Subscribe Us

خوفناک مسکن - آٹھواں حصہ

Urdu Stories Online 81

اس وقت تک انجو زقند بھر چکی تھی۔ اب خود کو روکنا اس کے اختیار میں نہ رہا تھا۔ البتہ اتنا ضرور ہوا کہ کالے منہ کی سفید بلی نے اس کارروائی سے خود کو روک لیا جو وہ کرنے والی تھی۔ اس کا نشانہ چکرم کی خون بہاتی آنکھ تھی۔ وہ اس آنکھ کو باہر نکال دینا چاہتی تھی۔ یہ کام وہ چکرم کے گھر پر ہی انجام دے دینا چاہتی تھی لیکن مائی پنکھی کے حکم نے اسے ایسا نہ کرنے دیا۔ اوراب بھی مائی پنکھی کی تنبیہہ آڑے آ گئی تھی۔ انتقام کی حسرت اس کے دل میں رہ گٸی تھی۔

انجو، چکرم کے سر پر گری تھی۔ اگر وہ بجلی ہوتی تو چکرم جل کر راکھ ہو جاتا لیکن وہ بجلی نہ تھی بلی تھی ، لہذا کھسیا کر اس کے بال نوچ کر رہ گئی۔ پھر اس نے اس کے سر سے چھلانگ لگائی اور دوڑتی ہوئی کمرے میں چلی گئی۔
حرام کی اولاد ۔۔ تیری قسمت اچھی تھی کہ تو بچ گیا ۔۔۔ مائی پنکھی غصے بھری آواز میں بولی ۔۔ اس سے پہلے کہ وہ پھر پلٹ کر آئے تو یہاں سے دفع ہو جا ۔۔
چکرم خوفزدہ ہوکر ہو کر فوراً کھڑا ہو گیا اور ہاتھ پھیلا کر درواز ہ ڈھونڈتا ہوا باہر نکل گیا۔ اس کے جانے کے بعد مائی پنکھی نے گھر کا دروازہ بند کیا۔ کواڑ کے پیچھے پتھر رکھا اور صحن میں پڑی چار پائی پر آ کر بیٹھ گئی اور زور سے آواز لگائی ۔۔ انجو ۔۔

اندر کمرے میں فرش پر لیٹی ہوئی انجو نے مائی پنکھی کی آواز سنی لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ مائی پنکھی کی ایک آواز پر جب انجو باہر نہ آئی تو اس کا ماتھا ٹھنکا۔ اس نے پھر آواز لگائی ۔۔ انجو باہر آ ۔۔
انجو نے اس کی آواز سنی لیکن طرح دے گئی۔ اس نے اپنے اگلے پاؤں پسارے اور آنکھیں موند لیں۔
مائی پنکھی نے کچھ دیر اس کے آنے کا انتظار کیا۔ جب وہ باہر نہ آئی تو اسے یہ اندازہ کرنے میں دیر نہ لگی تھی کہ انجو روٹھ گئی ہے۔
مائی پنکھی ایک جھلکے سے چار پائی سے اٹھی اور تیز قدموں سے کمرے میں چلی گئی۔ اس کمرے میں ایک بیڈ پڑا تھا۔ ایک لوہے کی الماری تھی۔ اس کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ انجو الماری کے سامنے فرش پر پاؤں پھیلائے لیٹی تھی۔ اس کی سرخ آنکھیں بند تھیں۔

انجو تجھے کیا ہوا؟ ۔۔۔ مائی پنکھی ، انجو کے پاس زمین پر بیٹھ گئی۔ انجو نے اس کی بات سنی لیکن وہ ہلی تک نہیں اور نہ ہی اس نے آنکھیں کھولیں۔
مائی پنکھی نے اسے بڑے پیار اور احتیاط سے زمین سے اٹھایا اور بیڈ پہ لٹا دیا اوراپنے گلے میں پڑے تعویذ کو گلے سے نکالا اور کچھ پڑھتے ہوئے اس کے جسم پر پھیرا اور پھر پیٹھ موڑ کر کھڑی ہو گئی۔
کچھ دیر کے بعد مائی پنکھی کے کانوں میں رونے سسکنے کی آواز آئی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو انجو کو روتے ہوئے پایا۔ وہ اوندھی لیٹی ہوئی تکیے میں منہ دیئے سسک رہی تھی۔
مائی پنکھی بیڈ پر اس کے ساتھ بیٹھ گئی اور اس کا سر سہلانے لگی۔ اس کے کالے ریشمیں بال کھلے ہوئے تھے۔
" انجو، کیوں روتی ہے؟“
اماں کیا تو نہیں جانتی ؟ ۔۔۔ انارہ نے روتے روتے پوچھا۔
میں نے تجھے اس کانے کی دوسری آنکھ نہیں پھوڑنے دی، اس لیے روتی ہے ۔۔۔ مائی پنکھی نے سوال کیا۔
ہاں ۔۔ اماں اسی لیے ۔۔۔ انارہ نے اقرار کیا۔
کیا تو مجھ سے ناراض ہے؟ ۔۔۔ مائی پنکھی نے پوچھا۔

ہاں۔ اماں بہت ۔۔۔ انارہ نے سیدھے ہوتے ہوئے کہا۔ اس کی حسین آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔ پھر شکوے بھری آواز میں بولی ۔۔ اماں، اس نے مجھے دھوکے سے اغوا کیا تھا۔ تیری انجو کو ۔۔
میری انجو ۔۔ مجھے بھی اس پر شدید غصہ ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مجھے اس سے ایک بےحد اہم کام لینا ہے۔ وہ میرے پاس میرے بلاوے پر آیا تھا۔ مجھے اپنا کام نکال لینے دے، پھر میں اسے تیرے حوالے کر دوں گی ، جو جی چاہے کرنا ۔۔۔ مائی پنکھی نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
آخر ایسا کیا کام ہے کہ تو اس کی محتاج ہے ۔۔۔ انارہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔
میں اس کانے کی محتاج نہیں البتہ اتنا ضرور ہے کہ میرا کام وہی کر سکتا ہے۔ اب میں تو ماری ماری قبرستان میں نہیں پھر سکتی ۔۔۔ مائی پنکھی نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
اماں ۔۔ قبرستان سے کیا لانا ہے؟ ۔۔۔ انارہ نے پوچھا۔
وہ وہاں سے میری مرضی کی انسانی ہڈیاں لائے گا۔ میں اس پر کالے شہد پڑھوں گی۔ اس کے بعد وہ کانا ان ہڈیوں کو پسوا کر لائے گا۔ مجھے ان کا برادہ چاہئے ۔۔۔ مائی پنکھی نے راز کھولا ۔
اماں ۔ تو ہڈیوں کے سرمے کا کیا کرے گی؟ ۔۔۔ انارہ نے سوال کیا۔ اس راز سے فی الحال میں پردہ نہیں اٹھا سکتی ۔۔۔ مائی پنکھی بولی اور اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
اماں ۔۔ بیٹھ نا۔ کہاں جا رہی ہے؟ انارہ نے کہا۔۔ بے شک تو راز سے پردہ نہ اٹھانا ۔۔
میں اپنے ٹھکانے پر جا رہی ہوں۔ یہاں کمرے میں میرا دم گھٹتا ہے ۔۔۔ مائی پنکھی کمرے کے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے بولی ۔۔ آ جا ۔۔ تو بھی باہر آ جا ۔۔
اچھا اماں ۔۔۔ انارہ بیڈ سے اٹھتے ہوئے ہوئی۔
وہ مائی پنکھی کے پیچھے باہر صحن میں آئی صحن میں گہرا اندھیرا چھا چکا تھا۔ انارہ نے باہر نکلتے ہوئے پوچھا۔۔
اماں ۔۔ کیا لائٹ جلا دوں؟ ۔۔

جلا دے تیری مرضی ہے ۔۔۔ مائی پنکھی نے فیصلہ اس پر چھوڑا اور بغیر پریشانی کے اندھیرے میں چلتی چار پائی پربیٹھ گئی۔ انارہ نے دیوار پر لگے بٹن کو آن کر دیا۔ نتیجے میں صحن میں ایک مریل سا بلب راشن ہو گیا۔ بلب کے جلنے کی وجہ سے صحن کی فضا مزید پراسرار ہو گئی۔
انارہ حسب معمول زمین پر اس کے قدموں میں بیٹھ گئی۔
انجو ۔۔ آ اوپر بیٹھ جا ۔۔۔ مائی پنکھی نے محبت آمیز لہجے میں کہا۔
نہیں اماں ۔۔ میں تیرے پاؤں دباؤں گی ۔۔۔ انارہ فرمانبرداری سے بولی۔
تو بہت اچھی ہے ۔۔۔ مائی پنکھی نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔۔ بہت پیاری ۔۔
اماں ۔۔ تیرا بھی کچھ ٹھیک نہیں ۔ کبھی مجھے ابھاگن کہتی ہے۔ کبھی اچھی اور پیاری کہتی ہے ۔۔۔ انارہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔ آخر میں کون ہوں؟ ۔۔
اچھا۔ آ میں تجھے تیرے بارے میں کچھ بتاتی ہوں ، تیرے گھر دکھاتی ہوں۔ جا چولہے سے کوئلہ نکال کر لا ۔۔۔ مائی لکھی جانے کیوں یکدم مہربان ہو گئی۔
لاتی ہوں اماں ۔۔۔ انارہ اسے مہربان ہوتے دیکھ کر باورچی خانے کی طرف لپکی۔ اس نے باورچی خانے کی لائٹ جلا کر چولہے سے ایک چھوٹا سا کوئلہ اٹھایا اور باہر آ گئی۔
مائی پنکھی کوٸلہ ہاتھ میں لے کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس نے صحن کے درمیان پہنچ کر اس کوٸلے سے چار لکیریں کھینچیں۔ اس طرح چھ ضرب چار کا ایک مستطیل بن گیا۔ اس نے اس مستطیل کو چھ خانوں میں بانٹا اور ساتواں خانہ اس نے مستطیل کے باہر نیچے کونے میں بنایا۔ سات خانے بنانے کے بعد اس نے انارہ کی طرف دیکھا اور بولی۔۔
آانجو ۔۔ تجھے میں سات گھر جھنکاؤں ۔ آخر کو تو بلی ھے نا ۔۔
ٹھیک ہے اماں ۔۔ بتا مجھے کیا کرنا ہے ۔۔۔ انارہ بولی۔
پہلے گھر میں بیٹھ کے دیکھ تجھے کیا نظر آتا ہے؟ ۔۔۔ مائی پنکھی نے اسے پہلے خانے میں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی ان خانوں سے باہر ساتویں خانے کے نزدیک پھسکڑ مار کر بیٹھ گٸی ۔
انارہ تجسس بھرے انداز میں چلتی پہلے خانے میں اکڑوں بیٹھ گئی۔ مائی پنکھی نے آواز لگائی ۔۔ اری۔ آرام سے بیٹھ ۔۔
انارہ اس کے حکم پر اسی انداز میں بیٹھ گئی جیسے مائی پنکھی بیٹھی تھی۔ مائی پنکھی نے اپنے گلے میں پڑا چاندی کے خول میں بند بھاری تعویذ اتارا۔ اسے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھ کر سختی سے مٹھی بند کر لی اور آنکھیں موند کر بولی ۔۔ چل انجو چل ۔۔۔

