سفید بلی تیزی سے دوڑتی ہوئی اندر کمرے میں چلی گئی۔ اس کے اندر جانے کے بعد مائی پنکھی نلکے کے نزدیک آئی۔ پانی میں پڑے ڈونگے میں پانی بھر کر اپنے منہ پر چھپاکے مارے اور چہرے سے پانی صاف کرتی ہوئی کمرے کے دروازے میں داخل ہو گئی۔
پانچ منٹ کے بعد جب وہ کمرے سے نکلی تو اس کے چہرے کی سرخی غائب ہو چکی تھی۔ جھریاں نمودار ہو گئی تھیں اور چال میں وہ ممکنت نہ رہی تھی جو کمرے میں جانے سے قبل تھی۔ وہ کسی ایسے مرحلے سے گزری تھی جس نے اس کے چہرے کی سرخی چھین لی تھی۔ مائی پنکھی صحن میں پڑی چارپائی پر پاوں لٹکا کر بیٹھ گٸی اور کمرے کے دروازے کی طرف دیکھنے لگی۔
کچھ وقت گزرا کہ سفید ساڑھی اور کالے بلاوز میں ملبوس سانولی سلونی انتہاٸی پرکشش لڑکی کمرے سے برآمد ہوئی۔ اس کے گھنے، لمبے سیدھے اور کھلے بال سینے پر پڑے تھے۔ چہرے پر ایک حزین کی کیفیت تھی اور کالی حسین آنکھیں کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوٸی تھیں۔ وہ سیدھی ماٸی پنکھی کی جانب آٸی اور اس کے قدموں میں بیٹھ گئی۔
مائی پنکھی نے اس کے اس طرح اینٹوں کے فرش پر قدموں میں بیٹھنے کا کوئی نوٹس نہ لیا، کوئی رد عمل ظاہر نہ کیا۔ وہ جس طرح بیٹھی تھی، آرام سے بیٹھی رہی۔ اس لڑکی نے مائی پنکھی کی دہلی پتلی ٹانگ اپنی طرف کھینچی اور سر جھکا کر دونوں ہاتھوں سے دبانے لگی۔
ٹانگ دباتے دباتے اس نے اچانک اپنا سر اٹھایا، مائی پنکھی کی آنکھوں میں دیکھا اور دھیرے سے بولی۔
" اماں میں کون ہوں؟"
تجھے تیرا نام بتاؤں یا اوقات ؟ ۔۔۔ مائی پنکھی نے نرم لہجے میں کہا۔
اماں ۔۔ نام تو مجھے معلوم ہے۔ میرا نام انارہ ھے تو مجھے انجو کہتی ہے۔ آج مجھے میری اوقات بتا دے؟ ۔۔۔ انارہ نے اس کے گھٹنے پر پیشانی لگاتے ہوئے پوچھا۔ اس انداز میں ایک خاص تڑپ تھی۔
تو جنم جلی ہے ۔۔۔۔ مائی پنکھی نے غیر جذباتی لہجے میں کہا۔
جنم جلی ۔۔۔۔ انارہ کی آنکھوں میں بے شمار سوالات تھے۔
ہاں ۔۔ ابھاگن ہے ۔۔ یوں سمجھ لے ۔۔۔ مائی پنکھی نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
مجھے کس نے ابھاگن بنایا ہے ؟ ۔۔۔ انارہ پوچھے بنا نہ رہ سکی۔
تیرے بھاگیہ نے ۔۔ میں نے تو تجھے ان حالوں نہیں پہنچایا ۔۔۔ مائی پنکھی نے اپنا دامن بچایا۔
اماں ۔۔ میں تیری قید میں ہوں۔ تو یہ بات اچھی طرح جانتی ہے ۔۔۔ انارہ نے مائی پنکھی کا دامن الجھایا۔
تو میری قید میں نہیں ، اپنے کرموں کی قید میں ہے ۔۔۔ مائی پنکھی نے پھر اپنی جان چھڑائی۔
