عابد بے سدھ لیٹا ہوا تھا۔ آنکھیں بند تھیں۔
عابد ۔۔ عابد ۔۔۔ علی نثار نے اسے بے اختیار آواز دی ۔۔ کیا ہوا ؟ ۔۔ انہوں نے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا۔ ٹھنڈی برف ہورہی تھی۔ انہوں نے اس کے ہاتھ پاؤں چھوئے ، وہ بھی برف کی طرح ٹھنڈے ہو رہے تھے۔
عابد بیٹا آنکھیں کھولو ۔۔۔ نازنین نے اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
عابد نے اپنی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی لیکن نہ کھول پایا۔ نثار نے تھرما میٹر اپنے ہاتھ میں لے کر اسے واش روم میں دھویا اور جھٹک کر تھرما میٹر پر نظر ڈالی۔ پارہ نیچے آچکا تھا۔ انہوں نے تھرما میٹر عابر کے منہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔
منہ کھولو عابد
عابد ۔۔ عابد ۔۔۔ علی نثار نے اسے بے اختیار آواز دی ۔۔ کیا ہوا ؟ ۔۔ انہوں نے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا۔ ٹھنڈی برف ہورہی تھی۔ انہوں نے اس کے ہاتھ پاؤں چھوئے ، وہ بھی برف کی طرح ٹھنڈے ہو رہے تھے۔
عابد بیٹا آنکھیں کھولو ۔۔۔ نازنین نے اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
عابد نے اپنی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی لیکن نہ کھول پایا۔ نثار نے تھرما میٹر اپنے ہاتھ میں لے کر اسے واش روم میں دھویا اور جھٹک کر تھرما میٹر پر نظر ڈالی۔ پارہ نیچے آچکا تھا۔ انہوں نے تھرما میٹر عابر کے منہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔
منہ کھولو عابد
عابد نے فورا منہ کھول دیا۔ علی نثار نے تھرما میٹر اس کے منہ میں دیتے ہوئے گھڑی پر نظر ڈالی۔ دو منٹ کے بعد تھرما میٹر منہ سے نکال کر اس پر نظر ڈالی تو سخت پریشان ہو گئے۔
کتنا ہے؟ ۔۔۔ نازنین نے پوچھا۔
ایک سو چھ ۔۔۔ علی نثار نے بتایا۔
ایک سوچھ ۔۔۔ نازنین کانپ کر رہ گئیں۔۔ کہیں یہ تھرما میٹر خراب تو نہیں ؟ ۔۔
ہو سکتا ہے۔ جاؤ پڑوس سے لے آؤ ۔۔۔ علی نار نے کہا۔
میں لاتی ہوں ۔۔۔ نازنین فورا گھر سے نکل گئیں۔
علی نثار نے عابد کے چہرے پر نظر ڈالی۔ وہ آنکھیں بند کیے بےسدھ لیٹا تھا۔ انہوں نے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا تو عابر نے آنکھیں کھول دیں۔ اس کی آنکھیں دیکھ کر علی نثار دہل گئے۔ ویرانی سی ویرانی تھی۔ بے اختیار ان کا دھیان میسیج کی طرف چلا گیا۔ بددعا کے خیال نے انہیں تڑپا دیا۔ ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ دل سے دعا نکلی ۔۔
"یا اللہ میرے بیٹے پر رحم فرما۔ اس کی غلطی کو معاف فرما۔ اسے بددعا سے بچا۔"
وہ آنکھوں میں آنسو بھرے گڑ گڑا کر دعا مانگتے رہے۔ اتنے میں نازنین لوٹ آئیں۔ کچن میں جا کر انہوں نے تھرما میٹر دھویا اور تیزی سے علی نثار کی طرف بڑھیں۔
اتنی دیر لگا دی ۔۔۔ علی نثار نے کہا۔
کوثر تھرما میٹر ڈھونڈ رہی تھیں ۔۔۔ نازنین نے تھرما میٹر انہیں دیتے ہوئے بتایا۔
علی نثار نے گھڑی دیکھ کر عامر کے منہ میں تھرما میٹر دے دیا۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔
دیکھو کون ہے ۔۔۔ علی نثار نے کہا۔
نازنین دروازے کی طرف بڑھیں۔ علی نثار نے عابد کے منہ سے تھرما میٹر نکال کر چیک کیا تو پارہ ایک سو چھ درجے پر پہنچا ہوا تھا۔ دروازے پر شوکت بھائی تھے، ان کے پڑوسی ۔ انہوں نے نازنین کو دروازے پر دیکھ کر پوچھا۔ " کتنا ھے بخار؟ ۔۔
جی ۔۔ وہ چیک کر رہے ہیں ۔۔۔ نازنین نے کہا اور دروازہ کھول دیا۔
شوکت بھائی نے اندر آ کر پوچھا ۔۔ ہاں ، کتنا ہے بخار ۔۔
وہی ۔۔ ایک سو چھ ۔۔۔ نثار نے بتایا۔
یہ تو بہت زیادہ ہے۔ عابد کو فورا اسپتال لے جانا چاہئے ۔۔۔ شوکت بھائی فکرمند ہو کر بولے۔۔ میں ایمبولینس کال کرتا ہوں ۔۔
میرا خیال ہے کہ میں اسے گاڑی میں لے جاتا ہوں۔ ایمبولینس آنے میں جانے کتنی دیر لگے ۔۔۔ علی نثار نے اپنے پڑوسی سے کہا جو موبائل فون پر ایمبولینس کا نمبر ملانے لگے تھے ۔
