوران وہ بکری گھبرا کر ادھر اُدھر بھاگتے ہوئے اپنی رسی کو توڑنے کی کوشش کرنے لگی۔
یہ دیکھتے ہوئے اس آدمی نے ہاں میں سر ہلایا اور اس نے دوبارہ شمشاد کے پاس جا کر کہا شمشاد بھائی میں جانتا ہوں کہ آپ بہت دکھی ہیں اور یہ وفت آپ پر کتنا بھاری ہے۔ ایسے میں پتا نہیں مجھے آپ سے یہ بات کرنی چاہیئے کہ نہیں۔۔۔میں سمجھ نہیں پا رہا۔۔۔ یہ سنتے ہی شمشاد نے کہا بولیئے حاجی صاحب میں سن رہا ہوں۔۔ تو حاجی صاحب نے کہا دراصل مجھے تمہارے صحن میں کچھ نظر آیا ہے ہو سکتا ہے کہ یہ میرا اندازا غلط ثابت ہو لیکن میرے علم کے مطابق آپ کے گھر میں کوئی شیطانی چیز کے اثرات نظر آرہے ہیں۔ یہ سنتے ہی شمشاد حیرانی سے حاجی صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے بولا کیا۔۔۔۔۔۔؟؟ شیطانی چیز۔۔۔۔ کے اثرات۔۔۔؟؟ پر کیسے۔۔۔؟؟ حاجی صاحب نے کہا وہ جو بکری تمہارے صحن میں ہے وہ مجھے مشکوک دکھائی دے رہی ہے کیا آپ لوگوں کو اس میں کبھی کچھ عجیب نظر آیا ہے۔۔؟؟
شمشاد نے کہا نہیں حاجی صاحب لیکن میری والدہ مرحوم بھی اس بکری کو لے کر آپ ہی کی طرح باتیں کرتیں تھیں اس لیئے میں آج اس بکری کو لے جا کر بازار میں بیچنے والا تھا لیکن اچانک امی فوت ہو گئیں اس لیئے میں کل ہی اس کو بازار میں بیچ ڈالوں گا۔ یہ سنتے ہی حاجی صاحب نے کہا شمشاد بھائی کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ بکری آپ کے پاس کتنے عرصے سے ہے اور یہ آپ نے کہاں سے لی ہے۔۔؟؟ پھر شمشاد نے حاجی صاحب کو سب کچھ بتایا کہ اسے بکری کب اور کہاں ملی تو حاجی صاحب نے کہا اس کا مطلب ہے کہ یہ آپ کی بکری نہیں ہے۔ شمشاد نے کہا جی لیکن ابھی تک اس کے بارے میں کوئی پوچھنے نہیں آیا۔ حاجی صاحب نے کہا تو میرا شک سہی تھا کہ یہ کوئی عام بکری نہیں بلکہ ایک خطرناک شیطانی چیز ہے جیسا کہ آپ نے بتایا گزشتہ روز آپ کی والدہ اسے اس گھر سے دور بھیجنا چاہتی تھیں اور اگلے دن ہی ان کی موت ہو گئی تو آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ یہ سب بہت عجیب ہے ۔۔۔؟؟
یہ سن کر شمشاد نے کہا پتا نہیں حاجی صاحب میری والدہ تو پہلے سے ہی بہت علیل تھیں اور دل کی بیماری میں مبتلا تھیں ایسے میں۔ میں کیا بتا سکتا ہوں۔ حاجی صاحب نے کہا لیکن مجھے لگتا ہے کہ ان کی موت اسی شیطانی چیز کی وجہ سے ہی ہوئی ہو گی کیونکہ جب اسے اس بات کا پتا کہ آپ کی والدہ اس کو یہاں سے دور بھیجنے والی ہیں تو اس نے آپ کی والدہ کو مار دیا ہوگا۔۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس گھر سے نکلنے والی نہیں ہے۔ یہ سنتے ہی شمشاد نے کہا کیا۔۔۔۔۔؟؟ میری والدہ کو اس بکری نے مارا ہے۔۔۔؟؟ یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں حاجی صاحب۔۔۔؟؟ جبکہ وہ تو صرف ایک جانور ہی ہے۔۔؟؟ حاجی صاحب نے کہا تمہیں یقین نہیں آتا نا۔۔۔؟؟ تو آؤ میرے ساتھ میں تمہیں کچھ دکھانا چاہتا ہوں یہ کہتے ہوئے حاجی صاحب شمشاد کو لے کر جیسے ہی صحن میں واپس آئے تو وہاں وہ بکری موجود نہیں تھی۔ یہ دیکھتے ہی شمشاد نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا حاجی صاحب وہ بکری کہاں چلی گئی۔۔؟؟
حاجی صاحب نے کہا ابھی تو وہ یہیں تھیں شمشاد نے فوراً جا کر اس کی رسی دیکھی تو وہ ٹوٹی ہوئی تھی۔ یہ دیکھ کر شمشاد نے حاجی صاحب کی طرف دیکھتے کہا حاجی صاحب لگتا ہے وہ رسی توڑ کر کہیں بھاگ گئی ہے۔ یہ سنتے ہی حاجی صاحب کچھ سوچنے لگے پھر انہوں نے ہاں میں سر ہلایا اور شمشاد سے کہنے لگے وہ بہت ہی شاطر ہے لگتا ہے اسے میرے بارے میں بھی پتا چل گیا ہے۔ اور وہ چاہتی ہے کہ اس کا راز تمہارے سامنے نہ کھلے اسی لیئے وہ کہیں بھاگ گئی ہے لیکن یہ بہت خطرے والی بات کہیں وہ کسی اور کو نقصان نہ پہنچا دے اس لیئے مجھے اس کے پیچھے جا کر اسے ڈھونڈنا ہو گا اب آپ مجھے اجازت دیں میں اسے ڈھونڈنے کے لیئے جا رہا ہوں لیکن آپ کو ایک بات کا خیال رکھنا ہے اگر وہ یہاں واپس آئے تو آپ فوراً مجھے آکر بتایئے گا ۔۔
یہ سنتے ہی شمشاد نے ہاں میں سر ہلایا پھر شمشاد نے کہا حاجی کیا آپ اسے مار دیں گے۔۔؟؟ حاجی صاحب نے کہا نہیں میں اسے ختم نہیں کر سکتا لیکن میں اسے اپنے قبضے میں لینے کی کوشش کر سکتا ہوں پھر میں اسے اپنے استاد عالم صاحب کے پاس لے کر جاؤں گا وہ اسے ختم کر سکتے ہیں۔ یہ کہہ کر حاجی صاحب وہاں سے چلے گئے پھر شمشاد کچھ دیر صدیقہ اور فروہ کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور سب صغریٰ کے ساتھ گزرے ہوئے لمحوں کے بارے میں بات کر کے اسے یاد کرنے لگے پھر کچھ دیر میں شام کا وقت ہوا تو اچانک دروازے پر دستک ہوئی تو شمشاد نے دروازے پر جا کر دیکھا تو نصیر دروازے پر کھڑا تیزی سے سانسیں لے رہا تھا جیسے وہ کہیں سے بھاگ کر آیا ہو۔ یہ دیکھتے ہوئے شمشاد نے کہا ارے نصیر بھائی خیریت تو ہے آپ اتنے گھبرائے ہوئے کیوں لگ رہے ہیں۔۔؟؟ نصیر نے کہا ۔۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ۔۔ حاجی صاحب۔۔۔کو۔۔۔؟؟ یہ سنتے ہی شمشاد نے کہا ہاں ہاں بولو کیا ہوا حاجی صاحب کو۔۔۔؟؟ نصیر نے کہا وہ حاجی صاحب کو کسی نے مار دیا ہے۔۔
یہ سنتے ہی شمشاد نے چونک کر کہا کیا۔۔۔۔ انہیں کسی نے مار دیا ہے لیکن وہ تو ابھی دوپہر میں ہی میرے پاس سے ہو کر گئے ہیں ۔۔ یہ سن کر نصیر نے کہا دوپہر کو نہیں ابھی کچھ دیر پہلے کی ان کی موت ہوئی ہے۔۔۔ یہ سن کر شمشاد نے حیرانی سے نصیر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔ابھی مارا ہے۔۔۔۔؟؟ پر کس نے۔۔۔۔ مارا۔۔۔۔؟؟ کیوں مارا۔۔۔۔؟؟ نصیر نے کہا وہ بہت ہی ڈراؤنی سی چیز تھی یہ کہتے ہوئے نصیر بری طرح اپنے دائیں بائیں دیکھ کر کانپ رہا تھا ۔یہ دیکھتے ہوئے شمشاد نے کہا نصیر پہلے تم اندر آجاؤ اور بیٹھ کر آرام سے بتاؤ آخر کیا ہوا ہے حاجی صاحب کو۔۔؟؟ یہ کہتے ہوئے شمشاد نے ایک پانی کا گلاس نصیر کو دیتے ہوئے کہا پہلے یہ پانی پی لو۔۔ نصیر نے جلدی سے پانی پیا اور ایک لمبی سانس لیتے ہوئے شمشاد کی طرف دیکھ کر بولا۔۔ شمشاد بھائی آپ کی والدہ کے جنازے سے فارغ ہو کر میں چونک میں بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں حاجی صاحب میرے پاس آئے اور کسی کالی بکری کے بارے میں پوچھنے لگے میں نے ان سے کہا نہیں حاجی صاحب میں نے یہاں سے کوئی بکری گزرتے ہوئے نہیں دیکھی لیکن بات کیا ہے۔۔۔؟؟ تو حاجی صاحب نے بتایا کہ شمشاد بھائی کی ایک کالے رنگ بکری کہیں کھو گئی ہے یہ سنتے ہی میں نے حاجی صاحب سے کہا چلیں حاجی صاحب میں بھی آپ کے ساتھ مل کر اسے تلاش کرتا ہوں شمشاد بھائی تو سوگ میں ہیں ایسے میں ہمیں ہی اس کی مدد کرنی ہو گی۔
یہ کہتے ہوئے میں حاجی صاحب کے ساتھ مل کر تمہاری بکری کو ڈھونڈنے لگا لیکن وہ ہمیں کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی پھر ہم گاؤں سے باہر جا کر اسے ڈھونڈنے لگے تو اتنے میں ایک ویرانے میں مجھے کالی بکری دکھائی دی جو کہ بہت ہی عجیب سی تھی تو میں نے حاجی صاحب سے کہا وہ دیکھیں حاجی صاحب کہیں یہ شمشاد بھائی کی بکری تو نہیں ہے۔۔؟؟ جب حاجی صاحب نے اسے دیکھا تو وہ بھاگتے ہوئے اس بکری کی طرف گئے تو اچانک اس بکری نے حاجی صاحب پر حملہ کر دیا لیکن حاجی صاحب نے خود کو بچا لیا اتنے میں وہ بکری بھاگ کر ایک بڑے سے پتھر کے پیچھے گئی لیکن جیسے ہی حاجی صاحب اس کی طرف جانے لگے تو اچانک اس پتھر کے پیچھے سے ایک خوفناک سی عورت دوڑتی ہوئی حاجی صاحب کے سامنے آکر کھڑی ہو گئی۔
پھر حاجی صاحب اسے دیکھتے ہوئے وہاں سے پیچھے پٹ رہے تھے کہ اُس نے حاجی صاحب کو گلے سے پکڑ لیا اور ان کا گلا گھونٹنے لگی اس دوران حاجی صاحب نے خود کو چھڑانے کی بہت کوشش کی مگر چھڑا نہیں پا رہے تھے۔۔۔ میں ان کی مدد کرنا چاہتا تھا لیکن اس کی شکل دیکھ کر ہی میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے اس لیئے میری ہمت نہیں ہوئی کہ میں آگے بڑھ کر حاجی صاحب کی مدد کر سکوں تو میں وہیں ایک جگہ چھپ کر انہیں دیکھ رہا تھا اتنے میں اس ڈراؤنی عورت نے حاجی صاحب کی ٹانگیں پکڑ کر انہیں گھوما کر ان کا سر اس بڑے پتھر پر مار دیا جس سے حاجی صاحب کا سر بری طرح سے پھٹ گیا اور وہ پوری طرح سے لہولہان ہو گئے اور وہ حاجی صاحب کو کافی دیر تک ایسے ہی بری طرح اس پتھر پر مارتی رہی پھر اچانک اس عورت نے حاجی صاحب کو دور پھینک دیا اور جانوروں کی طرح ہاتھوں پیروں سے بھاگتی ہوئی وہاں سے ویرانے کی طرف چلی گئی۔ یہ دیکھ کر میں جلدی سے حاجی صاحب کے پاس گیا لیکن وہ دم توڑ چکے تھے ۔
ابھی میں ان کو دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک مجھے خوفناک سی آواز سنائی دی جیسے کوئی زور دار آواز میں ڈھاڑا ہو۔۔ اسی وقت میں نے ادھر اُدھر دیکھا تو اچانک میری نظر اس ویرانے کی طرف پڑی تو وہی عورت تیزی سے میری طرف آرہی تھی تو میں اندھا دھند بھاگتا ہوا یہاں آیا تھا کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ آپ کی بکری کا اس عورت کے ساتھ ضرور کوئی نا کوئی واسطہ ہے اسی لیئے میں یہ بات آپ کو بتانے آیا تھا۔ نصیر کی یہ ساری باتیں سن کر شمشاد پریشان ہو کر کچھ سوچنے لگا ۔ پھر اس نے نصیر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اچھا کیا حاجی صاحب کی لاش اب بھی وہیں پر ہے۔۔؟؟ نصیر نے کہا لگتا تو ایسے ہی ہے لیکن میں وہاں نہیں جاؤں گا کبھی نہیں جاؤں گا۔۔۔
یہ کہتے ہوئے نصیر خوف سے لرزنے لگا۔ یہ دیکھ کر شمشاد نے کہا اچھا ٹھیک ہے لیکن ہمیں کچھ تو کرنا چاہیئے آخر کار ہم حاجی صاحب کی لاش کو ایسے کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔۔؟؟ نصیر نے کہا آپ نے جو کرنا ہے کریں لیکن اب مجھ سے کسی طرح کی مدد کی امید مت کیجئے گا کیونکہ میری حالت بہت خراب ہو رہی ہے بس آپ مجھے میرے گھر تک چھوڑ دیں کیونکہ میں اکیلا نہیں جانا چاہتا۔۔ وہ کبھی بھی میرے پیچھے آسکتی ہے ۔ یہ کہتے ہوئے نصیر پوری طرح پسینے سے بھیگ رہا تھا۔ شمشاد نے کہا اچھا تم یہ بتاؤ کہ اس بارے میں تم نے کسی اور سے بھی بات کی ہے۔۔؟؟ نصیر نے کہا ارے نہیں شمشاد بھائی میں نے بتایا نا۔۔۔ وہ میرے پیچھے تھی تو میں ڈر کر سیدھا آپ کے پاس ہی آیا تھا۔ یہ سن کر شمشاد نے کہا اچھا نصیر بھائی اب تم میری بات غور سے سنو تم نے یہ بات کسی سے نہیں کرنی جب تک میں نہ کہوں۔۔ نصیر نے کہا لیکن کیوں۔۔۔ شمشاد بھائی۔۔۔؟؟ شمشاد نے کہا یار تم سمجھ نہیں رہے اگر تم کسی سے یہ بات کرو گے تو لوگ مجھے ہی برا بھلا بولیں گے۔
کیونکہ اس بکری کو میں ہی یہاں لے کر آیا تھا۔ اور حاجی صاحب نے مجھے بتایا تھا کہ وہ کوئی بکری نہیں بلکہ کوئی شیطانی چیز ہے جو کہ بہت خطرناک ہے پھر شمشاد نے نصیر کو اس بکری کے بارے میں سب کچھ بتایا اور جو حاجی صاحب نے کہا وہ بھی بتایا تو۔۔ یہ سنتے ہی نصیر نے کہا کیا۔۔۔؟؟ وہ بکری۔۔۔۔۔۔ اس کا مطلب جس عورت نے حاجی صاحب کو مارا وہی بکری بن کر تمہارے گھر میں تھی۔۔ ۔۔؟؟ شمشاد نے کہا ہاں شاید۔۔۔ اور حاجی صاحب تو یہ بھی کہہ رہے تھے کہ میری والدہ کو بھی اسی شیطانی چیز نے ہی مارا ہے۔۔ نصیر نے کہا شمشاد بھائی تو اب آپ کیا کریں گے۔۔۔؟؟ شمشاد نے کہا ہتا نہیں لیکن سب سے پہلے ہمیں حاجی صاحب کے گھر والوں کو ان کے بارے میں بتانا ہو گا تاک وہ وہاں جا کر حاجی صاحب کی لاش کو لے آئیں۔
0 تبصرے