خوفناک مسکن - چھٹا حصہ

masken - 6 Urdu Horror stories

انجو گھر میں نہیں تھی۔ آخر وہ کہاں غائب ہوگئی تھی۔ مائی پنکھی نے پورا گھر چھان مارا۔ گھر ہی کتنا بڑا تھا۔ دو کمرے اور ایک صحن۔ اس نے احتیاطا غسل خانہ اور بیت الخلا بھی دیکھ لیا۔ انجو کہیں نہ تھی۔ اب مائی لکھی کو تشویش ہوئی۔ اس نے پریشانی میں دو تین چکر صحن کے لگائے۔ صحن میں نیم کی زرد پتیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ اس نے صحن کے درمیان رک کر نیم کے پیڑ پر نظر ڈالی، غصے میں کچھ بڑہڑائی اور یکدم زور سے چیخی ۔۔
انجو ۔۔ تو کہاں مرگئی ؟ ۔۔
 
کوئی جواب نہ آیا۔ وہ باورچی خانے کی طرف بڑھی، ہنڈیا کے پانی میں ابال آگیا تھا۔ اس نے لکڑیاں پیچھے کر کے آگ مدھم کی اور ایک جلتی لکڑی ہاتھ میں پکڑ کر صحن میں آئی۔ جلتی لکڑی سے اس نے مثلث نما ایک حصار کھینچا۔ پھر چپل اتار کر اس حصار میں بیٹھ گئی۔ جلتی لکڑی اب بھی اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتے ہوئے تین بار لکڑی زمین پر ماری ۔ اسی وقت انجو چھت سے نیچے کودی اور اس کے سامنے آکر بیٹھ گئی۔
مائی پنکھی نے انجو کی لال آنکھوں میں نظریں گاڑ دیں۔ انجو کی آنکھوں میں اسے جس شخص کی تصویر نظر آئی، اسے دیکھ کر خود مائی پنکھی کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔
 
جس وقت مائی پنکھی حوالات میں ایک ہاتھ آنکھوں پر رکھے لیٹی تھی اور کوے پورے تھانے میں ایک ہنگامہ کئے ہوئے تھے تب وہ یہاں آیا تھا۔ وہ جادو ٹونے اور عملیات کا ماہر تھا۔ وہ باقاعدہ مائی پنکھی کا شاگرد نہ تھا لیکن جب بھی اسے ضرورت ہوتی ، وہ مائی پنکھی سے مشورہ لینے آجاتا تھا۔ بچپن میں چیچک نکلنے سے اس کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی تھی۔ وہ ایک آنکھ کا تھا اور اس ایک آنکھ میں دنیا بھر کا میل بھرا تھا۔ بے اولاد عورتوں کو اپنے جال میں پھنسا کر اپنا الو سیدھا کرتا۔ پھر ان مت ماری عورتوں کو ایسے عمل بتاتا کہ وہ دین کی رہتیں ، نہ دنیا کی۔
وہ انتہائی شاطر شخص تھا، موقع پرست اور چکر باز تھا۔ اس کا نام چکرم تھا۔ صبح جب وہ مائی پنکھی کے گھر پہنچا تو خلاف توقع مائی پنکھی کو غائب پایا۔ دروازہ کھلا تھا۔ دروازہ کھلا ہونا کوئی حیرت کی بات نہ تھی حیرت کی بات یہ تھی کہ گھر خالی پڑا تھا۔
 
چکرم، مائی پنکھی سے ایک ہےاولا دعورت کے سلسلے میں مشورہ کرنے آیا تھا۔ ایک عمل کے سلسلے میں اسے مائی پنکھی کی اجازت بھی درکار تھی۔ اس نے پورا گھر دیکھ لیا، مائی پنکھی گھر میں موجود نہ تھی۔ چکرم نے سوچا کہ شاید مائی پنکھی کہیں آس پاس گئی ہو لہذا وہ اس کے انتظار میں چارپائی پر بیٹھ گیا۔ وقت گزاری کے لئے اس نے چرس بھری سگریٹ نکالی اور سلگا کر گہرا کش لیا۔
تب اس کی نظر کالے منہ کی سفید پلی پر پڑی۔ وہ ابھی کمرے سے نکلی تھی۔ اس بلی کو چکرم نے ایک آدھ بار اس گھر میں دیکھا تھا لیکن اسے یہ معلوم نہ تھا کہ اس کا مائی پنکھی سے کوئی خاص تعلق ہے۔
 
اس نے انجو کو غور سے دیکھا تو وہ ایک دم اسے کام کی دکھائی دی۔ ایک عمل کے لئے اسے ایک بلی کی ضرورت تھی۔ یہ بلی اسے خاص دکھائی دی تھی۔
وہ چار پائی کے نزدیک آکر ایک پائے سے اپنا جسم رگڑنے لگی۔
چکرم کے شاطر ذہن نے فورا ایک منصوبہ ترتیب دے لیا۔ وہ تیزی سے گھر کے باہر بھاگا۔
 
قریب کی دکان سے اس نے دودھ کا پیکٹ خریدا اور گھر واپس آیا۔ سفید بلی چارپائی کے پائے سے لگی بیٹھی تھی۔ چکرم نے باورچی خانے سے ایک پیالا اٹھایا، پیکٹ کھول کر دودھ پیالے میں ڈالا، جیب سے ایک پڑیا نکالی، کھول کر اس کا پاؤڈر دودھ میں ملایا اور دودھ سے بھرا پیالا سفید بلی کے سامنے رکھ دیا۔ دودھ دیکھ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور پھر تیزی سے دودھ میں منہ ڈال کر اسے پینے لگی۔
بلی کو دودھ پیتے دیکھ کر چکرم کی اکلوتی آنکھ میں نشہ بھر گیا۔ توقع کے مطابق سفید بلی دودھ پینے کے بعد پانچ منٹ کے اندر مدہوش ہو گئی۔ اب یہاں ٹھہرنا بیکار تھا۔ اس نے دودھ کا خالی پیالا اٹھایا اسے نلکا کھول کر پانی سے اچھی طرح دھویا، اور باورچی خانے میں اسی طرح رکھ دیا جس طرح رکھا تھا، دودھ کا خالی پیکٹ اٹھا کر باہر آیا۔
 
چکرم نے اپنے پاس موجود ایک کپڑے کے تھیلے میں بے ہوش پڑی بلی کو ڈالا ، خالی پیکٹ بھی اسی میں رکھ دیا اور تھیلا اٹھا کر گھر سے چل دیا۔ چکرم نے اپنے جرم کا کوئی ثبوت پیچھے نہ چھوڑا تھا۔ بلی بے ہوش تھی، اس لئے اس کے تھیلے سے باہر آنے کا کوئی امکان نہ تھا۔
 
گھر پہنچ کر اس نے تھیلا اپنے بیڈ پر رکھا اور پھر اسے اٹھا کر الٹ دیا۔ اس کا خیال تھا کہ بلی ابھی دس پندرہ منٹ سے پہلے ہوش میں نہیں آئے گی ممکن ہے ایسا ہی ہوتا لیکن اس وقت مائی پنکھی نے اس کا نام لے کر پکارا ۔۔۔ " انجو"
وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ اس نے اپنی سرخ آنکھوں سے چکرم کو دیکھا۔ غصے سے میاؤں کی آواز نکالی اور بیڈ سے نیچے چھلانگ لگانے کو تھی کہ چکرم کو چکر آ گیا۔ ایک قیمتی بلی کو ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر اس نے لپک کر دروازہ بند کر دیا اور بلی کی طرف بڑھا۔ اس سے قبل کہ وہ بلی کو پکڑ پاتا، اس نے بیڈ سے چھلانگ لگائی۔ چکرم کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ چھلانگ لگا کر کیا کرنے والی ہے۔
 
اس کا خیال تھا کہ وہ اس کی پہنچ سے دور ہونے کے لئے الماری پر جست لگا کر خود کو محفوظ کر لے گی۔ لیکن اس نے ایک ایسا کام دکھایا کہ چکرم کے حواس باختہ ہو گٸے۔ بلی نے چکرم کے چہرے کو نشانہ بنایا اور اس قدر پھرتی اور چابکدستی سے پنجہ مارا کہ اس کی آنکھ شدید لہولہان ہوگئی۔ وہ آنکھ پر ہاتھ رکھ کر بیڈ پر بیٹھا۔ اتنے میں سفید بلی کھڑکی پر چڑھی اور باھر کود گٸی۔
یہ وہ وقت تھا جب مائی پنکھی نے کچھ پڑھتے ہوئے جلتی لکڑی زمین پر ماری تھی ۔ تب انجو چھت سے کود کر اس کے سامنے آ بیٹھی تھی۔ انجو کا ایک پنجہ خون آلود تھا اور آنکھوں میں چکرم کی تصویر نظر آرہی تھی۔
مائی پنکھی کو معلوم ہو چکا تھا کہ انجو کو کس نے اغوا کیا تھا اور وہ اس کا کیا حشر کر کے آئی ہے۔ مائی پنکھی نے اسے پیار بھری نظروں سے دیکھا اور بولی ۔۔
واہ ری انجو ۔۔ تو نے کیا خوب کمال کیا ۔۔
مائی پنکھی حصار سے نکل آئی اور چارپائی پر آ کر بیٹھ گٸی۔ انجو اس کے قدموں میں لوٹنے لگی۔
 
ا نجو میں بھوکی ہوں ۔۔۔ مائی پنکھی نے چارپائی سے اٹھتے ہوئے کہا۔ پھر اس نے حصار میں موجود لکڑی اٹھائی۔ وہ بجھ چکی تھی۔ اس نے باورچی خانے میں پہنچ کر دوبارہ آگ بھڑکائی اور پیڑھی پر بیٹھ کر انجو کا انتظار کرنے لگی۔
کچھ دیر میں ھنڈیا میں موجود سیاہ محلول میں آہال آ گیا تھا اور انجو منہ میں کوا دہائے دروازے پر موجود تھی۔
چائے پینے کے بعد ڈاکٹر نوشاد نے عابر کا ہاتھ پکڑا اور بولا ۔۔
آؤ بیٹا
عابر فورا اٹھ گیا۔ ڈاکٹر نوشاد اسے ڈرائنگ روم میں لے آیا جبکہ گھر کے دیگر افراد ڈائٹنگ روم میں بیٹھے رہ گئے۔ عابر کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ڈاکٹر نوشاد اسے اچانک محفل سے کیوں اٹھا کر لایا ہے۔ وہ اچھا خاصا ملکہ کے حسن سے اپنے دل کا قرار کشید کر رہا تھا۔ ملکہ بھی گاہے بگاہے پلکیں اٹھا کر گہری نظروں سے اسے دیکھ لیتی تھی۔
 
کہیں ایسا تو نہیں کہ ڈاکٹر نوشاد نے اس کی نظروں کی چوری کو پکڑ لیا اور اب وہ علیحدگی میں اسے سمجھانا یا تنبیہہ کرنا چاہتا تھا۔ عامر نے سوچ لیا تھا کہ اب چاہے جو ہو، وہ کسی طور ملکہ سے دستبردار نہیں ہوگا۔
لیکن وہاں معاملہ ہی کچھ اور نکلا ۔
ڈاکٹر نوشاد نے جو بات کی ، وہ انتہائی خوش کن تھی۔ اس نے ڈرائنگ روم میں بیٹھتے ہی عابر کی طرف مسکرا کر دیکھا اور بلا تمہید بولا ۔۔ بیٹا میں چاہتا ہوں کہ تم اس گھر کے داماد بن جاؤ ۔۔
 
یہ تو نیکی اور پوچھ پوچھ والا معاملہ تھا۔ عابر تو پہلے ہی ادھار کھائے بیٹھا تھا۔ یہ سنتے ہی اس کے من میں لڈو پھوٹنے لگے۔ اس نے خوش ہو کر کہا ،،
" انکل! یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے۔"
ایک بات اور تم سے کہنا چاہوں گا کہ اس گھر میں سات بیٹیاں ہیں تم جس کو پسند کرو گے، وہ تمہارے نکاح میں دے دی جائے گی ۔۔۔ ڈاکٹر نوشاد نے بڑی فراخدلی کا ثبوت دیا۔
عابر کے لئے اب کوئی مشکل نہ رہی تھی۔ وہ اب تک جن مراحل سے گزرا تھا، ان سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ لوگ ملکہ سے بطور خاص اس کا فاصلہ برقرار رکھنا چاہتے تھے لیکن ڈاکٹر نوشاد کے اس بیان نے اس " وتی " کو جو بہت دور نظر آتی تھی اچانک قریب کر دیا تھا۔ لہذا اس نے بلا تامل انتہائی صاف گوئی سے کہا ،،
 
" انکل ۔۔ مجھے ملکہ پسند ہے۔“
ٹھیک ہے ۔۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔۔۔ ڈاکٹر نوشاد نے درخواست منظور کرنے میں ذرا دیر نہ کی۔ پھر کچھ توقف کے بعد وہ بولا ۔۔ اب میں چاہوں گا کہ تم اپنے والدین کو اس رشتے کے لئے بھیجو ۔
جی اچھا ۔۔۔ عامر نے تشکر آمیز لہجے میں کہا۔۔ میں گھر جاتے ہی اپنی امی سے بات کروں گا ۔
اور جب رات کے کھانے پر عابر نے ڈرتے ڈرتے نازنین اور علی نثار سے مخاطب ہو کر دھیرے سے کہا ۔۔ امی ابو میں شادی کرنا چاہتا ہوں ۔
تو یہ سن کر علی نثار منہ میں نوالہ رکھنا بھول گئے اور نازنین کے ہاتھ سے چمچہ چھوٹ گیا۔
کیا ؟ ۔۔۔ دونوں نے بیک وقت کہا۔
 
اہو ۔۔ آپ چل کر ان لوگوں سے مل لیں ۔۔۔ عابر نے ان کی حیرت کو نظر انداز کر کے کہا۔
وہ کون بےوقوف لوگ ہیں جو تمہیں بیٹی دے رہے ہیں ؟ ۔۔۔ علی نثار کے لہجے میں تلخی در آئی۔
ابو ۔۔ وہ بہت اچھے لوگ ہیں، انہیں بے وقوف نہ کہیں ۔۔۔ عابر نے حمایت کی۔
کیا وہ یہ بات جانتے ہیں کہ تم ایک نکھٹو لڑکے ہو۔ کوئی نوکری، کوئی ملازمت تمہارے پاس نہیں۔ ایک بےروزگار شخص کو وہ کیسے اپنی بیٹی دے رہے ہیں۔ ضرور لڑکی میں نقص ہوگا ۔۔۔ علی نثار نے جو کہا ٹھیک کہا۔
اہو ۔۔ لڑکی میں نے دیکھی ہے، وہ بہت خوبصورت ہے اور کالج کی طالبہ ہے، اس میں کوئی نقص نہیں ۔۔۔ عابر نے بتایا۔
عابر ضرور کچھ دال میں کالا ہے ۔۔۔ نازنین نے کہا۔۔ ابھی شادی کے چکروں میں نہ پڑو بیٹا، کچھ کام وام کرو ۔۔
 
امی ۔۔ آپ ایک بار ان لوگوں سے جا کر مل تو لیں ۔۔۔ عابر نے کہا۔
میں تو جانے کے لئے تیار نہیں۔ تمہاری ماں جانا چاہے تو لے جاؤ ۔۔۔ علی نثار نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
امی ابو ۔۔ آپ دونوں کو چلنا ہو گا۔ میں نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ آپ لوگ رشتہ مانگنے آئیں گے ۔۔۔ عابر نے سمجھانے کی کوشش کی۔
اجنبی لوگ ایک بے روز گار لڑکے کو رشتہ دینے پر رضامند ہیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس کے پیچھے ضرور کوئی گول مال ہے۔ میں کسی قیمت پر نہیں جاؤں گا۔ تم ایسا کرو بیٹا۔ جا کر گھر داماد بن جاؤ ۔۔۔ علی نثار اتنا کہہ کر ڈائننگ ٹیبل سے اٹھ گئے۔
عابر نے اپنی ماں کی طرف دیکھا تو نازنین نے بہت صاف لہجے میں کہا ۔۔
 
"تمہارے ابو ٹھیک کہتے ہیں۔"
پھر آپ میرا فیصلہ بھی سن لیں۔ اگر آپ لوگ نہ گئے تو میں یہ گھر چھوڑ دوں گا ۔
تم نے اچھا کیا کہ خود گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں تمہارے نکھٹو پن سے تنگ آچکا ہوں۔ میں یہ بات خود تم سے کہنے والا تھا۔ تم خوشی سے یہ گھر چھوڑ دو، ابھی اسی وقت ۔۔ علی نثار نے تولیہ سے ہاتھ پونچھتے ہوئے کہا۔
عابر کی یہ بات سن کر سٹی گم ہو گئی۔ اسے ہرگز امید نہ تھی کہ علی نثار اس کی دھمکی کو اس قدر سنجیدگی سے لیں گے۔ اس کا خیال تھا کہ وہ ان کا اکلوتا بیٹا ہے، وہ کسی قیمت پر یہ برداشت نہیں کریں گے کہ وہ گھر چھوڑ دے لیکن اس وقت تو معاملہ انتہائی سنگین ہو گیا تھا۔
اب اسے ہر قیمت پر گھر چھوڑنا تھا۔ ملکہ کی کشش نے اس فیصلے پر عمل درآمد کو آسان بنایا اور وہ بنا سوچے سمجھے گھر سے نکل گیا۔
رات کے بار بجے عابر ڈاکٹر نوشاد کے گھر پہنچا تو گھر میں کھلبلی مچ گئی۔
بیٹا۔ خیریت تو ہے؟ ۔۔۔ ڈاکٹر نوشاد نے گیٹ کھول کر اس سے پوچھا۔
انکل میں گھر چھوڑ آیا ہوں ۔۔۔ عابر نے بڑے سپاٹ لہجے میں کہا۔
کوئی بات نہیں۔ یہ گھر بھی تمہارا ہے ۔۔۔ ڈاکٹر نوشاد کی بات سن کر عابر کے دھڑکتے دل کو قرار آیا۔
 
شکریہ انکل ۔۔۔ عابر نے مطمئن لہجے میں کہا۔ ڈاکٹر نوشاد اسے اندر لے آیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب لوگ لاؤنج میں اکٹھا ہو گئے ۔ ملکہ سمیت سب کی خوشی دیدنی تھی۔ عابر بھی خوش تھا۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ آئندہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ فی الحال تو یہ ہوا کہ اگلے دن، رات کو دو گواہوں کی موجودگی میں گھر پر ہی نکاح کر دیا گیا۔ شائستہ اور ملکہ جس کمرے میں رہائش پذیر تھیں، وہاں سے شائستہ کو نکال دیا گیا۔ رات کو جب عابر حجلہ عروسی میں داخل ہوا تو اسے یقین نہ آیا کہ جو کام اسے انتہاٸی مشکل نظر آ رہا تھا، وہ پلک جھپکتے میں ہو گیا تھا۔ کسی مرد شاطر نے ملکہ سبا کو مع بیڈ اس کی خدمت میں پیش کر دیا تھا۔ اور وہ مرد شاطر کوئی اور نہیں ، لڑکی کا باپ ڈاکٹر نوشاد تھا۔
 
نام ایسا اچھا۔ شکل انتہائی مکروہ اور کرتوت یکدم سیاہ ۔
عابر کے بارے میں اسے امید نہیں تھی کہ وہ اتنا آسان ٹارگٹ ثابت ہو گا۔ وہ تو کسی کے پھل کی طرح اس کی جھولی میں آ گرا تھا۔ سسر، داماد دونوں خوش تھے۔ دونوں اپنی جگہ مطمئن تھے۔ دونوں کو اپنی منزل تک پہنچنا آسان لگا تھا۔ عابر تو بے انتہا خوش تھا۔ جو چیز اسے چوبیس سال میں بھی حاصل ہوتی نظر نہیں آرہی تھی ، وہ چوبیس گھنٹے میں حاصل ہوگئی تھی۔
 
کمرے میں داخل ہونے کے بعد عابر نے دروازہ بند کیا اور وہیں کھڑا ہو گیا۔ بیڈ پر ملکہ بیر بہوٹی کی صورت موجود تھی۔ اس کا سر جھکا تھا اور سکڑی سمٹی بیٹھی تھی ۔ دروازہ بند ہونے کی آواز پر اس نے ذرا سا اپنے سر کو اٹھایا تھا اور پھر جھکا لیا تھا۔ عابر آنکھوں میں خواب سجائے کسی فلمی ہیرو کے انداز میں بیڈ کی طرف بڑھا۔ اس نے بلند آواز میں سلام کیا اور ملکہ کے نزدیک بیڈ پر بیٹھ گیا۔
 
ڈاکٹر نوشاد نے اسے اس گھر کا داماد بنے کی دعوت دی تھی لیکن وہ گھر داماد بن گیا۔ اس کے پاس کچھ نہ تھا۔ وہ گھر سے خالی ہاتھ نکل آیا تھا۔ اس نے اپنے کپڑے تک نہ اٹھائے تھے۔ باپ نے اسے نکھٹو کہا تھا اور گھر سے نکل جانے کی ہدایت کی تھی۔ وہ اپنی انا میں گھر کی کوئی چیز اپنے ساتھ نہ لایا تھا لیکن یہاں اسے بہت کچھ مل گیا تھا۔ کمرے میں آنے سے پہلے شائستہ نے اسے ایک چھوٹی مخملی ڈبیا دی تھی جس میں سونے کی انگوٹھی تھی۔ وہ شرمندہ تھا۔ جو کام اسے کرنے چاہیے تھے، وہ سسرال کے لوگ کر رہے تھے۔ اس نے ایک نظر سر جھکائے ملکہ کو دیکھا اور پھر دونوں ہاتھوں سے بہت دھیرے سے گھونگھٹ الٹ دیا ۔۔۔
گھونگھٹ الٹتے ہی روشن کمرہ مزید روشن ہو گیا۔ یکدم بجلی سی چمکی جو اس کی آنکھوں کو خیرہ کر گئی ۔ ملکہ تو پہلے ہی ملکہ تھی ۔ اس وقت تو وہ پریوں جیسی لگ رہی تھی ۔
 
میری ملکہ غلام حاضر ہے ۔۔۔ عابر کے منہ سے بےاختیار نکلا۔
ملکہ نے اپنی لمبی اور بھاری پلکیں اٹھائیں۔ مسکراتی آنکھوں سے اسے دیکھا، پھر دھیرے سے لب کھولے ۔۔ غلام نہیں آقا کہیے ۔۔
کتنا خوش نصیب ہوں میں ۔۔۔ عابر نے جیب سے ڈبیا نکالتے ہوئے کہا۔۔ " اتنا کہ یقین نہیں آتا ۔
"
کیوں یقین نہیں آتا۔ میں روز روشن کی طرح عیاں ہوں ۔۔۔ ملکہ بولی۔
بے شک تم دن کی طرح روشن ہو ۔۔۔ عامر نے ڈبیا سے انگوٹھی نکالی۔۔ لیکن میں کسی رات سے کم نہیں اور رات بھی سیاہ ۔۔
کیوں کوستے ہیں اپنے آپ کو ۔۔۔ ملکہ نے اداس لہجے میں کہا۔ پھر یکدم مسکرا کر بولی۔ لائیے ۔۔ انگوٹھی پہنائیے ۔
عابر نے اس کے اٹھے ہاتھ کو پکڑ کر انگوٹھی اس کی حسین انگلی میں پہنا دی۔ ملکہ نے انگوٹھی کو دوسرے ہاتھ کی انگلی سے گھماتے ہوئے کہا۔۔ پیاری ہے ۔۔ شکریہ سر ۔۔
 
عابر کو اس کا یہ انداز بڑا پیارا لگا۔ اسے بےاختیار ملکہ پر پیار آ گیا ۔۔ قطرہ دریا سے ملا اور دریا سمندر ہو گیا۔ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز ۔
عابر پر جلد ہی اس گھر کے لیل و نہار کھلنے لگے۔ ڈاکٹر نوشا ہر دوسرے تیسرے دن دورے پر ہوتا کبھی اسلام آباد کبھی لاہور تو کبھی ملتان
وہ اکیلا نہ جاتا، اس کے ساتھ کوئی بیٹی ہوتی ۔ اگر وہ اندرون ملک نہ جاتا تو رات کو کسی تقریب میں چلا جاتا۔ کوئی موسیقی کا پروگرام ہوتا ، مشاعرہ ہوتا یا کسی تھیز کا ڈراما۔ اس تقریب میں بھی کوئی بیٹی ساتھ ہوتی۔ کسی نجی تقریب میں چاندنی کے ساتھ ملکہ اور عابر کو بھی لے لیا جاتا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے