نازنین، بیٹے کی بدلتی کیفیت کو بغور دیکھ رہی تھیں۔ وہ اس لاابالی پن، بے نیازی سے پہلے ہی تنگ تھیں کہ اب ان چیزوں میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔ عابر ہر وقت کھویا کھویا سا رہنے لگا تھا۔ پہلے وہ اپنی شکل وصورت اور لباس کے معاملے میں خاصا حساس تھا۔ وہ اپنے کپڑے استری کرنے میں گھنٹوں لگاتا۔ کپڑے کی ایک ایک شکن نکالتا۔ نازنین چیختی رہتیں ۔۔ پجلی خرچ ہورہی ہے، استری جلدی کرو ۔۔ پر کیا مجال جو اس کے کان پر جوں رینگ جاٸے۔ واش روم میں جاتا تو گھنٹوں نہانے اور شیو بنانے میں لگا دیتا۔ نازنین دروازہ کھنکھناتی رہتیں ۔۔ بیٹا ناشتا ٹھنڈا ہو رہا ہے، جلدی آؤ ،
اب یہ حال کہ شیو بڑھا ہے تو بڑھا ہے۔ جو کپڑے پہن لئے ہو پہن لئے۔ استری تو دور کی بات، وہ کئی کئی دن کپڑے نہ بدلتا ۔
ایک شام دونوں ماں بیٹی نے اسے گھیر لیا۔ وہ آج چار بجے سو کر اٹھا تھا اور اس وقت ناشتے میں مصروف تھا کہ وہ دونوں ڈائٹنگ ٹیبل پر دائیں بائیں کرسیاں کھینچ کر بیٹھ گئیں۔
عابر تم کوئی نشہ وشہ تو نہیں کرنے لگے ۔۔۔ صائمہ نے بلا تمہید گفتگو شروع کی۔
عابر نے نظریں اٹھا کر بہن کو دیکھا اور بولا ۔۔ کیا ہو گیا آپی ، آپ کو ؟
مجھے تو کچھ نہیں ہوا۔ ہم تمہاری حالت دیکھ کر پریشان ہیں۔ اب تم چار چار بجے سو کر اٹھنے لگے ہو۔ اپنی شکل دیکھو، اپنے کپڑے دیکھو تم ایسے تو نہ تھے ۔۔۔ صائمہ نے شکوہ بھری نظروں سے اسے دیکھا۔
عابر کے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ ابھری۔ ابھی وہ کوئی جواب دینے والا تھا کہ نازنین بول پڑیں۔
عابر خود کو سنبھالو ، ہم سب پریشان ہیں۔ تمہارے ابو سخت غصے میں ہیں۔ اللہ نے تمہیں نئی زندگی دی ہے۔ تم پھر جانے کس چکر میں پڑ گئے ۔۔
امی ۔۔ میں مرجاتا تو اچھا ہوتا۔ آپ کی جان چھوٹ جاتی اور میں بھی سکون پا جاتا ۔۔۔ عابر کے لہجے میں یکلخت تلخی در آئی۔ وہ ناشتہ چھوڑ کر اٹھ گیا اور غصے میں باہر نکل گیا۔ صائمہ اور نازنین ایک دوسرے کا منہ دیکھتی رہ گئیں۔ یہ اسے کیا ہوا۔
عابر گھر سے نکل کر سیدھا وقار کے پاس پہنچا۔ وقار کہیں جانے کی تیاری میں تھا۔ عابر کو دیکھ کر اس نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور اسے لے کر ڈرائنگ روم میں آ بیٹھا۔
کہاں سے آ رہا ہے؟ ۔۔۔ وقار نے اس کے حلیے پر نظر ڈال کر کہا۔
گھر سے ۔۔۔ عابر نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔
ڈانٹ کھا کر نکلا ہے؟ ۔۔۔ وقار نے پوچھا۔
یار ۔ امی اور آپی میرے پیچھے لگ گئیں تو ناشتا چھوڑ کر نکل آیا ۔۔۔ عابر نے بتایا۔
ہوا کیا آخر؟ ۔۔۔ وقار نے پوچھا۔
چھوڑ ان باتوں کو۔ میں اس وقت تیرے پاس ایک خاص کام سے آیا ہوں ۔۔۔ عاہر کے لہجے میں پریشانی تھی۔
ہاں بولو ۔۔۔ وقار نے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔۔ کیا پریشانی ہے؟
کیا ڈاکٹر نوشاد کے گھر کا ایڈریس مل سکتا ہے؟ ۔۔۔ عابر نے غیرمتوقع بات کی۔
خیریت، کوئی بیماری لاحق ہوگئی تجھے ۔ ۔۔ وقار نے مذاق کیا۔ یار ۔۔ میں ملکہ سے ملنا چاہتا ہوں ۔۔۔ وہ بڑی گمبھیرتا سے بولا ۔
تم ملے نہیں ابھی تک ۔۔ تم تو کہہ رہے تھے کہ ملکہ نے تمہیں گھر آنے کی دعوت دی ہے ۔۔۔ وقار نے سوال کیا۔
یار، ان لوگوں کا رویہ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ۔۔۔ عابر بولا۔
کیا کہہ رہے ہیں۔ کچھ بتاؤ تو سہی؟ ۔۔۔ وقار سنجیدہ ہوا۔
جواب میں عابر نے ہر بات تفصیل سے وقار کے گوش گزار کر دی۔ وقار ساری بات سن کر بولا ۔۔ مجھے یہ فیملی فراڈ لگ رہی ہے ۔۔
ذرا ابو سے ان کے بارے میں پوچھو ۔۔۔ عابر بولا۔
میں ان سے پوچھ چکا ہوں۔ اب بار بار پوچھوں گا تو وہ مشکوک ہو جائیں گے۔ پوچھیں گے مجھے ڈاکٹر نوشاد سے کیا کام ہے۔ ابے کیا تو مجھے مروائے گا ۔۔۔ وقار نے ہنس کر کہا۔
اچھا چل چھوڑ ۔۔۔ عابر مایوس ہو کر اٹھا۔ وقار کہتا رہ گیا۔ بیٹھ تو سہی ۔ لیکن وہ رکا نہیں۔
مایوسی جب حد سے بڑھی تو ایک رات امید کی کرن چمکی ۔ وہ ملکہ کی یاد میں کھویا ہوا تھا اور موبائل اس کے ہاتھ میں دیا ہوا تھا۔ وہ کئی بار مس کال دے چکا تھا۔ لیکن شائستہ کی طرف سے جواب نہیں آ رہا تھا۔ اچانک موبائل فون میں لرزش ہوئی۔ اس نے فورا روشن اسکرین کی طرف دیکھا۔ شائستہ کا نام دیکھ کر اس کا دل کھل اٹھا۔
ہیلو ۔۔۔ اس نے بڑے شیریں لہجے میں کہا ۔۔ خدا کا شکر ھے شاٸستہ آپ کا فون تو آیا۔ میں تو مس کال دے دے کر تھک گیا ۔۔
جواب میں ادھر سے جو آواز سنائی دی، اسے سن کر عابر کی سٹی گم ہو گٸی۔ اس نے گھبرا کر گھڑی پر نظر ڈالی ۔ رات کے بارہ بج رہے تھے۔
میں ڈاکٹر نوشاد بول رہا ہوں ۔۔۔ ڈرامائی انداز میں کیا گیا۔
ڈاکٹر نوشاد کی آواز خاصی رعب دار تھی۔ عامر نے فون پر پہلی بار سنی تھی، اس
لئے خاصا پریشان کر گئی تھی۔
انکل ۔۔ آپ کیسے ہیں؟ ۔۔۔ عابر نے اپنا لہجہ مضبوط کرنے کی پوری کوشش کی۔
بھٸی میں تو بالکل ٹھیک ہوں۔ میں کچھ دنوں کے لئے شہر سے باہر گیا ہوا تھا۔ آج ہی واپس آیا ہوں ۔ بس یوں سمجھو کہ ابھی آیا ہوں۔ گھر آ کر سب سے پہلے میں نے تمہارے بارے میں پوچھا۔ بھٹی، میں بڑا شرمندہ ہوں ۔ ان لوگوں نے تمہیں ابھی تک کھانے پر نہیں بلایا۔ تم ایسا کرو کہ کل رات کا کھانا میرے ساتھ کھاؤ۔ میں تمہیں گھر کا ایڈریس سمجھائے دیتا ہوں۔ میسیج بھی کر دوں گا ۔۔۔ ڈاکٹر نوشاد نے عابر کو بولنے کا موقع دیئے بغیر گھر کا ایڈریس سمجھایا اورآخر میں کہا۔۔ اچھا عابر صاحب کل رات ملاقات ہو گی ۔
جی میں حاضر ہو جاؤں گا ۔۔ آپ کا بہت شکریہ ۔۔۔ عابر نے ممنون لہجے میں کہا۔
ادھر سے کوئی جواب نہ آیا۔ لائن کب کی کٹ چکی تھی۔ عابر نے موباٸل کی آف ہوتی اسکرین کو دیکھا۔ مسکرایا اور سوچا۔ یہ ڈاکثر نوشاد آخر کیا چیز ہے؟
شام کو جب خوشبو میں بسا عابر گھر سے نکلنے لگا تو نازنین کا ماتھا ٹھنکا۔ آج تو اس کا انداز ہی نرالا تھا۔ نہایت صاف ستھرے استری شدہ کپڑے، تازہ بنی ہوئی شیو، شکل پر بارہ بجنے کے بجائے ”پرائم ٹائم"۔ یہ وہ عابر ہی نہ تھا۔
اس سے قبل کہ نازنین اس سے کچھ پوچھتیں ، وہ مسکراتا ہوا ان کے پاس آیا اور بولا۔۔ امی میں ایک دوست کے گھر جا رہا ہوں وہیں کھانا کھاؤں گا۔ ہو سکتا ہے واپسی میں ایک بج جائے ۔۔
جاؤ ۔۔ لیکن جلد آنے کی کوشش کرنا ۔۔۔ نازنین نے کہا۔
جی ۔۔ اچھا ۔۔۔ عابر نہایت فرمانبرداری سے بولا اور گھر سے نکل گیا۔
رات گہری اور اندھیری تھی۔ دور گلی میں کہیں کتے بھونک رہے تھے۔ کسی گھر کی دیوار پر بیٹھی بلیاں رو رہی تھیں ۔ مائی پنکھی اپنے اجاڑ گھر کے صحن میں ٹہل رہی تھی۔ صحن میں مکمل تاریکی تھی۔ لیکن مائی پنکھی بڑے اطمینان سے یہاں سے وہاں تک ٹہل رہی تھی جیسے صحن خوب روشن ہو۔
رات کا ایک بجا تھا۔ مائی پنکھی کے ٹہلنے کے عمل سے ظاہر ہوتا تھا کہ اسے کسی کا انتظار ہے۔
انجو ۔۔۔ مائی پنکھی نے کالے منہ کی سفید بلی کو آواز لگاٸی۔ بلی صحن میں پڑی چار پائی پر لیٹی سو رہی تھی۔ مائی پنکھی کے آواز لگاتے ہی وہ اس طرح چونک کر اٹھی جیسے اس کی آواز کے انتظار میں ہو۔ اس نے چار پائی پر کھڑے ہو کر ایک بھرپور انگڑاٸی لی اور کود کر ماٸی پنکھی کے پاس پہنچ کر اس کے قدموں سے لپٹ گئی۔
او کرموں جلی ۔۔ کیا مجھے گرائے گی؟ ۔۔۔ مائی پنکھی نے سفید بلی کو ڈانٹا۔
جواب میں بلی اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔
مائی پنکھی بولی۔۔ انجو تو اوپر چھت پر چلی جا اور اس وقت تک نیچے مت آنا جب تک میں تجھے آواز نہ دوں ۔۔
بلی نے فورا اس کی ہدایت پر عمل کیا۔ پہلے وہ چارپائی پر چڑھی ، وہاں سے دیوار پر چھلانگ لگائی اور دوڑتی ہوئی دیوار سے نیچے چھت پر اتر گئی۔
بلی کے جاتے ہی کسی نے دروازہ بجایا۔
اچھا ۔۔ آتی ہوں ۔۔
مائی لکھی نے دروازے پر پہنچ کر پیر سے پتھر کو سرکایا۔ پتھر کے سرکتے ہی کواڑ کھول کر ایک شخص اندر آیا۔ اس نے مائی پنکھی کا سوکھا ہاتھ پکڑ کر چوما، پھر آنکھوں سے لگایا اور بولا ۔۔ رانی جی ۔۔ مجھے دیر تو نہیں ہوئی؟ ۔۔
تو پہلا ہے ۔۔۔ مالی پنکھی نے کہا۔
ابھی کوئی نہیں آیا۔ میں پہلا ہوں۔ پھر تو میں وقت پر پہنچ گیا ۔۔۔ اس شخص نے اطمینان بھرے لہجے میں کہا۔
ٹوپی ڈرامے ۔۔ تیرا نام کیا ھے ۔۔۔ مائی پنکھی نے خشک لہجے میں پوچھا۔
میرا نام شقو حلواٸی ھے ۔۔ رانی جی ۔۔ آپ میرا نام بھی بھول گئیں ۔۔۔ شقو حلوائی نے پریشان ہو کر کہا۔
تو لڈو بیچتا بیچتا ادھر کہاں آ نکلا ۔۔۔ ماٸی پنکھی نے اس کے احتجاج پر کوئی توجہ نہ دی۔
رانی جی ۔۔ مجھے بڑا شوق ہے یہ کام سیکھنے کا ۔۔۔ شقو حلوائی بولا ۔
اچھا چل جھاڑو لگا ۔۔۔ ماٸی پنکھی نے کہا۔
ٹھیک ہے ۔۔ رانی جی ۔۔ جو حکم آپ کا۔ پر جھاڑو کدھر ھے ۔۔۔ شقو حلوائی نے اندھیرے میں ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔
اندھے ۔۔ ادھر دیکھ کونے میں ۔۔۔ مائی پنکھی نے اسے ڈانٹا تو اس کی آنکھیں کھل گٸیں۔ کونے میں کھڑی جھاڑو اسے صاف نظر آنے لگی۔ تیزی سے آگے بڑھ کر اس نے جھاڑو اٹھ الی اور جلدی جلدی صحن میں جھاڑو لگانے گا۔ ماٸی پنکھی چارپائی پر بیٹھ گئی۔
تاریک رات، صحن میں گھور اندھیرا اور اس میں دی جانے والی جھاڑو کی کھس کھس۔ عجیب فضا تھی اس وقت گھر کی۔
ابھی جھاڑو دی جا رہی تھی کہ ایک اور شخص گھر کے کھلے دروازے سے اندر داخل ہوا۔ ایک نعرہ مستانہ لگایا ۔۔
"رانی جی کی جے"
او ۔۔ گھورومل، چل چھڑکاؤ کر جلدی ۔۔۔ مائی پنکھی نے اسے دیکھتے ہی حکم صادر کر دیا۔
گھورومل تیز تیز چلتا مائی پنکھی کے پاس پہنچا۔ اس کے پاؤں چھوٸے اور پھر نلکے کی طرف بڑھا۔ اس نے پورا نلکا کھول کر بالٹی میں پانی بھرا۔ اتنی دیر میں شقو حلوائی نے اپنی جھاز مکمل کر لی۔ اس نے جھاڑو جہاں سے اٹھائی تھی ، وہاں رکھی اور چار پائی کے ایک پائے کے ساتھ بیٹھ گیا۔
گھورومل نے ابھی ڈونگے سے صحن میں چھڑکاؤ شروع کیا تھا کہ صحن میں چھن چھن کی آواز آئی۔
رنکل آگئی ۔۔۔ مائی پنکھی نے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
رنکل پاؤں میں بندھے گھنگھرو چھنکاتی اندر آٸی۔ وہ کالے کپڑوں میں ملبوس تھی۔ صحن میں اندھیرا ہونے کے باوجود وہ اطمینان سے چلتی ہوئی مائی پنکھی کے پاس پہنچی۔ اس نے مائی پنکھی کے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا اور خاموشی سے چارپائی کی پائینتی بیٹھ گئی۔
رنکل کے آتے ہی گھورومل نے چھڑکاؤ روک دیا تھا۔ اس کے چارپائی پر بیٹھتے ہی پھر سے اپنا کام شروع کر دیا۔
پورا صحن گیلا کرنے کے بعد گھورومل ، شقو حلوائی کے برابر اینٹوں کے فرش پر بیٹھ گیا۔ اس نے زمین کے گیلے ہونے کی بھی پرواہ نہ کی۔
رنکل ۔۔۔ مائی پنکھی مخاطب ہوئی تو رنکل نے اس کی طرف آنکھیں اٹھائیں، بولی کچھ نہیں۔
