خوفناک مسکن - پہلا حصہ

urdu horror stories

وہ اس گلی کا آخری مکان تھا ۔
گلی بند تھی اور پیچھے قبرستان تھا۔ مکان شرخ اینٹوں سے بنا تھا۔ دیواریں پلستر سے محروم تھیں۔ جگہ جگہ سے ٹیپ اکھڑی ہوئی تھی۔ اینٹیں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں۔ لکڑی کا دروازہ تھا۔ لکڑی بوسیدہ ہو چکی تھی۔ دوپٹ کے اس دروازے پر بھی کوئی تالا نہیں لگتا تھا۔ تالا لگتا کیسے، کوئی کنڈی نہ تھی۔ دروازے کے آگے نہ پیچھے۔ ضرورت کے وقت کواڑوں کے پیچھے ایک بھاری پتھر رکھ دیا جاتا ورنہ دروازہ کھلا رہتا۔ جو اس گھر میں رہائش پذیر تھا، اسے اس بات کی قطعاً پرواہ نہیں تھی کہ دروازہ کھلا ہے یا بند ۔

اس پرانے مکان میں ایک اسی سالہ بڑھیا رہتی تھی۔ جھریوں بھرا سانولا چہرہ، درمیانہ قد، دبلی پتلی، سیدھی کمر، سفید سیاہی ماٸل بال، منہ میں پورے دانت، کالی گہری آنکھیں، آنکھوں میں ایک خاص شیطانی چمک، چست اور مستعد۔ وہ کسی صورت اسی کی نہ لگتی تھی۔

دو کمروں کے اس گھر میں وہ تنہا رہتی تھی۔ گھر میں داخل ہوتے ہی سیدھے ہاتھ کو باورچی خانہ تھا اور بائیں ہاتھ کو کمروں کا دروازہ تھا۔ بڑا صحن تھا اور صحن کے آخر میں غسل خانہ تھا اور اس کے ساتھ بیت الخلا۔ کمرے کے دروازے کے بائیں جانب نلکا لگا تھا۔ اس نلکے کے گرد چار انچ کی چھ فٹ اونچی منڈیر تھی۔ نل کے نیچے اسٹیل کی ٹوٹی پھوٹی اور آدھی بھری ہوئی ہائی میں اسٹیل کا ڈونگا پڑا تھا۔
صحن میں ایک نیم کا درخت جھکا ہوا تھا۔ اس درخت کی جڑیں اگرچہ قبرستان کی طرف تھیں لیکن تنے کا اوپری حصہ دیوار میں چنا ہوا تھا۔ یہ ایک بڑا درخت تھا جو آدھا اس گھر کے صحن اور آدھا قبرستان کی طرف سایہ کئے ہوئے تھا۔ اینٹوں کی اونچی دیوار کے اس طرف سے چرسی قسم کے مردوں کے بولنے کی آوازیں آتی تھیں۔

اس اسی سالہ بڑھیا کے بارے میں محلے میں عجیب و غریب کہانیاں گردش میں تھیں۔ خالہ صابرہ کا خیال تھا کہ مائی پنکھی بنجارن ہے۔ یہ کسی شہری بابو کے عشق میں مبتلا ہو کر اپنا قبیلہ چھوڑ آئی، بعد میں وہ شہری بابو بھی اسے چھوڑ کر چلا گیا۔
پنواڑی شوکت، ماٸی پنکھی کا تعلق کلکتہ سےجوڑتا تھا۔ تھیٹر میں کام کرتی تھی۔ گردش زمانہ نے اسے لاہور پہنچا دیا۔

ناٸی مشتاق کاخیال تھا کہ یہ بنگالن ضرور ہے لیکن اس کا تعلق شاہی محلے سے تھا۔ اپنے وقت کی بہترین رقاصہ تھی۔ پھر وقت نے اسے کنارے لگا دیا۔
کسی کا خیال تھا کہ یہ جادوگرنی ہے۔
مائی پنکھی کے گھر کے سامنے ایک جھونپڑی پڑی تھی۔ اس جھونپڑی کے باہر کھری چارپائی پر ایک سیاہ فام بڈھا منہ میں حقے کی لے دبائے ہر وقت ”کھوں کھوں“ کرتا رہتا تھا۔ اس بڈھے کی ایک جوان بینی اس کے ساتھ رہتی تھی جو گھروں میں کام کرتی تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ بڈھا دراصل مائی پنکھی کا شوہر ہے لیکن اب دونوں اس طرح الگ ہوٸے ہیں جیسے ایک دوسرے کو جانتے ہی نہیں۔
اصل میں مائی پنکھی کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہ تھا۔ محض قصے کہانیاں تھیں، قیاس آرائیاں تھیں۔ یہ قصے اس لئے پھیلے تھے کہ مائی پنکھی کا محلے میں آنا جانا تو دور گلی کے لوگوں سے بھی کوئی واسطہ نہ تھا۔ وہ کسی سے تعلق نہ رکھتی تھی۔ شروع میں گلی کے کچھ لوگوں نے یہ سوچ کر کہ ماٸی پنکھی گھر میں تنہا رہتی ھے ، بڑھیا ھے اسے کھانا دینے کی کوشش کی تو اس نے یہ کہہ کر کھانا لوٹا دیا کہ وہ مرچیں نہیں کھاتی۔ کسی نے شیرینی دینے کی کوشش کی تو پھر یہی جواب ملا کہ وہ میٹھا نہیں کھاتی۔