چل آج پھر میرے کرم ہی بتا دے۔ مجھے اپنے بارے میں کچھ تو معلوم ہو ۔۔۔ انارہ نے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔
اری ۔۔ میں تیرے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ میرے متھے نہ لگ ۔۔۔۔ مائی پنکھی کے لہجے میں اچانک تلخی در آئی۔
اماں ۔۔ میں جانتی ہوں کہ تو میرے بارے میں بہت کچھ جانتی ہے۔ اماں ۔۔ میری پیاری اماں ۔۔ مجھ پر میری زندگی کے راز کھول دے ۔۔۔ انارہ نے اس کے دونوں پاؤں پکڑ لئے۔
انجو مجھے تنگ نہ کر ۔۔۔ مائی پنکھی نے قدرے بےزاری سے کہا۔
اماں میں تجھے تنگ نہیں کر رہی۔ تیری ٹانگ دبا رہی ہوں ۔۔۔ انارہ نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
انجو انتظار کر ۔۔۔ مائی پنکھی نے اسے ٹالنا چاہا۔
کس کا انتظار کروں اور کب تک کروں؟ ۔۔۔ انارہ ٹلنے کے لئے تیار نہ تھی۔
وہ آئے گا ۔۔ ضرور آئے گا ۔۔۔ مائی پنکھی نے آسرا دیا۔
وہ آ کر کیا کرے گا ؟ ۔۔۔ انارہ نے پوچھا۔
وہ آکر تیرے بھاگ جگائے گا ۔۔۔ مائی پنکھی نے راز کھولا۔
میرے بھاگ جگائے گا ۔۔ مجھ ابھاگن کے ۔۔۔ انارہ نے بےیقینی سے کہا۔
ہاں انجو ۔۔ ایسا ہو گا اور ضرور ہو گا ۔۔۔ مائی پنکھی یقین سے بولی۔
آخر کب ایسا ہوگا؟ ۔۔۔ نارہ پریشان تھی۔
جب میں نہ رہوں گی ۔۔۔ مائی پنکھی نے اس کے سر پر اپنا سوکھا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
انارہ کو یوں لگا جیسے کوئی وزنی چیز اس کے سر پر رکھ دی گئی ہو۔ اس نے گھبرا کر اپنا سر نیچے کیا اور بولی ۔
اماں ۔۔ میرے سر سے اپنا ہاتھ ہٹا ۔
اری ۔۔ تجھ سے میرا ہاتھ برداشت نہیں ہوتا تو زندگی کا بوجھ کیسے اٹھائے گی؟ ۔۔۔ مائی پنکھی نے اپنا ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا۔
اماں تو اتنی سوکھی سڑی سی ہے، پھر تیرا ہاتھ اتنا وزنی کیوں ہے۔ ہاتھ ہے کہ وزنی پتھر ۔۔۔ انارہ نے مائی پنکھی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
مائی پنکھی نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ بس بےتاثر انداز میں اسے دیکھتی رہی۔
اماں آخر تو چیز کیا ہے ؟ ۔۔۔ انارہ نے اسے چھیڑا۔
کبھی تو اپنے بارے میں پوچھتی ہے کہ تو کون ہے اور کبھی میرے بارے میں پوچھتی ہے کہ میں کون ہوں۔ آخر تو انتا بولتی کیوں ہے؟ ۔۔۔ مائی پنکھی نے اسے گھور کر دیکھا۔
اب بولوں بھی نا ۔۔۔ انارہ تنک کر بولی ۔۔ تھوڑا سا وقت ملتا ہے بولنے کا ۔ ورنہ تو تیری ہی سنتی رہتی ہوں ۔۔