جا ۔۔ رسوئی میں جا کر جل مسان دیکھ لے۔ میں نے چڑھا تو دیا تھا ۔۔۔ مائی پنکھی نے ہدایت دی۔
رنکل ایک لفظ بولے بغیر باورچی خانے کی طرف بڑھ گئی۔ چولہے پر مٹی کی ھنڈیا چڑھی تھی۔ آگ روشن تھی لکڑیوں سے نکلنے والے شعلے ھنڈیا کو اوپر تک اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے تھے۔ رنکل نے لکڑیاں باہر کھینچ کر آگ قابو میں کی۔ کپڑے سے پکڑ کر ہنڈیا پر رکھے ڈھکن کو اٹھایا۔ ڈھکن کو اٹھاتے ہی بدبو کا شدید بھبکا برآمد ہوا۔ رنکل نے گہری سانس لے کر اسے خوشبو کی طرح اپنے اندرا تارا اور وہیں سے بولی ۔۔ رانی جی ۔۔ جل پک گیا ۔۔
پھر آگ بجھا دے ۔۔۔ مائی پنکھی نے جواب دیا اور مڑ کر گھورومل کو دیکھا اور اس سے مخاطب ہوئی۔۔
گھورو ۔۔ وہ تیری لگی سگی نہیں آئی؟ ۔۔
رانی جی ۔۔ سریلی کی بات کر رہی ہیں ۔۔۔ گھورومل نے بڑے اطمینان سے پوچھا۔
ہاں ۔۔۔ مائی پنکھی نے جواب دیا۔
وہ میری لگی سگی کب ہے۔ بہتیرا کوشش کرتا ہوں۔ پر وہ گھاس ہی نہیں ڈالتی۔ گھورومل کے لہجے میں بڑی حسرت تھی ۔۔ رانی جی ۔، آپ کچھ کر دیں نا۔
گھورو ۔ وہ بہت ہائی پاور کی عورت ھے وہ تیرے بس کی نہیں ۔۔۔ مائی پنکھی نے ہنس کر کہا۔
اس سے قبل کہ گھورو کوئی جواب دیتا ، سریلی اندر داخل ہوٸی۔ سریلی کا اصل نام عذراڈیوڈ تھا۔ اس کی آواز بہت اچھی تھی ، اس لئے مائی پنکھی اسے سریلی کہتی تھی۔
رانی جی ۔۔ گڈ نائٹ ۔۔۔ عذرا نے بلند آواز میں سلام کیا اور ماٸی پنکھی کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر رنکل کے پاس بیٹھ گئی۔
سریلی آج کچھ سنائے گی؟‘ ۔۔۔مائی پنکھی نے پوچھا۔
رانی جی ۔۔ آپ جو کہیں گی سنا دوں گی ۔۔۔ عذرا ڈیوڈ نے سعادت مندی سے جواب دیا۔
اچھا۔ ابھی ذرا حاضری پوری ہو جائے، پھر بتاتی ہوں کیا سنانا ہے ۔۔۔ مائی پنکھی نے
کہا۔
ماٸی پنکھی نے اس پارٹی میں شریک ہونے والوں کے عجیب و غریب نام رکھے ہوئے تھے۔ یہ مجلس ہر ماہ اماوس کی رات کو منعقد ہوتی تھی۔ یہاں آنے والے زیادہ تر کالے جادو کے ماہر تھے۔ یہ ہر ماہ یہاں آ کر اپنے اپنے تجربات بیان کرتے ، مائی پنکھی سے رہنمائی حاصل کرتے۔ ان میں کچھ لوگ نئے کھلاڑی بھی ہوتے تھے۔ مائی پنکھی ان کی انگلی پکڑ کر سیاہ راستے پر چلنا سکھاتی۔
یہاں آنے والوں میں ایک جوڑا بھی شامل تھا۔ نام تو ان کا ریحانہ اور شاہد تھا لیکن مائی پنکھی نے ان کا نام گلی ڈنڈا رکھا ہوا تھا۔ ریحانہ لمبے قد کی تھی جبکہ شاہد چھوٹے قد کا تھا۔ ان دونوں نے لوگوں کے مسائل کے حل کیلئے ایک آستانہ بنا رکھا تھا جہاں وہ بیٹھ کر مجبور انسانوں کو لوٹتے تھے۔
مائی پنکھی نیلی نامی خواجہ سرا کو ”آئی اوئی“ کہتی تھی۔ اس کے بارے میں مائی پنکھی کی رائے تھی کہ اگر وہ اسی طرح استقامت سے شیطانی عمل سیکھتا رہا تو بڑے بڑوں کو پیچھے چھوڑ جائے گا۔ اب لوگ تیزی سے آ رہے تھے۔ گلی ڈنڈا، آئی اوئی ، اندھیری رات ، چھمک چھلو اور نہ جانے کون کون ۔۔ یہاں آنے والوں پر کوئی پابندی نہ تھی۔ پرانے لوگوں کے ساتھ نئے لوگ بھی آجاتے تھے۔
دیکھتے ہی دیکھتے مکروہ چہروں سے پورا صحن بھر گیا۔ مائی پنکھی نے دروازہ بند کرنے کا حکم دیا۔ گھورومل اٹھا۔ اس نے دروازہ بند کر کے پتھر لگا دیا اور اپنی جگہ پر آ کر بیٹھ گیا۔
مائی پنکھی کے اشارے پر رنکل اٹھی۔ اس نے ڈونگے میں جل مسان بھرا اور عذرا ڈیوڈ کے ہاتھ میں دے دیا۔ عذرا نے وہاں موجود ہر شخص کو ایک ایک گھونٹ پلانا شروع کیا۔ اس بدبودار مشروب کو جو بھی پیتا، اس کے اندر کا شیطان جاگ کر اٹھ
بیٹھتا۔
جل مسان کے بعد ایک ایک کر کے اپنے مسائل، اپنی مشکلات ان پختہ کار شیطانوں نے بیان کرنا شروع کیں۔ مائی پنکھی نے ہر ایک کو اپنی ہدایات اور ماہرانہ مشوروں سے نوازا۔
ابھی یہ شیطانی سماروہ ( مجلس ) اختتام پذیر ہونے والا تھا کہ کسی نے بڑے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔
مائی پنکھی نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا۔ یہ عجب انداز کی دستک تھی۔ گلی میں شور بھی سنائی دے رہا تھا۔ بھاگ دوڑ سی مچی ہوئی تھی۔ مائی پنکھی ابھی اندازہ ہی لگا رہی تھی کہ با ہر کون لوگ ہیں؟ اتنے میں آواز آئی ۔۔
پولیس آئی ہے ۔۔ دروازہ کھولو ۔۔
پولیس ۔۔۔ مائی پنکھی نے حیرت سے دہرایا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ پولیس اس کے دروازے پر بھی آ سکتی ہے۔
رانی جی ۔۔ پولیس یہاں کیا کرنے آئی ہے؟ ۔۔۔ رنکل اور عذرا ڈیوڈ اس کے قریب سمٹ آئیں۔
مائی پنکھی اس بات کا جواب دینے کے بجائے کسی کمانڈو کی طرح ایکشن میں آگئی۔ اس نے چھت پر موجود انجو کی طرف توجہ کی اور بغیر ہونٹ ہلائے حکم دیا۔۔
انجو ۔۔ اسے روک ۔۔
انجو یہ حکم سنتے ہی فورا کھڑی ہو گئی۔ اس نے چھت سے دیوار کی منڈیر پر چھلانگ لگاٸی اور وہاں سے زقندیں بھرتی دروازے کی دیوار پر آئی اور ان پولیس والوں پر چھلانگ لگا دی جو دروازے پر کھڑے کواڑ کھولنے کی کوشش میں تھے۔ انجو نے چشم زدن میں ایک کے منہ پر پنجہ مارا، دوسرے کی گردن پر کھرونچا لگایا۔
دونوں پولیس والے گھبرا کر پیچھے ہٹے۔ اس ناگہانی آفت نے انہیں بوکھلا کر رکھ دیا۔ وہ پیچھے کھڑے سپاہیوں پر گرے تو سب انسپکٹر دلدار بخش نے ان پر ٹارچ ڈالی اور غصے میں پوچھا۔ " اوئے۔ کیا ہوا ؟"
صاحب جی ۔۔ کسی چیز نے پنجہ مارا ہے ۔۔۔ ایک سپاہی نے کہا۔ سب انسپکٹر دلدار بخش نے جب ٹارچ کی روشنی میں دونوں کے چہروں کا معائنہ کیا تو دونوں کو زخمی پایا۔ ایک کی گردن سے کان تک خون چھلک رہا تھا تو دوسرے کے گال پر خون کی لکیریں موجود تھیں۔ انجو اپنا کام کر کے جا چکی تھی۔
اوئے ۔۔ توڑ دو دروازہ ۔۔۔ دلدار بخش نے حکم دیا۔
مائی پنکھی کو بس اتنی ہی مہلت درکار تھی۔ جب اس نے دروازے کو بری طرح ہلتے ہوئے دیکھا تو وہ دروازے کی طرف بڑھی۔ اس سے قبل کہ وہ خود دروازہ کھولتی ، پتھر سرک چکا تھا۔ ایک کواڑ کھلتے ہی پولیس والے سیلاب کے ریلے کی طرح اندر آ گئے۔
دروازے کے سامنے مائی پنکھی کسی مجسمے کی طرح ایستادہ تھی۔ گھپ اندھیرے میں مائی پنکھی کے چہرے پر روشنی پڑی تو چند لمحوں کیلئے دلدار کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس کے سامنے کون کھڑا ہے۔ کالے لباس میں مائی پنکھی اندھیرے کا حصہ تھی۔ پھر اس کی آنکھوں میں ایسی چمک تھیجو سامنے والے کو خوف میں مبتلا کر دیتی تھی۔
اوئے ۔۔ رب نواز ۔۔ دیکھ کوئی جانے نہ پائے ۔۔۔ دلدار نے چلا کر کہا۔ سر جی ۔۔ آپ فکر نہ کریں ۔۔۔ رب نواز اپنے چہرے پر ہوتی جلن کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آگے بڑھا اور دلدار بخش، مائی پنکھی کا جائزہ لینے لگا۔
یہ مکان ہی کتنا بڑا تھا۔ دو چارمنٹ کے بعد رب نواز پورے گھر کی تلاشی لے کر آ گیا اور بولا ۔۔ سر جی، گھر میں تو چڑیا کا بچہ بھی نہیں ہے ۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ۔۔۔ دلدار بخش نے مائی پنکھی کے چہرے پر ٹارچ ڈالتے ہوٸے کہا۔۔ او کالی ماٸی ۔۔ کدھر گٸے جواری۔ ہمیں چلا ہے کہ تو جوئے کا اڈا چلاتی ہے ۔۔
او کاکا ۔۔ تمہیں غلط فہمی ہوئی ھے۔ میں اس گھر میں اکیلی رہتی ہوں۔ تو ذرا میری عمر دیکھ اور اپنا الزام دیکھ ۔۔۔ مائی پنکھی نے بڑی بردباری سے کہا۔
اچھا ۔۔۔ دلدار بخش نے ایک بار پھر اس کا اوپر سے نیچے تک جائزہ لیا۔ اس نے بڑے مجرم دیکھے تھے لیکن مائی پنکھی اس کے گلے سے نہیں اتر رہی تھی۔ وہ رب نواز سے مخاطب ہوا ۔۔ تو ڈرا اس کالی نماٸی کا دھیان رکھ میں خود گھر کا
جاٸزہ لے کر آتا ہوں ۔
دلدار بخش نے گھر کا چپہ چپہ دیکھ ڈالا لیکن گھر میں بندہ بشر تو دور کی بات ہے، کوئی مشکوک چیز بھی نہ ملی۔
رب نواز تمہاری رپورٹ کچی نکلی ۔۔۔ دلدار بخش نے مائی پنکھی کے سامنے کھڑے اپنے ماتحت رب نواز سے مخاطب ہو کر کہا۔
سر جی ۔۔ میری رپورٹ پکی تھی ۔۔۔ رب نواز نے پورے اعتماد سے کہا۔۔ یہاں مشکوک لوگوں کا آنا جانا ہے ۔۔
چلو پھر اٹھاؤ اس مائی کو ۔۔ تھانے لے چلو ۔۔۔
دلدار بخش حکم دیتا ہوا باہر نکل گیا۔
0 تبصرے