جب صابرہ خالہ نے سنا تو غصے میں کہا۔۔ اس منحوس کو تو زہر دو، وہ خوشی سے کھالے گی ۔۔
یہ بات اگرچہ طنزاً کہی گئی تھی لیکن حقیقت یہی تھی کہ مائی پنکھی کو زہر دیا جاتا تو اس کی صحت پر کوئی اثر نہ پڑتا۔ سنکھیا تو وہ روز کھاتی تھی۔
مائی پنکھی ہمیشہ سیاہ لباس میں رہتی تھی۔ وہ لہنگا اور کرتی پہنتی تھی۔ آنکھیں ہر وقت کاجل سے بھری ہوتیں، گلے میں سیاہ ڈوری میں بندھا جاندی کا ایک تعویذ لٹکا رہتا۔ اس تعویذ کو وہ کبھی گلے سے نہیں اتارتی تھی۔
پتا نہیں پنکھی کس نے اس کا نام رکھا تھا۔ وہ تیز ضرور چلتی تھی لیکن اس کے پنکھ نہیں لگے ہوئے تھے کہ وہ اُڑتی ہوئی محسوس ہوتی ۔ پھر جوانی میں تو ویسے ہی پنکھ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جوانی بذات خود پنکھ ہوتی ہے۔ بندہ ہر وقت اڑان بھرتا رہتا ہے۔ مائی پنکھی کی جوانی یقینا قیامت خیز رہی ہوگی۔ کسی کو اس کا نام پنکھی رکھنے کی بھلا کیا ضرورت تھی۔
ابھی صبح ہوئی تھی۔ نیم کی خزاں رسیدہ پتیاں صحن کے اینٹوں کے فرش پر پھیلی ہوئی تھی۔ نیم کے درخت پر کوؤں اور چڑیوں کی کاٸیں کائیں اور چہچہانے کی مشترکہ آواز آتی تھی۔ کچھ کوے دیوار کی منڈیر پر ادھر سے اُدھر پھدکتے پھر رہے تھے۔
ایک سفید بلی اچانک دیوار پر نمودار ہوئی۔ بلی کو دیکھتے ہی کوؤں نے اڑنے کی کوشش کی لیکن جان بچا کر اڑتے ہوئے ایک کوے کو سفید بلی نے اپنے منہ میں دبوچ لیا اور وہاں سے باورچی خانے کی چھت پر زقند لگائی اور پھر صحن میں کود گئی۔
ماٸی پنکھی چولہے کے سامنے پیڑھی پر بیٹھی تھی۔ چولہے میں لکڑیاں جل رہی تھیں اور ایک مٹی کی بڑی ھنڈیا شعلوں پر رکھی تھی۔ ہنڈیا میں سیاہ محلول اہل رہا تھا۔ ماٸی پنکھی نے بلی کو دیکھا جو باورچی خانے میں داخل ہو رہی تھی۔
انجو تو آ گئی ۔۔۔ مائی پنکھی نے اس کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
بلی کیا جواب دیتی ؟ اس کے منہ میں پھڑپھڑاتا کوا تھا۔ ماٸی پنکھی نے اس کوے کو بلی کے منہ سے جھپٹ لیا اور کاٸیں کاٸیں کرتے زندہ کوے کو ابلتے سیاہ محلول میں جھونک کر مٹی کا ڈھکن ڈھک دیا اور اس ڈھکن پر وزنی اینٹ رکھ دی۔ چند لمحے تو کوے کی آواز اور پھڑپھڑاہٹ سنائی دی۔ اس کے بعد گہری خاموشی چھا گئی۔ سفید بلی باورچی خانے کی دہلیز پر لیٹ گئی تھی۔ یوں تو اس بلی کا جسم سفید تھا لیکن منہ کالا تھا۔ دونوں کان سیاہ تھے۔ پونچھ اور پنجے کالے تھے۔ آنکھیں گہری سرخ تھیں، وہ عجیب بلی تھی۔ اسے دیکھ کر خوف اور پیار بیک وقت آتا تھا۔
دس منٹ تک ہنڈیا چولہے پر چڑھی رہی ۔ مائی پنکھی لکڑیاں اوپر نیچے کر کے چولہے کی آنچ تیز کرتی رہی۔ اس کے بعد اس نے ڈھکن کے اوپر سے اینٹ اٹھا کر ہنڈیا کے پیچھے کھڑی کی اور جلتی ہنڈیا بغیر کسی کپڑے کے اپنے ہاتھوں سے نیچے اتاری۔ ہنڈیا سامنے رکھ کر ڈھکن اٹھایا۔ یکدم بھاپ اور شدید بدبو کا بھبکا نکلا۔ مائی پنکھی کے چہرے پر اطمینان پھیل گیا۔ اس نے مسکرا کر گہری نظروں سے کالے منہ کی سفید بلی کو دیکھا۔ بلی اس کا اشارہ سمجھتے ہوئے دروازے سے اٹھی۔ اس نے اپنے اگلے پاؤں پھیلا کر انگڑائی سی لی اور باورچی خانے سے نکل گئی۔
مائی پنکھی نے کھولتے سیاہ محلول میں ہاتھ ڈال کر کوے کو پکڑ کر نکالا۔ چند لمحے اس نے اسے ہنڈیا کے اوپر پکڑ کر رکھا۔ جب محلول ٹپکنا بند ہو گیا تو وہ کوے کو ہاتھ میں پکڑے اٹھی اور باورچی خانے سے باہر آگئی۔