اچھا اب تو اندر جا ۔۔ مجھے دھڑکا لگا رہتا ہے۔ کسی نے تجھے دیکھ لیا تو فساد پھیل جائے گا ۔۔۔ مائی پنکھی سنجیدگی سے بولی۔
ٹھیک ہے اماں میں جاتی ہوں ۔۔۔ وہ اٹھتے ہوئے بولی۔
مائی پنکھی اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہی اور سوچتی رہی کہ یہ قیامت خیز حسن کس پر قیامت ڈھائے گا۔
علی نثار نے گھر سے جاتے ہوئے جو بات کہی تھی۔ اس نے نازنین کو فکر مند کر دیا تھا۔ وہ عابر پر ناراض تو ہوتے رہتے تھے لیکن انہوں نے گھر چھوڑنے کی بات کبھی نہیں کی تھی۔ وہ صبر و تحمل کے آدمی تھے۔ وہ عابر سے براہ راست کم بات کرتے تھے، جو کہنا سنتا ہوتا اپنی بیوی نازنین سے کہہ دیا کرتے تھے یا کبھی ان کی بڑی بیٹی صائمہ میکے آ جاتی اور اس کے سامنے عابر کا ذکر آ جاتا تو وہ اسے عابر کو سمجھانے کی تلقین کر دیتے۔
ان کی دو بی اولاد تھیں۔ صائمہ اور عابر ۔۔
صائمہ شادی شدہ تھی۔ دو بچوں کی ماں تھی اور اپنے گھر میں خوش تھی۔ عابر، صائمہ سے دو سال چھوٹا تھا۔ وہ ایک سست الوجود لڑکا تھا۔ بی کام تھا لیکن یہ بی کام اس نے رو رو کر پانچ سال میں کیا تھا۔ اس کے دو ہی شوق تھے، کھانا اور سونا۔ کھانے پر آتا تو کھاتا چلا جاتا حتی کہ نازنین کو ٹوکنا پڑتا۔
بس کر بیٹا ۔۔ تم چار روٹی کھا چکے ہو، یہ پانچویں چل رہی ہے ۔۔
امی کھانے دیں نا ۔۔ آپ ٹوکتی بہت ہیں ۔۔۔ وہ دھیرے سے احتجاج کرتا۔
علی نثار اگر ساتھ کھانا کھا رہے ہوتے تو اپنی بیوی کی طرف ترچھی نظروں سے دیکھتے اور دھیرے سے تہیہ کرتے ۔۔ کھانے دو نازنین، کیوں ٹوکتی ہو ۔۔
بہت زیادہ کھانا اچھا نہیں ہوتا۔ آپ کو معلوم نہیں، ابھی اس نے ایک پلیٹ چاول بھی کھاٸے ہیں ۔۔۔ نازنین بیٹے کی پول کھولتیں تو وہ چپ ہو جاتے۔
کھانے سے فارغ ہو کر وہ اپنے کمرے کا رخ کرتا اور کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ جاتا۔ پھر موبائل کان سے لگا ہوتا۔ میسیج چل رہے ہوتے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کمپیوٹر پر کیا دیکھتا ہے اور موبائل پر کس سے بات کرتا ہے۔ کس قسم کے پیغامات آتے جاتے ہیں۔ اس شغل میں دو تین بج جاتے۔ جب وہ تھک کر بیڈ پر اوندھا لیٹتا اور سو جاتا۔
دوپہر کو دو تین بجے تک اٹھتا۔ نازنین اسے اٹھا اٹھا کر تھک جاتیں۔ وہ ٹس سے مس نہ ہوتا ۔ نازنین گھر کے کام نمٹاتی رہتیں۔ باہر سے سودا بھی لے آتیں۔ دو ڈھائی بجے کے قریب ماسی آ جاتی ۔ اب نازنین کا پارہ ہائی ہو جاتا۔
عابر تو اٹھتا ہے یا فون کروں تیرے باپ کو ۔۔۔ نازنین غصے سے چیختیں ۔۔ جس دن انہیں پتا لگ گیا کہ تو دوپہر تک پڑا سوتا رہتا ہے، اس دن تیری شامت آ جائے گی ۔۔
امی کیا ہے ۔۔ سونے بھی نہیں دیتیں ۔۔۔ وہ سر جھٹک کر اٹھتا اور واش روم میں گھس جاتا۔ واش روم سے اسے عشق تھا۔ وہاں سے آدھ گھنٹے سے پہلے نہ نکلتا۔ ماسی واش روم دھونے کے انتظار میں کھڑی ہوتی اور اندر سے پانی گرنے کی آواز آ رہی ہوتی۔ نازنین دروازہ پیٹ پیٹ کر اسے باہر نکالتیں۔
ابھی ناشتا چل رہا ہوتا کہ موبائل پر پیغام موصول ہوتا ۔۔ میں باہر کھڑا ہوں، جلدی آ ۔۔
یہ پیغام ملتے ہی عابر کے جسم میں کرنٹ سا دوڑ جاتا۔ ناشتے میں تیزی آ جاتی۔
کیا ہوا تمہیں ۔۔ ناشتا تو آرام سے کرو ۔۔
امی آرام سے ہی کر رہا ہوں اور کیسے کروں؟ ۔۔۔ عابر کہتا۔
یہ یتاؤ ۔۔ کیا میسیج آیا ہے؟ ۔۔۔ نازنین اسے گھور کر دیکھتیں۔
اوئے ۔۔ آج کے عہد کی امیاں ہوتی ہیں بڑی تیز ۔۔۔ وہ مسکرا کر نازنین کو دیکھتا۔ جلدی جلدی چائے کے گھونٹ بھرتا اور یہ جا وہ جا۔
علی نثار کا خیال تھا کہ نازنین کے لاڈ پیار نے عابر کو پٹڑی سے اتارا ہے لیکن ایسا نہ تھا۔ ٹھیک ہے کہ اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے نازنین اسے کچھ رعایتی نمبر دے دیا کرتی تھیں، ساتھ ہی فکر مند بھی رہتی تھیں۔ وہ چھبیس سال کا ہو گیا تھا لیکن اسے اپنے مستقبل کی قطعا فکر نہ تھی۔ کیا کرنا ہے، کیسے کرنا ہے۔ وہ اس موضوع پر بات ہی نہ کرتا تھا۔
عابر تم کچھ کرتے کیوں نہیں؟ ۔۔۔ نازنین اکثر اسے گھیر کر بیٹھ جاتیں۔
امی ۔۔ بی کام کر تو لیا اور کیا کروں
نوکری کرو تاکہ تمہاری شادی ہو ۔۔ نازنین سمجھاتیں ۔۔ تم جیسے نکھٹو کو تو کوئی اپنی بیٹی دینے سے رہا ۔۔۔ تنازنین اسے لائن پر لانے کی کوشش کرتیں۔
امی ۔۔ مجھے نہیں کرنی شادی وادی ۔۔۔ وہ دو ٹوک جواب دیتا۔
تو پھر کیا اسی طرح ساری زندگی ڈنڈے بجاتا رہے گا ۔
امی نوکری ملے تو کروں؟
تمہیں سونے اور دوستوں سے فرصت ملے تو نوکری ڈھونڈو۔ دیکھو بیٹا، کچھ اپنے باپ کا خیال کرو۔ آخر وہ کب تک نوکری کریں گے۔ وہ تمہاری وجہ سے سخت پریشان رہتے ہیں ۔۔۔ نازنین ایک طرف عابر کوڈانٹ ڈپٹ کرتیں تو دوسری طرف علی نثار کوبھی چابی لگاتیں۔
کبھی عابر سے بھی پوچھ لیا کریں کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ میں اس کی طرف سے سخت پریشان رہتی ہوں۔ اس لڑکے کو اپنی کوئی فکر ہی نہیں۔ وہ آپ کا بیٹا تو لگتا ہی نہیں ۔
بتاؤ ۔۔ میں کیا کروں؟ ۔۔۔ علی نثار پوچھتے۔
اسے پاس بٹھا کر پوچھیں ۔ آخر وہ چاہتا کیا ہے؟ ۔۔