عابد کی حالت ایسی نہ تھی کہ وہ اپنے قدموں پر چل کر گاڑی تک پہنچتا۔ شوکت بھائی اور علی نثار نے سہارا دے کر کسی طرح گاڑی تک پہنچایا اور وہ ایک قریبی اسپتال کی جانب روانہ ہو گئے۔
اسپتال پہنچ کر شوکت اور علی نثار نے عابر کو وہیل چیئر پر بٹھایا اور ایمرجنسی کی طرف بڑھے۔ پیچھے نازنین تھیں۔
ابھی وہ راہداری میں تھے کہ ایک انتہائی بلند آواز سنائی دی ۔۔
یا اللہ ۔۔ مجھے موت دے دے ۔۔
علی نثار نے پریشان ہو کر سامنے دیکھا۔ نازنین سہم کر علی نثار کے پیچھے ہو گئیں۔ موت مانگنے والا شخص اسٹریچر پر لیٹا تھا۔ دیکھنے میں وہ مریض نہ لگتا تھا۔ ادھیڑ عمر کا شخص ہوگا۔ وہ بلند آواز میں تسلسل کے ساتھ بددعا کیے جا رہا تھا۔
یا اللہ مجھے موت دے دے ۔۔ یا اللہ مجھے موت دے دے ۔۔
جانے وہ شخص کسی کرب میں مبتلا تھا کہ موت کی دعا مانگے جارہا تھا۔
عاہر کو ایمرجنسی میں ابتدائی معائنے کے بعد تیزی سے انتہائی نگہداشت کے کمرے میں منتقل کر دیا گیا۔ وہ تینوں باہر بیٹھ گئے۔
موت مانگنے والے شخص کو دیکھ کر علی نثار کی کیفیت عجیب سی ہو گئی تھی۔ انہوں نے کبھی کسی شخص کو اپنے حق میں بد دعا کرتے نہیں دیکھا تھا۔ موت مانگنا ایک طرح سے خود کشی کے مترادف تھا۔ اللہ سے اچھے کی امید رکھنا چاہئے۔ دعا مانگنا چاہئے۔ زندگی کی بھیک مانگنا چاہئے۔ جانے اس شخص پر کیا بیت رہی تھی۔ جانے وہ کسی اذیت میں مبتلا تھا۔ دیکھنے میں وہ اچھا خاصا تھا۔ پھر جانے وہ تڑپ تڑپ کر موت کی بھیک کیوں مانگ رہا تھا۔
سوچتے سوچتے علی نثار کا ذہن اپنے بیٹے کی طرف منتقل ہوا اور انہوں نے اس کی زندگی کے لیے دعاٸیں مانگنا شروع کر دیں۔ وہ جیسا بھی تھا، ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔ وہ اسے موت کے منہ میں جاتا نہیں دیکھ سکتے تھے۔
اس شخص کے بارے میں بعد میں معلوم ہوا کہ آدھے گھنٹے کے اندر اس کا انتقال ہو گیا تھا۔ وہ کینسر کا مریض تھا۔
عابر کے آئی سی یو میں پہنچنے کے بعد ، اس سے پہلے کہ علاج شروع ہوتا، اس کا ٹمپریچر معجزانہ طور پر نارمل ہو گیا۔ ڈاکٹروں کے لیے یہ بات حیرت کا باعث بنی کہ ایسا کیسے ہو گیا، لیکن ایسا ہو گیا تھا۔ دو تین گھنٹے اسے احتیاطاً اسپتال میں رکھا گیا، پھر چند دوائیں دے کر رخصت کر دیا گیا۔
صائمہ، عابر کے اسپتال پہنچنے کا سن کر اپنے شوہر اسلم کے ساتھ اسپتال پہنچ گئی تھی۔ وہ سب ایک ساتھ ہی اسپتال سے نکلے۔
ابھی وہ گاڑی میں بیٹھ رہے تھے کہ ایک فقیر نے علی نثار کا راستہ روک لیا۔ اس فقیر نے علی نثار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر صدا لگائی ۔۔
صدقہ دے ہاہا ۔۔ تیرے بیٹے کی جان نکل گئی ۔۔ تیری دعا کام آ گئی ۔۔ صدقہ دے بابا ۔۔
فقیر کے اس انکشاف پر علی نثار ہی نہیں ، سب حیرت زدہ رہ گئے۔ اس فقیر کو عابر کے بارے میں کیسے معلوم ہوا۔ اسے نہ صرف یہ معلوم تھا کہ عابر کی جان بچی ہے بلکہ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ علی نثار کی دعا نے عابر کی جان بچائی ہے۔ علی نثار نے اپنے بیٹے کی زندگی کے لیے اس قدر تڑپ کر دعا کی تھی، یہ بات تو علی نثار کے سوا ابھی کسی کو معلوم نہ تھی۔
علی نثار نے جیب سے ہٹوا نکال کر اس میں سے جو نوٹ پہلے ہاتھ میں آیا، وہ انہوں نے فقیر کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ وہ پانچ سو روپے کا نوٹ تھا۔ فقیر نے یہ دیکھے بغیر کہ نوٹ کتنے کا ہے، اپنی مٹھی میں دبا لیا جیسے کوئی کاغذ کا ٹکڑا ہو۔ پھر وہ گاڑی کے پچھلے دروازے کی طرف آیا۔ اس نے عابر پر نظریں جمائیں اور بےنیاز لہجے میں بولا ۔۔ تجھے دنیا ڈھونڈ رہی ہے ۔۔
اتا کہہ کر وہ سیدھا ہوا اور تیزی سے ایک طرف چلا گیا۔
علی نثار نے ایک گہرا سانس لیا ۔۔ یا الہی یہ تیرے پراسرار بندے ۔۔۔ انہوں نے اپنے دل میں دہرایا اور گاڑی اسٹارٹ کر دی۔
ابو ۔۔ یہ فقیر کیا کہہ رہا تھا؟ ۔۔۔ صائمہ نے پوچھا۔ وہ پچھلی سیٹ پر عابر کے ساتھ بیٹھی تھی۔ اس کا شوہر موٹر سائیکل پر تھا۔ وہ بچے ساس کے پاس چھوڑ آئی تھی اور شوکت بھائی عابر کی حالت سنبھلنے کا سن کر گھر چلے گئے تھے۔
پتا نہیں ۔۔ اسے کیسے معلوم ہوا سب کچھ ۔۔ مجھے تو وہ حیران کر گیا ہے ۔۔۔۔ علی نثار الجھے ہوئے تھے۔
اہو ۔۔ کیا عابر واقعی موت کے منہ میں چلا گیا تھا ۔۔
ہاں بیٹا۔ مجھے جب محسوس ہوا کہ اس کی زندگی ختم ہو رہی ہے تو میرے دل سے بےاختیار دعا نکلی اور میرے منہ سے کچھ ایسا نکل گیا جس کی مجھے توقع نہ تھی ۔۔۔ علی نثار نے بتایا۔
ابو ۔۔ آخر آپ کے منہ سے ایسا کیا نکل گیا کہ اللہ نے آپ کی دعا رد نہ کی ۔۔۔ صائمہ نے گہری دلچپسی سے پوچھا۔
علی نثار نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ خاموش ہو گئے جیسے فیصلہ کر رہے ہوں کہ بتائیں یا نہ بتائیں۔
اہو ۔۔ بتائیں نا ۔۔۔ صائمہ نے باپ کو خاموش دیکھ کر اصرار کیا۔
چھوڑو بیٹا ۔۔ اللہ کا شکر ادا کرو کہ تمہارے بھائی کو دوسری زندگی مل گئی۔ اللہ نے اسے بچا لیا ۔۔۔ علی نثار نے ممنون احسان ہوتے ہوئے کہا۔
یا اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے میرے بیٹے کی جان بچائی ۔۔۔ نازنین نے شکر گزاری کی۔
عابر خاموش بیٹھا تھا۔ اس نے فقیر کی بات سنی تھی۔ صاٸمہ اور باپ کے درمیان جو مکالمہ چل رہا تھا۔ وہ بھی اس کے کانوں میں پڑ رہا تھا۔ اس کا بخار ایک سو چھ درجے تک جا پہنچا تھا۔ اسے دوسری زندگی ملی تھی۔ گھر سے اسپتال تک اس پہ کیا گزری تھی اس کا اسے پوری طرح ادراک نہ تھا۔
ابو نے جب اس کے منہ میں تھرما میٹر لگایا تھا تو اس نے ایک نظر آنکھیں کھول کر دیکھا تھا۔ اس کے بعد اس پر غفلت طاری ہوگئی تھی۔ اسے ہوش نہیں رہا تھا۔ اسے اسپتال جا کر ہوش آیا تھا اور پھر بہت تیزی سے اس کی حالت سنبھلتی چلی گئی تھی۔
اب وہ اپنے بارے میں عجیب و غریب باتیں سن رہا تھا۔ کیا واقعی وہ موت کے منہ میں چلا گیا تھا۔ کیا واقعی اسے نئی زندگی ملی تھی۔
جی ۔۔ ابو ۔۔۔ صائمہ نے پھر علی نثار کی توجہ دعا کی طرف مبذول کروائی۔
بیٹا ۔۔ گھر چلو ۔۔ پھر اطمینان سے بتاؤں گا ۔۔۔ علی نثار نے کہا۔
صائمہ نے ضد نہ کی۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ ابو عابر کے سامنے بات کرنے سے گریز کر رہے ہیں یا پھر بتانا ہی نہیں چاہتے تھے۔ لیکن صائمہ چھوڑنے والوں میں سے نہ تھی۔ اس نے گھر پہنچتے ہی باپ کا ہاتھ پکڑا اور علی نثار کو ڈرائنگ روم میں لے آئی اور انہیں صوفے پر بٹھاتے ہوئے خود بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئی۔
ابو ۔۔ جلدی سے بتا دیں ۔۔ اس سے پہلے کہ سب لوگ ادھر آ جائیں
اچھا بتاتا ہوں ۔۔ بیٹا جب میں نے عابر کی پیشانی پر ھاتھ رکھا تو اس نے آنکھیں کھولی تھیں۔ اس کی آنکھیں دیکھ کر میرا دل بیٹھ گیا۔ اس کی آنکھوں میں انتہائی ویرانی تھی ، مردنی چھائی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھیں دیکھ کر جانے کیوں میرا دھیان اس لڑکی کی بددعا کی طرف چلا گیا۔ مجھے یوں لگا جیسے اس کی بددعا کارگر ہوگئی ہے۔ عابر بس چند لمحوں کا ہے۔
تب میں نے فورا اللہ سے رحم کی بھیک مانگی اور بددعا سے بچاؤ کی درخواست کی۔ پھر بے اختیار میرا دل چاہا کہ میں اپنی زندگی کے بدلے عابر کی زندگی مانگ لوں۔ ابھی میں یہ کہنے ہی والا تھا کہ اللہ میں زندگی کی آخری حدوں پر ہوں ۔ مجھ سے میری زندگی لے لے اور اس کے بدلے میرے بیٹے عابر کو زندگی عطا کر دے۔ پھر فورا ہی خیال آیا کہ اللہ تنگ دست تو نہیں، اس کے پاس زندگیوں کی کیا کمی ہے۔ میں اپنی موت کی دعا کیوں کروں۔ اللہ کو یہ بات بری نہ لگ جائے کہ میں نے اسے اتنا تنگ دل اور چھوٹا کیوں سمجھ لیا۔ اللہ تو سب سے بڑا ہے، وسیع القلب ہے۔ بس پھر میں نے اللہ سے رحم طلب کیا۔ عابر کی زندگی کی بھیک مانگی۔ آدھے گھنٹے کے اندر عابر کا بخار نارمل ہو گیا۔ ڈاکٹر حیران رہ گئے۔ بس اللہ یوں ہی حیران کرتا ہے۔ اللہ نے میری سن لی میری دعا قبول کر لی۔ دعا کی قبولیت کی تصدیق تو وہ فقیر بھی کر گیا ۔۔۔۔ علی نثار نے ساری بات اس تفصیل اور اس انداز سے بتائی کہ پھر کوئی سوال کرنے کی گنجائش نہ رہی۔
رات کے کھانے پر جب علی نثار، نازنین اور عابر سر جھکائے کھانے میں مصروف تھے تو علی نثار نے اپنا سر اٹھایا، ایک نظر عابر پر ڈالی۔ عابر نے نظر اٹھائی، باپ کو دیکھا اور دوبارہ کھانے میں مصروف ہو گیا۔
عابر، میری بات غور سے سنو ۔۔۔ علی نثار اچانک بولے۔
جی ابو ۔۔۔ اس نے نظریں نیچی کئے ہوئے کہا۔
تمہیں دوسری زندگی ملی ہے۔ اس زندگی کو اب سونے میں نہ گزار دینا ۔
جی اچھا ۔۔ ابو ۔۔۔ عامر نے انتہائی فرمانبرداری سے کہا، جیسے صبح اٹھتے ہی نوکری ڈھونڈنے نکل جائے گا۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ عابر کی صحت پر کوئی اثر نہ پڑا۔ سب کچھ جوں کا توں رہا۔ وہی کمپیوٹر، وہی موبائل ، وہی دوپہر تک سونا اور پھر دوستوں میں نکل جانا۔ اسے اس بات کی کوئی فکر تھی کہ بقول ابو اسے دوسری زندگی ملی ہے یا تیسری۔ اسے بس اپنا طرز زندگی پسند تھا۔
صائمہ نے وقفے وقفے سے عابر کا موبائل چیک کیا تھا۔ لیکن اس نے اس لڑکی کو پھر کال نہیں کی تھی۔ اس نے بہن سے کیا وعدہ نبھا دیا تھا۔
پھر ایک نیا گل کھلا
عابر کے ایک دوست وقار حسن کی بڑی بہن کی شادی تھی۔ شادی لان میں عابر، وقار کے ساتھ ہی تھا۔ کھانے کی نگرانی ان دونوں کی ذمہ داری تھی۔ وہ لان میں ادھر سے اُدھر گھومتے پھر رہے تھے۔ عابر نیوی بلیو سوٹ میں انتہائی پرکشش لگ رہا تھا۔ وہ اچھے قد و کاٹھ، سرخ و سفید رنگت ہلکی سبز آنکھوں والا بلا شبہ ایک خوبرو لڑکا تھا۔ اس کی مسکراہٹ میں بہت جان تھی، وہ ہجوم میں الگ ہی نظر آتا تھا۔
ایک فیملی عابر کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہی تھی بلکہ یوں کہنا چاہیے، نظریں جمائے ہوئے تھی۔ جہاں یہ فیملی بیٹھی تھی، وہاں سے عابر صاف آتا جاتا نظر آرہا تھا۔ عابر کو تاڑنے والی یہ فیملی نو افراد پر مشتمل تھی اور اس میز پر ان کے علاوہ کوئی اور نہ تھا جبکہ ایک کرسی خالی پڑی تھی۔
سیاہ رنگ کے چیچک رو شخص نے اپنی گوری چٹی فربہ بدن بیوی سے مخاطب ہو کر کہا ۔۔ چاندنی ۔۔ کیا میں جو دیکھ رہا ہوں تم بھی وہی دیکھ رہی ہو؟
ہاں ۔۔ میں بھی وہی دیکھ رہی ہوں ۔۔۔ چاندنی نے ترچھی نظروں سے اپنے شوہر ڈاکٹر نوشاد کو دیکھا۔
اماں ابا کی گفتگو سن کر دائیں بائیں بیٹھی لڑکیوں میں ہلچل سی ہوئی۔ وہ سات لڑکیاں تھیں۔ ان سات لڑکیوں میں درمیان میں بیٹھی لڑکی حسن کی دیوی تھی جبکہ اس کے ارد گرد بیٹھی بہنیں اس دیوی کی پجارن لگ رہی تھیں۔ ان ساتوں میں جو سب سے بڑی تھی، اس نے اپنے برابر بیٹھی چھوٹی بہن کے کان میں صور پھونکا۔ اور وہ بات جو ان کے ابا اماں میں شروع ہوئی تھی، ان لڑکیوں کے درمیان مکمل ہو چکی تھی۔
ابو ۔۔ کیا میں اٹھوں؟ ۔۔۔ بڑی بینی شائستہ نے پوچھا۔
ھاں جاؤ ۔۔ ساتھ ملکہ کو لے جاؤ ۔۔۔ ڈاکٹر نوشاد نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اس کی مسکراہٹ انتہائی مکروہ تھی۔ اس کا تو پورا وجود ہی مکروہ تھا۔ پتا نہیں وہ کیسے ڈاکٹر بن گیا تھا۔
مجھے تو یہ وقار کا کوئی دوست دکھائی دیتا ہے۔ پھر بھی پوچھ لینا اور دیکھو ۔۔ بہت زیادہ اوور مت ہونا تہذیب ، تمیز کے دائرے میں رہنا ۔۔۔ چاندنی نے ہدایت کی۔
اس وقت شادی لان مہمانوں سے بھر چکا تھا۔ نکاح ہوئے آدھا گھنٹہ گزر گیا تھا۔ کھانا کھولنے کی تیاری چل رہی تھی۔ عابر دولہا والوں کی خصوصی میز کا جائزہ لے کر پلٹ رہا تھا کہ کسی نے آواز دی۔
سنیے
آواز نسوانی اور مترنم تھی۔ عابر جانتا تھا کہ یہاں اسے سر راہ آواز دینے والا کوٸی نہیں۔ پھر بھی احتیاطا اس نے پیچھے مڑ کر دیکھ لیا۔ دو لڑکیاں تیزی سے اس کی طرف بڑھیں۔ عامر نے ایک نظر دونوں پر ڈالی ۔ ایک لڑکی کم عمر اور دلرہا تھی جبکہ دوسری اس سے پانچ چھ سال بڑی تھی لیکن بری نہ تھی۔ البتہ وہ دونوں لڑکیاں اس کیلئے اجنبی تھیں۔
عابر کو یقین تھا کہ وہ کسی فہمی کا شکار ہو کر اس سے مخاطب ہوئی ہیں۔ لیکن عابر کو یہ پتا نہیں تھا کہ وہ کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہوئیں بلکہ شکار کرنے نکلی ہیں۔
سنئے ۔۔ آپ ہراتی ہیں یا گھراتی ؟ شائستہ نے قریب آ کر پوچھا۔
میں سمجھا نہیں ۔۔۔ عابر بولا۔
ہمارا مطلب ہے، آپ دولہا کی طرف سے ہیں یا لڑکی والے ہیں؟ ۔۔ میں لڑکی والوں کی طرف سے ہوں۔ میرے دوست وقار کی بہن کی شادی ہے۔ عابر نے شائستہ کے ساتھ کھڑی لڑکی پر نظریں جما کر کہا۔۔ فرمائیے کیا مسئلہ ہے؟
ملکہ نے اسے اپنی طرف متوجہ پا کر اسے ایک خاص انداز سے دیکھا اور ہلکا سا مسکرائی اور پھر اپنی آنکھیں پھیر لیں۔ دیکھیں۔ یہاں آس پاس کوئی ڈاکٹر مل جائے گا ۔۔۔ شائستہ پر تشویش لہجے میں بولی۔
خیریت ۔۔۔ عامر نے پریشان ہو کر کہا۔
ہمارے والد کی اچانک طبیعت خراب ہو گئی ہے ۔۔۔ شائستہ کے لہجے میں گھبراہٹ در آئی۔۔ وہ دل کے مریض ہیں ۔۔
کہاں ہیں آپ کے والد ؟ عامر نے پوچھا۔
وہ سامنے ادھر ۔۔۔ شائستہ نے چہرے پر گھبراہٹ لیکن اندر مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے جواب دیا اور وہ دونوں تیزی سے آگے بڑھیں۔
ڈاکٹر نوشاد اپنی بیٹیوں کو دیکھتے ہی کھڑا ہو گیا اور بولا ۔۔ تم لوگ کہاں چلی گئی تھیں وہ بھی بغیر بتائے ۔۔
ابو ۔۔ آپ نے دل پر ہاتھ رکھا تو ہمیں فوراً تشویش ہوگئی کہ کہیں دل میں تکلیف نہ شروع ہو گئی ہو۔ ہم ان کو لے کر آئے ہیں تاکہ آپ کو اسپتال لے جایا جا سکے۔ ابو آپ نہیں جانتے کہ آپ ہمارے لئے کسی قدر قیمتی ہیں ۔۔۔ شائستہ نے فورا اپنی آنکھوں میں آنسو بھر لئے۔
ارے میری بچی، میں بالکل ٹھیک ہوں ۔۔۔ ڈاکٹر نوشاد نے شائستہ کو اپنے نزدیک کر لیا ۔۔ تم نے خواہ خواہ ان کو پریشان کیا۔ وہ ایک ہلکا سا درد اٹھا تھا، زبان کے نیچے گولی رکھ لی۔ بس ٹھیک ہو گیا ۔۔
اب اپنی ہی باتوں میں لگے رہو گے یا اس شریف لڑکے کا بھی شکریہ ادا کرو گے کہ یہ ہماری مدد کو دوڑے آئے ہیں۔ بیٹا آپ کا کیا نام ہے؟ ۔۔۔ اس بار چاندنی نے کمان اپنے ہاتھ میں لے لی۔
جی ۔۔ میرا نام عابر ہے ۔۔۔ عابر نے ملکہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ اس سے نظریں ہٹانا آسان نہ تھا۔
بڑا پیارا نام ہے ۔۔۔ چاندنی نے تعریف کرنے میں ذرا بھی دیر نہ لگائی اور پھر ڈاکٹر نوشاد کی طرف دیکھا۔
ڈاکٹر نوشاد پہلے ہی ایکشن میں آ چکا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر عامر سے پرجوش انداز میں ہاتھ ملایا اور کندھے پر ہاتھ رکھ کر بڑے پیار بھرے انداز میں بولا ۔۔
بیٹا ۔۔ معاف کرنا ، ان بےوقوف لڑکیوں نے آپ کو پریشان کر دیا۔ میں بڑا شرمندہ ہوں ۔۔۔ پھر کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ۔۔ دو منٹ ہمارے پاس پیھیں ۔
عابر نے خالی کرسی کی طرف دیکھا اس کرسی کے برابر ملکہ بیٹھی ہوٸی تھی۔ اس نے فورا کرسی سنبھال لی۔ قربت کا اس سے بہتر موقع ملنا فی الحال ممکن نہ تھا۔
اس میں شرمندگی کی کوئی بات نہیں۔ میں کون سا کوہ قاف سے آیا ہوں ۔۔۔ عامر نے ہنستے ہوئے کہا۔
کوہ قاف سے آپ بے شک نہ آئے ہوں لیکن لگتے پری زاد ہیں ۔۔۔ شاٸستہ سے چھوٹی بہن فاخرہ نے پھلجھڑی چھوڑی۔ جس پر سب نے قہقہہ لگا کر خوشی کا اظہار کیا۔
میرا نام ڈاکٹر نوشاد ہے ۔۔۔ ڈاکٹر نوشاد نے اپنا تعارف کرایا۔
اس تعارف پر عابر حیران رہ گیا۔ یہ خود ڈاکٹر ہے تو پھر لڑکیاں کیوں ڈاکٹر کی تلاش میں نکلی تھیں۔ اس مسئلے پر اس نے زیادہ غور کرنے کی کوشش نہ کی۔ وہ اس وقت بہت خوش تھا کہ ایک پری کے برابر بیٹھا تھا اور اس کے گھر کے لوگ اس کی پذیرائی میں لگے تھے۔
لڑکیو چلو بھائی کو اپنے اپنے نام بتاؤ ۔۔۔ چاندنی مسکراتے ہوئے بولی۔
لڑکیوں نے مسکرا مسکرا کر اپنے نام بتانے شروع کئے۔ جب ساتوں لڑکیوں نے اپنے نام بتا دیئے تو چاندنی بولی ۔۔ میں چاندنی ہوں ، ان لڑکیوں کی ماں ۔۔
عابر کو چاندنی سے دلچسپی تھی نہ شائستہ، فاخرہ، ماجدہ سے۔ اسے صرف اپنے برابر بیٹھی لڑکی سے دلچسپی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے کسی کا نام غور سے سنا ہی نہ تھا۔ اگر سنا تھا تو صرف ملکہ کا نام
واقعی کسی ملکہ سے کم نہ تھی۔
پھر عابر کو کچھ یاد نہ رہا۔ وہ یہ بھی بھول گیا کہ اپنے دوست وقار کی بہن کی شادی میں آیا تھا۔ اسے کھانے کی نگرانی کرنی تھی۔ بس یاد رہا تو اتنا کہ اس کے پہلو میں ایک حسین ترین لڑکی براجمان ہے اور ہر طرف سے عابر بھائی اور بیٹا عابر کی آوازیں آ رہی ہیں۔
ملکہ سب سے کم بول رہی تھی۔ شکر ہے اس نے عابر بھائی کہہ کر مخاطب نہ کیا تھا، بس وہ ہنستی مسکراتی رہی تھی۔ شائستہ سب سے زیادہ بول رہی تھی۔ اس نے باتوں باتوں میں عابر کا نمبر لے لیا تھا۔ نمبر پنچ کر کے عابر کے موبائل پر مس کال دی تھی کہ شائستہ کا نمبر اس کے موبائل پر آ جائے اور وہ اس کا نمبر سیو کر لے بلکہ اس مس کال کا اصل مقصد عابر کے دیئے ہوئے نمبر کی تصدیق کرنا تھا۔
اچانک کھانے سے ڈھکن اٹھائے جانے کی کھٹاکھٹ آوازیں آئیں تو عابر کو ہوش آیا کہ وہ کہاں آیا تھا اور کہاں بیٹھا تھا۔ وقار اسے ڈھونڈ رہا ہو گا۔ دو ہڑبڑا کر اٹھا۔
بیٹا کہاں چلے ۔۔ تم ہمیں پسند آئے ہو، ہمارے ساتھ کھانا کھاؤ ۔ چاندنی نے بہت محبت سے کہا۔
ہاں اور کیا ۔۔۔ شائستہ نے تائید کی۔
امی ٹھیک کہہ رہی ہیں ۔۔۔ ملکہ نے کچھ اس انداز میں سرگوشی کی کہ اسے لگا جیسے یہ الفاظ اس کے پاؤں کی بیڑیاں بن گئے ہوں۔
ڈاکٹر نوشاد اور کئی لڑکیاں کھانا لینے جا چکی تھیں۔
جی ۔۔ اچھا ۔۔۔ اس نے چاندنی کی طرف دیکھ کر کہا لیکن اتنی آہستہ کہ صرف ملکہ ہی سن سکی۔ اس کے بعد اس نے بلند آواز میں اعلان کیا ۔۔ میں کھانا لے کر آتا ہوں ۔۔
عابر کے اچانک غائب ہو جانے پر وقار پریشان ضرور ہوا تھا لیکن جلد ہی وہ اسے ایک فیملی کے پاس بیٹھا نظر آ گیا تھا۔ اپنی مصروفیت کی وجہ سے وہ اس میز تک نہیں گیا تھا۔ اس نے گمان کیا تھا کہ شاید عابر کو اس کی جان پہچان کی کوئی فیملی مل گئی ہے، بچہ عیش کر رہا ہے تو کرنے دو۔
کھانے سے فارغ ہونے کے بعد جب سب اٹھنے لگے تو ملکہ نے دھیرے سے کہا۔۔ کیا آپ ہمارے گھر آنا پسند کریں گے؟ ۔۔
یہ تو بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹنے والی بات تھی۔ وہ پریشان تھا کہ آٸیندہ ملکہ سے کہاں اور کس طرح مل سکے گا۔ اس کی اس دعوت پر وہ باغ باغ ہوا تھا۔ ڈاکٹر نوشاد کی فیملی خاصی بےتکلف واقع ہوئی تھی۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے میں وہ لوگ اس طرح قریب آگئے تھے کہ اسے لگتا تھا جیسے وہ انہیں برسوں سے جانتا ہو۔ ملکہ کی بات سن کر اسے بے حد اچھا لگا لیکن وہ چاہتا تھا کہ یہ دعوت کوئی بڑا دے۔
ہمیں کوئی کیوں بلائے گا ۔۔۔ عامر نے اتنے زور سے کہا کہ بات چاندنی کے کانوں تک پہنچ گئی۔
ہم بلائیں گے اور تمہیں آنا ہوگا ۔۔ کیوں نوشاد؟ ۔۔۔ چاندنی نے کالے چاند کو بھی ساتھ لپیٹ لیا۔
ان کا آنا مجھے بہت اچھا لگے گا ۔۔۔ ڈاکٹر نوشاد نے فورا تائید کی مہر ثبت کر دی۔
عابر جب ان لوگوں کو چھوڑنے کیلئے لان کے باہر جارہا تھا تو راستے میں وقار مل گیا۔
او یار تم کدھر غائب ہو ۔۔۔ وقار نے پوچھا۔
عابر نے انتظار کیا کہ وقار ڈاکٹر نوشاد اینڈ فیملی سے ہیلو ہائے کرے گا لیکن جب اس نے شناسائی کا کوئی تاثر نہ دیا تو عابر نے وقار کا تعارف کرایا ۔۔ انکل یہ وقار ہیں، میرے دوست ۔۔
ڈاکٹر نوشاد کو یہ بات سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ وقار کون ہے۔ لہذا وہ اس سے بڑے تپاک سے ملا اور بولا ۔۔ آپ وقاص صاحب کے بیٹے ہیں ؟
جی ۔۔۔ وقار نے مودبانہ انداز میں کہا۔۔ اور آپ انکل ؟ ۔۔
میں ڈاکٹر نوشاد ہوں، آپ کے پاپا کا دوست ۔۔۔ ڈاکٹر نوشاد نے کہا ۔
عابر جب انہیں چھوڑ کر واپس آیا تو اس نے وقار سے پوچھا ۔۔کیا تم ڈاکٹر نوشاد سے کبھی نہیں ملے ؟ ۔۔
یار ۔۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ کون شخص ہے۔ ہو سکتا ھے پاپا کا جاننے والا ہو۔ یہ تو اپنے پورے گھر کو لے کر آیا ہوا تھا ۔۔۔ وقار نے ہنستے ہوئے پوچھا۔۔ تم ان لوگوں کو کیسے جانتے ہو؟ ۔۔
تب عابر نے اسے تفصیل سے بتایا کہ وہ کیسے انہیں جانتا ہے۔
اچھا۔ تیرے تو پھر مزے آ گئے ۔۔۔وقار نے ہنستے ہوئے کہا۔۔ میں پاپا سے پوچھوں گا اس فیملی کے بارے میں ۔"
اور جب وقار نے ڈاکٹر نوشاد کے بارے میں اپنے پاپا سے استفسار کیا تو انہوں نے صرف اتنا کہا۔۔ ہاں ، وہ میرے واقف کار ہیں ۔۔
عابر کو اس بات سے دلچسپی نہ تھی کہ ان لوگوں کو وقار یا اس کے پاپا جانتے ہیں یا نہیں۔ اس خاندان سے اس کی اپنی واقفیت ہو گئی تھی، یہی اس کیلئے کافی تھا۔
شائستہ نے اگلے دن ہی اس سے فون پر رابطہ کر لیا۔ اس سے چھوٹی بہن فاخرہ کے میسیج آنے لگے تھے۔ یہ زیادہ تر لطیفے ہی کی صورت میں ہوتے۔ عابر کو ان دونوں سے دلچسپی نہ تھی۔ وہ جس سے بات کرنا چاہتا تھا۔ اسے ان لوگوں نے دور رکھا ہوا تھا۔
وہ ملکہ سے بات کرنے کی بات کرتا تو وہ خوشی خوشی اس سے بات کرا دیتے لیکن عابر کو محسوس ہوتا جیسے ملکہ بات کرتے ہوئے ہچکچا رہی ہو۔ اس کی ہچکچاہٹ دیکھ کر اس نے ملکہ سے موبائل نمبر مانگا تو اس نے کہا۔ " میرے پاس موبائل نہیں ھے۔“
یہ اسرار عابر کی سمجھ میں نہ آیا۔ اتنی بےتکلف اور ماڈرن فیملی ہونے کے باوجود گریز ؟ کیا واقعی ملکہ کے پاس موبائل نہ تھا یا اس کی بہنیں نہیں چاہتی تھیں کہ وہ اس سے بات کرے۔
لیکن کیوں؟
ملکہ اس کے دل میں سما گئی تھی۔ آنکھوں میں بس گئی تھی۔ اس کے وجود پر گھٹا بن کر چھا گئی تھی۔ اسے اب احساس ہوا تھا کہ محبت بھی کوئی چیز ہے۔ لیکن محبت چیز کیا ہے، یہ وہ نہیں جانتا تھا۔ ملکہ سے ایک ملاقات نے اس کی کایا پلٹ دی تھی۔ وہ کھلنڈرا لڑکا تھا، لاابالی تھا۔ لیکن اب اس پر سنجیدگی طاری ہوتی جا رہی تھی۔
محبت کے بارے میں ہر شخص کا اپنا تجربہ ہوتا ھے۔ محبت صدیوں سے راٸج کسی سکے کی طرح ہے لیکن محبت میں کھوٹا سکہ نہیں چلتا۔ کچھ کہتے ہیں، محبت ہو جاتی ہے۔ کچھ کہتے ہیں محبت کی جاتی ہے۔ محبت ہو جائے تو عشق بن جاتی ہے۔ محبت کی جائے تو بزنس ہو جاتی ہے جس میں نفع نقصان دیکھا جاتا ہے جبکہ ہوجانے والی محبت نفع نقصان سے مبرا ہوتی ہے۔
جب بھی ہم کسی نئے شخص سے ملتے ہیں تو وہ یکدم اچھا لگا ہے یا برا ۔ پھر اس احساس کو گہرا سامنے والی کی خوبیاں کرتی ہیں۔ روح کی ہم آہنگی کے بعد زہنی ہم آہنگی شروع ہوتی ہے اور ایک دوسرے کے لئے دلوں میں تڑپ بڑھتی جاتی ہے۔
محبت کے معاملے میں مرد کے مقابلے میں عورت افضل ہوتی ہے۔ افضل یوں کہ اس کی محبت میں گہرائی ہوتی ہے۔ مرد محبت کے معاملے میں پہلے جسم ہوتا ہے، پھر روح جبکہ عورت محبت کے معاملے میں پہلے روح ہوتی ہے، پھر جسم - عورت کی محبت میں جنس کہیں بہت پیچھے ہوتی ہے جبکہ مرد کی محبت میں جنس سامنے ہوتی ہے اور روح کہیں بہت پیچھے۔ یہی وجہ ہے کہ عورت جب کسی کی محبت میں گرفتار ہوتی ہے تو اسے بھولتی نہیں، چاہے وہ اسے حاصل ہو یا نہیں ہو۔ مرد اپنی محبت کو بھولنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتا، چاہے وہ حاصل ہی کیوں نہ ہو جائے۔
کہتے ہیں کہ عورت کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ شاید اس لئے کہ وہ بہت اندر ہوتی ہے۔ مرد کو سجھنا اس لئے آسان ہوتا ہے کہ وہ باہر ہوتا ہے۔ عورت مسکرانے کے باوجود اندر سے رو رہی ہوتی ہے اور کبھی پلکوں پر آنسو ہونے کے باوجود وہ اندر سے خوش ہوتی ہے۔ اس لئے پہیلی کہلاتی ہے لیکن ایسی پہیلی جسے محبت کے ذریعے بوجھا جا سکتا ہے۔
ان دنوں ملکہ، عابر کے لئے پہیلی بنی ہوئی تھی۔ عابر کو یاد تھا کہ شادی لان سے رخصت ہوتے وقت اس نے کتنے پیار سے کہا تھا کہ کیا آپ ہمارے گھر آنا پسند کریں گے؟ پھر اس کی تائید چاندنی نے یہ کہہ کر کی تھی کہ ہم بلائیں گے اور تمہیں آنا ہو گا۔
دس پندرہ دن گزرنے کے باوجود اُدھر سے بلاوا نہیں آیا تھا۔ گھر بلانے کی بات تو دور اس کی ملکہ سے بات بھی نہیں کروائی جا رہی تھی۔ بس دونوں بہنیں شائستہ اور فاخرہ چھائی ہوئی تھیں۔ میسج بھیجے جا رہے تھے۔ موبائل پر بات ہو رہی تھی لیکن ملکہ کو سات پردوں میں چھپا رکھا تھا۔جب وہ ملکہ سے بات کرنے کی بات کرتا تو بڑی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا جاتا لیکن بات نہ کرائی جاتی، کوئی ایسا بہانہ بنا دیا جاتا کہ عابر کی زبان پر تالا لگ جاتا۔
اب عابر سے صبر نہیں ہو رہا تھا۔ وہ ملکہ کو دیکھنا چاہتا تھا۔ اس سے بات کرنا چاہتا تھا۔ ایک دن جب اتفاق سے ملکہ سے موبائل پر بات ہو گئی تو عابر نے بڑی بےقراری سے کہا۔۔
ملکہ تم سے بات ہوتی ہے نہ ملاقات ہوتی ہے۔ میں کیا کروں؟
عابر صبر کریں ۔۔۔ ملکہ نے ہنستے ہوئے کہا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس وقت موبائل کا اسپیکر کھلا ہوا ہے اور اس کی آواز چاندنی اور شائستہ بھی سن رہی ہیں۔
ملک تم ہنس رہی ہو، میری جان پر بنی ہے ۔۔۔ عابر نے جذباتی لہجے میں کہا۔
اللہ نہ کرے کہ آپ کی جان پر بنے، بےشک میری جان پر بن جائے ۔۔۔ ملکہ بڑی لگاوٹ سے بولی۔۔ میں ہنس اس لئے رہی تھی کہ اس کے سوا اور کیا کر سکتی ہوں ۔
ملکہ اس وقت کیا تمہارے پاس کوئی بیٹھا ہے؟ ۔۔۔ عابر نے اپنا شک رفع کرنا چاہا۔
نہیں ۔۔ میں تنہا ہوں ۔۔۔ ملکہ نے چاندنی اور شائستہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔ شائستہ باجی مجھے موبائل دے کر واش روم چلی گئی ہیں ۔
ملکہ کیا ہم کہیں باہر نہیں مل سکتے ۔۔۔ عابر کی بےقراری سر چڑھ کر بول رہی تھی۔
باہر کیوں ہم گھر پر ہی ملیں گے۔ امی آج ہی ذکر کر رہی تھیں کہ عابر کو بلانا ہے۔ وہ کیا سوچتا ہو گا کہ کیسے لوگ ہیں؟ ۔۔۔ ملکہ کے لہجے میں یقین تھا۔
نہیں ۔۔ میں کچھ نہیں سوچتا۔ تمہارے متعلق سوچنے سے فرصت ملے تو کچھ اور سوچوں ۔
عابر ایک بات بتائیں۔ سچ بتائیے گا ۔۔۔ یہ کہہ کر ملکہ نے وقفہ دیا۔
ہاں پوچھو ۔۔ کیا پوچھنا ہے۔ جو کہوں گا ، سچ کہوں گا، سچ کے سوا کچھ نہ کہوں گا ۔
آپ بولتے بہت اچھا ہیں ۔۔۔ ملکہ نے ہنس کر کہا۔
تم کچھ پوچھ رہی تھیں؟ ۔۔۔ عابر اس کی بات جاننے کے لئے بےقرار تھا۔
ہاں ۔۔ میں یہ پوچھ رہی تھی کہ ۔۔۔ وہ کہتے کہتے یکدم رکی۔ پتا نہیں، مجھے آپ سے یہ سوال کرنے کا حق بھی ہے یا نہیں ۔۔
حق کی بات نہ کرو۔ کہو تو اپنے قتل کا لائسنس تمہیں دے دوں ۔۔۔ عابر نے جذباتی انداز اختیار کیا۔
قتل کا لائسنس نہ دیں۔ بس اتنا بتا دیں کہ کیا آپ کو مجھ سے محبت ہو گئی ہے؟ ۔۔۔ یہ کہتے ہوئے ملکہ نے شائستہ کی طرف دیکھا۔ شائستہ نے اسے انگوٹھا دکھایا یعنی ویری گڈ ۔۔۔
ہاں تم نے صحیح اندازہ لگایا۔ میں واقعی تم پر مر مٹا ہوں ۔۔۔ عابر نے اپنا دل کھول
دیا۔
عابر کو شائستہ پر غصہ تھا۔ جب بھی بات کسی موڑ پر پہنچنے لگتی تو وہ ویمپ بن کر درمیان میں آجاتی ۔ آج بھی یہی ہوا تھا۔ ملکہ بات کرنے پر آمادہ تھی۔ بات بڑھنے لگی تھی کہ وہ درمیان میں ٹپک پڑی اور وہ تلملا کر رہ گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ ملکہ سے اکیلے کیسے ملے۔ ملکہ اس کے دل ودماغ پر چھائی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھوں میں بسی ہوئی تھی۔ وہ گھنٹوں اس کے تصور میں گم رہتا۔ خود
سوال کرتا اور خود ہی جواب دیتا۔
0 تبصرے