صحن میں کھڑے ہو کر اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور زور سے ہوئی ۔۔۔ لے بگا ۔۔
یہ کہہ کر اس نے کوے کو اوپر اچھال دیا کوا اوپر جاتے ہی گم ہو گیا۔ یوں محسوس ہوا جیسے کسی نادیدہ چیز نے اسے دبک لیا ہو۔ پھر وہ واپس باورچی خانے میں آئی۔ پورے اطمینان سے پیڑھی پر بیٹھی اور مٹی کی ھنڈیا کو کنارے سے پکڑ کر گھمایا۔ جب اس کے اندازے کے مطابق نیچے بیٹھی ہوئی چیزیں محلول میں مل گئیں تو اس نے ہنڈیا منہ سے لگا لی۔
یہ ٹھیک ہے ۔۔
محلول ابل نہیں رہا تھا لیکن اتنا گرم ضرور تھا کہ کوئی انسان اسے ٹھنڈے پانی کی طرح نہیں پی سکتا تھا۔ لیکن مائی پنکھی بلاتکف ایک ہی سانس میں سارا غٹاغٹ پی گئی۔
کوے کی یخنی پیتے ہی مائی پنکھی کی کیفیت بدلنے لگی۔ اس نے پیڑھی کھسکا کر دیوار سے ٹیک لگائی اور آنکھیں موند لیں۔ اس پر نشے کی سی کیفیت طاری ہونے لگی تھی اور سانولے چہرے پر سرخی چھانے لگی تھی۔
میاؤں ۔۔۔ یکدم آواز سنائی دی تو مائی پنکھی نے اپنی آنکھیں کھولیں۔ اس کی آنکھیں انتہائی سرخ ہو چکی تھیں، جیسے آنکھوں کی رگیں پھٹ گئی ہوں۔ ہلی باورچی خانے کے دروازے پر کھڑی تھی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو اپنی سرخ آنکھوں سے دیکھا۔
انجو ۔۔ تو کمرے میں جا ۔۔ مجھے پریشان مت کر ۔۔ میں سووں گی ۔۔۔ مائی پنکھی نے پیڑھی سے اٹھتے ہوئے کہا اور یہ انتظار کئے بغیر کہ سفید بلی کمرے میں جاتی ہے کہ نہیں۔ وہ باورچی خانے سے نکل آئی اور صحن میں پڑی چار پائی پر لیٹ گئی۔ اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا اور چند لمحوں میں ہی خراٹے لینے لگی۔
وہ دوپہر تک اسی طرح بےسدھ پڑی رہی۔ صحن میں دھوپ بھر چکی تھی۔ ماٸی پنکھی کی چارپائی سائے میں تھی۔ نیم کی زرد پتیاں اس کے اوپر پڑی ہوئی تھیں۔ سفید بلی کئی بار کمرے سے نکل کر آئی تھی اور اسے سوتا پا کر واپس چلی گئی تھی۔
چند لمحوں قبل وہ پھر آئی۔ اسے بدستور سوتا پا کر اس کا جی چاہا کہ وہ چھلانگ لگا کر چارپائی پر چڑھ جائے لیکن ہمت نہ کر پائی۔ وہ کمرے کے دروازے پر پاؤں پھیلا کر بیٹھ گٸی اور اپنی سرخ آنکھوں سے مائی پنکھی کو دیکھنے لگی۔
تب اچانک بڑھیا کے مردہ بدن میں حرکت ہوئی اور وہ اس طرح اٹھ کر بیٹھ گٸی جیسے وہ سوئی ہی نہیں تھی۔ اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ جھریاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ مائی پنکھی اس وقت اپنے چہرے مہرے سے پچاس سال سے زیادہ کی نہ لگ رہی تھی۔
سفید بلی نے اسے اٹھتے دیکھ کر چھلانگ لگائی اور اس کے پیروں سے لپٹنے لگی۔ کچھ دیر اپنا جسم رگڑنے کے بعد منہ اٹھا کر مائی پنکھی کی جانب دیکھا اور التجا بھری آواز نکالی ۔۔ میاوں ۔۔
اچھا جا ۔۔ اندر جا ۔۔۔ مائی پنکھی نے اس کی التجا کو سمجھتے ہوئے کہا۔
سفید بلی تیزی سے دوڑتی ہوئی اندر کمرے میں چلی گئی۔ اس کے اندر جانے کے بعد مائی پنکھی نلکے کے نزدیک آئی۔ پانی میں پڑے ڈونگے میں پانی بھر کر اپنے منہ پر چھپاکے مارے اور چہرے سے پانی صاف کرتی ہوئی کمرے کے دروازے میں داخل ہو گئی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے