پھر ایک دن شائستہ نے اسے اپنے ساتھ مارکیٹ چلنے کو کہا۔ وہ ساتھ چلا گیا۔ جب وہ شاپنگ کر کے رات کو گھر واپس آیا تو ملکہ کو گھر سے غائب پایا۔
اس نے شائستہ سے ملکہ کے بارے میں پوچھا۔۔ یہ ملکہ کہاں ہے؟
عابر بھائی ۔۔ مجھے نہیں معلوم میں تو آپ کے ساتھ تھی ۔ شائستہ نے بڑی معصومیت سے جواب دیا۔۔ فاخرہ سے پوچھ لیں، اسے معلوم ہو گا ۔
فاخرہ سے پوچھا تو وہ لا پروائی سے بولی۔۔ عابر بھاٸی کسی سہیلی کے ہاں گئی ہو گی ۔۔
فاخرہ ۔۔ رات کے گیارہ بج رہے ہیں۔ آخر وہ کس سہیلی کے ہاں گئی ہے۔ مجھ سے تو اس نے ذکر کیا نہیں۔ اسے فون کرو ۔۔۔ عابر نے سنجیدگی سے کہا۔
جی کرتی ہوں ۔۔۔ یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔
تھوڑی دیر میں کھانا لگ گیا۔ ڈائٹنگ ٹیبل پر گھر کے سارے افراد موجود تھے نہیں تھے تو ملکہ اور ڈاکٹر نوشاد ۔۔۔۔ اور مزے کی بات تھی کہ کسی کو فکر بھی نہ تھی جبکہ عابر تڑپ رہا تھا۔ اسے یہ پتا نہیں چل رہا تھا کہ آخر ملکہ گئی تو گئی کہاں ؟
تب اس نے چاندنی سے بات کی۔ عابر نے پوچھا۔۔ آنٹی کیا آپ کو معلوم ہے کہ ملکہ کہاں ہے ؟
ہاں کیوں نہیں ۔۔ ارے کیا تمہیں کسی نے نہیں بتایا ؟ ۔۔۔ چاندنی نے اپنے سامنے بیٹھی بیٹیوں کی طرف گھور کے کہا۔
کوئی لڑکی کچھ نہ بولی۔ پر اسرار خاموشی چھائی رہی۔
عابر بیٹا ۔۔ وہ لاہور گئی ہے ۔۔۔ چاندنی نے بڑے اطمینان سے کہا، جیسے وہ پڑوس میں گئی ہو۔
آئٹی ۔۔ لاہور ۔۔۔ عامر کو کرنٹ سا لگا۔ وہ کھانا کھاتے کھاتے تھہر گیا۔
ہاں بیٹا ۔ کل شام تک آجائے گی ۔۔۔ چاندنی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
آنٹی ۔۔ اس نے مجھ سے جانے کی اجازت نہیں لی۔ اس نے تو مجھے بتایا تک نہیں ۔۔۔ عابر نے شکوہ کیا۔
بس بیٹا ۔۔ وہ اچانک چلی گئی۔ اس کے ابو ایک ضروری کام سے لاہور جا رہے تھے۔ تو وہ ان کے پیچھے لگ گئی کہ میں بھی چلوں گی۔ میں اپنی سہیلی سے مل آؤں گی۔ پہلے وہ لوگ یہیں ہمارے پڑوس میں رہتے تھے۔ میں نے منع بھی کیا کہ عابر سے پوچھ کر جانا تو وہ بولی۔ ارے وہ کچھ نہیں کہیں گے، وہ بہت اچھے ہیں اور پھر کوئی دو چار مہینے کو تھوڑا ہی جا رہی ہوں کل واپس آ جاؤں گی۔ ادھر اس کے ابو نے اپنی لاڈلی کی ہاں میں ہاں ملاٸی اور یوں وہ کھڑے کھڑے چلی گٸی ۔۔۔ چاندنی نے اپنے طرف سے اس معاملے پر لیپا پوتی کرنے کی کوشش کی۔
لیکن عابر کے ذہن میں گرہ پڑ گٸی۔ اگر وہ گھر پر نہیں تھا تو کیا ہوا وہ اس سے موباٸل پر تو بات کر سکتی تھی لیکن اس نے تو اسے اس قابل بھی نہیں سمجھا تھا۔ کیا اس لئے کہ وہ گھر داماد تھا۔
ڈاکٹر نوشاد کے بارے میں یہ بات جلد اس کے علم میں آ گئی کہ اس کے با اثر اور اہم لوگوں سے تعلقات تھے۔ وہ با آسانی اسے نوکری دلوا سکتا تھا۔ عابر نہیں چاہتا تھا کہ زیادہ عرصہ اپنی سسرال پر بوجھ بنے۔ اگرچہ کسی نے اس سے اس موضوع پر بات نہیں کی تھی لیکن وہ خود اس معاملے میں حساس تھا۔ ایک دن موقع پا کر اس نے ڈاکٹر نوشاد سے کہا۔۔
انکل ۔۔ آپ کے لوگوں سے وسیع پیمانے پر تعلقات ہیں۔ میں بی کام ہوں، مجھے کہیں نوکری دلوا دیجئے ۔۔
ارے بیٹا ۔۔ یہ کہہ کر تو آپ نے ہمیں شرمندہ کر دیا۔ آپ اس گھر کے داماد ہیں۔ آپ سے نوکری کروائیں گے۔ یہ بات آپ کے ذہن میں کیوں آئی، کیا آپ کو کسی نے کچھ کہا ہے، کیا آپ جب اپنے گھر تھے تو نوکری کرتے تھے؟ ڈاکٹر نوشاد نے بڑے شفقت بھرے لہجے میں کہا۔۔ بیٹا ، اسے آپ اپنا گھر سمجھیں ۔۔
گھر سمجھ کر ہی رہ رہا ہوں۔ لیکن انکل مجھے کچھ کام تو کرنا پڑے گا۔ اس طرح میں کب تک گھر میں پڑا رہوں گا ۔۔۔ عابر نے کہا۔
تم گھر میں پڑے نہیں ، آرام سے رہ رہے ہو اور رہتے رہو۔ اگر نوکری کی ضرورت پڑے گی تو ملکہ کرے گی۔ تم قطعاً پریشان مت ہو ۔۔۔ ڈاکٹر نوشاد نے ہنستے ہوئے کہا۔۔ گھر کے کام کم ہیں کیا، ۔ تم گھر سنبھالو ۔۔
ملکہ نے تو خیر ابھی نوکری نہ کی تھی لیکن عابر کے ہاتھ میں گھر ضرور دے دیا گیا۔ اب کسی لڑکی کو کہیں جانا ہوتا، عابر ساتھ جاتا۔ گھر کاسودا سلف، یوٹیلیٹی بلز سب اس کی ذمے داری تھے کسی کو ڈاکٹر کے پاس جانا ہے، کسی نے ہیوئی پارلر جانا ہے، کسی کو سہیلی کے گھر چھوڑنا ہے اور دوسرے دن اسے لے کر آنا ہے۔
گھر میں آئے دن کوئی تقریب ہوتی کسی نہ کسی کی سالگرہ منائی جا رہی ہوتی۔ اس میں لڑکیوں کی سہیلیاں ہوتیں ، ان سہیلیوں کے بھائی ہوتے، چاندنی اور ڈاکٹر نوشاد کے کچھ دوست احباب ہوتے۔ اس تقریب کا سارا انتظام عابر کو کرنا ہوتا۔
اس گھر کا ماحول بڑا دوستانہ تھا کھلی فضا تھی۔ کوئی روک ٹوک نہ تھی، کوئی کسی کو شک وشبہے کی نظر سے نہ دیکھتا تھا۔ عابر نوجوان تھا، اسے اس گھر کی فضا راس آگئی تھی۔ تقریب میں شریک ہونے والی لڑکیاں اس کے گرد گھیرا ڈال لیتی تھیں۔ ملکہ کبھی اعتراض نہ کرتی تھی۔ وہ ہنستی مسکراتی اس کے پاس سے گزر جاتی۔
پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ وہ اسے بتاٸے بغیر لاہور چلی گئی تھی اگرچہ وہ اپنے باپ کے ساتھ گٸی تھی کوئی قابل اعتراض بات نہ تھی لیکن جانے کیوں اس اپنی کم مائیگی کا احساس ہوا تھا۔
وہ رات کو کروٹیں بدلتے بدلتے ماضی حال کا جائزہ لے رہا تھا۔ اچانک اسے خیال آیا کہ وہ موبائل پر ملکہ سے بات کرے، اس سے شکوہ کرے۔ تکیے کے نیچے سے اس نے اپنا موبائل نکالا اور ملکہ کا نمبر ملایا ۔ چند لمحوں بعد اسے سوئچ آف ہونے کی اطلاع دی جانے لگی۔
صبح اٹھ کر بھی اس نے کئی بار موبائل ملایا لیکن ہر بار اس کا سوئچ آف ملا۔ اسے حیرت تھی کہ خود ملکہ نے بھی اسے کال کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی تھی۔ اس بات کا بھی اسے دکھ تھا۔ وہ ملکہ سے شدید محبت کرتا تھا۔ اس کے لئے اس نے اپنا گھر چھوڑا تھا۔
پھر شائستہ اور فاخرہ اسے اپنے ساتھ لے گئیں۔ ایک کو پارلر جانا تھا، دوسری کو ٹیلر کے پاس جانا تھا۔ دونوں کے کام سے فارغ ہو کر وہ شام کو گھر پہنچا۔ اس وقت تک ملکہ لاہور سے واپس آچکی تھی۔ وہ کمرے میں موجود تھی اور سو رہی تھی۔ چاندنی نے ان دونوں کے آتے ہی عابر کے تاثرات سے آگاہ کر دیا تھا۔ ملکہ نے خاموش نگاہوں سے باپ کی طرف دیکھا۔ ڈاکٹر نوشاد نے اس کی پریشانی محسوس کرتے ہوئے کہا۔۔
تم بےفکر ہو جاؤ، میں عابر کو سنبھال لوں گا ۔ جاؤ تم جا کر سو جاؤ ۔۔
اور پھر ایسا ہی ہوا۔ عابر ، شائستہ اور فاخرہ کے ساتھ گھر داخل ہوا تو اس نے عابر کو کمرے میں جانے سے پہلے ہی روک لیا۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے میں لے آیا۔ کمرے میں اس وقت کوئی نہ تھا۔ چاندنی لاؤنج میں بیٹھی ہوئی تھی۔
بیٹا عابر، مجھ سے غلطی ہوگئی۔ میں ملکہ کو تمہاری اجازت کے بغیر لاہور لے گیا۔ سنا ہے تم ناراض ہو۔ بھئی اس میں ملکہ کا کوئی قصور نہیں، ساری غلطی میری ہے۔ مجھے معاف کر دو ۔۔۔ ڈاکٹر نوشاد نے یہ کہتے ہوئے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ لئے۔
عابر فورا پگھل گیا۔ اس نے تیزی سے آگے بڑھ کر ڈاکٹر نوشاد کے ہاتھ پکڑ لئے۔
یہ آپ کیا کر رہے ہیں انکل ۔ مجھے اس طرح شرمندہ نہ کریں۔ ملکہ اپنے باپ کے ساتھ گئی تھی کسی غیر کے ساتھ نہیں ۔۔
یہ ڈاکٹر نوشاد کا نیا روپ تھا۔ وہ گدھے کو تو باپ بنانا جانتا ہی تھا۔ اسے گھر داماد کو " دادا “ بنانا بھی آتا تھا۔ اس نے عابر کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کیا معافی مانگی، عابر کو اپنا بےدام غلام بنا لیا۔ عابر اب اس کے آگے دم ہلاتا پھرتا تھا۔ ڈاکٹر نوشاد کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا ۔
ایک دن ڈاکٹر نوشاد صبح ہی صبح اس کے کمرے میں آگیا۔ وہ اس کے کمرے میں کم آتا تھا۔ اسے عابر سے کوئی بات کرنا ہوتی تو وہ زیادہ تر ڈرائنگ روم میں کرتا تھا۔
دستک دینے پر ملکہ نے دروازہ کھولا ۔ باپ کو سامنے پاکر وہ ایک طرف ہٹ گئی۔ ڈاکٹر نوشاد نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔۔ عابر صاحب سو رہے ہیں ۔
نہیں ابو، جاگ رہے ہیں، ابھی اٹھے ہیں ۔۔۔ ملکہ نے بتایا۔
ڈاکٹر نوشاد کو اپنے کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر عابر بیڈ پر اٹھ کر بیٹھ گیا۔
بیٹا ۔۔ مجھے آپ سے ایک بات کرنا تھی ۔
جی ۔۔ انکل فرمائیے ۔۔۔ عابر مستعد ہو گیا۔
ملکہ کو ایک بہت اچھا چانس مل رہا ہے۔ آپ کی اجازت کی ضرورت تھی ۔
کیسا چانس انکل ؟ ۔ عابر نے پوچھا۔۔ میں سمجھا نہیں ۔۔
ایک بڑی فرم کے مالک کو لیڈی سیکرٹری کی ضرورت ہے، تنخواہ بہت اچھی ہے، میں نے سوچا کہ کسی اور کو ملازمت دلوانے سے بہتر نہیں کہ ہم اپنی ملکہ کو یہ نوکری دلوا دیں، کام کوئی خاص نہیں ۔۔۔ ڈاکٹر نوشاد نے بتایا۔
انکل ۔۔ آپ ملکہ سے پوچھ لیں ، یہ ابھی پڑھ رہی ہے ۔۔۔ عابد نے کہا۔
ملکہ سے میں نے پوچھ لیا ہے ۔۔۔ ڈاکٹر نوشاد سامنے کھڑی ملکہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔۔ اچھی ملازمت ہے، ایسا چانس مشکل سے ہی ملتا ہے، پڑھائی کا کیا ہے، پرائیویٹ امتحان دے لے گی ۔ کیوں ملکہ ؟
جی ابو ۔۔ ٹھیک ہے ۔۔۔ ملکہ نے حسب عادت مختصر جواب دیا اور کمرے سے چلی گئی۔
اب عابر کے پاس انکار کی کوئی وجہ موجود نہ تھی لہذا اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی اجازت دے دی۔
دوسرے دن ملکہ کو گاڑی لینے آ گئی۔ یہ فرم کے سربراہ کی گاڑی تھی۔ باوردی شوفر نے ملکہ کو ریٹا کے کمرے تک پہنچایا اور سر جھکا کر باہر نکل گیا۔
ریٹا ایک چالیس سالہ باوقار عورت تھی۔ وہ اس فرم میں کافی عرصے سے تھی۔ وہ اپنے باس فراز یونس کی رگ رگ سے واقف تھی۔ وہ منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز تھی۔ اس نے کمرے میں داخل ہوتی ہوئی اس حسین قیامت کو گہری نظر سے دیکھا اور معنی خیز انداز میں مسکرا دی۔
میرا نام ملکہ ہے ۔۔ ملکہ نوشاد ۔۔ میں ڈاکٹر نوشاد کی بیٹی ہوں ۔۔۔ ملکہ نے اپنا تعارف کرایا۔
آپ تشریف رکھئے ۔۔۔ ریٹا نے مسکراتے ہوئے نرم لہجے میں کہا۔ آپ کسی سلسلے میں آئی ہیں ؟
ملازمت کے لئے ۔۔ لیڈی سیکرٹری کی حیثیت سے ۔۔۔ ملکہ نے نپا تلا جواب دیا۔
اچھا، بیٹھئے ۔ میں چیف سے بات کرتی ہوں ۔۔۔ یہ کہہ کر ریٹا اٹھ گئی۔ اس نے اپنے ساتھ دو تین فائلیں بھی لے لیں اور کھٹ کھٹ کرتی باہر جانے کے بجائے ایک اندرونی دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ اس نے دروازے پر ہلکی سی دستک دی اور اندر چلی گئی۔ فراز یونس ٹیلیفون پر کسی سے گفتگو میں مصروف تھا۔ اس نے ریٹا کو دیکھ کر ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کو کہا اور اپنی گفتگو جاری رکھی۔ ریٹا اپنے باس کو بغور دیکھتی رہی۔ وہ چھوٹے قد ، گول چہرے اور سانولے رنگ کا ایک شاطر شخص تھا۔ عمر پچاس پچپن سے زائد نہ تھی۔ سینے اور ہاتھوں پر کالے گھنے بال تھے۔ آنکھیں چھوٹی مگر ان میں کوئی ایسی چیز تھی جو سامنے والے کو متاثر کرتی تھی۔
فراز یونس نے اچانک اپنی گفتگو کا اختتام کیا اور کرسی گھما کر ریٹا کی طرف دیکھا اور انتہائی سنجیدگی سے پوچھا۔۔ وہ آگئی ہے کیا ؟ ۔۔
جی ۔۔ وہ آ گئی ہیں ۔۔ ملکہ حسن ۔۔۔ ریٹا کی آنکھوں میں چمک آگئی تھی۔
ویری گڈ ۔۔ اچھا کہا ۔۔ اس کا مطلب ہے تمہیں ہمارا انتخاب پسند آیا ۔۔۔ فراز یونس نے اسے ترچھی نظروں سے دیکھا۔
جی ۔۔۔ اس مرتبہ آپ نے خاصا اونچا ہاتھ مارا ہے۔ کہاں ملی یہ سونامی آپ کو ؟ ۔۔۔ ریٹا نے بڑے پرسکون انداز میں سوال کیا۔ ایک تقریب میں وہاں ڈاکٹر نوشاد موجود تھا۔ تم ڈاکٹر نوشاد کو تو جانتی ہو نا ؟ ۔۔۔ فراز نے پوچھا۔
جی ۔۔ بہت اچھی طرح ۔۔۔ رینا کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
یہ لڑکی جب مجھے نظر آئی تو میں نے ڈاکٹر نوشاد سے اسے اپنی سیکرٹری بنانے کی بات کی۔ وہ بولا سر کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ اپنی بیٹی ہے، اس طرح سے معاملہ مزید آسان ہو گیا تھا ۔ ڈاکٹر نوشاد کو تو جانتی ہو نا ۔۔۔ وہ ہنسا۔
جی ۔۔ بہت اچھی طرح ۔۔۔ ریٹا نے اس بار فراز کو معنی خیز انداز میں دیکھا۔
وہ بتا رہا تھا کہ اس کی عنقریب شادی ہونے والی ہے ۔۔۔ فراز یونس نے کہا۔
شادی تو رکوائی جا سکتی ہے ۔۔۔ ریٹا نے سوال کے انداز میں جواب دیا۔
ہاں، کیوں نہیں ۔۔۔ فراز یونس نے کہا۔
ریٹا۔ اس کا اپواٸٹمنٹ لیٹر ٹائپ کرا دو، اور اسے اندر بھیج دو ۔۔
جی ۔۔۔ بہت اچھا ۔۔۔ ریٹا فائلیں اس کے سامنے چھوڑ کر اٹھ گئی۔ ملکہ کو اسی دن بھاری معاوضے پر تقرر نامہ مل گیا۔ اسے فراز یونس کی گاڑی روز لینے آنے لگی اور وہ دفتر جانے لگی۔ ملکہ کے اوقات کار نو بجے سے چار بجے تک تھے۔ دفتر میں کام کچھ نہ تھا بس بیٹھنا ہی تھا۔ ایک طرح سے ملکہ ریٹا کے ماتحت کام کر رہی تھی۔ وہ اسے دو چار فائلیں لے کر اندر بھیج دیتی اور پھر یہ بھول جاتی کہ ملکہ کہاں ہے۔
لیکن عابر نہیں بھول پا رہا تھا۔ جب سے ملکہ نے نوکری کی تھی، ملکہ کے انداز بدل گئے تھے۔ وہ ایک ماڈل بن گئی تھی۔ جدید انداز کے کپڑے، قیمتی پرفیوم ، بہترین میک اپ، زلفوں میں پڑتے پیچ و خم ۔۔۔ وہ آئے دن پارلر میں بیٹھی رہتی ، گھر میں بھی ہوتی تو آٸینے کے روبرو ہوتی۔ قریب ہوتے ہوئے بھی وہ اس سے دور ہوگئی تھی۔
ایک شام جب وہ دفتر سے لوٹی تو کمرے میں عابر موجود تھا۔ وہ بیڈ پر بیٹھا یاد ماضی میں گم تھا۔ ملکہ کمرے میں داخل ہوئی۔ اس نے بڑے رسمی انداز میں عابر کی طرف دیکھے بنا ہیلو کہا اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ اس نے ایک نظر آئینے پر ڈالی۔ پھر اپنے بیگ سے ایک مخملی ڈبا نکالا اور اسے کھول کر جائزہ لیا، پھر اس میں موجود ہیرے سے مزین لاکٹ کو نکالا اور آئینے میں دیکھتے ہوئے اپنی حسین گردن میں پہن لیا۔ اس کی گردن سج گئی۔
ابھی وہ گردن میں پڑے لاکٹ کو بڑی محویت سے دیکھ رہی تھی کہ عابر اس کے پیچھے آ کھڑا ہوا۔ ملکہ نے اسے دیکھنے کے باوجود نہ دیکھا۔ جب عابر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور شکوہ بھرے انداز میں پوچھا ۔۔ کہاں ہو تم ؟
تمہارے سامنے ۔۔۔ ملکہ نے حسب معمول مختصر جواب دیا۔
آج کل تم میرے سامنے ہوتے ہوئے بھی سامنے نہیں ہوتیں ۔۔
پھر کہاں ہوتی ہوں؟ ۔۔۔ ملکہ نے اسے ترچھی نظروں سے دیکھا۔
میں نہیں جانتا ۔۔۔ عابر کے لہجے میں دکھ سمٹ آیا تھا۔
شادی کر کے پچھتا تو نہیں رہے؟ ۔۔۔ ملکہ نے پوچھا۔
پچھتا تو نہیں رہا البتہ پریشان ضرور ہوں ۔۔
یاد ہے ایک دن جب آپ نے مجھ پر مر مٹنے کی بات کی تھی تو میں نے کیا کہا تھا ؟
کیا کہا تھا؟ اسے یاد تو آگیا تھا لیکن وہ اس کی زبان سے سننا چاہتا تھا۔
میں نے کہا تھا کہ مجھے جانے بغیر مر مٹے ۔۔ یاد آیا ۔۔۔ ملکہ نے گلے سے لاکٹ نکال کر ڈبے میں رکھا۔
ہاں یاد آیا ۔۔۔ اس نے ایک گہرا سانس لیا۔
جواب میں آپ نے کہا تھا۔ اب کیا جاننا جیسی بھی ہو، میری ہو ۔۔ یاد آیا ۔۔۔ وہ مخملی ڈبا الماری میں رکھ کر واپس آئی۔
ہاں یاد آیا ۔۔۔ عابر نے اقرار کیا۔
تو پھر اب پریشانی کیسی ۔۔ میں جیسی بھی ہوں ، آپ کی ہوں ۔۔۔ ملکہ کسی خوشبو کی طرح اس پر چھاتے ہوئے بولی۔
چند لمحوں کیلئے عابر اپنا آپ بھول گیا۔ جب خوشبو کا جھونکا پاس سے گزر گیا تو وہ حواسوں میں آیا۔ اس نے ملکہ کو واش روم کی طرف بڑھتے دیکھا۔
پتا نہیں ملکہ ۔۔ مجھے جانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ بدل رہا ہے ۔
کچھ نہیں بدلا عابر ۔۔ آپ پریشان نہ ہوں، یہ نوکری میں آپ کے لئے کر رہی ہوں، جس طرح چاہیں عیش کریں ۔۔۔ ملکہ نے واش روم جاتے جاتے پلٹ کر کہا اور پھر واش روم میں جا کر دروازہ کھٹاک سے بند کر لیا۔
عابر کو اس کی یہ بات عجیب سی لگی۔ اس پر یکدم منکشف ہوا کہ وہ کیا سے کیا ہو گیا تھا۔ اپنا گھر چھوڑ کر گھر داماد بنا اور اب وہ بیوی کی کمائی کھانے والا بن گیا تھا۔ اگر وہ خود نہیں بنا تو بنا دیا گیا تھا۔ اس کی محبت اپنی جگہ تھی۔ وہ نہیں بدلا تھا لیکن ملکہ وہ نہیں رہی تھی، ان کے درمیان کوئی آ گیا تھا۔ جب ملکہ واش روم سے کپڑے تبدیل کر کے فریش ہو کر باہر نکلی تو عامر نے سوال کیا۔
یہ لاکٹ تمہیں کس نے دیا ؟
کیا آپ نہیں جانتے؟ ۔۔۔ ملکہ نے بےنیازی سے پوچھا۔
جانتا تو پوچھتا کیوں؟ ۔۔۔ عابر بولا ۔
میرے باس نے ۔۔۔ ملکہ نے اسے بغور دیکھتے ہوئے کہا۔
تم اس کی پرسنل سیکرٹری ہو ۔۔۔۔ یا پرسنل ہو گئی ہو؟ ۔۔۔ ماہر کے لہجے میں تلخی در آئی تھی۔
مجھے نہیں معلوم کہ کیا بن گئی ہوں۔ اتنا جانتی ہوں کہ جو بنی ہوں، اپنی مرضی سے نہیں بنی ہوں ۔۔۔ ملکہ نے نظریں جھکاتے ہوئے کہا۔
عابر کو اس وقت وہ بڑی مجبور سی دکھائی دی ۔۔ معصوم سی ۔۔ یکدم اسے اس پر پیار آ گیا۔ اس نے اسے قریب کرتے ہوٸے پرامید لہجے میں کہا۔ " پریشان مت ہو، سب ٹھیک ہو جائے گا۔" عابر کو قطعا اندازہ نہیں تھا کہ اس گھر میں ہو کیا رہا تھا۔ ڈاکٹر نوشاد کیا کھیل کھیل رہا تھا۔ پورا گھر اس کے اشارے پر ناچتا تھا اور عابر کو خود معلوم نہ تھا کہ وہ کس کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنا ہوا ہے۔
ایک دن عابر ملکہ کے آفس کے نزدیک سے گزر رہا تھا تو یکدم خیال آیا کہ کیوں نہ ملکہ کا آفس دیکھتا چلے۔ چاہتا تو وہ اسے فون کر کے اپنی آمد کی اطلاع دے سکتا تھا لیکن اس نے خاموشی سے جانا مناسب سمجھا۔ ملکہ کو سرپرائز دینا چاہا۔
اس نے آفس میں داخل ہو کر استقبالیہ پر بیٹھی لڑکی سے ملکہ کے بارے میں پوچھا۔ اس لڑکی نے دفتر کے آخر میں اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اس کمرے میں ریٹا کے ساتھ بیٹھتی ہیں۔
عابر نے دروازے پر پہنچ کر ہلکی ہی دستک دی اور ہینڈل دیا کر دروازہ کھول دیا۔ کمرے میں کوئی نہ تھا، ملک تھی نہ ریٹا۔ کمرے میں البتہ دو میزیں ضرور نظر آ رہی تھیں ۔ چھوٹی میز خالی تھی، اس پر کچھ نہ تھا جبکہ بڑی میز پر فائلوں کے ساتھ ایک کمپیوٹر بھی موجود تھا۔ ان میزوں کے سامنے ایک اور دروازہ تھا۔
عابر سوچ میں پڑ گیا کہ کیا کرے۔ سوچا واپس جائے اور استقبالیہ پر بیٹھی لڑکی کو بتائے کہ کمرے میں کوئی نہیں ہے۔ پھر ایک لمحے کو خیال آیا کہ سامنے بند دروازے کے اندر کیوں نہ جھانک لے۔ ہو سکتا ہے وہ دونوں اندر ہوں ۔ یہ سوچ کر وہ پورے اطمینان سے دروازے کی طرف بڑھا۔
جب ریٹا واش روم سے باہر نکلی تو اس نے کسی کو فراز یونس کے کمرے میں داخل ہوتے دیکھا۔ یہ دیکھ کر کہ اندر جانے والا کوئی مرد ہے، اس کے حواس شل ہو گئے ۔ وہ جانتی تھی کہ دفتر کا کوئی آدمی اس کی اجازت کے بغیر اندر نہیں جا سکتا تھا۔ پھر یہ کون اندر گیا ؟ اسے یہ بات بھی معلوم تھی کہ فراز یونس کے پاس اس وقت کون ہے؟ یہ کیا غضب ہو گیا تھا۔
وہ تیزی سے دروازے کی طرف لپکی۔ اتنی دیر میں دروازہ کھڑک کر کے بند ہو گیا تھا۔ عابر نے اندر داخل ہو کر جو منظر دیکھا، وہ کسی قیامت سے کم نہ تھا۔
کوے کی یخنی پینے کے بعد مائی پنکھی پر خمار چھا جاتا تھا۔ چہرے پر سرخی آ جاتی۔ جھریاں مٹنے لگتیں۔ کوے کو بگا کے حوالے کرنے کے بعد اس نے دروازہ بند کر کے پتھر لگایا اور چارپائی کی طرف بڑھی۔ انجو کمرے میں جا چکی تھی۔
اس نے کمرے کے دروازے کی طرف دیکھا۔ دیکھتی رہی اور کچھ سوچتی رہی۔ نشہ بڑھنے لگا تو وہ چار پائی پر لیٹ گئی۔ اس نے اپنے گلے میں پڑے چاندی کے تعویذ کو چھوا۔ کچھ بڑبڑاٸی اور تعویذ کو چھوڑ کر ایک ہاتھ آنکھوں پر رکھ لیا۔ کچھ ہی دیر میں اس پر گہری نیند طاری ہو گٸی۔
جب اس کا نشہ ٹوٹا تو شام گہری ہو رہی تھی۔ نیم کی خشک پتیوں سے چارپاٸی اور اس کا جسم ڈھکا ہوا تھا۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔ اسے یوں لگا جیسے دروازے پر کوئی ہے۔ وہ اٹھی ، دروازے کی طرف بڑھی تو باہر سے آواز آئی۔
رانی جی ۔۔ دروازہ کھولو ۔۔
مائی پنکھی نے پتھر ہٹا کر دروازہ کھولا تو سامنے چکرم کو کھڑا پایا۔ وہ اسے دیکھتے ہی آگ بگولا ہو گئی۔ اس کے منہ سے غصے بھری آواز نکلی ۔۔ " تو "
چکرم کی آنکھ پر پٹی بندھی تھی۔ آنکھ پر رکھی ہوئی روئی خون آلود تھی اور وہ سخت کرب میں مبتلا تھا۔ مائی پنکھی کی آواز سن کر محض اندازے سے وہ اس کے قدموں میں جھکا اور اس کے پیر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
رانی جی ۔۔ مجھے معاف کر دو ۔۔
ایسی ذلیل حرکت ۔۔۔۔ تو نے آخر کیا سوچ کر انجو کو اغوا کیا ۔ مائی پنکھی بولی۔
جو کیا اس کی سزا پائی ۔۔۔ چکرم نے پاؤں پکڑے پکڑے کہا۔
اب پھر یہاں کیوں آیا ہے؟ ۔۔۔ مائی پنکھی نے پوچھا۔
آنکھ سے خون جاری ہے اور شدید تکلیف میں مبتلا ہوں ۔۔
تو پھر اسپتال جا ۔۔ میرے پاس کیا لینے آیا ہے ۔۔۔ مائی پنکھی نے ایک جھٹکے سے اس سے اپنے پاؤں چھڑا لئے۔
اسپتال سے ہی پٹی کروا کے آ رہا ہوں ۔۔۔ چکرم نے بتایا۔۔ رانی جی ۔۔ مجھے معاف کر دو۔ میں اب کبھی ایسی حرکت نہیں کروں گا ۔۔
آٸیندہ تو اس طرح کا کام نہیں کرے گا ۔۔۔ مائی پنکھی نے عہد لیا ۔
میں کبھی ایسا نہیں کروں گا ۔۔۔ اس نے فورا عہد کیا ۔۔ رانی جی ۔۔ مجھے اس تکلیف سے نجات دلوا دیں ۔۔
آنکھ سے پٹی ہٹا ۔۔۔ مائی پنکھی نے حکم دیا۔
چکرم اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے بڑی احتیاط سے آنکھ سے پٹی بنائی ۔ مائی پنکھی نے اس کی اکلوتی آنکھ پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔۔ شکر ادا کر کہ تیری آنکھ زخمی ہوئی ہے، ضائع نہیں ہوئی ۔۔
ابھی تو مجھے کچھ نظر نہیں آرہا ۔۔۔ چکرم نے بےبسی سے کہا۔
تو ایسا کر کہ الو کی آنکھ کا سرمہ لگا لے، یہ خون فورا رک جائے گا اور تیری بینائی بھی بحال ہو جائے گی ۔۔۔ مائی پنکھی کو جانے کیوں اس پر رحم آگیا۔
ویسے کام اس نے ایسا کیا تھا کہ مائی پنکھی کو شدید غصہ تھا۔ اگر اس کی انجو کو کوئی نقصان پہنچ جاتا تو وہ کہیں کی نہ رہتی۔ انجو اس کے لئے بہت اہم تھی، اس کا قیمتی سرمایہ تھی۔ اس نے انجو کو بہت مشکلوں سے پایا تھا۔ ایک طرح سے انجو میں اس کی جان تھی اور یہ منحوس اس کی جان لے اڑا تھا۔
چکرم اس کی بات سن کر بےحد ممنون ہوا۔ وہ اندازے سے اس کے قدموں میں بیٹھ گیا۔۔ رانی جی ۔۔ آپ بہت عظیم ہیں ۔۔
اچھا چل ۔۔ اب فورا دفع ہو جا ۔۔ پتا نہیں میں نے تجھے کیوں معاف کر دیا۔ بس اب بھاگ یہاں سے، کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اپنا فیصلہ بدل دوں ۔۔۔ ابھی مائی پنکھی یہ کہہ ہی رہی تھی کہ اچانک کہیں سے انجو نمودار ہوئی ۔ وہ اپنے اگلے دونوں پاؤں جھکا کر جست لگانے والی ہی تھی کہ مائی پنکھی زور سے چیخی ،، نہیں انجو

0 تبصرے