انارہ کے جسم میں اچانک حرکت ہوئی ۔ وہ کھڑی ہوگئی۔ جب اس نے ایک قدم بڑھایا تو منظر یکسر بدل گیا۔ اب یہاں صحن تھا، نہ نیم کا درخت۔ سامنے مائی پنکھی تھی ، نہ خانے نظر آرہے تھے۔ لیکن مائی پنکھی کی آواز آ رہی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی ۔۔ ہاں ۔ انجو کہاں ہے تو ؟ ۔۔
انجو نے چاروں طرف نظر دوڑائی اور پھر بولی۔۔ میرے چاروں طرف جھونپڑیاں ہیں۔ میں ایک جھونپڑی کے سامنے کھڑی ہوں ۔۔
چل جھونپڑی کے اندر چل ۔۔۔ مائی پنکھی نے اسے حکم دیا۔
میں اندر آ گئی ۔۔۔ انجو نے بتایا۔
اب کیا دکھائی دے رہا ہے؟ ۔۔۔ مائی پنکھی نے پوچھا۔
جھونپڑی میں نیچے فرش پر ایک مرد اور عورت لیٹے ہیں۔ یہ دونوں بےخبر سو رہے ہیں۔ ساتھ ہی ایک بچی لیٹی ہے۔ بہت پیاری بہت سندر ۔۔۔ انارہ کے جو سامنے تھا، وہ بیان کیا۔
بچی کتنی بڑی ہے؟ ۔۔۔ مائی پنکھی نے سوال کیا۔
یہی کوئی پانچ چھ سال کی ہوگی ۔۔۔ انارہ نے اس لڑکی کے چہرے پر نظریں جمائے کہا۔
انجو جانتی ہے، یہ کون ہے؟ ۔۔۔ مائی پنکھی نے پوچھا۔
نہیں جانتی ۔۔
انجو ۔۔ یہ تو ہے ۔ یہ تیرا پہلا گھر ہے۔ اور یہ جو تیرے سامنے مرد اور عورت لیٹے ہیں، یہ تیرے ماں باپ ہیں۔ تیرا باپ دلبر ، زمیندار قائم شاہ کا خدمت گار ہے۔ تیری ماں پینو حویلی کی ملازمہ ہے۔ پینو تجھے اپنے ساتھ رکھتی ہے۔ قاٸم شاہ کا ایک ہی بیٹا ہے۔ بڑی منتوں کے بعد جنم لینے والا ۔ اس کا نام کامران ہے اور تیرا نام ریشماں ہے۔ مالکن اصغری اچھے دل کی عورت ہے۔ غریبوں کا خاص خیال رکھنے والی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ کامران کو تیرے ساتھ کھیلنے سے منع نہیں کرتی ۔ بچپن میں ساتھ کھیلنے کی وجہ سے تجھے میں اس کی دلچسپی بڑھتی گئی۔ سن شعور تک پہنچنے تک وہ تیرا دیوانہ ہو گیا۔ پندرہ سال کی عمر میں تجھ پر جو روپ چڑھا، وہ اچھے اچھے مردوں کی پارسائی ٹھکانے لگانے کے لئے کافی تھا۔
کامران کو کالج میں پڑھنے کے لیے شہر بھیج دیا گیا۔ وہ جب بھی گاؤں لوٹتا، تجھ سے ملے بنا نہ رہتا۔ اس دوران تیرے باپ دلبر پر ایک بیتا آ پڑی۔ زمیندار قائم شاہ کے سب سے چھوٹے بھائی عزت شاہ کے ہاتھوں ایک نوجوان عورت کا قتل ہوا۔ عزت شاہ، اس پر عاشق تھا۔ وہ اس پر توجہ نہ دیتی تھی۔ وہ عورت کہیں اور متوجہ تھی۔ بس اتنا ہی جرم تھا اس نوجوان عورت نوراں کا۔ عزت شاہ نے نوراں کے گھر جا کر اپنے بندوں کی مدد سے چار پائی سے باندھا۔ اسے بےعزت کیا۔ رسوں سے بندھی نوراں پر اس نے تیزاب پھینکا۔ چہرہ ہی نہیں اس کا پورا جسم تیزاب سے جھلسا دیا۔ وہ مرگئی اور یہ سب کارروائی کرنے کے بعد اپنے بندوں کے ساتھ اپنی حویلی جانے کے بجائے اپنے بڑے بھائی حاکم شاہ کی حویلی پہنچ گیا اور اس کے سامنے اقرار جرم کر لیا۔

یہ واردات چھپنے والی نہ تھی۔ ضروری تھا کہ عزت شاہ کی جگہ کسی اور کی گرفتاری دے دی جائے۔ قرعہ فال تیرے باپ کے نام نکلا ۔ قائم شاہ نے ایک معقول رقم دے کر اسے قربانی کا بکرا بنا دیا۔ اس نے تھانے جا کر اقرار جرم کر لیا۔ موٹی رقم کے عوض پولیس نے اس جعلی مجرم کو قبول کر لیا۔ مقدمہ چلا اور اسے سزائے موت ہو گئی۔ کامران کو جب اس واردات کا پتا چلا کہ اس کے باپ نے اپنے بھائی کو بچانے کے لیے ریشماں کے باپ کو قربانی کا بکرا بنا دیا ہے تو اسے بہت افسوس ہوا لیکن وہ اپنے سخت مزاج باپ کے سامنے کچھ نہ بول سکا۔
اب تم دونوں کے درمیان قول و قرار ہو چکا تھا۔ تیری ماں پینو کو جب تیرے اور کامران کے بارے میں معلوم ہوا تو وہ کانپ کر رہ گئی۔ وہ قائم شاہ سے اچھی طرح واقف تھی۔ وہ کسی صورت تجھے قبول نہ کرتا ۔ تب تیری ماں نے نہ صرف حویلی بلکہ یہ علاقہ ہی چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ جب تجھے پینو کا ارادہ معلوم ہوا تو تو نے کامران کو بتایا کہ تو بہت جلد اس سے دور کر دی جائے گی۔ کامران تجھے ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر تڑپ اٹھا اور جوش جوانی میں اپنے باپ سے ذکر کر دیا کہ وہ تجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ قائم شاہ کو بیٹے کی اس گھٹیا پسند پر شدید غصہ آیا۔ اس کے سامنے اکلوتا اور لاڈلا بیٹا تھا۔ غصے کی صورت میں وہ جوش جوانی میں کچھ بھی کر سکتا تھا۔ لہٰذا شاطر قائم شاہ نے اس معاملے کو انتہائی تقدیر سے نمٹانے کا فیصلہ کیا۔ جانتی ہے اس نے اپنے بیٹے سے کیا کہا ۔۔۔
مائی پنکھی سانس لینے کے لیے رکی۔ مسلسل بولنے کی وجہ سے اس کا سانس چڑھنے لگا تھا۔

نہیں۔ مجھے کیا معلوم ۔۔۔ انارہ نے کہا۔
اچھا میں بتاتی ہوں ۔۔۔ مائی پنکھی ہولی ۔۔ اس وقت تو کہاں ہے ؟ ۔۔
اماں میں تیری کہانی کے مطابق سفر کر رہی ہوں۔ وہی کچھ دیکھ رہی ہوں، جو تو مجھے سنا رہی ہے ۔۔
چل پھر ٹھیک ہے ۔۔ سنتی جا اور دیکھتی جا ۔۔۔ مائی پنکھی کا سانس درست ہو چکا تھا۔ اس نے آگے کی داستان سنانی شروع کر دی ۔۔
قائم شاہ نے اپنے بیٹے کی بات سن کر بڑے نرم لہجے میں کہا کہ بیٹا تو فکر نہ کر، جہاں تو چاہے گا ، وہاں تیری شادی ہو جاٸے گی۔ اس کے باپ کا ہم پر احسان ہے۔ اس نے ہمارے لیے قربانی دی ہے۔ تو پھر ہم اس کی لڑکی کی خاطر کیوں قربانی نہیں دے سکتے۔ بے شک وہ ہمارے نوکر چاکر ہیں پر ہیں تو انسان۔ باپ کے خیالات سن کر کامران بڑا شادمان ہوا۔ دوڑا دوڑا تیرے پاس آیا۔ تجھے خوشخبری سنائی، تو سن کر دیوانی ہو گئی۔ جب تو نے یہ بات اپنی ماں کو بتاٸی تو وہ خوش ہونے کی بجاٸے فکرمند ہو گٸی۔ علاقہ چھوڑنے کا عزم مزید مضبوط ہو گیا۔ پینو نے اپنے بھائی کو بلا بھیجا تا کہ یہاں سے نکلنے میں آسانی رہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ تیرا ماموں آتا، کامران کے باپ قاٸم شاہ نے تیرا ڈیتھ وارنٹ جاری کر دیا۔ تجھے راستے سے اٹھا لیا گیا۔ قائم شاہ کے فارم ہاؤس کے ویران گوشے میں تیری قبر کھودی گئی۔ تجھے نشہ آور دوا پلا دی گئی۔ جب تجھ پر گہری نیند طاری ہو گئی تو تجھے بیہوشی کی حالت میں قبر میں پھینک دیا گیا۔ پھر تیری قبر کو پتھروں سے بھر کر مٹی برابر کر دی گئی اور کامران سے کہہ دیا کہ تم لوگ علاقہ چھوڑ گئے۔ کامران کو تیرے ساتھ گہرا لگاؤ تھا۔ اس نے تجھے بہت ڈھونڈا۔ بہت تلاش کیا لیکن تو منوں پتھروں تلے دفن تھی، کیسے ملتی ۔

اماں ۔۔ اماں ۔۔۔ انارہ کی اچانک گھٹی گھٹی آواز سناٸی دی۔
ہاں ۔ کیا ہوا ؟ ۔۔۔ مائی پنکھی نے پوچھا۔
اماں ۔۔ میرا دم گھٹ رہا ہے ۔۔ مجھے واپس بلا ۔۔ جلدی کر ۔۔۔ انارہ چیخی۔
بلاتی ہوں ۔۔ ایک منٹ رک ۔۔۔ مائی پنکھی نے کہا۔ پھر اس نے تیزی سے کچھ پڑھا۔ پہلے گھر کی طرف دیکھ کر پھونک ماری اور زور سے بولی۔۔ چل ری ۔۔ دو قدم الٹے پاؤں چل ۔۔
انارہ نے بغیر مڑے دو قدم پیچھے رکھے۔ ایک دم اسے جھٹکا سا لگا۔ جب سر اٹھایا تو خود کو پہلے گھر میں پایا۔ مائی پنکھی نے اسے سامنے دیکھ کر چاندی کا تعویز اپنے گلے میں ڈالا ۔ اس پر شدید قسم کی تھکن طاری تھی۔ وہ بڑی مشکل سے اٹھی اور چار پائی پر جا لیٹی اور بولی۔۔ انجو ۔۔ میں تھک گئی ہوں ۔۔
اماں میں آتی ہوں ۔۔۔ انارہ پہلے گھر سے نکلی ۔ وہ ابھی مکمل طور پر ہوش و حواس میں نہ تھی۔ اسے چکر آیا۔ اس نے خود کو سنبھالا اور مائی پنکھی کے ساتھ چار پائی پر بیٹھ گئی اور ہولی۔۔ اماں ۔ کیا تیرا سر دباؤں ؟ ۔۔
ہاں ۔۔ انجو دبا ۔۔۔ مائی پنکھی نے فورا کہا ۔۔ بڑا کٹھن ہوتا ہے یہ سفر ۔
انارہ جواب میں کچھ نہ بولی اور خاموشی سے سر دبانے لگی۔ انارہ کا سانس ابھی مکمل طور پر بحال نہ ہوا تھا۔ وہ لمبے اور گہرے سانس لے رہی تھی۔ جب ماٸی پنکھی نے اسے قبر میں پھینکے جانے اور پتھروں میں زندہ دہانے کی روداد بیان کی تو اسے لگا جیسے وہ قبر میں موجود ھے اور سانس گھٹنے کی کیفیت سے دوچار ھے۔ اگر وہ ماٸی پنکھی کو دم گھٹنے کا نہ بتاتی تو ممکن تھا کہ وہ موت کی اذیت سے گزر جاتی۔ لیکن یہ سوچ کر کہ اسے زندہ پتھروں میں دبا دیا گیا تھا اور وہ دبے دبے موت سے ہمکنار ہو گئی تھی۔ اس کا دل کانپ رہا تھا۔
پھر اسے کامران کا خیال آیا۔ کیسا بانکا سجیلا نوجوان تھا۔ کیسا ٹوٹ کر چاہتا تھا وہ اسے ۔ جانے اس پر کیا گزری ہوگی ۔ جانے کتنے عرصے تک وہ اسے تلاش کرتا رہا ہوگا۔
بس انارہ ۔۔۔ اچانک مائی پنکھی نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔۔ جا رات گہری ہو گئی۔ اب اندر چلی جا ۔۔