علی نثار اپنے بیٹے عابر سے بہت کم بات کرتے تھے۔ دونوں کے درمیان تکلف کی دیوار حائل تھی۔ جب نازنین ڈانٹ ڈپٹ پر اصرار کرتیں اور صائمہ بھی ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگتی تو وہ عابر کولے کر بیٹھ جاتے ۔ اسے دنیا کی اونچ نیچ سمجھاتے۔ زندگی گزارنے کے طریقے بتاتے تو عابر جواب میں ”جی ابو۔۔جی ابو“ کئے جاتا۔ جیسے صبح اٹھتے ہی پہلا کام یہ کرے گا کہ نوکری ڈھونڈنے نکل جائے گا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ وہ باپ کی نصیحت سن کر صبح صبح گھر سے نکل جاتا ۔
سب سمجھتے لو جی آج عابر صاحب نوکری ڈھونڈ کر ہی واپس آئیں گے۔ جب وہ گھر واپس آتے تو پتا چلتا وہ صبح صبح دوستوں کے ساتھ پکنک پر نکلے تھے۔
ایک دن صائمہ کے ہاتھ عابر کا موبائل لگ گیا۔ اس نے سارے مسیج پڑھ لئے۔ ان پیغامات میں ایک پیغام ایسا تھا کہ وہ اسے پڑھ کر پریشان ہو گئی۔
چھٹی کا دن تھا۔ علی نثار گھر پر موجود تھے۔ عابر کہیں باہر نکلا ہوا تھا۔ وہ گھر سے عجلت میں نکلا تھا۔ شاید اسی وجہ سے اپنا موباٸل گھر بھول گیا تھا۔ صائمہ نے ایسے ہی موبائل میں موجود پیغامات پڑھنے شروع کر دیے تھے۔
ہر طرح کے پیغامات تھے۔ ان میں چند فحش بھی تھے۔ ان میں ایک میسیج اتنا تکلیف دہ تھا کہ وہ سن ہو کر رہ گئی۔ وہ میسیج فحش نہ تھا۔ فحش ہوتا تو شاید وہ اس قدر پریشان نہ ہوتی۔ صائمہ نے پہلے سوچا کہ نازنین کو دکھائے لیکن نازنین کو دکھانے میں کوٸی فاٸیدہ نظر نہ آیا۔ وہ اس سلسلے میں کوئی خاص قدم اٹھانے کی پوزیشن میں نہ تھیں۔ یہ بھی ممکن تھا کہ وہ اس پیغام کو غیر اہم جان کر نظر انداز کر جاتیں۔ بہتر یہی تھا کہ علی نثار سے بات کی جاتی۔
صائمہ نے عابر کا موبائل باپ کے ہاتھ میں دینے کے بجائے وہ میسیج اپنے موبائل پر متقل کیا اور باپ کے پاس پہنچ گئی۔
اہو ۔۔ مجھے آپ سے کچھ بات کرنا تھی ۔۔۔ صائمہ علی نثار کے بیڈ پر آہستگی سے بیٹھتے ہوئے بولی۔
علی نثار اخبار پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے اخبار ایک طرف رکھا اور سنبھل کر بیٹھتے ہوئے بولے ۔۔ کوئی خاص بات ؟
جی ابو میں آپ کو ایک میسج پڑھوانا چاہتی ہوں۔ یہ میں نے اپنے موبائل پر عابر کے موبائل سے منتقل کیا ہے ۔۔۔ صائمہ نے تمہید باندھی۔
عابر کا موبائل تمہارے ہاتھ کیسے لگ گیا ۔۔۔ علی نثار نے پوچھا۔
ابو اتفاق سے وہ اپنا موبائل گھر بھول گیا ہے ۔۔۔ صائمہ نے بتایا۔
اچھا لاؤ دکھاؤ کیا میسیج ہے ۔۔۔ علی نثار نے ہاتھ بڑھایا۔
جی ابو ۔۔۔ صائمہ نے اپنا موبائل علی نثار کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔۔ یہ دیکھئے ۔۔
علی نثار نے صائمہ کے ہاتھ سے موبائل لے کر چشمہ لگایا اور پیغام پڑھنے لگے۔
اوہ ۔۔۔ بے اختیار ان کے منہ سے نکلا۔
اس میسج کو پڑھ کر وہ سناٹے میں آ گئے تھے۔ یہ کسی لڑکی کی طرف سے تھا اور یہ کوئی عشق نامہ نہ تھا ۔ لکھا تھا ۔
" تم نے مجھے عاجز کر دیا ہے۔ میرے ہاتھ میں اس وقت قرآن شریف ہے۔ میں دل کی گہرائیوں سے تمہیں بددعا دیتی ہوں کہ تم مر جاؤ۔"
علی نثار نے اس میسیج کو دو بار پڑھا۔ باوجود کوشش کے جب وہ اس مسیح کی نوعیت کو نہ سمجھ پائے تو صائمہ سے گویا ہوئے ۔۔ بیٹا۔ یہ کیا ہے؟
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عابر اس لڑکی کو کال کر کے پریشان کر رہا ہے۔ یہ کوئی شریف لڑکی معلوم ہوتی ہے۔ اتنی تنگ آگئی کہ بد دعا دینے پر مجبور ہوگئی ۔۔۔۔ صائمہ نے وضاحت کرنے کی کوشش کی۔
یہ عابر کس راہ پر چل نکلا ہے ۔۔۔ علی نثار انتہائی فکرمند ہو کر بولے۔
ابو ۔۔ یہ آج کل بہت عام سی بات ہے۔ لڑکے ایک دوسرے کو لڑکیوں کے نمبر میسج کر دیتے ہیں، پھر لڑکے ان لڑکیوں کو فون کر کے تنگ کرتے ہیں۔ یہ کام لڑکے ہی نہیں لڑکیاں بھی کر رہی ہیں۔ رانگ کال کر کے لڑکوں کو چھیڑتی ہیں۔ یہ کوئی شریف لڑکی معلوم ہوتی ہے۔ اسے عابر نے فون کر کے اس قدر تنگ کیا ہے کہ وہ قرآن شریف ہاتھ میں لے کر بد دعا دے بیٹھی ھے ۔۔۔ صائمہ کے لہجے میں دکھ تھا۔
بیٹا تم اسے سمجھاؤ۔ میں تو اس بد دعا کو پڑھ کر ہل گیا ہوں ۔۔۔ علی نثار سخت پریشان تھے۔
ابو ۔۔ آپ پریشان نہ ہوں۔ میں اس سے بات کرتی ہوں ۔۔
کہیں وہ غصے میں نہ آجائے۔ تم سے الجھ بیٹھے کہ میرا موباٸل کیوں چیک کیا ۔۔۔ علی نثار بولے ۔۔ اس لڑکی سے ہمیں معافی مانگنا ہو گی۔ لاؤ، مجھے دو اس کا فون نمبر۔ میں بات کرتا ہوں۔ اس لڑکے نے ہمیں کہیں کا نہ رکھا ۔۔
ابو ۔۔ نمبر میں آپ کو لکھ کر دے دیتی ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ ابھی آپ فون نہ کریں۔ میں عابر سے کہتی ہوں کہ وہ آئندہ اس لڑکی کو نہ ستائے اور اپنے غلط رویے کی معافی مانگے ۔۔۔ صائمہ نے تجویز دی۔
ایسا ہو جائے تو بہت اچھا ہو ۔۔۔ علی نثار نے اپنی بیٹی کو سراہا۔ رات کو جب عابر گھر آیا تو سیدھا اپنے کمرے میں گیا۔ اس نے کمپیوٹر کے برابر متلاشی نظروں سے موبائل کو دیکھا۔ وہاں موبائل نہ پا کر اس کا چہرہ متغیر ہو گیا۔ وہ تیزی سے پلٹا۔ اس نے نازنین سے موبائل کے بارے میں پوچھنے کے لیے ابھی ”امی“ ہی کہا تھا کہ اس کی نظر دروازے پر کھڑی صائمہ پر پڑی۔
وہ صائمہ کو غیر متوقع طور پر اپنے کمرے کے دروازے پر دیکھ کر ٹھٹک گیا۔
صائمہ کمرے کا دروازہ بند کر کے اس کی طرف بڑھی۔
موبائل ڈھونڈ رہے ہو۔ یہ ہے تمہارا موبائل ۔ شاید بھول گئے تھے ۔۔
ہاں آپی ۔۔ جلدی میں اسے لے جانا بھول گیا لیکن یہ تمہارے ہاتھ میں کیوں ھے ۔۔ عاہر نے صائمہ کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا۔
کیا مجھے تمہیں بتانا پڑے گا کہ میں نے تمہارے موبائل کو اچھی طرح چیک کر لیا ہے۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن شکر کرو کہ اسے میں نے چیک کیا ہے۔ اگر یہ ابو کے ہتھے چڑھ جاتا تو پھر سوچو تمہارا کیا حشر ہوتا ۔۔۔ صائمہ نے اس کے گرد گھیرا ڈالا۔
مجھے یقین ہے کہ ابو میرا موبائل کبھی چیک نہ کرتے ۔۔۔ وہ یقین سے بولا ۔
تم ابو کی اصول پسندی کا کب تک ناجائز فائدہ اٹھاؤ گے؟ ۔۔۔ صائمہ نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے اس کی آنکھوں میں جھانکا ۔
یہ لڑکی کون ہے، جسے تم نے ایک گھنٹے میں سترہ کالیں کی ہیں ؟ دیکھو مجھ سے جھوٹ مت بولنا ۔۔
آپی مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون ہے۔ مجھے تو اس کا نام تک نہیں پتا ۔۔۔ عابر یکدم سیدھے راستے پر آگیا۔
کس نے دیا تمہیں اس کا نمبر ؟ صائمہ نے پوچھا۔
میرے ایک دوست نے ۔۔۔ عابر نظریں جھکا کر بولا۔
ایسے لفنگے دوستوں سے اپنی جان چھڑاؤ ۔۔۔ صائمہ نے سنجیدگی سے کہا۔۔ اگر تمہارا کوئی دوست میرا کسی کو نمبر دے دے تو ۔۔۔ صائمہ نے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا۔
ایسے ہی دے دے گا۔ اسے میں جان سے نہیں مار دوں گا ۔۔۔ عابر بپھر گیا۔
جس کو تم نے اپنے دوست کے کہنے پر ستانے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے، اس کا بھی کوئی بھائی ہوگا۔ وہ اگر تمہیں جان سے مار دے تو ۔۔ صائمہ اپنے غصے کو دہاتے ہوئے بولی۔
عابر نے کچھ بولنے کی کوشش کی لیکن بول نہیں سکا۔
مجھ سے وعدہ کرو کہ آئندہ تم اسے فون نہیں کرو گے ۔۔
ٹھیک ہے آپی ۔۔۔ عامر نے سر جھکا لیا۔
اس نے قرآن شریف ہاتھ میں لے کر تمہارے مرنے کی بسدعا کی ھے ۔ اس سے معافی مانگو۔ اس سے کہو کہ آئندہ تم اسے کبھی نہیں ستاؤ گے۔ وہ تمہیں معاف کر دے ۔۔۔ صائمہ نے ہدایت کی۔
ٹھیک ہے آپی ،،
میں باہر جا رہی ہوں۔ تم ابھی اسے فون کروں۔ معافی مانگو اور مجھے بتاؤ کہ اس نے کیا کہا ؟
اچھا آپی ۔۔۔ وہ فرمانبرداری سے بولا ۔
صائمہ نے موبائل عابر کے ہاتھ میں دیا اور کمرے سے نکل آئی۔ پانچ منٹ کے بعد ہی عابر نے اپنے کمرے کا درواز کھول کر آواز دی ۔۔ آپی ۔۔
اچھا آرہی ہوں
صائمہ کے کمرے میں آنے کے بعد عابر نے دروازو بند کر لیا اور خالی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔
ہاں کیا ہوا ؟
آپی ۔۔ میں نے اسے ستانے کی معافی مانگ لی. اور فون نہ کرنے کا وعدہ بھی کر لیا ہے ۔ عابر نے بتایا۔
کیا بولی وہ؟ صائمہ نے پوچھا۔
اس نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ مجھے برا بھلا بھی نہیں کہا۔ بس خاموش رہی ۔ عابر نے کہا۔
پھر جب ساری تفصیل صائمہ نے علی نثار کے گوش گزار کی تو وہ ٹھنڈا سانس لے کر رہ گئے۔ چند لمحوں کے توقف کے بعد بولے۔ اس کا مطلب ہے، اس لڑکی نے عابر کو معاف نہیں کیا ۔۔
ابو ۔۔ معاف کرنا آسان نہیں ہوتا۔ جب کسی کا شدت سے دل دکھے تو معاف کرنا ہڑے دل گردے کا کام ہے ۔صائمہ نے بڑی سمجھداری کی بات کی۔
اللہ رحم کرے ۔ علی نثار نے بس اتنا کہا اور پھر خاموش ہو گئے۔
صائمہ کو اس کا شوہر لینے آ گیا۔ وہ رات کا کھانا کھا کر اپنے گھر چلی گئی۔ عابر اپنے کمرے میں آ گیا ۔ اس لڑکی کو فون کرنے کے بعد وہ خاموش ہو گیا تھا۔ اس نے صائمہ کے بچوں سے بھی زیادہ بات نہیں کی جبکہ وہ ان بچوں پر اپنی جان چھڑکتا تھا۔ بچے بھی اس سے چمٹے رہتے تھے۔
صبح جب نازنین عابر کے کمرے میں گئیں تو وہ خلاف توقع جاگ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ویرانی چھائی ہوئی تھی۔ ایسی ویرانی کی نازنین اس کی شکل دیکھ کر کانپ گئیں۔
کیا ہوا بیٹا۔ خیر تو ہے۔ تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟ ۔۔
جواط میں عابر نے آنکھیں بند کر لیں ۔ کچھ بولا نہیں۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اس میں بولنے کی سکت نہ رہی ہو۔ اس کے چہرے پر ایک عجیب سی مردنی چھائی ہوئی تھی۔
نازنین نے گھبرا کر اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا۔
"کیا ہوا عابر ۔۔ آنکھیں کھولو ۔۔
پیشانی پر ہاتھ رکھتے ہی نازنین کو احساس ہوا کہ اس کی پیشانی انتہائی سرد ہے۔
"یا الله رحم " ۔۔۔ وہ تیزی سے کمرے سے باہر آئیں۔
علی نثار دفتر جانے کی تیاری میں تھے۔ نازنین کو ہراساں دیکھ کر بولے ۔۔ خیریت ؟
عابر کو دیکھیں۔ وہ ٹھنڈا ہو رہا ہے ۔ نازنین گھبرا کر بولیں۔
ٹھنڈا ہو رہا ہے؟ علی نثار تیزی سے اس کے کمرے کی طرف بھاگے۔
👇👇
0 تبصرے