چل مائی میرے ساتھ ۔۔۔ رب نواز بولا۔
"میرا قصور کیا ہے ؟ مائی پنکھی نے پوچھا۔
اپنا قصور تو خود ہی بتائے گی۔ پتا نہیں تجھے بڑھاپے میں کیا سوجھی ہے ۔۔۔ رب نواز نے اس کی کلائی پکڑی اور کھینچتا ہوا باہر لے چلا۔
کاکا۔ میرا ہاتھ چھوڑ دے ۔۔۔ مالی پنکھی نے کہا۔۔ دیکھ میری بات سن ۔۔
مائی ۔۔ اب تیری بات تھانے چل کر سنوں گا ۔۔۔ نواز اس کی کلائی پکڑے دروازے تک لے آیا۔
ایک منٹ میری بات سن لے ۔۔۔ مائی پنکھی نے اپنی کلائی چھڑانے کی کوشش کی۔
"چل بول ۔۔ کچھ پیسے ویسے کی پیشکش کرنا چاہتی ہے تو ؟ ۔۔۔ رب نواز ہنس کر بولا ۔
نہیں۔ میں تجھے ایک ایسی بات بتانا چاہتی ہوں جسے سن کر تیری سٹی گم ہو جائے گی۔ تیری رپورٹ تو کچی تھی۔ اب تو مجھ سے اپنے بارے میں پکی رپورٹ سن ۔۔۔ مائی پنکھی نے یہ بات کچھ اس انداز میں کہی کہ دلدار بخش گاڑی میں بیٹھتا بیٹھتا رک گیا۔ واپس پلٹ آیا۔
ہیں ۔۔ مائی ۔۔ تو تو پولیس والوں کی بھی باپ نکلی۔ رب نواز ذرا اس کی رپورٹ تو سن۔، اگر پکی نکلے تو اسے اپنی مخبر بنا لینا ۔۔۔ دلدار بخش تفریحی موڈ میں آگیا۔
ٹھیک ہے سر جی ۔۔۔ رب نواز نے کہا۔ پھر مائی پنکھی سے بولا۔۔ چل مائی ۔۔ اپنی رپورٹ پیش کر ۔۔
پہلے میرا ہاتھ چھوڑ ۔۔۔ مائی پنکھی نے کہا۔
یہ لے ۔۔۔ رب نواز نے اس کا ھاتھ چھوڑ دیا ۔۔ بھاگنے کی کوشش مت کرنا ۔
میں بڑھیا کہاں بھاگوں گی۔ یہ میری بھاگنے کی عمر ہے کیا ؟ ۔۔۔ مائی پنکھی بولی۔
اچھا مائی ۔۔ ہمارا وقت ضائع نہ کر ۔ جو بولنا ہے جلدی بول ۔۔۔ دلدار بخش نے مداخلت کی۔
تمہاری دو بیویاں ہیں؟ ۔۔۔ مائی پنکھی نے رب نواز سے پوچھا۔
ہاں ۔۔ ہیں تو اس بارے میں ساری دنیا جانتی ہے ۔۔۔ رب نواز نے اپنی مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے کہا۔
کاکا۔ کیا تو اپنی چھوٹی بیوی کے بارے میں کچھ جانتا ہے؟ ۔۔
ہاں ۔۔ میں سب کچھ جانتا ہوں، میری بیوی ہے وہ ۔۔۔ رب نواز نے کسی قدر تلخنی سے کہا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر وہ کہنا کیا چاہ رہی ہے۔
تیری چھوٹی بیوی کے بارے میں میں جو کچھ جانتی ہوں کیا وہ ان سب کے سامنے بتا دوں یا اکیلے میں سنے گا ؟ مائی پنکھی نے سوال کیا۔
نا ایسی کیا بات ہے۔ تو سب کے سامنے بول ۔۔۔ رب نواز نے متفکر لہجے میں جواب دیا۔
کاکا ۔۔ پھر سن تیری بیوی کا نام تبسم ہے، تو نے اسے دھرم پورے میں رکھا ہوا ہے۔ شادی کو ایک سال ہوا ہے۔ وہ تنہا رہتی ہے۔ شادی کی ہے تو اس کے ساتھ رہ۔ تنہائی اس کے لئے زہر ہے۔ اس کے اندر آگ بھری ہے۔ بعض عورتیں صرف شریر ہوتی ہیں، جسم ہوتی ہیں، ہر وقت شعلوں میں گھری رہتی ہیں کاکا۔ ایک پورا فائر بریگیڈ بھی ان کی آگ نہیں بجھا سکتا۔ جا، جا کر دیکھ کہ وہ اس وقت کیا کر رہی ہے۔ اب کیا پڑوس میں رہنے والے اس لڑکے کا نام بھی بتانا پڑے گا۔ چل بتائے دیتی ہوں۔ فیاض ہے اس کا نام ۔۔۔ مائی پنکھی اتنا کہہ کر خاموش ہوگئی۔
اس کے اس انکشاف نے اے ایس آئی رب نواز کے تن بدن میں آگ لگا دی۔ اتنے لوگوں کے سامنے اس کی سخت توہین ہوئی تھی۔ وہ بھنا کے بولا ۔ سر جی ۔۔ آپ اس بڑھیا کو لے کر تھانے چلیں۔ میں ذرا گھر کا چکر لگا کر آتا ہوں۔ اگر اس کی رپورٹ کچی نکلی تو پھر میں تھانے آکر اس کا گلا دہاؤں گا ۔۔
اوئے ۔۔ رب نواز تم کس کے چکر میں آ رہے ہو۔ یہ بڑھیا مجھے ایک نمبر کی چلتر لگتی ہے ۔۔۔ دلدار بخش نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
لیکن وہ سمجھا نہیں۔ سمجھ بھی نہیں سکتا تھا۔ مائی پنکھی نے جو باتیں کی تھیں وہ سو فیصد سچ تھیں بس اس کی آخری بات کی تصدیق باقی تھی لہذا وہ رکا نہیں۔ اس نے موٹر سائیکل دہائی اور ” تفتیش" پر نکل گیا۔
چل مائی ۔۔ دلدار بخش نے رب نواز کے جانے کے بعد کہا۔۔ تو نے خود کو مشکل میں ڈال لیا ہے ۔
ماٸی پنکھی نے کوٸی جواب نہ دیا اور خاموشی سے اس کے ساتھ چل دی۔
دلدار بخش کو اس بڑھیا نے مخمصے میں ڈال دیا تھا۔ رب نواز کی رپورٹ کے مطابق مائی پنکھی کے گھر میں بیس پچیس آدمی موجود ہونے چاہنے تھے لیکن یہاں سے چڑیا کا بچہ بھی برآمد نہیں ہوا تھا۔ اگر وہ اس گھر میں موجود تھے تو وہ کہاں غاٸب ہو گٸے تھے یا پھر رپورٹ غلط تھی لیکن رب نواز اپنی رپورٹ پر مصر تھا کہ پکی ہے۔
تھانے پہنچ کر دلدار بخش نے اسے دو سپاہیوں کی تحویل میں دیا کہ اسے کمرے میں بٹھاٸیں اور نگرانی رکھیں۔ پھر اپنے کام نمٹا کر اس کمرے میں آیا جہاں مائی پنکھی بیٹھی تھی۔ کمرے کی روشنی میں دلدار نے مائی پنکھی کو اوپر سے نیچے تک بغور دیکھا۔ مائی پنکھی کے چہرے پر اسے کوئی گھبراہٹ یا پریشانی نظر نہیں آئی۔ وہ اس سے کوئی سوال کرنے والا تھا کہ مائی پنکھی نے پہل کر دی۔ وہ بولی
کاکا ۔۔ تو مجھے یہاں کیوں لایا ہے؟
ہمیں تیرے خلاف رپورٹ ملی تھی۔ میں تجھے بتا چکا ہوں، تیرے گھر میں مشکوک لوگوں کا آنا جانا ھے اس وقت بھی آدمیوں کی موجودگی کی مخبری ہوئی تھی۔ کیا وہ لوگ ہمارے آنے سے پہلے جا چکے تھے۔ کیا تجھے پولیس کی آمد کی اطلاع ہو گئی تھی؟ ۔۔۔ دلدار بخش نے سوال کیا۔
کاکا ۔۔ تیرے لوگوں نے ، خود تو نے میرا پورا گھر چھان مارا۔ میرے گھر میں کوئی ہوتا تو ملتا نا ۔۔۔ مائی پنکھی نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا۔
مائی تو اس طرح نہیں اگلے گی۔ رب نواز آجائے ذرا۔ پھر تجھے سیدھا کرتا ہوں ۔۔۔ دلدار غصے سے بولا۔
ہاں ۔۔ کر لے انتظار۔ میں بیٹھی ہوں۔ جب وہ ائے گا تو تو مجھے چھوڑنے اور اسے ہتھٹکڑی ڈالنے پر مجبور ہو جائے گا ۔۔۔ مائی پنکھی نے پورے یقین سے کہا۔
دلدار نے اسے سخت نظروں سے دیکھا۔۔ زیادہ بکواس نہ کر ، مجھے تو کوئی پاگل عورت معلوم ہوتی ہے۔ رب نواز نے خواہ مخواہ میرا وقت ضائع کیا ۔۔۔ یہ کہہ کر وہ کھڑا ہو گیا۔ پھر اس نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ بڑھیا کو لاک آپ میں ڈال دو اور خود اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ اسے شدت سے رب نواز کا انتظار تھا۔
چار بجے کے قریب رب نواز تھانے کی حدود میں داخل ہوا۔ اس نے موٹر سائیکل دیوار کے ساتھ کھڑی کی اور پھر مرے قدموں سے چلتا دلدار بخش کے کمرے میں داخل ہوا۔
ہاں ۔۔ رب نواز ۔ کیا ہوا ؟ ۔۔۔ دلدار نے بےقرار ہو کر پوچھا۔
بہت کچھ ہو گیا سر جی ۔۔۔ رب نواز نے انتہائی دکھ سے کہا۔
کیا مطلب ۔، تیری طبیعت تو ٹھیک ہے؟ ۔۔
رب نواز نے کندھے سے ریوالور اتارا، کمر سے اپنی پیٹی نکالی۔ پیٹی اور ریوالور اس نے دلدار بخش کی میز پر رکھا اور بولا ۔۔ کھیل ختم ہو گیا۔ وہ مائی بالکل سچی نکلی۔ بڑی پکی رپورٹ دی اس نے ،،
ہوا کیا ۔۔ کچھ بول تو ۔۔۔ دلدار بخش پریشان ہو کر بولا ۔
سر جی ۔۔ میں دونوں کو مار آیا ہوں ۔۔۔ رب نواز نے شدت غم سے کہا۔۔ آپ مجھے گرفتار کر لیں۔ ہتھکڑی ڈال دیں میرے ہاتھوں میں۔ میں نے ایک نہیں دو خون کئے ہیں۔ سر جی میری بیوی بے وفا نکلی۔ میں جب گھر میں کودا تو وہ دونوں بےخبر سو رہے تھے۔ میں نے سوتے میں ہی دونوں کو گولی مار دی ۔۔
یہ تو نے کیا کیا رب نواز ۔۔ کیا تو جانتا نہیں کہ پھانسی چڑھ جائے گا ؟
جانتا ہوں سر جی ، اچھی طرح جانتا ہوں۔ پر کیا کروں، انہیں دیکھتے ہی میرے دماغ میں آگ لگ گئی۔ میری بیوی پڑوس کے لڑکے فیاض کی گردن میں بانہیں ڈالے سو رہی تھی سر جی۔ وہ دونوں بے لباس تھے سر جی میں انہیں کیسے نا گولی مارتا ۔۔۔ رب نواز غصے سے کانپ رہا تھا۔
تو نے واردات کر دی تھی تو پھر پلٹ کر یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔ اپنی پیٹی اور ریوالور اٹھا اور جا نکل جا ۔۔۔ دلدار بخش نے مشورہ دیا۔
آپ کا شکریہ سر جی ۔۔۔ رب نواز احسان مندی سے بولا۔۔ پر میں بھاگوں گا نہیں چاہے پھانسی ہو یا عمر قید ۔۔
اس بڑھیا کا کیا کروں ، اس کی ایک ایک بات سچ نکلی ، اس نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ میں تمہیں ہتھکڑیاں لگان اور اسے چھوڑنے پر مجبور ہو جاؤں گا ۔۔۔ دلدار بخش نے بتایا۔
سر جی اسے چھوڑ دیں ۔ وہ تو کوئی بہت پہنچی ہوئی چیز معلوم ہوتی ہے ۔
میری سمجھ میں ابھی تک یہ بات نہیں آئی کہ اس کے گھر میں موجود آدمی کہاں غائب ہو گئے یا پھر تمہارے مخبر کی اطلاع غلط تھی ۔۔۔ دلدار بخش کی سوئی غائب ہونے والے آدمیوں پر اٹکی ہوئی تھی۔
اطلاع تو ٹھیک تھی ۔۔۔ رب نواز بولا ۔
تو پھر اس بڑھیا کو دو تین دن حوالات میں رکھتے ہیں اور دن کی روشنی میں گھر کا جائزہ لیتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے اس کے گھر میں کوئی خفیہ راستہ ہے۔ ہمارے وہاں پہنچتے ہی اس نے خفیہ راستے سے انہیں باہر کر دیا ۔۔۔ دلدار بخش نے کہا۔
میری مانیں تو اسے چھوڑ دیں۔ ایک مرتبہ پھر اس کی نگرانی کرائیں ۔ صحیح رپورٹ پر چھاپہ ماریں ۔۔۔ رب نواز نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔۔ وہ بڑھیا مجھے خطرناک لگتی ہے۔ اس کے پاس ضرور کوئی کالا علم ہے۔ اس نے میرے بارے میں جو بتایا، سچ بتایا ۔
نہیں رب نواز ۔۔ میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔ میں دیکھتا ہوں اس جادوگرنی کو ۔۔۔ دلدار بخش نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
لیکن دلدار بخش اپنے فیصلے پر قائم نہ رہ سکا۔ صبح ہونے تک تھانے میں ایسے ہنگامی حالات پیدا ہو گئے کہ کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ یہ آخر ہوا کیا ہے؟
مائی پنکھی حوالات میں بند تھی۔ اس وقت اس کے علاوہ کوئی اور اندر نہ تھا۔ مائی پنکھی فرش پر لیٹی ہوئی تھی۔ اس نے اپنا ایک ہاتھ آنکھوں پر رکھا ہوا تھا۔ باہر ایک سپاہی پہرے پر تھا۔
اجالا پھیلتے ہی کووں کے چیخنے کی آوازیں آنے لگیں۔ پھر دو تین کوے کائیں کائیں کرتے راہداری میں آئے اور اڑتے ہوئے کمرہ حوالات میں داخل ہو گئے جہاں مائی پنکھی بند تھی۔
ابھی پانچ سات منٹ گزرے ہوں گے کہ پورا لاک آپ کووں سے بھر گیا۔ مائی پنکھی آنکھوں پر ہاتھ رکھے آرام سے لیٹی تھی جبکہ کئی کوے اس کے اوپر بھی موجود تھے۔
سپاہی پریشان ہو کر دلدار بخش کے کمرے میں پہنچا اور گھبرا کر بولا ۔۔ سر جی حوالات میں بےشمار کوے بھرے ہوٸے ہیں اور وہ بڑھیا آرام سے لیٹی ہے ۔ پتا نہیں کہیں مر تو نہیں گئی ؟ ۔۔
دلدار بخش، سپاہی کے ساتھ باہر نکلا تو تھانے کی فضا ہی بدل چکی تھی۔ پورے تھانے میں کوے بھرے ہوٸے تھے اور ان کی کائیں کائیں کے علاوہ کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔
دلدار بخش سر پر ہاتھ رکھے خود کو بچاتا لاک اپ تک آیا۔ ماٸی پنکھی بڑے آرام سے ابھی تک آنکھوں پہ ہاتھ رکھے لیٹی تھی۔ کوے اس کے پورے بدن پر کودتے پھر رہے تھے۔
اوئے ۔۔ یہ مر تو نہیں گئی؟ دلدار بخش نے مائی پنکھی پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔۔ "تالا کھول"
سپاہی نے حوالات کا تالا کھولا ۔ دروازہ کھلتے ہی کوؤں نے چیخ چیخ کر پورے تھانے کو سر پر اٹھا لیا۔ وہ ادھر سے اُدھر اڑتے پھر رہے تھے۔ دلدار بخش ہاتھ میں موجود رول گھماتا ہوا اندر پہنچا اور چیخ کر بولا۔۔ او مائی اٹھ ۔۔
مائی پنکھی نے اچانک اپنی آنکھوں سے ہاتھ اٹھایا اور اس طرح اٹھ کر بیٹھ گئی جیسے وہ اس کی آمد کی منتظر تھی۔ اس نے اپنی سرخ آنکھوں سے دلدار بخش کو دیکھا اور اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
یہ کیا مصیبت ہے۔ یہ کوے کہاں سے آگئے ؟ ۔۔۔ دلدار بخش چیخ کر بولا ۔
کاکا ۔۔ مجھے کیا معلوم تو ان سے پوچھ لے۔ مائی پنکھی نے حوالات کے دروازے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔۔ کیا میں اب جاؤں؟ ۔۔
ہاں مائی تو جا لیکن پہلے ان سے ہمیں نجات دلا ۔۔۔ دلدار بخش نے کوؤں سے اپنا بچاؤ کرتے ہوئے کہا۔
اچھا۔ مائی پنکھی نے راہداری میں کھڑے ہو کر اوپر کی طرف دیکھا اور بولی ۔۔ بس بگا ۔۔ انہیں لے جا ۔۔
مائی پنکھی کے اتنا کہنے کے بعد مشکل سے دو تین منٹ لگے ہوں گے کہ تھانے کی فضا صاف ہو گئی۔ وہاں کوئی کوا رہا نہ کوئی کوے کا بچہ۔
کووں کے فضا میں معدوم ہونے کے بعد دلدار بخش نے ایک گہرا سانس لیا اور ماٸی پنکھی کو دیکھ کر بولا ۔۔ تو کوئی جادو گرنی ہے کیا ؟
تو نے پھر الزام لگایا مجھ پر ۔۔۔ مائی پنکھی نے اسے خشمگیں نگاہوں سے دیکھا۔۔ چل مجھے گھر چھوڑ کر آ ۔
دلدار بخش اندر سے اتنا خوفزدہ ہو گیا کہ اب اس میں ہمت نہ تھی کہ اسے روک لیتا۔ وہ بہ نفس نفیس اسے اس کے گھر چھوڑ کر گیا اور ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ پولیس نے کسی ملزم کو باعزت طریقے سے گھر پہنچایا ہو ۔۔۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے؟ ۔۔۔
مائی پنکھی پولیس وین سے اتری تو گلی کے لوگوں نے حیرت سے دیکھا لیکن کسی میں ہمت نہ تھی کہ وہ اس سے کوئی سوال کرتا ۔ سب انسپکٹر دلدار بخش اس کے ساتھ گھر کے اندر آیا۔ پورے صحن میں نیم کی زرد پتیاں بکھری ہوئی تھیں۔ نیم کے درخت پر بیٹھے کوے کائیں کائیں کر رہے تھے۔ کوؤں کی آواز سن کر دلدار بخش کی آنکھوں کے سامنے تھانے کا منظر گھوم گیا۔ اس نے گھبرا کر مائی پنکھی کی طرف دیکھا۔ وہ پورے اطمینان سے صحن میں پڑی چارپائی پر بیٹھ چکی تھی۔ اس کے چہرے پر کسی قسم کا کوئی تاثر نہ تھا۔ اسے اس بات کا احساس بھی نہ تھا کہ اس کے ساتھ دلدار بخش آیا ہے اور وہ پرتجسس نظروں سے صحن کا جائزہ لے رہا ہے۔
پھر اس نے ایک نظر باورچی خانے میں جھانکا۔ باورچی خانے کے مقابل آخری سرے پر بنے غسل خانے اور بیت الخلا کو بھی اندر سے دیکھا۔ پھر وہ اندر چلا گیا۔ کمروں کا اچھی طرح جائزہ لیا۔
بالآخر وہ اسی نتیجے پر پہنچا کہ اس گھر میں باہر جانے کا راستہ ایک ہی ہے۔
ابھی تک اس کا ذہن اس گتھی کو سلجھانے میں منہمک تھا کہ چھاپے کے وقت اس گھر میں بیس سے پچیس مرد اور عورتیں موجود تھیں، وہ آخر کس راستے سے فرار ہوئے۔ یہ بات اس کے دماغ میں کسی کیل کی طرح گڑ گئی تھی۔