اچھا۔ اماں جاتی ہوں ۔۔۔ انارہ چارپائی سے اٹھتے ہوئے بولی۔
بتی بند کر جانا ۔۔۔ مائی پنکھی نے دیوار میں لگے بلب کی طرف اشارہ کیا۔
انارہ نے لائٹ بند کی اور اندر کمرے میں چلی گئی۔ آج اماں نے اسے "پہلا گھر“ دکھایا تھا۔ ابھی چھ گھر اور باقی تھے۔ اماں ٹھیک ہی کہتی تھی کہ وہ جنم جلی ہے ،،ابھاگن ہے ،،
عابر نے اندر جو منظر دیکھا، وہ اس کے وجود میں شعلے بھڑکانے کیلئے کافی تھا۔ ملکہ صوفے پر پورے اطمینان سے لیٹی تھی۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ دلشاد یونس اسی صوفے پر موجود تھا اور وہ جس کاروائی میں مصروف تھا، وہ کسی بھی شوہر کے لیے ناقابل برداشت تھی۔
دروازہ بند ہونے کی آواز پر دونوں نے بیک وقت دروازے کی طرف دیکھا۔ دلشاد یونس ایک اجنبی نوجوان کو دروازے پر کھڑا دیکھ کر شدید غصے میں مبتلا ہو گیا۔ وہ چیخ کر بولا۔۔
"کون ہو تم؟"
ملکہ کی اس اجنبی نوجوان پر نظر پڑی تو وہ سانس لینا بھول گئی۔ اس پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ وہ اجنبی نوجوان کوئی اور نہیں اس کا شوہر تھا۔ چند لمحوں کے منظر نے عابر پر ساتوں طبق روشن کر دیئے تھے۔ ملکہ کیا تھی ؟ اس ملازمت کی آڑ میں یہاں کیا ہو رہا تھا۔ ہر چیز اس پر صاف اور واضح ہو گئی تھی۔ اب یہاں رکنا بیکار تھا۔ وہ فورا واپسی کے لیے پلٹا۔ دروازہ کھول کر جیسے ہی وہ باہر نکلا، سامنے ریٹا کھڑی تھی۔ اس نے قہر آلود نظروں سے عابر کو گھورا اور سخت لہجے میں بولی۔
تم بلا اجازت اندر کیسے گئے ۔۔ کون ہو تم ؟ ۔۔

ہر شخص اس سے پوچھ رہا تھا کہ کون ہو تم ؟ لیکن اپنے بارے میں کوئی کچھ نہیں بتا رہا تھا کہ وہ کون تھے ننگ خاندان ۔۔۔۔
عابر کا جی چاہا کہ اس عورت کے منہ پر زور دار تھپڑ مار کر بتائے کہ وہ کون ہے۔ لیکن اپنی شناخت کرانے کا فائدہ کیا تھا۔ وہ فاحشہ تو صوفے پر پڑی تھی اپنی عزت اتار کر۔ اب کسی کو کچھ بتانا، اپنی ذلت کروانا تھا۔ اس نے کچھ نہ کہا۔
وہ جارحانہ انداز میں اس دروازے کی طرف بڑھا جہاں سے وہ اس جہنم میں داخل ہوا تھا۔ ریٹا اس کے پیچھے لپکی۔
دلشاد یونس نے اپنا دروازہ کھولا اور جب اس نے نوجوان اور ریٹا کو آگے پیچھے بھاگتے دیکھا تو اس نے چیخ کر کہا ۔۔
یہ بھاگنے نہ پائے ۔۔
ریٹا نے باہر نکل کر شور مچایا ۔۔ اسے پکڑو ۔۔ اسے پکڑو ۔۔
اور دلشاد یونس نے فورا سیکورٹی گارڈز کو الرٹ کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ دھر لیا گیا۔
چند منٹوں کے بعد ہی اسے دلشاد یونس کی عدالت میں پیش کر دیا گیا۔ ریٹا نے سیکورٹی گارڈز کو دروازے پر الرٹ رہنے کو کہا۔ جب وہ باہر نکل گئے اور دروازہ بند ہو گیا تو دلشاد یونس نے اس لڑکے کا سر سے پاؤں تک جائزہ لیا۔ وہ ایک خوبصورت نوجوان تھا۔ اپنے چہرے مہرے سے شریف دکھائی دیتا تھا۔ یوں اس نے ابھی تک کوئی غیر شریفانہ حرکت کی بھی نہیں تھی ۔ وہ اندر آیا۔ اس نے دیکھا اور پھر فورا ہی پلٹ گیا تھا۔
دلشاد یونس کی تجربہ کار نظروں نے اس کی شخصیت کا ایکسرے کیا اور سر جھکائے کھڑے اس شریف زادے سے مخاطب ہوا۔
" بیٹھ جاؤ۔"

لیکن عابر کے جسم میں کوئی حرکت نہ ہوئی۔ وہ سر جھکائے کھڑا رہا۔ وہ کیا نظریں اٹھاتا اور نظریں اٹھا کر کیا دیکھتا۔ کیا اس بےوفا کو دیکھتا جسے بنا جانے مر گیا تھا۔ جس کے لیے اس نے اپنا گھر، اپنے والدین اور چاہنے والی بہن تیاگ دی تھی۔ اب سر اٹھانے کو کیا رہ گیا تھا۔ ملکہ نے اس کا سر جھکا دیا تھا۔ اسے خیال آیا کہ ملکہ نے اسے پہلے ہی دن خبردار کیا تھا کہ مر مٹنے سے پہلے مجھے جان تو لو کہ میں کون ہوں لیکن اس نے پروا کہاں کی تھی۔ بس اپنی محبت کو اہم جانا تھا۔ تم جو بھی ہو، میری ہو ۔۔ تو عابر علی نثار اب بھگتو ۔۔
ریٹا ۔۔ یہ اندر کیسے آیا ؟ ۔دلشاد یونس نے ریٹا کو گھور کر دیکھا۔
جی ۔۔ وہ میں ۔۔۔ میں کمرے میں موجود نہ تھی۔ واش روم میں تھی ۔۔۔ ریٹا نے جواب دیا۔
ہاں جی ۔۔ آپ بولیں ۔۔۔ دلشاد یونس نے عابر کو دیکھا ۔۔ آپ کون ہیں ؟ ۔۔
میں کون ہوں ۔۔ ان سے پوچھ لیں ۔۔۔ عابر کی آواز میں لرزش تھی۔
کس سے پوچھوں ۔۔ ریٹاسے؟ ۔۔۔ دلشاد یونس نے وضاحت چاہی۔
جی نہیں ۔۔ ان سے ۔۔۔ عابر نے ملکہ کی طرف دیکھے بغیر اشارہ کیا۔ وہ صوفے پر بیٹھی تھی۔
اوہ ۔۔ اچھا تو تم ملکہ کی تلاش میں اندر آ گئے تھے ۔۔۔ دلشاد یونس کو بات کی تہہ تک پہنچنے میں دیر نہ لگی۔ پھر وہ ملکہ کی طرف مڑا اور اس سے مخاطب ہو کر بولا ۔۔
ملکہ کیا یہ تمہارا منگیتر ھے ۔۔
نہیں سر ۔۔۔ ملکہ نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔
پھر کون ہے ۔۔ کیا تمہارا کوئی رشتے دار؟ ۔۔

جی سر ۔ میرا گہرا رشتے دار ۔۔ یہ میرے شوہر ہیں ۔۔۔ ملکہ نے دلشاد یونس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مضبوط لہجے میں کہا۔ یہ بتاتے ہوئے اچانک اس کے مزاج میں تبدیلی آئی تھی۔
تم شادی شدہ ہو؟ دلشاد یونس کے لیے یہ انکشاف تھا۔ وہ حیران رہ گیا تھا۔
جی سر ۔۔۔ ملکہ نے صاف اور واضح لہجے میں کیا۔
لیکن مجھے تو تمہارے باپ نے بتایا تھا کہ ابھی تمہاری شادی نہیں ہوئی ہے، ہونے والی ہے۔ تو کیا اس نے جھوٹ بولا تھا ؟ ۔۔
یہ تو وہی بتا سکتے ہیں ۔۔۔ ملکہ نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔
تم نے جب اس آفس کو جوائن کیا، اس وقت تم شادی شدہ تھیں ؟
جی سر ۔ میری شادی ہوئے کئی ماہ ہو چکے تھے ۔
اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔ دلشاد یونس کو یکدم غصہ اً گیا ۔۔ تم تمہارا باپ سب فراڈ ہو۔ میں انتقام لوں گا۔ میں تمہارے شوہر کو ہتھکڑی لگوا دوں گا ۔
اور پھر دلشاد یونس نے وہی کیا جو کہا تھا ۔
اس نے پولیس بلائی۔ اپنا اثر ورسوخ اور رقم استعمال کی۔ پولیس نے اقدام قتل کے الزام میں اسے ہتھکڑی لگا دی اور عابر کو تھانے لے کر چلے گئے۔
عابر کے جانے کے بعد ملکہ اپنی میز پر بیٹھی روتی رہی تھی۔ ریٹا، دلشاد یونس کے کمرے میں تھی۔ کچھ دیر کے بعد دونوں ایک ساتھ باہر نکلے۔ دلشاد یونس نے ملکہ کی طرف دیکھنا تک گوارا نہ کیا۔ وہ سیدھا نکلتا چلا گیا۔
دلشاد یونس کے جانے کے بعد ریٹا، ملکہ کے پاس آئی اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بڑے غیر جذباتی انداز میں کسی روبوٹ کی طرح بولی۔
کھیل ختم ہو گیا ۔ جاؤ اپنے گھر ۔ ادارے کو اب تمہاری ضرورت نہیں رہی ۔۔۔ ملکہ جو میز پر پیشانی رکھے رو رہی تھی ، اس نے اپنا سر اٹھایا اور ریٹا کی طرف دیکھے بغیر کہا۔۔ " ٹھیک ہے۔"
پھر اس نے دوپٹے سے بھیگی آنکھیں پونچھیں ۔ واش روم میں جا کر اچھی طرح منہ دھویا۔ باہر آ کر اپنے بیگ سے موبائل فون نکالا اور کال کرنے لگی ۔
ریٹا اس کو بغور دیکھ رہی تھی۔ وہ اندازہ نہیں لگا پا رہی تھی کہ وہ کس کو کال کر رہی ھے۔ دلشاد یونس نے اسے حکم دے گیا تھا کہ جتنی جلد ممکن ہو سکے، اسے دفتر سے باہر کر دینا۔ ملکہ نے کوئی حیل و حجت نہیں کی تھی۔ وہ جانے کی تیاری کر رہی تھی۔ پھر کسی زور ز بردستی کی گنجائش کہاں تھی۔
کال ملنے پر ملکہ نے جلدی سے کہا۔۔ امی میں ملکہ بول رہی ہوں۔ آپ ابو سے کہیں وہ مجھے آفس لینے آجا ئیں فورا ۔۔
کیا ہوا ملکہ ۔۔ خیر تو ہے ۔۔۔ چاندنی نے اس کی آواز میں گھبراہٹ کا عنصر محسوس کر کے پوچھا۔
جی امی ۔۔ جلدی کریں۔ میں ابو کو آفس کے دروازے پر ملوں گی ۔۔۔ ملکہ نے اتنا کہہ کرفون آف کر دیا۔
موبائل بیگ میں ڈالا۔ ریٹا کی طرف ایک نظر دیکھا اور یہ کہتی ہوئی اس کے سامنے سے گزر گئی۔
اچھا ۔۔ میں چلتی ہوں ۔
ریٹا فورا کھڑی ہوگئی۔ وہ شاید اس سے الوداعی جملے کہنا چاہتی تھی لیکن ملکہ نے اسے، اس کا موقع نہ دیا۔ تیزی سے دروازہ کھول کر باہر نکلی۔ پیچھے دروازہ دھڑ سے بند کیا اور آفس کے بڑے دروازے کی طرف بڑھنے لگی۔
چاندنی کو ملکہ کے فون سے بخوبی اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کسی مشکل میں ہے۔ وہ فورا اپنے کمرے سے نکلی اور ڈاکٹر صاحب ڈاکٹر صاحب کہتی لاؤنج کی طرف بڑھی۔
وہ ڈاکٹر صاحب کچھ اس انداز سے پکار رہی تھی جیسے اسپتال میں ہو اور مریض کی حالت اچانک خراب ہو گئی ہو۔
ڈاکٹر نوشاد گھر میں ہوتا تو زیادہ تر ٹی وی کے سامنے لاؤنج میں بیٹھا ہوتا۔ لیکن اس وقت وہ لاؤنج میں نہ تھا۔ البتہ ٹی وی چل رہا تھا۔ وہاں فاخرہ بیٹھی تھی۔
ڈاکٹر صاحب کہاں ہیں ؟ ۔۔۔ چاندنی نے اس سے پوچھا۔
امی، ابو ڈرائنگ روم میں ہیں، کوئی آیا ہوا ہے ۔۔۔ فاخرہ نے بتایا۔
اور عابر ۔۔۔ چاندنی نے پوچھا۔
امی۔ اپنے کمرے میں ہوں گے۔ میں نے دیکھا نہیں ۔۔۔ فاخرہ بولی۔
فاخرہ ۔۔ ذرا اپنے ابو کو بلا کر لاو ۔۔۔ چاندنی نے ہدایت کی۔
امی خیر تو ہے ۔۔۔ فاخرہ اٹھتے ہوئے بولی۔
ہاں ۔۔ دیکھ ایسا کرنا ۔ ڈاکٹر صاحب کو کمرے میں بھیج دینا ۔۔۔ چاندنی نے اپنے کمرے کی طرف قدم بڑھائے۔
چاندنی ابھی بیڈ پر بیٹھی ہی تھی کہ ڈاکٹر نوشاد کمرے میں داخل ہو گیا اور بولا ۔۔کیوں بلایا ہے؟ ۔۔
آپ فورا ملکہ کے آفس چلے جائیں ، اسے لے آئیں۔ مجھے وہ پریشان دکھائی دے رہی تھی ۔۔۔ چاندنی نے پھر اس کے فون کی تفصیل بتائی۔
اچھا۔ میں اس سے پوچھتا ہوں، کیا معاملہ ہے ۔۔۔ ڈاکٹر نوشاد نے جیب سے موبائل نکالتے ہوئے کہا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ جب وہ گاڑی میں ملکہ کے آفس کی بلڈنگ کے سامنے پہنچا تو اس نے ملکہ کو سیڑھیوں پر بیٹھا پایا۔ وہ عجیب سے انداز میں سیڑھیوں پر بیٹھی ہوئی تھی۔ میک اپ سے عاری، پریشان چہرہ، آنکھوں میں ویرانی جیسے برسوں کی بیمار ہو۔