کاکا ۔۔ تو کچھ پریشان ہے؟ ۔۔۔ مائی پنکھی نے اس کے چہرے پر نظریں گاڑ کر کہا۔
مائی۔ اگر تو یہ بات مجھے بتا دے کہ اس گھر میں موجود بندے بندیاں کس طرح باہر گئے تو میں تجھے بھول جاؤں گا ۔۔۔ دلدار بخش نے مفاہمانہ انداز میں کہا۔
بتادوں گی کاکا، پریشان کیوں ہوتا ہے۔ تو مجھے بھول جانا چاہتا ہے لیکن میں نہیں چاہتی کہ تو مجھے بھولے، آتے جاتے رہنا ۔۔۔ مائی پنکھی چارپائی سے اٹھی اور دروازے کی طرف بڑھی۔ دلدار بخش کو یہ بات سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ وہ تیزی سے دروازے کی طرف بڑھا اور باہر نکلتے ہوئے بولا ۔۔ مائی میں پھر آؤں گا ۔
مائی پنکھی نے کوئی جواب نہ دیا۔ اپنی چمکیلی آنکھوں سے اسے ایک نظر دیکھا اور دروازے کے دونوں کواڑ بند کر کے پتھر لگا دیا۔
واپس پلٹتے ہی یکدم اسے بھوک کا احساس ہوا۔ وہ مٹی کی ھنڈیا اٹھا کر باہر لاٸی۔ نلکے کے نیچے رکھ کر اس نے محض پانی سے کھنگالا۔ پھر اس میں پانی بھرا، باورچی خانے میں پہنچ کر چولہے پر رکھا، کچھ ڈبوں سے اس نے تھوڑی تھوڑی کئی چیزیں نکال کر ھنڈیا میں ڈالیں اور چولہا جلا دیا اور پیڑھی پر بیٹھ گئی۔
انجو ۔۔۔ اس نے پیڑھی پر بیٹھے بیٹھے آواز لگائی۔ وہ چاہتی تھی کہ انجو جلد کوا پکڑ کر لائے۔ اس کی بھوک آخری حدوں کو چھو رہی تھی۔
کچھ لمحے انتظار کرنے کے بعد اس نے پھر آواز لگائی ۔۔ ”انجو"
لیکن انجو نہیں آئی۔ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ مائی پنکھی نے اسے آواز دی ہو اور وہ فورا اس کے سامنے نہ آئی ہو۔ مائی پنکھی گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔ وہ باورچی خانے سے باہر آئی اور اس نے چھت کی طرف دیکھتے ہوئے زور سے آواز دی ۔۔ انجو ۔۔
انجو گھر میں ہوتی تو آتی ۔
گلشن 13- ڈی کے جس مکان کا ڈاکٹر نوشاد نے پتا بتایا تھا، اس تک پہنچنا کوئی مشکل نہ تھا۔ عابر نے بہ آسانی مطلوبہ مکان کو ڈھونڈ نکالا ۔ دروازے پر ڈاکٹر نوشاد کی نیم پلیٹ نصب تھی۔ نام کے ساتھ ہومیو پیتھی کی ڈگری درج تھی۔
یہ گھر جس میں اب ڈاکٹر نوشاد قیام پذیر تھا، چند سال قبل یہ کسی بیوہ عورت کی ملکیت تھا۔ وہ بیوہ عورت، ڈاکٹر نوشاد کی دور کی عزیزہ تھی۔ ڈاکٹر نے اپنی چکنی چیڑی باتوں سے اسے رام کیا اور بحیثیت کرائے دار اس مکان میں رہائش پذیر ہوا۔ ایک سال کے عرصے میں وہ بیوہ چل بسی۔ اس کا کوئی والی وارث نہ تھا۔ ڈاکٹر نوشاد پہلے ہی مکان پر قابض تھا۔ اس کے مرتے ہی جعلسازی سے یہ مکان اپنے نام کر لیا۔ اس طرح لاکھوں کا مکان ایک کوڑی دیئے بنا اس کا ہو گیا۔
ڈاکٹر نوشاد جعلسازی کا ماہر تھا۔ ہومیو پیتھی کی ڈگری بھی اس کے پاس جعلی تھی۔ اس نے ایک ادارے سے خط و کتابت پر مبنی ہومیو پیتھی کا کورس کر رکھا تھا۔ گھر پر ہی اس نے ایک کونے میں ہومیو پیتھی کی دوائیں رکھ چھوڑی تھیں۔ اس گھر میں کوئی مریض آتا تھا نہ ڈاکٹر کسی کو کوئی دوا دیتا تھا۔
اس کی آمدنی کا ذریعہ کیا تھا، یہ بات کسی کو معلوم نہ تھی۔ ڈاکٹر نوشاد خود بھی اپنے بارے میں یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس کا ذریعہ معاش فلاں چیز ہے۔ وہ وسیع تعلقات رکھتا تھا، چرب زبان اور خوشامدی تھا۔ سامنے والے کی ضرورت سمجھ کر اس کی ضرورت پوری کرنا اس کی زندگی کا مقصد تھا۔ اس حاجت روائی کے عوض اپنا الو سیدھا کرنا اس شخص کو خوب آتا تھا۔ کس کو کس طرح کیش کیا جا سکتا ہے، اس آرٹ سے وہ اچھی طرف واقف تھا۔
اب اس نے عابر پر جال ڈالا تھا۔ گھنٹی کی آواز سنتے ہی وہ بذات خود گیٹ پر آیا۔ گیٹ کھولا تو سامنے عابر کھڑا نظر آیا۔ وہ بڑے تپاک سے اس سے ملا، گلے سے لگایا اور اس کے بروقت پہنچنے کی تعریف کی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر بڑی اپنائیت سے گھر کے اندر لایا۔
ارے بھئی چاندنی ۔۔ دیکھو عابر آئے ہیں ۔۔۔ ڈاکٹر نوشاد نے دور ہی سے آواز لگائی۔
چاندنی کہیں سے نکل کر فورا سامنے آئی۔ عابد نے اسے دیکھ کر سلام کیا اور اس کے آگے سر جھکا دیا۔ چاندنی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھنے کے بجائے کندھے پر ہاتھ رکھا اور مسکرا کر بولی ۔۔ عابر ماشا اللہ بڑے پیارے لگ رہے ہو ۔۔
شکریہ آنٹی ۔۔۔ عابر اپنی پذیرائی پر خوش ہوا۔
ارے ۔۔ لڑکیو ۔۔ چلو باہر آؤ، دیکھو کون آیا ہے ۔۔
کون آیا ہے امی؟ ۔۔۔ سب سے پہلے دوڑتی ہوئی شائستہ آئی۔
اوہ ۔۔ عابر بھائی آئے ہیں ۔۔
شائستہ کے بعد ایک ایک کر کے سب لڑ کیاں باہر آ گئیں۔ نہیں آئی تو ملکہ جسے دیکھنے کیلئے وہ تڑپ رہا تھا اور جس سے ملنے کی آرزو اسے یہاں تک کھینچ لائی تھی۔
ارے بھئی ، کیا عابر میاں کو باہر ہی کھڑا رکھو گے۔ انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھاؤ ۔۔۔ ڈاکٹر نوشاد بولا ۔
نہیں ابو ۔۔ ہم لاؤنج میں بیٹھیں گے، ڈرائنگ روم میں تو غیروں کو بٹھایا جاتا ہے ۔۔۔ شائستہ نے بڑی اپنائیت سے کہا۔
اچھا بیٹی جیسی تمہاری مرضی ۔۔۔ ڈاکٹر نوشاد اندر جاتے ہوٸٕے بولا۔
باپ کے وہاں سے ہٹتے ہی شائستہ اینڈ کمپنی نے عابر کو اپنے حصار میں لے لیا اور اسے لے کر لاؤنج کی طرف بڑھیں۔
جب یہ لڑکیاں اسے لئے لاؤنج میں داخل ہوٸیں، سامنے نظر پڑتے ہی عابر کا دل شدت سے دھڑکنے لگا۔ وہ قیامت اس کے سامنے کھڑی تھی۔ کھلے ہال، میک آپ سے عاری چہرہ سادہ سے کپڑے۔ یوں لگتا جیسے کچھ دیر قبل نہا کر نکلی ہو۔ وہ سادہ کپڑوں میں بغیر میک آپ کے بھی جگمگا رہی تھی جبکہ دیگر بہنیں خصوصاً شائستہ اور فاخرہ خوب بنی ٹھنی اور جدید تراش تراش کا لباس زیب تن کئے ہوئے تھیں۔ اس کے باوجود ان کے حسن کے چاند بجھے ہوئے تھے۔
عابر کھڑی ہوئی قیامت کی طرف تیزی سے بڑھا۔ ملکہ پر اس کی نگاہیں جمی تھیں۔ اس وقت اس کے سوا اسے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ اس کے قریب پہنچ کر ٹھہر گیا۔ بات کرنے سے زیادہ اسے نظروں میں بھرنے سے دلچسپی تھی۔ لیکن اتنے ڈھیر سارے لوگوں میں اس پر نظریں جمانا آسان نہ تھا لہذا وہ رسما بولا ۔۔ کیسی ہیں ملکہ ،،
جی ۔۔ میں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔ ملکہ نے دھیرے سے کہا۔
لو جی آپی ۔۔۔ فاخرہ، شائستہ سے مخاطب ہو کر بولی۔۔ عابر کو ابھی تک یہی نہیں معلوم ہوا کہ ملکہ کیسی ہے۔ ارے جناب سب جانتے ہیں کہ ہم بہنوں میں وہ سب سے اچھی ہے ۔۔
فاخرہ ۔۔۔ شائستہ نے اس کے چٹکی لینے پر ترچھی نظروں سے دیکھا۔
او کے آپی ۔۔۔ فاخرہ نے سرجھکاتے ہوئے کہا۔
عابر بینا، بہت اچھا لگا کہ تم ہمارے گھر آئے ۔۔۔ چاندنی نے مسکراتے ہوئے اسے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
آئٹی ۔۔ مجھے خود یہاں آ کر بےانتہا خوشی ہوئی ۔۔۔ عابر نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
اور مجھے بڑا رنج ہے کہ ان لوگوں نے آپ کو بلانے میں اتنی دیر کیوں کی ۔۔۔ ڈاکٹر نوشاد نے لاؤنج میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
کوئی بات نہیں انکل ۔۔۔ عابر ملکہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔
شائستہ ۔۔ بھائی کو گھر دکھاؤ ۔۔۔ چاندنی کا لہجہ معنی خیز تھا جسے شائستہ نے تو سمجھا لیکن عابر کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔
آئیے عامر بھائی ۔۔۔ شائستہ نے عابد کو اشارہ کیا۔۔ ہم آپ کو اپنا غریب خانہ دکھائیں۔ ملکہ آؤ ۔۔
عابد کے لئے آخری بات بہت اہم تھی۔ وہ فورا کھڑا ہو گیا۔ عابر کا خیال تھا کہ بقیا بہنیں بھی ساتھ نکلیں گی لیکن ایسا نہ ہوا۔ شائستہ اور ملکہ کے سوا کوئی نہ اٹھا۔
شائستہ نے سب سے پہلے اپنا کمرہ دکھایا۔ اس کمرے میں ملکہ بھی اس کے ساتھ رہتی تھی۔ یہ درمیانے سائز کا اچھا سجا سجایا کمرا تھا۔
عابر بھائی ۔۔ یہ ہے ہمارا نشمن ۔۔۔ شائستہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
زبردست ۔۔۔ عابر پرجوش انداز میں بولا۔
بیٹھیں ۔۔۔ ملکہ نے بیڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
بیٹھیں گے۔ پہلے انہیں پورا گھر دکھا دیں ورنہ امی چیخیں گی ۔۔۔ شائستہ نے کہا۔
اس سے قبل کہ ملکہ کوئی جواب دیتی۔ شائستہ بولی۔۔ عابر بھائی بس کچھ نہ پوچھیں یہ موباٸل کی دشمن ہے، ابھی تک چار پانچ موبائل گم کر چکی ہے یا توڑ چکی ہے۔ ابو نے دبئی سے ایک سے ایک اعلیٰ موبائل اس کو لا کر دیا ہے ۔
کوئی نہیں آپی ۔۔۔ ملکہ نے احتجاج تو کیا لیکن اس میں زور نہیں تھا۔ شائستہ ابھی جواب دینے کی تیاری میں تھی کہ فاخرہ اندر داخل ہوئی اور بولی ۔۔ آپی امی بلا رہی ہیں ۔۔
اچھا ۔۔۔ شائستہ تیر کی طرح کمرے سے نکل گئی۔ عابر کا خیال تھا کہ شاٸستہ کی جگہ فاخرہ لے لے گی لیکن ایسا نہ ہوا۔ فاخرہ بھی اس کے ساتھ چلی گئی۔
یہ ایک زبردست موقع تھا۔ ملکہ کمرے میں تنہا رہ گئی تھی۔ پتا نہیں یہ موقع قصداً عطا کیا گیا تھا یا پھر ایسا غلطی سے ہوا تھا۔ جو بھی تھا، اس عطا سے فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا۔
ملکہ ۔۔ تم سے بات کرنی مشکل ہو گئی ہے۔ تمہارے پاس موبائل ہونا چاہئے ۔
اچھا ۔۔ میں لے لوں گی ۔۔۔ ملکہ نے لاپروائی سے کہا۔
ملکہ میں تمہیں دیکھے اور تم سے بات کئے بنا نہیں رہ سکتا ۔۔۔ عابر ہےتابانہ لہجے میں ہولا۔۔ مجھے تمہارے بارے میں کیا جاننا چاہئے جو میں نہیں جان سکا۔ مجھے بتاؤ، اس دن بات پوری نہ ہوسکی تھی ۔
بات تو اب بھی پوری نہ ہو سکے گی۔ بس کوئی آیا ہی چاہتا ہے ۔۔۔ ملکہ نے دروازے کی طرف دیکھا۔
پھر ہم کہاں ملیں اور کیسے ملیں؟ ۔۔۔ عابر بولا ۔
کالج کے گیٹ پر ۔۔۔ ملکہ نے راستہ دکھایا۔
عابر یہ سن کر یکدم خوش ہو گیا۔ اس نے فورا کالج کا نام اور وقت پوچھ لیا۔ اس سے قبل کہ دونوں میں مزید کوئی بات ہوتی ، شائستہ اور فاخرہ دونوں باتیں کرتی ہوئی اندر آ گئیں۔
ارے ملکہ تم یہیں بیٹھی ہو، ہم سمجھ رہے تھے کہ تم نے پورا گھر دکھا دیا ہوگا ۔
نہیں آپی ۔۔ میں آپ کا انتظار کر رہی تھی ۔
گڈ گرل ۔۔۔ فاخرہ نے خوشی کا اظہار کیا۔
پھر تینوں نے اسے گھر دکھایا۔ عابر کو اس گھر سے دلچسپی نہ تھی۔ وہ یہاں ملکہ کے لئے آیا تھا، اسے دیکھ لیا تھا اور آئندہ ملاقات کی راہ بھی صاف ہو گئی تھی۔ بہرحال یہاں آیا تھا تو رسم تو نبھانا تھی۔ وہ ان کے ساتھ ہنسی خوشی محو خرام رہا۔ خوب سیر ہو کر کھانا کھایا، مزے کی کافی پی اور اپنے گھر کی راہ لی۔
وہ دیر گئے گھر پہنچا۔ گھنٹی بجانے پر جس نے دروازہ کھولا ، اسے دیکھ کر وہ یکدم سہم گیا۔
یہ تمہارے گھر آنے کا وقت ہے؟ علی نثار نے لہجہ سخت کئے بنا کہا۔
جی ابو دیر ہو گئی، ویسے میں امی کو بتا کر گیا تھا ۔۔۔ عابر نے نازنین کی طرف مدد طلب نظروں سے دیکھا جو علی نثار کے پیچھے کھڑی تھیں۔
تم اس وقت کہاں سے آرہے ہو؟ علی نثار نے پوچھا۔
ایو، ایک دوست کے ہاں سے آ رہا ہوں، اس نے کھانے پر بلایا تھا ۔۔
مجھے ذرا اس کا نمبر دینا ، اس وقت رات کے دو بجے ہیں۔ یہ کھانے کا کون سا وقت ہے ۔۔۔ علی نثار کے لہجے میں اب غصہ در آیا۔
اچھا ۔۔۔ بات کر لیجیے گا ۔۔۔ نازنین نے معاملہ سنجیدہ ہوتے دیکھ کر مداخلت کی۔۔ اب یہ آپ کا زمانہ تو ہے نہیں کہ اپنے وقت پر ڈنر ختم ہو جائے ، یہ نئی پود ہے، اسے وقت کی قدر ہے نا ادارک ۔ عابر تم آئندہ اتنی دیر تک گھر سے باہر نہیں رہو گے۔ سن لیا تم نے۔ اپنے تمام منحوس دوستوں کو بتا دینا ۔۔
جی امی ۔۔۔ عامر نے انتہائی فرمانبرداری سے کہا۔
اور اس طرح نازنین نے اپنے تدبر سے عابر کے سر پر گھومتی شامت کو ٹال دیا۔
لیکن یہ مسئلہ زیادہ دن ٹلنے والا نہ تھا۔ علی نثار سنجیدہ ہو چکے تھے۔ وہ عابر کو مزید وقت دینا نہیں چاہتے تھے۔ انہیں عابر کے لیل ونہار کا بالکل پتا نہ تھا بس وہ اتنا ہی سمجھ رہے تھے کہ وہ لا ابالی طبیعت ایک سست الوجود لڑکا ہے، جب تک اس کے گرد گھیرا تنگ نہیں کیا جائے گا، اس کے سدھرنے کا امکان نہیں۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے براہ راست باز پرس شروع کر دی تھی۔
ایک دن عابر نے ملکہ کے بتائے ہوئے وقت پر کالج کا چکر لگایا۔ یہ چھٹی کا وقت تھا، لڑکیاں تیزی سے کالج کے گیٹ سے باہر آرہی تھیں ۔ عابر وہاں کافی دیر تک کھڑا رہا لیکن ملکہ اسے نظر نہیں آئی۔ شاید وہ آج کالج آئی ہی نہیں تھی۔
اس نے وہیں کھڑے کھڑے شائستہ کو فون کیا۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد ملکہ کا ذکر چھیڑا۔ شائستہ نے بتایا کہ آج وہ کالج نہیں گئی۔ اس کی طبیعت خراب ہے ۔
کیا ہوا ؟ ۔۔۔ عامر نے فکر مندی سے پوچھا۔
ارے، ایسی کوئی خاص بات نہیں ، نزلہ وغیرہ ہے، نزلے میں تھوڑا بہت بخار تو ہو ہی جاتا ہے ۔۔۔ شائستہ نے بےنیازی سے جواب دیا۔ پھر اچانک جیسے اسے کچھ یاد آیا۔ وہ بولی ۔۔ ہاں اوہ ابو آپ کے بارے میں پوچھ رہے تھے، شاید وہ آپ سے ملنا چاہ رہے ہیں ۔۔
کوئی خاص بات؟ ۔۔۔ عابر کی چھٹی حس جاگی۔
مجھے کیا پتا ۔۔۔ شائستہ نے کچھ اس انداز میں کہا کہ عابر مشکوک ہو گیا۔
بتا ئیں نا ۔۔ آپ کو سب پتا ہے ۔۔۔ عابر بولا۔
مجھے انہوں نے کچھ نہیں بتایا ، بس اتنا ہی کہا کہ کسی دن عابر کو چائے پر بلاؤ ۔۔۔ شائستہ اتنا کہہ کر ہنسی ۔
اچھا ٹھیک ہے، بتائیں کب آؤں؟
نیک کام میں بھلا دیر کس بات کی ، آج ہی شام میں آجائیں، اس وقت آپ کہاں ہیں؟
جی گھر پر ہوں ۔۔۔ عابر نے پورے یقین سے جھوٹ بولا ۔ یہ آسانی موبائل فون کی فراہم کردہ تھی۔
چلیں پھر پکا شام کو آ رہے ہیں آپ ۔۔۔ شائستہ نے کہا۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ عابر نے فورا حامی بھر لی۔
ڈاکٹر نوشاد نے شام کو چائے پر بلا کر عابر سے جو کچھ کہا، وہ اس کے لئے انتہائی خوش کن تھا۔ لیکن اسی رات کھانے پر علی نثار نے عابر سے جو کچھ کہا، اسے سن کر عابر کی سٹی گم ہو گئی ۔
"میرا قصور کیا ہے ؟ مائی پنکھی نے پوچھا۔
اپنا قصور تو خود ہی بتائے گی۔ پتا نہیں تجھے بڑھاپے میں کیا سوجھی ہے ۔۔۔ رب نواز نے اس کی کلائی پکڑی اور کھینچتا ہوا باہر لے چلا۔
کاکا۔ میرا ہاتھ چھوڑ دے ۔۔۔ مالی پنکھی نے کہا۔۔ دیکھ میری بات سن ۔۔
مائی ۔۔ اب تیری بات تھانے چل کر سنوں گا ۔۔۔ نواز اس کی کلائی پکڑے دروازے تک لے آیا۔
ایک منٹ میری بات سن لے ۔۔۔ مائی پنکھی نے اپنی کلائی چھڑانے کی کوشش کی۔
"چل بول ۔۔ کچھ پیسے ویسے کی پیشکش کرنا چاہتی ہے تو ؟ ۔۔۔ رب نواز ہنس کر بولا ۔
نہیں۔ میں تجھے ایک ایسی بات بتانا چاہتی ہوں جسے سن کر تیری سٹی گم ہو جائے گی۔ تیری رپورٹ تو کچی تھی۔ اب تو مجھ سے اپنے بارے میں پکی رپورٹ سن ۔۔۔ مائی پنکھی نے یہ بات کچھ اس انداز میں کہی کہ دلدار بخش گاڑی میں بیٹھتا بیٹھتا رک گیا۔ واپس پلٹ آیا۔
ہیں ۔۔ مائی ۔۔ تو تو پولیس والوں کی بھی باپ نکلی۔ رب نواز ذرا اس کی رپورٹ تو سن۔، اگر پکی نکلے تو اسے اپنی مخبر بنا لینا ۔۔۔ دلدار بخش تفریحی موڈ میں آگیا۔
ٹھیک ہے سر جی ۔۔۔ رب نواز نے کہا۔ پھر مائی پنکھی سے بولا۔۔ چل مائی ۔۔ اپنی رپورٹ پیش کر ۔۔
پہلے میرا ہاتھ چھوڑ ۔۔۔ مائی پنکھی نے کہا۔
یہ لے ۔۔۔ رب نواز نے اس کا ھاتھ چھوڑ دیا ۔۔ بھاگنے کی کوشش مت کرنا ۔
میں بڑھیا کہاں بھاگوں گی۔ یہ میری بھاگنے کی عمر ہے کیا ؟ ۔۔۔ مائی پنکھی بولی۔
اچھا مائی ۔۔ ہمارا وقت ضائع نہ کر ۔ جو بولنا ہے جلدی بول ۔۔۔ دلدار بخش نے مداخلت کی۔
تمہاری دو بیویاں ہیں؟ ۔۔۔ مائی پنکھی نے رب نواز سے پوچھا۔
ہاں ۔۔ ہیں تو اس بارے میں ساری دنیا جانتی ہے ۔۔۔ رب نواز نے اپنی مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے کہا۔
کاکا۔ کیا تو اپنی چھوٹی بیوی کے بارے میں کچھ جانتا ہے؟ ۔۔
ہاں ۔۔ میں سب کچھ جانتا ہوں، میری بیوی ہے وہ ۔۔۔ رب نواز نے کسی قدر تلخنی سے کہا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر وہ کہنا کیا چاہ رہی ہے۔
تیری چھوٹی بیوی کے بارے میں میں جو کچھ جانتی ہوں کیا وہ ان سب کے سامنے بتا دوں یا اکیلے میں سنے گا ؟ مائی پنکھی نے سوال کیا۔
نا ایسی کیا بات ہے۔ تو سب کے سامنے بول ۔۔۔ رب نواز نے متفکر لہجے میں جواب دیا۔
کاکا ۔۔ پھر سن تیری بیوی کا نام تبسم ہے، تو نے اسے دھرم پورے میں رکھا ہوا ہے۔ شادی کو ایک سال ہوا ہے۔ وہ تنہا رہتی ہے۔ شادی کی ہے تو اس کے ساتھ رہ۔ تنہائی اس کے لئے زہر ہے۔ اس کے اندر آگ بھری ہے۔ بعض عورتیں صرف شریر ہوتی ہیں، جسم ہوتی ہیں، ہر وقت شعلوں میں گھری رہتی ہیں کاکا۔ ایک پورا فائر بریگیڈ بھی ان کی آگ نہیں بجھا سکتا۔ جا، جا کر دیکھ کہ وہ اس وقت کیا کر رہی ہے۔ اب کیا پڑوس میں رہنے والے اس لڑکے کا نام بھی بتانا پڑے گا۔ چل بتائے دیتی ہوں۔ فیاض ہے اس کا نام ۔۔۔ مائی پنکھی اتنا کہہ کر خاموش ہوگئی۔
اس کے اس انکشاف نے اے ایس آئی رب نواز کے تن بدن میں آگ لگا دی۔ اتنے لوگوں کے سامنے اس کی سخت توہین ہوئی تھی۔ وہ بھنا کے بولا ۔ سر جی ۔۔ آپ اس بڑھیا کو لے کر تھانے چلیں۔ میں ذرا گھر کا چکر لگا کر آتا ہوں۔ اگر اس کی رپورٹ کچی نکلی تو پھر میں تھانے آکر اس کا گلا دہاؤں گا ۔۔
اوئے ۔۔ رب نواز تم کس کے چکر میں آ رہے ہو۔ یہ بڑھیا مجھے ایک نمبر کی چلتر لگتی ہے ۔۔۔ دلدار بخش نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
لیکن وہ سمجھا نہیں۔ سمجھ بھی نہیں سکتا تھا۔ مائی پنکھی نے جو باتیں کی تھیں وہ سو فیصد سچ تھیں بس اس کی آخری بات کی تصدیق باقی تھی لہذا وہ رکا نہیں۔ اس نے موٹر سائیکل دہائی اور ” تفتیش" پر نکل گیا۔
چل مائی ۔۔ دلدار بخش نے رب نواز کے جانے کے بعد کہا۔۔ تو نے خود کو مشکل میں ڈال لیا ہے ۔
ماٸی پنکھی نے کوٸی جواب نہ دیا اور خاموشی سے اس کے ساتھ چل دی۔
دلدار بخش کو اس بڑھیا نے مخمصے میں ڈال دیا تھا۔ رب نواز کی رپورٹ کے مطابق مائی پنکھی کے گھر میں بیس پچیس آدمی موجود ہونے چاہنے تھے لیکن یہاں سے چڑیا کا بچہ بھی برآمد نہیں ہوا تھا۔ اگر وہ اس گھر میں موجود تھے تو وہ کہاں غاٸب ہو گٸے تھے یا پھر رپورٹ غلط تھی لیکن رب نواز اپنی رپورٹ پر مصر تھا کہ پکی ہے۔
تھانے پہنچ کر دلدار بخش نے اسے دو سپاہیوں کی تحویل میں دیا کہ اسے کمرے میں بٹھاٸیں اور نگرانی رکھیں۔ پھر اپنے کام نمٹا کر اس کمرے میں آیا جہاں مائی پنکھی بیٹھی تھی۔ کمرے کی روشنی میں دلدار نے مائی پنکھی کو اوپر سے نیچے تک بغور دیکھا۔ مائی پنکھی کے چہرے پر اسے کوئی گھبراہٹ یا پریشانی نظر نہیں آئی۔ وہ اس سے کوئی سوال کرنے والا تھا کہ مائی پنکھی نے پہل کر دی۔ وہ بولی
کاکا ۔۔ تو مجھے یہاں کیوں لایا ہے؟
ہمیں تیرے خلاف رپورٹ ملی تھی۔ میں تجھے بتا چکا ہوں، تیرے گھر میں مشکوک لوگوں کا آنا جانا ھے اس وقت بھی آدمیوں کی موجودگی کی مخبری ہوئی تھی۔ کیا وہ لوگ ہمارے آنے سے پہلے جا چکے تھے۔ کیا تجھے پولیس کی آمد کی اطلاع ہو گئی تھی؟ ۔۔۔ دلدار بخش نے سوال کیا۔
کاکا ۔۔ تیرے لوگوں نے ، خود تو نے میرا پورا گھر چھان مارا۔ میرے گھر میں کوئی ہوتا تو ملتا نا ۔۔۔ مائی پنکھی نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا۔
مائی تو اس طرح نہیں اگلے گی۔ رب نواز آجائے ذرا۔ پھر تجھے سیدھا کرتا ہوں ۔۔۔ دلدار غصے سے بولا۔
ہاں ۔۔ کر لے انتظار۔ میں بیٹھی ہوں۔ جب وہ ائے گا تو تو مجھے چھوڑنے اور اسے ہتھٹکڑی ڈالنے پر مجبور ہو جائے گا ۔۔۔ مائی پنکھی نے پورے یقین سے کہا۔
دلدار نے اسے سخت نظروں سے دیکھا۔۔ زیادہ بکواس نہ کر ، مجھے تو کوئی پاگل عورت معلوم ہوتی ہے۔ رب نواز نے خواہ مخواہ میرا وقت ضائع کیا ۔۔۔ یہ کہہ کر وہ کھڑا ہو گیا۔ پھر اس نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ بڑھیا کو لاک آپ میں ڈال دو اور خود اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ اسے شدت سے رب نواز کا انتظار تھا۔
چار بجے کے قریب رب نواز تھانے کی حدود میں داخل ہوا۔ اس نے موٹر سائیکل دیوار کے ساتھ کھڑی کی اور پھر مرے قدموں سے چلتا دلدار بخش کے کمرے میں داخل ہوا۔
ہاں ۔۔ رب نواز ۔ کیا ہوا ؟ ۔۔۔ دلدار نے بےقرار ہو کر پوچھا۔
بہت کچھ ہو گیا سر جی ۔۔۔ رب نواز نے انتہائی دکھ سے کہا۔
کیا مطلب ۔، تیری طبیعت تو ٹھیک ہے؟ ۔۔
رب نواز نے کندھے سے ریوالور اتارا، کمر سے اپنی پیٹی نکالی۔ پیٹی اور ریوالور اس نے دلدار بخش کی میز پر رکھا اور بولا ۔۔ کھیل ختم ہو گیا۔ وہ مائی بالکل سچی نکلی۔ بڑی پکی رپورٹ دی اس نے ،،
ہوا کیا ۔۔ کچھ بول تو ۔۔۔ دلدار بخش پریشان ہو کر بولا ۔
سر جی ۔۔ میں دونوں کو مار آیا ہوں ۔۔۔ رب نواز نے شدت غم سے کہا۔۔ آپ مجھے گرفتار کر لیں۔ ہتھکڑی ڈال دیں میرے ہاتھوں میں۔ میں نے ایک نہیں دو خون کئے ہیں۔ سر جی میری بیوی بے وفا نکلی۔ میں جب گھر میں کودا تو وہ دونوں بےخبر سو رہے تھے۔ میں نے سوتے میں ہی دونوں کو گولی مار دی ۔۔
یہ تو نے کیا کیا رب نواز ۔۔ کیا تو جانتا نہیں کہ پھانسی چڑھ جائے گا ؟
جانتا ہوں سر جی ، اچھی طرح جانتا ہوں۔ پر کیا کروں، انہیں دیکھتے ہی میرے دماغ میں آگ لگ گئی۔ میری بیوی پڑوس کے لڑکے فیاض کی گردن میں بانہیں ڈالے سو رہی تھی سر جی۔ وہ دونوں بے لباس تھے سر جی میں انہیں کیسے نا گولی مارتا ۔۔۔ رب نواز غصے سے کانپ رہا تھا۔
تو نے واردات کر دی تھی تو پھر پلٹ کر یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔ اپنی پیٹی اور ریوالور اٹھا اور جا نکل جا ۔۔۔ دلدار بخش نے مشورہ دیا۔
آپ کا شکریہ سر جی ۔۔۔ رب نواز احسان مندی سے بولا۔۔ پر میں بھاگوں گا نہیں چاہے پھانسی ہو یا عمر قید ۔۔
اس بڑھیا کا کیا کروں ، اس کی ایک ایک بات سچ نکلی ، اس نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ میں تمہیں ہتھکڑیاں لگان اور اسے چھوڑنے پر مجبور ہو جاؤں گا ۔۔۔ دلدار بخش نے بتایا۔
سر جی اسے چھوڑ دیں ۔ وہ تو کوئی بہت پہنچی ہوئی چیز معلوم ہوتی ہے ۔
میری سمجھ میں ابھی تک یہ بات نہیں آئی کہ اس کے گھر میں موجود آدمی کہاں غائب ہو گئے یا پھر تمہارے مخبر کی اطلاع غلط تھی ۔۔۔ دلدار بخش کی سوئی غائب ہونے والے آدمیوں پر اٹکی ہوئی تھی۔
اطلاع تو ٹھیک تھی ۔۔۔ رب نواز بولا ۔
تو پھر اس بڑھیا کو دو تین دن حوالات میں رکھتے ہیں اور دن کی روشنی میں گھر کا جائزہ لیتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے اس کے گھر میں کوئی خفیہ راستہ ہے۔ ہمارے وہاں پہنچتے ہی اس نے خفیہ راستے سے انہیں باہر کر دیا ۔۔۔ دلدار بخش نے کہا۔
میری مانیں تو اسے چھوڑ دیں۔ ایک مرتبہ پھر اس کی نگرانی کرائیں ۔ صحیح رپورٹ پر چھاپہ ماریں ۔۔۔ رب نواز نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔۔ وہ بڑھیا مجھے خطرناک لگتی ہے۔ اس کے پاس ضرور کوئی کالا علم ہے۔ اس نے میرے بارے میں جو بتایا، سچ بتایا ۔
نہیں رب نواز ۔۔ میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔ میں دیکھتا ہوں اس جادوگرنی کو ۔۔۔ دلدار بخش نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
لیکن دلدار بخش اپنے فیصلے پر قائم نہ رہ سکا۔ صبح ہونے تک تھانے میں ایسے ہنگامی حالات پیدا ہو گئے کہ کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ یہ آخر ہوا کیا ہے؟
مائی پنکھی حوالات میں بند تھی۔ اس وقت اس کے علاوہ کوئی اور اندر نہ تھا۔ مائی پنکھی فرش پر لیٹی ہوئی تھی۔ اس نے اپنا ایک ہاتھ آنکھوں پر رکھا ہوا تھا۔ باہر ایک سپاہی پہرے پر تھا۔
اجالا پھیلتے ہی کووں کے چیخنے کی آوازیں آنے لگیں۔ پھر دو تین کوے کائیں کائیں کرتے راہداری میں آئے اور اڑتے ہوئے کمرہ حوالات میں داخل ہو گئے جہاں مائی پنکھی بند تھی۔
ابھی پانچ سات منٹ گزرے ہوں گے کہ پورا لاک آپ کووں سے بھر گیا۔ مائی پنکھی آنکھوں پر ہاتھ رکھے آرام سے لیٹی تھی جبکہ کئی کوے اس کے اوپر بھی موجود تھے۔
سپاہی پریشان ہو کر دلدار بخش کے کمرے میں پہنچا اور گھبرا کر بولا ۔۔ سر جی حوالات میں بےشمار کوے بھرے ہوٸے ہیں اور وہ بڑھیا آرام سے لیٹی ہے ۔ پتا نہیں کہیں مر تو نہیں گئی ؟ ۔۔
دلدار بخش، سپاہی کے ساتھ باہر نکلا تو تھانے کی فضا ہی بدل چکی تھی۔ پورے تھانے میں کوے بھرے ہوٸے تھے اور ان کی کائیں کائیں کے علاوہ کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔
دلدار بخش سر پر ہاتھ رکھے خود کو بچاتا لاک اپ تک آیا۔ ماٸی پنکھی بڑے آرام سے ابھی تک آنکھوں پہ ہاتھ رکھے لیٹی تھی۔ کوے اس کے پورے بدن پر کودتے پھر رہے تھے۔
اوئے ۔۔ یہ مر تو نہیں گئی؟ دلدار بخش نے مائی پنکھی پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔۔ "تالا کھول"
سپاہی نے حوالات کا تالا کھولا ۔ دروازہ کھلتے ہی کوؤں نے چیخ چیخ کر پورے تھانے کو سر پر اٹھا لیا۔ وہ ادھر سے اُدھر اڑتے پھر رہے تھے۔ دلدار بخش ہاتھ میں موجود رول گھماتا ہوا اندر پہنچا اور چیخ کر بولا۔۔ او مائی اٹھ ۔۔
مائی پنکھی نے اچانک اپنی آنکھوں سے ہاتھ اٹھایا اور اس طرح اٹھ کر بیٹھ گئی جیسے وہ اس کی آمد کی منتظر تھی۔ اس نے اپنی سرخ آنکھوں سے دلدار بخش کو دیکھا اور اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
یہ کیا مصیبت ہے۔ یہ کوے کہاں سے آگئے ؟ ۔۔۔ دلدار بخش چیخ کر بولا ۔
کاکا ۔۔ مجھے کیا معلوم تو ان سے پوچھ لے۔ مائی پنکھی نے حوالات کے دروازے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔۔ کیا میں اب جاؤں؟ ۔۔
ہاں مائی تو جا لیکن پہلے ان سے ہمیں نجات دلا ۔۔۔ دلدار بخش نے کوؤں سے اپنا بچاؤ کرتے ہوئے کہا۔
اچھا۔ مائی پنکھی نے راہداری میں کھڑے ہو کر اوپر کی طرف دیکھا اور بولی ۔۔ بس بگا ۔۔ انہیں لے جا ۔۔
مائی پنکھی کے اتنا کہنے کے بعد مشکل سے دو تین منٹ لگے ہوں گے کہ تھانے کی فضا صاف ہو گئی۔ وہاں کوئی کوا رہا نہ کوئی کوے کا بچہ۔
کووں کے فضا میں معدوم ہونے کے بعد دلدار بخش نے ایک گہرا سانس لیا اور ماٸی پنکھی کو دیکھ کر بولا ۔۔ تو کوئی جادو گرنی ہے کیا ؟
تو نے پھر الزام لگایا مجھ پر ۔۔۔ مائی پنکھی نے اسے خشمگیں نگاہوں سے دیکھا۔۔ چل مجھے گھر چھوڑ کر آ ۔
دلدار بخش اندر سے اتنا خوفزدہ ہو گیا کہ اب اس میں ہمت نہ تھی کہ اسے روک لیتا۔ وہ بہ نفس نفیس اسے اس کے گھر چھوڑ کر گیا اور ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ پولیس نے کسی ملزم کو باعزت طریقے سے گھر پہنچایا ہو ۔۔۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے؟ ۔۔۔
مائی پنکھی پولیس وین سے اتری تو گلی کے لوگوں نے حیرت سے دیکھا لیکن کسی میں ہمت نہ تھی کہ وہ اس سے کوئی سوال کرتا ۔ سب انسپکٹر دلدار بخش اس کے ساتھ گھر کے اندر آیا۔ پورے صحن میں نیم کی زرد پتیاں بکھری ہوئی تھیں۔ نیم کے درخت پر بیٹھے کوے کائیں کائیں کر رہے تھے۔ کوؤں کی آواز سن کر دلدار بخش کی آنکھوں کے سامنے تھانے کا منظر گھوم گیا۔ اس نے گھبرا کر مائی پنکھی کی طرف دیکھا۔ وہ پورے اطمینان سے صحن میں پڑی چارپائی پر بیٹھ چکی تھی۔ اس کے چہرے پر کسی قسم کا کوئی تاثر نہ تھا۔ اسے اس بات کا احساس بھی نہ تھا کہ اس کے ساتھ دلدار بخش آیا ہے اور وہ پرتجسس نظروں سے صحن کا جائزہ لے رہا ہے۔
پھر اس نے ایک نظر باورچی خانے میں جھانکا۔ باورچی خانے کے مقابل آخری سرے پر بنے غسل خانے اور بیت الخلا کو بھی اندر سے دیکھا۔ پھر وہ اندر چلا گیا۔ کمروں کا اچھی طرح جائزہ لیا۔
بالآخر وہ اسی نتیجے پر پہنچا کہ اس گھر میں باہر جانے کا راستہ ایک ہی ہے۔
ابھی تک اس کا ذہن اس گتھی کو سلجھانے میں منہمک تھا کہ چھاپے کے وقت اس گھر میں بیس سے پچیس مرد اور عورتیں موجود تھیں، وہ آخر کس راستے سے فرار ہوئے۔ یہ بات اس کے دماغ میں کسی کیل کی طرح گڑ گئی تھی۔
کاکا ۔۔ تو کچھ پریشان ہے؟ ۔۔۔ مائی پنکھی نے اس کے چہرے پر نظریں گاڑ کر کہا۔
مائی۔ اگر تو یہ بات مجھے بتا دے کہ اس گھر میں موجود بندے بندیاں کس طرح باہر گئے تو میں تجھے بھول جاؤں گا ۔۔۔ دلدار بخش نے مفاہمانہ انداز میں کہا۔
بتادوں گی کاکا، پریشان کیوں ہوتا ہے۔ تو مجھے بھول جانا چاہتا ہے لیکن میں نہیں چاہتی کہ تو مجھے بھولے، آتے جاتے رہنا ۔۔۔ مائی پنکھی چارپائی سے اٹھی اور دروازے کی طرف بڑھی۔ دلدار بخش کو یہ بات سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ وہ تیزی سے دروازے کی طرف بڑھا اور باہر نکلتے ہوئے بولا ۔۔ مائی میں پھر آؤں گا ۔
مائی پنکھی نے کوئی جواب نہ دیا۔ اپنی چمکیلی آنکھوں سے اسے ایک نظر دیکھا اور دروازے کے دونوں کواڑ بند کر کے پتھر لگا دیا۔
واپس پلٹتے ہی یکدم اسے بھوک کا احساس ہوا۔ وہ مٹی کی ھنڈیا اٹھا کر باہر لاٸی۔ نلکے کے نیچے رکھ کر اس نے محض پانی سے کھنگالا۔ پھر اس میں پانی بھرا، باورچی خانے میں پہنچ کر چولہے پر رکھا، کچھ ڈبوں سے اس نے تھوڑی تھوڑی کئی چیزیں نکال کر ھنڈیا میں ڈالیں اور چولہا جلا دیا اور پیڑھی پر بیٹھ گئی۔
انجو ۔۔۔ اس نے پیڑھی پر بیٹھے بیٹھے آواز لگائی۔ وہ چاہتی تھی کہ انجو جلد کوا پکڑ کر لائے۔ اس کی بھوک آخری حدوں کو چھو رہی تھی۔
کچھ لمحے انتظار کرنے کے بعد اس نے پھر آواز لگائی ۔۔ ”انجو"
لیکن انجو نہیں آئی۔ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ مائی پنکھی نے اسے آواز دی ہو اور وہ فورا اس کے سامنے نہ آئی ہو۔ مائی پنکھی گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔ وہ باورچی خانے سے باہر آئی اور اس نے چھت کی طرف دیکھتے ہوئے زور سے آواز دی ۔۔ انجو ۔۔
انجو گھر میں ہوتی تو آتی ۔
گلشن 13- ڈی کے جس مکان کا ڈاکٹر نوشاد نے پتا بتایا تھا، اس تک پہنچنا کوئی مشکل نہ تھا۔ عابر نے بہ آسانی مطلوبہ مکان کو ڈھونڈ نکالا ۔ دروازے پر ڈاکٹر نوشاد کی نیم پلیٹ نصب تھی۔ نام کے ساتھ ہومیو پیتھی کی ڈگری درج تھی۔
یہ گھر جس میں اب ڈاکٹر نوشاد قیام پذیر تھا، چند سال قبل یہ کسی بیوہ عورت کی ملکیت تھا۔ وہ بیوہ عورت، ڈاکٹر نوشاد کی دور کی عزیزہ تھی۔ ڈاکٹر نے اپنی چکنی چیڑی باتوں سے اسے رام کیا اور بحیثیت کرائے دار اس مکان میں رہائش پذیر ہوا۔ ایک سال کے عرصے میں وہ بیوہ چل بسی۔ اس کا کوئی والی وارث نہ تھا۔ ڈاکٹر نوشاد پہلے ہی مکان پر قابض تھا۔ اس کے مرتے ہی جعلسازی سے یہ مکان اپنے نام کر لیا۔ اس طرح لاکھوں کا مکان ایک کوڑی دیئے بنا اس کا ہو گیا۔
ڈاکٹر نوشاد جعلسازی کا ماہر تھا۔ ہومیو پیتھی کی ڈگری بھی اس کے پاس جعلی تھی۔ اس نے ایک ادارے سے خط و کتابت پر مبنی ہومیو پیتھی کا کورس کر رکھا تھا۔ گھر پر ہی اس نے ایک کونے میں ہومیو پیتھی کی دوائیں رکھ چھوڑی تھیں۔ اس گھر میں کوئی مریض آتا تھا نہ ڈاکٹر کسی کو کوئی دوا دیتا تھا۔
اس کی آمدنی کا ذریعہ کیا تھا، یہ بات کسی کو معلوم نہ تھی۔ ڈاکٹر نوشاد خود بھی اپنے بارے میں یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس کا ذریعہ معاش فلاں چیز ہے۔ وہ وسیع تعلقات رکھتا تھا، چرب زبان اور خوشامدی تھا۔ سامنے والے کی ضرورت سمجھ کر اس کی ضرورت پوری کرنا اس کی زندگی کا مقصد تھا۔ اس حاجت روائی کے عوض اپنا الو سیدھا کرنا اس شخص کو خوب آتا تھا۔ کس کو کس طرح کیش کیا جا سکتا ہے، اس آرٹ سے وہ اچھی طرف واقف تھا۔
اب اس نے عابر پر جال ڈالا تھا۔ گھنٹی کی آواز سنتے ہی وہ بذات خود گیٹ پر آیا۔ گیٹ کھولا تو سامنے عابر کھڑا نظر آیا۔ وہ بڑے تپاک سے اس سے ملا، گلے سے لگایا اور اس کے بروقت پہنچنے کی تعریف کی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر بڑی اپنائیت سے گھر کے اندر لایا۔
ارے بھئی چاندنی ۔۔ دیکھو عابر آئے ہیں ۔۔۔ ڈاکٹر نوشاد نے دور ہی سے آواز لگائی۔
چاندنی کہیں سے نکل کر فورا سامنے آئی۔ عابد نے اسے دیکھ کر سلام کیا اور اس کے آگے سر جھکا دیا۔ چاندنی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھنے کے بجائے کندھے پر ہاتھ رکھا اور مسکرا کر بولی ۔۔ عابر ماشا اللہ بڑے پیارے لگ رہے ہو ۔۔
شکریہ آنٹی ۔۔۔ عابر اپنی پذیرائی پر خوش ہوا۔
ارے ۔۔ لڑکیو ۔۔ چلو باہر آؤ، دیکھو کون آیا ہے ۔۔
کون آیا ہے امی؟ ۔۔۔ سب سے پہلے دوڑتی ہوئی شائستہ آئی۔
اوہ ۔۔ عابر بھائی آئے ہیں ۔۔
شائستہ کے بعد ایک ایک کر کے سب لڑ کیاں باہر آ گئیں۔ نہیں آئی تو ملکہ جسے دیکھنے کیلئے وہ تڑپ رہا تھا اور جس سے ملنے کی آرزو اسے یہاں تک کھینچ لائی تھی۔
ارے بھئی ، کیا عابر میاں کو باہر ہی کھڑا رکھو گے۔ انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھاؤ ۔۔۔ ڈاکٹر نوشاد بولا ۔
نہیں ابو ۔۔ ہم لاؤنج میں بیٹھیں گے، ڈرائنگ روم میں تو غیروں کو بٹھایا جاتا ہے ۔۔۔ شائستہ نے بڑی اپنائیت سے کہا۔
اچھا بیٹی جیسی تمہاری مرضی ۔۔۔ ڈاکٹر نوشاد اندر جاتے ہوٸٕے بولا۔
باپ کے وہاں سے ہٹتے ہی شائستہ اینڈ کمپنی نے عابر کو اپنے حصار میں لے لیا اور اسے لے کر لاؤنج کی طرف بڑھیں۔
جب یہ لڑکیاں اسے لئے لاؤنج میں داخل ہوٸیں، سامنے نظر پڑتے ہی عابر کا دل شدت سے دھڑکنے لگا۔ وہ قیامت اس کے سامنے کھڑی تھی۔ کھلے ہال، میک آپ سے عاری چہرہ سادہ سے کپڑے۔ یوں لگتا جیسے کچھ دیر قبل نہا کر نکلی ہو۔ وہ سادہ کپڑوں میں بغیر میک آپ کے بھی جگمگا رہی تھی جبکہ دیگر بہنیں خصوصاً شائستہ اور فاخرہ خوب بنی ٹھنی اور جدید تراش تراش کا لباس زیب تن کئے ہوئے تھیں۔ اس کے باوجود ان کے حسن کے چاند بجھے ہوئے تھے۔
عابر کھڑی ہوئی قیامت کی طرف تیزی سے بڑھا۔ ملکہ پر اس کی نگاہیں جمی تھیں۔ اس وقت اس کے سوا اسے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ اس کے قریب پہنچ کر ٹھہر گیا۔ بات کرنے سے زیادہ اسے نظروں میں بھرنے سے دلچسپی تھی۔ لیکن اتنے ڈھیر سارے لوگوں میں اس پر نظریں جمانا آسان نہ تھا لہذا وہ رسما بولا ۔۔ کیسی ہیں ملکہ ،،
جی ۔۔ میں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔ ملکہ نے دھیرے سے کہا۔
لو جی آپی ۔۔۔ فاخرہ، شائستہ سے مخاطب ہو کر بولی۔۔ عابر کو ابھی تک یہی نہیں معلوم ہوا کہ ملکہ کیسی ہے۔ ارے جناب سب جانتے ہیں کہ ہم بہنوں میں وہ سب سے اچھی ہے ۔۔
فاخرہ ۔۔۔ شائستہ نے اس کے چٹکی لینے پر ترچھی نظروں سے دیکھا۔
او کے آپی ۔۔۔ فاخرہ نے سرجھکاتے ہوئے کہا۔
عابر بینا، بہت اچھا لگا کہ تم ہمارے گھر آئے ۔۔۔ چاندنی نے مسکراتے ہوئے اسے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
آئٹی ۔۔ مجھے خود یہاں آ کر بےانتہا خوشی ہوئی ۔۔۔ عابر نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
اور مجھے بڑا رنج ہے کہ ان لوگوں نے آپ کو بلانے میں اتنی دیر کیوں کی ۔۔۔ ڈاکٹر نوشاد نے لاؤنج میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
کوئی بات نہیں انکل ۔۔۔ عابر ملکہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔
شائستہ ۔۔ بھائی کو گھر دکھاؤ ۔۔۔ چاندنی کا لہجہ معنی خیز تھا جسے شائستہ نے تو سمجھا لیکن عابر کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔
آئیے عامر بھائی ۔۔۔ شائستہ نے عابد کو اشارہ کیا۔۔ ہم آپ کو اپنا غریب خانہ دکھائیں۔ ملکہ آؤ ۔۔
عابد کے لئے آخری بات بہت اہم تھی۔ وہ فورا کھڑا ہو گیا۔ عابر کا خیال تھا کہ بقیا بہنیں بھی ساتھ نکلیں گی لیکن ایسا نہ ہوا۔ شائستہ اور ملکہ کے سوا کوئی نہ اٹھا۔
شائستہ نے سب سے پہلے اپنا کمرہ دکھایا۔ اس کمرے میں ملکہ بھی اس کے ساتھ رہتی تھی۔ یہ درمیانے سائز کا اچھا سجا سجایا کمرا تھا۔
عابر بھائی ۔۔ یہ ہے ہمارا نشمن ۔۔۔ شائستہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
زبردست ۔۔۔ عابر پرجوش انداز میں بولا۔
بیٹھیں ۔۔۔ ملکہ نے بیڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
بیٹھیں گے۔ پہلے انہیں پورا گھر دکھا دیں ورنہ امی چیخیں گی ۔۔۔ شائستہ نے کہا۔
اس سے قبل کہ ملکہ کوئی جواب دیتی۔ شائستہ بولی۔۔ عابر بھائی بس کچھ نہ پوچھیں یہ موباٸل کی دشمن ہے، ابھی تک چار پانچ موبائل گم کر چکی ہے یا توڑ چکی ہے۔ ابو نے دبئی سے ایک سے ایک اعلیٰ موبائل اس کو لا کر دیا ہے ۔
کوئی نہیں آپی ۔۔۔ ملکہ نے احتجاج تو کیا لیکن اس میں زور نہیں تھا۔ شائستہ ابھی جواب دینے کی تیاری میں تھی کہ فاخرہ اندر داخل ہوئی اور بولی ۔۔ آپی امی بلا رہی ہیں ۔۔
اچھا ۔۔۔ شائستہ تیر کی طرح کمرے سے نکل گئی۔ عابر کا خیال تھا کہ شاٸستہ کی جگہ فاخرہ لے لے گی لیکن ایسا نہ ہوا۔ فاخرہ بھی اس کے ساتھ چلی گئی۔
یہ ایک زبردست موقع تھا۔ ملکہ کمرے میں تنہا رہ گئی تھی۔ پتا نہیں یہ موقع قصداً عطا کیا گیا تھا یا پھر ایسا غلطی سے ہوا تھا۔ جو بھی تھا، اس عطا سے فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا۔
ملکہ ۔۔ تم سے بات کرنی مشکل ہو گئی ہے۔ تمہارے پاس موبائل ہونا چاہئے ۔
اچھا ۔۔ میں لے لوں گی ۔۔۔ ملکہ نے لاپروائی سے کہا۔
ملکہ میں تمہیں دیکھے اور تم سے بات کئے بنا نہیں رہ سکتا ۔۔۔ عابر ہےتابانہ لہجے میں ہولا۔۔ مجھے تمہارے بارے میں کیا جاننا چاہئے جو میں نہیں جان سکا۔ مجھے بتاؤ، اس دن بات پوری نہ ہوسکی تھی ۔
بات تو اب بھی پوری نہ ہو سکے گی۔ بس کوئی آیا ہی چاہتا ہے ۔۔۔ ملکہ نے دروازے کی طرف دیکھا۔
پھر ہم کہاں ملیں اور کیسے ملیں؟ ۔۔۔ عابر بولا ۔
کالج کے گیٹ پر ۔۔۔ ملکہ نے راستہ دکھایا۔
عابر یہ سن کر یکدم خوش ہو گیا۔ اس نے فورا کالج کا نام اور وقت پوچھ لیا۔ اس سے قبل کہ دونوں میں مزید کوئی بات ہوتی ، شائستہ اور فاخرہ دونوں باتیں کرتی ہوئی اندر آ گئیں۔
ارے ملکہ تم یہیں بیٹھی ہو، ہم سمجھ رہے تھے کہ تم نے پورا گھر دکھا دیا ہوگا ۔
نہیں آپی ۔۔ میں آپ کا انتظار کر رہی تھی ۔
گڈ گرل ۔۔۔ فاخرہ نے خوشی کا اظہار کیا۔
پھر تینوں نے اسے گھر دکھایا۔ عابر کو اس گھر سے دلچسپی نہ تھی۔ وہ یہاں ملکہ کے لئے آیا تھا، اسے دیکھ لیا تھا اور آئندہ ملاقات کی راہ بھی صاف ہو گئی تھی۔ بہرحال یہاں آیا تھا تو رسم تو نبھانا تھی۔ وہ ان کے ساتھ ہنسی خوشی محو خرام رہا۔ خوب سیر ہو کر کھانا کھایا، مزے کی کافی پی اور اپنے گھر کی راہ لی۔
وہ دیر گئے گھر پہنچا۔ گھنٹی بجانے پر جس نے دروازہ کھولا ، اسے دیکھ کر وہ یکدم سہم گیا۔
یہ تمہارے گھر آنے کا وقت ہے؟ علی نثار نے لہجہ سخت کئے بنا کہا۔
جی ابو دیر ہو گئی، ویسے میں امی کو بتا کر گیا تھا ۔۔۔ عابر نے نازنین کی طرف مدد طلب نظروں سے دیکھا جو علی نثار کے پیچھے کھڑی تھیں۔
تم اس وقت کہاں سے آرہے ہو؟ علی نثار نے پوچھا۔
ایو، ایک دوست کے ہاں سے آ رہا ہوں، اس نے کھانے پر بلایا تھا ۔۔
مجھے ذرا اس کا نمبر دینا ، اس وقت رات کے دو بجے ہیں۔ یہ کھانے کا کون سا وقت ہے ۔۔۔ علی نثار کے لہجے میں اب غصہ در آیا۔
اچھا ۔۔۔ بات کر لیجیے گا ۔۔۔ نازنین نے معاملہ سنجیدہ ہوتے دیکھ کر مداخلت کی۔۔ اب یہ آپ کا زمانہ تو ہے نہیں کہ اپنے وقت پر ڈنر ختم ہو جائے ، یہ نئی پود ہے، اسے وقت کی قدر ہے نا ادارک ۔ عابر تم آئندہ اتنی دیر تک گھر سے باہر نہیں رہو گے۔ سن لیا تم نے۔ اپنے تمام منحوس دوستوں کو بتا دینا ۔۔
جی امی ۔۔۔ عامر نے انتہائی فرمانبرداری سے کہا۔
اور اس طرح نازنین نے اپنے تدبر سے عابر کے سر پر گھومتی شامت کو ٹال دیا۔
لیکن یہ مسئلہ زیادہ دن ٹلنے والا نہ تھا۔ علی نثار سنجیدہ ہو چکے تھے۔ وہ عابر کو مزید وقت دینا نہیں چاہتے تھے۔ انہیں عابر کے لیل ونہار کا بالکل پتا نہ تھا بس وہ اتنا ہی سمجھ رہے تھے کہ وہ لا ابالی طبیعت ایک سست الوجود لڑکا ہے، جب تک اس کے گرد گھیرا تنگ نہیں کیا جائے گا، اس کے سدھرنے کا امکان نہیں۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے براہ راست باز پرس شروع کر دی تھی۔
ایک دن عابر نے ملکہ کے بتائے ہوئے وقت پر کالج کا چکر لگایا۔ یہ چھٹی کا وقت تھا، لڑکیاں تیزی سے کالج کے گیٹ سے باہر آرہی تھیں ۔ عابر وہاں کافی دیر تک کھڑا رہا لیکن ملکہ اسے نظر نہیں آئی۔ شاید وہ آج کالج آئی ہی نہیں تھی۔
اس نے وہیں کھڑے کھڑے شائستہ کو فون کیا۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد ملکہ کا ذکر چھیڑا۔ شائستہ نے بتایا کہ آج وہ کالج نہیں گئی۔ اس کی طبیعت خراب ہے ۔
کیا ہوا ؟ ۔۔۔ عامر نے فکر مندی سے پوچھا۔
ارے، ایسی کوئی خاص بات نہیں ، نزلہ وغیرہ ہے، نزلے میں تھوڑا بہت بخار تو ہو ہی جاتا ہے ۔۔۔ شائستہ نے بےنیازی سے جواب دیا۔ پھر اچانک جیسے اسے کچھ یاد آیا۔ وہ بولی ۔۔ ہاں اوہ ابو آپ کے بارے میں پوچھ رہے تھے، شاید وہ آپ سے ملنا چاہ رہے ہیں ۔۔
کوئی خاص بات؟ ۔۔۔ عابر کی چھٹی حس جاگی۔
مجھے کیا پتا ۔۔۔ شائستہ نے کچھ اس انداز میں کہا کہ عابر مشکوک ہو گیا۔
بتا ئیں نا ۔۔ آپ کو سب پتا ہے ۔۔۔ عابر بولا۔
مجھے انہوں نے کچھ نہیں بتایا ، بس اتنا ہی کہا کہ کسی دن عابر کو چائے پر بلاؤ ۔۔۔ شائستہ اتنا کہہ کر ہنسی ۔
اچھا ٹھیک ہے، بتائیں کب آؤں؟
نیک کام میں بھلا دیر کس بات کی ، آج ہی شام میں آجائیں، اس وقت آپ کہاں ہیں؟
جی گھر پر ہوں ۔۔۔ عابر نے پورے یقین سے جھوٹ بولا ۔ یہ آسانی موبائل فون کی فراہم کردہ تھی۔
چلیں پھر پکا شام کو آ رہے ہیں آپ ۔۔۔ شائستہ نے کہا۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ عابر نے فورا حامی بھر لی۔
ڈاکٹر نوشاد نے شام کو چائے پر بلا کر عابر سے جو کچھ کہا، وہ اس کے لئے انتہائی خوش کن تھا۔ لیکن اسی رات کھانے پر علی نثار نے عابر سے جو کچھ کہا، اسے سن کر عابر کی سٹی گم ہو گئی ۔
0 تبصرے