کیا ہوا ملکہ ۔۔ یہاں کیوں بیٹھی ہو؟ ۔۔۔ ڈاکٹر نوشاد نے پوچھا۔
ابو ۔۔ مجھ سے کچھ نہ پوچھیں، مجھے گھر لے چلیں ۔۔۔ وہ بہ مشکل بولی۔
اگر تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو اسپتال لے چلوں ۔۔۔ ڈاکٹر نوشاد نے پوچھا۔
نہیں ، گھر ۔۔۔ ملکہ نے اٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
ڈاکٹر نوشاد نے فوراً اس کا ہاتھ تھام لیا ورنہ وہ گر جاتی۔ وہ سہارا دے کر گاڑی تک لایا اور گاڑی میں بٹھا کر گھر کے لیے روانہ ہو گیا۔
ملکہ گھر آنے تک گم صم سی بیٹھی رہی۔ وہ ایک لفظ بھی نہ بولی۔ ڈاکٹر نوشاد نے اپنے برابر بیٹھی ہوئی ملکہ کو کئی بار کن اکھیوں سے دیکھا لیکن اسے بلانے کی کوشش نہ کی۔
گھر آ کر وہ چاندنی کے کمرے میں پہنچی۔ اس نے دروازہ بند کیا اور ماں سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ چاندنی نے اسے اپنے کلیجے سے لگا لیا اور اسے رونے دیا۔
ملکہ روتے روتے بے حال ہو گئی۔ چاندنی نے سائیڈ ٹیبل پر رکھی بوتل سے پانی نکال کر اسے پلایا اور بیڈ پر لٹا دیا۔ کافی دیر کے بعد اس کی حالت سنبھلی تو اس نے سب سے پہلے جو بات کہی ، وہ یہ تھی ۔۔ امی ، عابر کو پولیس پکڑ کر لے گئی ہے ۔۔
چاندنی پولیس کا نام سن کر سنانے میں آگئی۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ عابر جیسے سیدھے سادے لڑکے کو پولیس پکڑ کر لے جاسکتی ہے۔
کس جرم میں؟ ۔۔۔ چاندنی نے پوچھا۔
قتل کے جرم میں ۔۔۔ ملکہ نے انکشاف کیا۔

اس نے کس کو قتل کیا ہے؟ ۔۔
امی کسی کو نہیں۔ امی جو خود مقتول ہو، وہ کسی کو کیا قتل کرے گا ۔۔۔ ملکہ نے آنسو بھری آنکھوں سے کہا اور پھر روتے سسکتے دفتر میں جو کچھ ہوا، وہ من و عن چاندنی کے گوش گزار کر دیا ۔
یہ تو بہت برا ہوا ۔۔۔ چاندنی افسردہ ہو کر بولی۔
ہاں ۔۔ امی ۔۔ وہ بے قصور مارا گیا ۔۔
دلشاد یونس کو آخر کس بات پر غصہ آ گیا ۔۔۔ چاندنی نے سوال کیا۔
ابو کی غلط بیانی پر، شادی شدہ ہو کر کنواری کیوں ظاہر کیا ۔۔۔ ملکہ نے بتایا۔
تو فکرمت کر ۔۔ ڈاکٹر صاحب کے پولیس کے اعلیٰ افسران سے تعلقات ہیں۔ وہ کھڑے کھڑے عابر کو تھانے سے لے آئیں گے ۔۔۔ چاندنی نے تسلی آمیز لہجے میں کہا۔۔ میں انہیں جا کر ساری بات بتاتی ہوں ۔ ٹھیک ہے ۔۔
جی امی ۔۔۔ ملکہ نے کہا۔
جب چاندنی ڈرائنگ روم میں پہنچی تو مہمان جا چکا تھا۔ اس نے ڈاکٹر نوشاد کو وہیں اپنے پاس بٹھا لیا اور جو کچھ اپنی بیٹی سے سنا تھا، وہ ڈاکٹر نوشاد کو بتا دیا۔
اچھا ۔۔۔ ساری بات سن کر ڈاکٹر نوشاد کے جسم میں بجلی سی بھر گئی۔ اس نے میز پر رکھا ہوا موبائل اٹھایا اور کسی کو فون کرنے لگا۔
جب وہ متعلقہ تھانے پہنچا تو ایس ایچ او اپنے کمرے میں موجود تھا۔ ڈاکٹر نوشاد کو بے دھڑک کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر ایس ایچ او نا صر کو یہ اندازہ لگانے میں دیر نہ لگی کہ وہ کوئی اونچی چیز ہے، اس لیے اس نے ڈاکٹر نوشاد کے چہرے پر نظر جماتے ہوئے کہا۔ "جی، فرمائیے۔"
ڈاکٹر نوشاد جو کمرے میں داخل ہوتے ہی موبائل پر مصروف ہو گیا تھا ، اس نے ایس ایچ او کی ”جی فرمائیے“ پر قطعاً توجہ نہ دی۔ کال ملنے پر اس نے بس اتنا کہا۔۔ سر میں ایس ایچ او صاحب کے کمرے میں آگیا ہوں ۔
اُدھر سے کہا گیا ۔۔ انہیں موبائل دیں ۔
جی اچھا ۔۔۔ ڈاکٹر نوشاد نے موبائل ایس ایچ او ناصر کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔۔ سر ایس پی شفیق راجپوت آپ سے مخاطب ہونا چاہتے ہیں ۔
شفیق راجپوت کا نام سن کر ناصر کی جان نکل گئی۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ اس سے کہاں غلطی ہوئی ہے۔ موبائل کان سے لگاتے ہی رعب دار آواز سنائی دی۔۔ ایس ایچ او ناصر ۔۔ مجھے فون کریں فوراً ۔

ناصر نے اپنی لینڈ لائن سے شفیق راجپوت کا نمبر ڈائل کیا۔ اب کسی جعلی کال کی گنجائش نہیں رہی تھی۔ شفیق چاہتا تو ڈاکٹر نوشاد کے موبائل کے ذریعے احکامات دے سکتا تھا لیکن وہ چاہتا تھا کہ ناصر کسی شک و شبہ میں مبتلا نہ رہے اور شبہ تاخیر کا سبب نہ بنے۔
جی سر حکم ۔۔۔ ایس ایچ او ناصر نے لائن ملتے ہی انتہائی مودبانہ لہجے میں کہا۔
ناصر صاحب ۔۔ یہ بتائیں ۔۔ کسی شوہر کا اپنی بیوی سے اس کے دفتر جا کر ملنا کیا قابل تعزیر ہے ۔۔۔ شفیق راجپوت نے بڑے پرسکون انداز میں سوال کیا۔
ہرگز نہیں سر ۔۔۔ ناصر ابھی تک اس سوال کی تہہ تک نہ پہنچ سکا تھا۔
آپ نے کسی عابر نامی لڑکے کو گرفتار کیا ہے ۔۔
جی سر ۔۔۔ ناصر نے مری ہوئی آواز میں کہا۔ اب وہ معاملے کی تہہ تک پہنچ گیا تھا۔
بتانا پسند کریں گے کس جرم میں؟ ۔۔۔ شفیق راجپوت نے پوچھا۔
سر وه ۔۔ سروہ ۔۔۔ کوئی اور ہوتا تو وہ بے دھڑک جواب دیتا۔ اقدام قتل کے جرم میں ۔ لیکن یہاں سامنے ایس پی تھا۔ بھلا دائی سے بھی کبھی پیٹ چھپا ہے، پھر چھپانے کا فاٸیدہ ۔

میں بتا دیتا ہوں ۔ تم نے اقدام قتل کے الزام میں اسے گرفتار کیا ہے اور آلہ قتل بھی برآمد کروا دیا ہے، اور یہ کام تم نے دلشاد یونس جیسے عیاش شخص کی خواہش پر کیا ہے۔ اب میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ اس معصوم لڑکے کو فی الفور چھوڑ دو اور جو رقم تم نے دلشاد یونس سے لی ہے، وہ جا کر اس کے منہ پر مار آؤ ، اور اسے میری طرف سے پیغام دینا کہ وہ دفتر میں بیٹھ کر جو کچھ کرتا ہے ہمیں اس کا اچھی طرح اندازہ ہے۔ بہتر ہوگا کہ وہ عیاشی کا ٹھکانہ بدل لے ورنہ میڈیا کے ساتھ چھاپہ پڑواتے مجھے دیر نہ لگے گی ۔ ایس ایچ او ناصر، کیا تم نے میری بات سمجھ لی ۔۔۔ شفیق راجپوت نے جواب کا موقع فراہم کیا۔
جی سر ۔۔ میں سمجھ گیا، اچھی طرح سمجھ گیا۔ آپ بےفکر ہو جا ئیں ۔۔۔ ناصر نے جلدی سے کہا۔
اور دیکھو۔ اس لڑکے سے معافی مانگنا ہرگز نہ بھولنا۔ تم نے اس معصوم لڑکے کے ساتھ بہت ظلم کیا ہے۔ اس وقت سے ڈرو جب تمہارے بیٹے کے ساتھ کوئی ایسا ہی ظلم کرے ۔ اوکے ۔۔۔ شفیق راجپوت نے فون بند کر دیا۔
ریسیور رکھ کر ناصر نے گہرا اور ٹھنڈا سانس لیا۔ طوفان محض گرج چمک کے ساتھ گزر گیا تھا۔ اس نے برس کر کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ وہ فورا ایکشن میں آگیا۔ پہلے اس نے ڈاکٹر نوشاد سے پوچھا۔۔ محترم وہ لڑکا آپ کا کیا ہے؟ کیا بیٹا ہے ؟
وہ میرا بیٹے جیسا داماد ہے ۔
پہلے تو میں آپ سے معذرت چاہتا ہوں۔ میں کسی غلط فہمی کا شکار ہو گیا تھا۔ میں آپ کے داماد سے بھی معافی چاہوں گا ۔۔۔ یہ کہہ کر وہ اٹھا۔۔ میں اسے لے کر آتا ہوں ۔۔
عابر کو آزاد ہونے میں پانچ منٹ سے زیادہ نہ لگے۔ ڈاکٹر نوشاد، عابر کو لے کر تھانے سے نکل آیا۔ عابر نے دفتر میں جو کچھ دیکھ لیا تھا اور اس کے بعد اس کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا وہ کسی غیرت مند انسان کے لیے ڈوب مرنے کے مترادف تھا۔
ڈاکٹر نوشاد کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ عابر سے کیا کہے اور کس طرح کہے۔ گاڑی کے قریب پہنچ کر ڈا کٹر نوشاد نے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا اور اپنے لہجے میں سارے جہاں کی محبت بھر کر بولا ۔آؤ بیٹا گھر چلیں ۔
جواب میں عامر نے دوٹوک انداز میں جو کچھ کہا۔ وہ ڈاکٹر نوشاد کے ہوش اُڑا دینے کے لیے کافی تھا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے