Subscribe Us

خوفناک مسکن - نواں حصہ

Urdu Stories Online 82

انارہ کے اندر جاتے ہی مائی پنکھی اٹھ کر بیٹھ گئی۔ رات میں وہ بالکل نہ سوٸی تھی۔ سونے کا وقت صبح کا ہی تھا۔ کوے کی یخنی پی کر اس پر ایسی مدہوشی طاری ہوتی تھی کہ وہ خود کو روکنا چاہتی تو روک نہ سکتی تھی ۔ اس پر گہری نیند کا غلبہ ہوتا نشہ طاری ہوتا یا وہ بے ہوش ہو جاتی تھی۔ کچھ پتا نہ تھا۔ بس وہ یخنی پی کر دو ڈھائی گھنٹے کے لیے دنیا سے کنارہ کر جاتی ۔ کسی اور ہی جہاں میں پہنچ جاتی۔
اس وقت رات کے ڈھائی بجے تھے صحن میں تاریکی چھائی تھی۔ نیم کے درخت پر بھی خاموشی مسلط تھی ۔ مائی پنکھی نے چالیس پھیرے اپنے صحن کے لگائے۔ وہ پھیروں کے دوران کچھ پڑھتی جاتی تھی۔ ایک چکر پورا کر کے اس نے آسمان کی طرف منہ اٹھایا اور زور سے آواز لگاتی۔

آ بگا ،،یہ نعرہ بلند کر کے وہ پھر چکر کاٹنے میں مشغول ہو گئ ۔
جب چالیس پھیرے مکمل ہو گئے تو اس نے صحن میں پڑی ہوئی چارپائی کو اٹھا کر کھڑا کیا اور پھر اسے دیوار سے ہٹا کر بیچ صحن میں لائی اور کچھ پڑھتے ہوئے چارپائی اینٹوں کے فرش پر الٹ دی۔ اب چارپائی کے پائے اوپر ہو گئے تھے اور اوپر کا حصہ زمین سے لگ گیا تھا۔
مائی پنکھی نے الٹی پڑی چارپائی کے گرد چکر لگانے شروع کیے۔ وہ کچھ پڑھتی جاتی اور چکر لگاتی جاتی تھی۔ ہر چکر کے اختتام پر نعرہ بلند کرتی ۔ " آ بگا۔"
سات چکر پورے کرنے کے بعد وہ الٹی چار پائی پر اس طرح بیٹھ گئی کہ اس کے دونوں ہاتھ پائنتی کے پایوں پر تھے۔ دونوں پائے پکڑنے کے بعد اس نے زور زور سے جھومنا شروع کیا۔ وہ اب ایک خاص انداز سے جھومتی جاتی تھی اور کچھ بولتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے ایک پائے کو پکڑتی اور پھر زوردار آواز میں پکارتی ۔ آ بگا۔"
گیارہ بار یہ عمل دہرانے کے بعد مائی پنکھی یوگا کے انداز میں بیٹھ گئی۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ کچھ دیر گزری تھی کہ اسے چار پائی لرزتی ہوئی محسوس ہوئی۔
پھر اسے ایک بار یک سی آواز سنائی دی ۔۔ لے آ گیا بگا ۔۔
یہ سنتے ہی مائی پنکھی کی رگ رگ میں خوشی سرایت کر گئی ۔ وہ خوشی سے سرشار ہو کر بولی ۔

تو آ گیا بگا ،،تیری بڑی کرپا ،،
مائی پنکھی کے سامنے سفید چمکیلا دھواں نمودار ہو رہا تھا۔ اس دھویں نے ایک انسانی ہیولے کی شکل اختیار کی اور پھر منجمد ہو گیا۔
اب تو الٹی کھاٹ کا پاٹھ پڑھے گی تو میں کیسے رکوں گا۔ مجھے آنا ہی ہو گا ۔۔۔ سفید چمکیلے دھویں کے منجمد ہونے سے آواز آئی۔ وہ اب چارپائی کی پٹی کے نزدیک تھا۔ لگ رہا تھا جیسے وہ کھڑا ہو۔
مائی پنکھی نے چارپائی کی پٹی پر اپنا سر رکھ دیا اور اپنے دونوں ہاتھ آگے بڑھا دیئے جیسے وہ ماتھا ٹیکتے ہوئے اس کے چرن چھونا چاہتی ہو۔
ھاں پنکھی بول ۔۔۔ کیوں بلایا؟ ۔۔۔ سفید چمکیلے ہیولے سے آواز آئی۔
بس تجھے دیکھنے کو جی چاہ رہا تھا ۔۔۔ مائی پنکھی نے ہنس کر کہا۔
عورت پن چھوڑ ۔۔ سیدھی صاف بات کر ۔۔ چل جلدی بول ۔۔۔ بگا ناراض ہوا۔
میں اس انجو کا کیا کروں؟ ۔۔۔ مائی پنکھی فورا مقصد پر آگئی۔
کیوں ۔۔ کیا ہوا؟ ۔۔۔ بگا نے پوچھا۔
اب تو وہ روز ہی پوچھنے لگی ہے اپنے بارے میں ۔ میں کب تک اسے ادھر ادھر کی باتیں کر کے بہلاؤں۔ بگا سچ تو یہ ہے کہ مجھے اس پر ترس آتا ہے۔ اس بےچاری کو کبھی سکھ ملا ہی نہیں ۔۔۔ مائی پنکھی نے اداس لہجے میں کہا۔
دیکھ پنکھی ۔۔ ہر منش کا سکھ الگ ہوتا ہے۔ ہم آگ میں خوش رہتے ہیں، کوئی پانی میں خوش رہتا ہے کسی کو ہوا چاہئے، کوئی دولت پاکر خوش ہوتا ھے اور کوئی سب کچھ کھو کر اطمینان پاتا ہے، تو اس پر ترس نہ کھا، وہ ہمارے لئے بہت قیمتی ہے۔ تو اچھی طرح جانتی ہے کہ کتنے جتن سے تو نے اسے حاصل کیا ہے ۔۔۔ بگا نے ماضی یاد دلایا۔

بگا ۔۔ وہ میری منزل نہیں، مجھے آگے جانا ہے ۔۔۔ مائی پنکھی نے اپنا عزم ظاہر کیا۔
پھر کیا چاہتی ہے تو ۔۔ کیا اسے آزاد کرنا چاہتی ہے؟ ۔۔۔ منجمد چمکیلے دھویں سے آواز آئی۔
ھاں ۔۔ جی تو یہی چاہتا ہے ۔۔۔ مائی پنکھی نے دل میں چھپی بات ظاہر کی۔
ابھی اس کا وقت نہیں آیا تو خود کو سنبھال ، اس پر مہربان نہ ہو ۔۔۔ بگا نے تنبیہہ کی۔
بگا ۔۔ اتنی اجازت تو دے کہ میں اس کا جیون اس پر کھول دوں ۔۔
مجھ سے اجازت لے رہی ہے جبکہ تو اسے ایک گھر دکھا چکی ہے ۔۔۔ بگا نے کسی قدر غصے سے کہا۔
ہاں ۔۔ مجھ سے غلطی ہوئی۔ میرے دل میں دیا آ گئی تھی ۔۔
دیا ، رحم ، معافی ۔ یہ اور اس طرح کے شبد ہمارے ہاں ممنوع ہیں۔ کیا تو نہیں جانتی ہم آگ والے ہیں۔ یہ لفظ ہمیں زیب نہیں دیتے۔ گھوڑے کو گھاس سے یاری نہیں کرنا چاہئے ۔۔۔ بگا نے اپنی باریک آواز میں اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
بگا ۔۔ تو جانتا ہے کہ میں کیسی ہوں ۔۔۔ مائی پنکھی بولی۔
اسی لئے بگا تجھے سمجھا رہا ہے کہ ایسی نہ بن کہ تو کسی مشکل میں پھنس جاٸے ۔۔۔ بگا نے کہا ۔۔ چل تیری خوشی اگر اس میں ہے کہ اس کا جیون اس پر کھول دے، تو کھول دے۔ تجھے اجازت دیتا ہوں لیکن اسے آزاد کرنے کی غلطی نہ کرنا۔ پھر کہتا ہوں کہ اس کا وقت نہیں آیا، جب آئے گا تو بتا دوں گا۔ ٹھیک ہے، کوئی اور بات یا میں چلوں ؟ ۔۔

ٹھیک ہے بگا ۔۔ تو جا، تیری مہربانی کہ تو آیا ۔۔۔ مائی پنکھی نے ایک مرتبہ پھر اس کے سامنے ماتھا ٹیک کر چرن چھوئے۔
اسی وقت سفید چمکیلے ہیولے میں حرکت ہوٸی اور پھر وہ دھیرے دھیرے معدوم ہوتا گیا اور جب وہ مکمل طور پر غائب ہو گیا تو مائی پنکھی پرمسرت انداز میں الٹی چارپائی سے اٹھی ، اسے سیدھا کر کے دیوار کے ساتھ لگایا اور پرسکون انداز میں لیٹ گئی۔ وہ خوش تھی کہ بگا نے اس کی غلطی کو نظر انداز کر دیا تھا۔ اب وہ پورے اطمینان سے انجو کا جیون اس پر کھول سکتی تھی۔
انجو کا خیال آتے ہی اس نے گردن موڑ کر کمرے کے دروازے کی طرف دیکھا تو وہ اسے دکھائی نہ دی۔ اس نے سوچا وہ اندر سو رہی ہو گی۔
عابر گاڑی کا کھلا دروازہ بند کر کے فیصلہ کن انداز میں بولا ۔۔
" انکل میں اب آپ کے ساتھ نہیں جاؤں گا۔"
بیٹا ۔۔ ہم سے غلطی ہوگئی ہے، ہمیں معاف کر دو ۔۔۔ ڈاکٹر نوشاد نے نوٹنکی کا آغاز کیا۔
مجھے بیٹا نہ کہیں ۔۔ کوئی باپ اپنے بیٹے کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرتا جیسا آپ نے کیا ۔۔۔ عابر بڑے مستحکم انداز میں بولا ۔۔میں اب یہ بات اچھی طرح جان گیا ہوں کہ آپ نے جو کچھ کیا جان بوجھ کر اور سوچ سمجھ کر کیا ۔۔
بیٹا ۔۔ غصہ مت کرو ۔۔۔ ڈاکٹر نوشاد نے خوشامدانہ لہجے میں کہا ۔۔ ہمیں معاف کر دو۔ میں تمہارے پاؤں پڑتا ہوں ۔۔۔ یہ کہتے ہوئے وہ اس کے قدموں کی طرف جھکا۔
چھوڑیں یہ ڈرامہ بازی ۔۔۔ عابر یکدم پیچھے ہٹتے ہوئے بولا۔۔ جائیں اپنی بیٹی کیلئے کوئی نیا باس تلاش کر لیں ۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ میں سزا کے طور پر ملکہ کو طلاق نہ دوں لیکن جانتا ہوں کہ اس سے آپ کی صحت پر کوئی اثر نہ پڑے گا۔ عزت میری خراب ہوگی۔ میرے حق میں بہتر یہی ہے کہ میں اسے یہیں کھڑے کھڑے آزاد کر دوں ۔ اور اپنی راہ لوں ۔۔
نہیں بیٹا ، ایسا مت کرنا ۔۔۔ ڈاکٹر نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکتے ہوئے کہا۔۔ میں جانتا ہوں کہ وہ تم سے شدید محبت کرتی ہے۔ ٹھہرو میں تمہاری اس سے بات کراتا ہوں ۔۔
ڈاکٹر نوشاد نے عابر کے جواب کا انتظار نہ کیا۔ جیب سے موبائل نکال کر کھٹا کھٹ نمبر ملایا اور فون اٹھائے جانے کا بےچینی سے انتظار کرنے لگا۔ جیسے ہی ملکہ نے فون اٹھایا۔ ڈاکٹر نوشاد نے بڑی تیزی سے کہا۔۔
ملکہ، عابر صاحب کو سمجھاؤ، یہ تمہیں طلاق دے رہے ہیں ۔۔
کہاں ہیں آپ لوگ؟ ۔۔۔ ملکہ نے پوچھا۔
ہم لوگ تھانے کے باہر کھڑے ہیں ۔۔۔ ڈاکٹر نوشاد نے بتایا۔
گھر آئیں ۔۔۔ ملکہ نے بےقراری سے کہا۔

یہ گھر آنے کے لئے تیار نہیں۔ تمہیں طلاق دے کر چلے جانا چاہتے ہیں۔ ملکہ ان سے بات کرو ۔۔۔ ڈاکٹر نوشاد کی پریشانی دیدنی تھی۔
ڈاکٹر نوشاد نے ملکہ کا جواب سنے بغیر موبائل عابر کی طرف بڑھا دیا۔ عابر نے ایک نظر موبائل کو دیکھا۔ وہ اب کسی سے بات کرنے کے لئے تیار نہ تھا۔ وہ کیا بات کرتا۔ اب بات کرنے کو رہ کیا گیا تھا۔ جو چھپا تھا، وہ سامنے آ گیا تھا۔ ہر چیز صاف اور واضح ہوگئی تھی۔ اب فیصلے کا وقت تھا۔
پلیز عابر صاحب ۔۔۔ ڈاکٹر نوشاد نے بڑی عاجزی سے کہا اور موبائل دوبارہ اس کے ہاتھ میں دینے کی کوشش کی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی عابر نے موبائل فون ہاتھ میں لے لیا۔ چند لمحے اس نے اپنے اندر دہکتے طوفان کو قابو میں کرنے میں لگائے۔ جب اس نے "ہیلو" کہا تو اسے خود اپنی آواز اجنبی محسوس ہوئی۔
عابر ۔۔ گھر آجائیں، ہم یہاں بیٹھ کر بات کر لیں گے ۔۔۔ ملکہ نے اس کی آواز سنتے ہی کہا۔
گھر کون سا گھر؟ ۔۔۔ عابر کے لہجے میں غصے سے زیادہ دکھ تھا۔
عابر ۔۔ آپ کا اپنا گھر، جہاں آپ رہتے ہیں ۔۔۔ ملکہ بولی۔
میرا کوئی گھر نہیں۔ عورت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا کوئی گھر نہیں ہوتا۔ میں مرد ہو کر یہ بات کہہ رہا ہوں اور سچ کہہ رہا ہوں کہ میرا کوئی گھر نہیں ۔۔۔ عابر جانے کیا کہہ رہا تھا، خود اس کی سمجھ میں بھی نہیں آ رہا تھا۔
عابر میرے پاس آ جائیں۔ میں وہ ملکہ ہوں جس کے سر پر آپ نے محبت کا تاج رکھا تھا ۔
اب وہ ملکہ رہی نہ تاج رہا۔ میں ، میں نہ رہا۔ تو تو نہ رہی۔ سب تباہ ہو گیا ۔۔۔ عابر کے دل سے دھواں اٹھ رہا تھا۔
عابر ، میں وہ ہوں جس پر آپ مر مٹے تھے ۔۔
غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے، مجھ سے بھی ہوگئی ۔۔۔ عابر کی زبان پر سچائی تھی۔
عابر مجھے طلاق نہ دیتا ، میرا ساتھ نہ چھوڑنا، میں تنہا ہو جاؤں گی ۔۔۔ ملکہ کی آواز میں التجا تھی۔

میں تمہیں خوشی سے طلاق نہیں دوں گا۔ میری تنہائی کا تمہیں اندازہ نہیں۔ پر اب یہ درد جداٸی سہنا ہی ہو گا ۔۔۔ عابر بولا ۔۔ کاش میں تمہیں جان لیتا ۔۔
عابر گھر تو آئیں۔ میں اپنے بارے میں سب کچھ بتادوں گی ، کچھ نہیں چھپاؤں گی ۔۔۔ ملکہ نے ایسی بات کہہ دی کہ عابر کچھ سوچنے پر مجبور ہو گیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ جو اس نے دل میں ٹھان لی ہے، وہ اپنی جگہ اٹل ہے لیکن اس کی بات سننے میں کیا حرج ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ زندگی بھر اسی پچھتاوے میں مبتلا رہے کہ اس کی بات سنے بغیر اس سے علیحدگی اختیار کر لی۔
ملکہ ٹھیک ہے، میں آتا ہوں۔ لیکن اتنا یاد رکھنا کہ کوئی بات جھوٹ نہ ہو، اب میری برداشت آخری حدوں تک پہنچ چکی ہے ۔۔۔ عابر نے موبائل آف کیا اور گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر بیٹھ گیا۔ وہ اس مکروہ شخص کے برابر بیٹھنا نہیں چاہتا تھا۔
عابر کو گاڑی میں بیٹھتے دیکھ کر ڈاکٹر نوشاد کی باچھیں کھل گئیں۔ وہ خوش تھا کہ اس کی بیٹی نے کام دکھا دیا تھا۔ لیکن اسے یہ اندازہ نہ تھا کہ اس کی بیٹی کام دکھانے نہیں بلکہ اس کا کام تمام کرنے جا رہی ہے۔
عابر نے راستے میں ڈاکٹر نوشاد سے کوئی بات نہ کی۔ وہ خاموش بیٹھا رہا۔ جب عابر، ڈاکٹر نوشاد کے ساتھ گھر میں داخل ہوا تو یوں لگا جیسے کسی کی موت ہو گئی ہو ۔ لاؤنج میں کوئی نہ تھا۔ ٹی وی بند تھا۔ شائستہ کے کمرے سے ڈیک کی آواز نہیں آ رہی تھی۔
ملکہ اپنے کمرے میں تھی۔ کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔ لیکن جس کے انتظار میں یہ دروازہ کھلا تھا، وہ اندر نہ آیا۔ جب عابر کو ٹی وی لاؤنج میں ملکہ نظر نہ آئی تو اس نے ڈرائنگ روم کا رخ کیا اور ایک صوفے پر بیٹھ گیا۔ وہ اب اس گھر کا مکین نہ تھا مہمان تھا۔ ڈاکٹر نوشاد نے کوشش کی کہ وہ ملکہ کے پاس چلا جائے لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ مجبوراً اسے ملکہ کو ڈرائنگ روم میں بھیجنا پڑا۔

ملکہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تو عابر نے منہ پھیر لیا۔ دروازہ بند کیا، مقفل کیا اور اس کے برابر بیٹھنے کے بجائے سامنے والے صوفے پر نشست اختیار کی۔
آپ کا منہ پھیرنا بجا۔ میں اس قابل ہوں کہ مجھ سے نفرت کی جاٸے۔ میں جانتی ہوں کہ آپ کے برابر بیٹھنے کے قابل نہیں رہی، اس لئے آپ کے برابر بیٹھنے کی جرات نہ کر سکی۔ میں سزا وار ہوں ، گناہ گار ہوں ، ناقابل معافی ہوں ۔۔۔ ملکہ کی آواز میں شدید دکھ بول رہا تھا۔ یہ جانے بغیر کہ عابر پر اس کی بات کا کیا اثر ہو رہا ہے، وہ اپنی دھن میں کہے جا رہی تھی ۔۔ عابر ، کاش آپ نے مجھ سے شادی نہ کی ہوتی ۔ کاش آپ نے میرے لئے اپنے والدین، اپنا گھر نہ چھوڑا ہوتا ۔ آج میں جس احساس جرم میں مبتلا ہوں ، وہ نہ ہوتی ۔ میں ۔۔۔۔۔،،
ملکہ تم نے مجھے جس مقصد کے لئے بلایا ہے، وہ بیان کرو۔ اگر تمہارے پاس بتانے کو کچھ نہیں ہے تو پھر میں چلتا ہوں۔ میرے پاس وقت نہیں ہے ۔۔۔ عابر نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔

سنو عابر پھر، میں اپنے اور اس گھر کے لوگوں کے بارے میں جو کچھ جانتی ہوں ، وہ سب بتاٸے دیتی ہوں۔ عابر پہلے تو یہ جان لو کہ ڈاکٹر نوشاد میرا سگا باپ نہیں ۔۔
عابر کو یہ سن کر دھچکا سا لگا لیکن وہ بولا کچھ نہیں۔
ڈاکٹر نوشاد میرا ہی کیا، ہم سات بہنوں میں سے کسی کا بھی باپ نہیں۔ ہمارے معاشرے میں مرد تو چار شادیاں کر لیتا ہے لیکن کبھی نہیں سنا ہوگا کہ کسی عورت نے چار شادیاں کی ہوں۔ میری ماں چاندنی نے ریکارڈ توڑا۔ اس نے چار شادیاں کیں۔ ڈاکٹر نوشاد میری ماں کا چوتھا شوہر ہے ۔۔۔ ملکہ نے آج ہر وہ بات آشکار کرنے کی ٹھان لی تھی جو اس کے دل میں محفوظ تھی ۔۔ میری ماں کا تعلق غریب گھرانے سے تھا۔ باپ سبزی فروش تھا۔ ٹھیلے پر گلی محلوں میں سبزی بیچا کرتا تھا۔ ہم بہنوں کی طرح ماں کی بھی سات بہنیں تھیں۔ ان بہنوں میں سب سے خوبصورت ماں تھی۔ گھر میں اکثر فاقے ہوتے لیکن میری ماں کو بننے سنورنے کا بےحد شوق تھا۔ پیٹ بھر کھانے کو ہو نہ ہو، اچھے کپڑے چاہئیں۔ فلموں اور ٹی وی ڈراموں سے بےپناہ لگاؤ تھا۔ محلے کے کھاتے پیتے گھرانوں کی لڑکیوں سے دوستی گانٹھ رکھی تھی۔ ان کے گھروں میں بھی رہتی۔ وی سی آر پر فلمیں دیکھی جاتیں۔ قلمیں اور ٹی وی ڈرامے دیکھ کر خواب بنے جاتے۔ میری ماں سوتی تو محلوں کے خواب دیکھتی۔ فیشن کی ماری ماں نے میٹرک تک پہنچتے پہنچتے محلے کے کئی لڑکوں سے پرچے بازی کر ڈالی تھی۔ ہر لڑکا ان پر جان چھڑ کتا تھا اور سمجھتا تھا کہ یہ میری ہے لیکن وہ کسی کی نہ تھی۔ کالج میں قدم رکھتے ہی ماں نے چھکا لگایا اور ایک گاڑی والے کو اپنے دام الفت میں پھنسا لیا۔

وہ لڑکا اپنی بہن کو لینے آیا تھا۔ میری ماں نے اس لڑکی سے جس سے تھوڑی بہت دوستی تھی، از خود لفٹ مانگ لی۔ بس پھر یہ تھوڑی سی لفٹ اس لڑکے کے لئے وبال جان بن گئی۔ ماں اس طرح اس کے گلے کا ہار بنی کہ اسے شادی کرتے ہی بنی۔ یہ میری ماں کا پہلا شوہر تھا۔ اس شوہر سے شاٸستہ، فاخرہ اور ماجدہ نے جنم لیا۔
پھر ایک کو چنگ سینٹر کے پروفیسر سے راہ و رسم بڑھی، اتنی کہ پہلے شوہر سے خلع لے کر میری ماں نے پروفیسر سے شادی کر لی۔ میں پروفیسر صاحب کی بیٹی ہوں۔ پروفیسر صاحب کو میری فیشن زدہ ماں کی آزاد زندگی پسند نہ آئی۔ انہوں نے طلاق دے کر ماں سے جان چھڑائی۔

پھر تیسرے شوہر، ماں کی زندگی میں آئے اور تین بیٹیاں دے کر زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکے۔ تیسرے شوہر کی موجودگی میں ہی ڈاکٹر نوشاد سے ماں کی شناسائی ہو چکی تھی۔
چلتا پرزہ ڈاکٹر نوشاد نے ماں کو جانے کیا خواب دکھائے کہ ماں نے تیسرے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کر دیا۔ وہ کسی سیاسی پارٹی کا اثر ورسوخ والا بندہ تھا، اس نے طلاق دینے سے صاف انکار کر دیا۔ اسے ہم چار بیٹیاں نوٹوں کی صورت میں نظر آتی تھیں۔ وہ ہم سے ہاتھ دھونے کو تیار نہ تھا۔ سنا ہے، ماں اور ڈاکٹر نوشاد نے مل کر اسے قتل کر دیا۔ اس طرح تیسرے شوہر سے نجات پانے کے بعد ماں نے ڈاکٹر نوشاد سے نکاح کر لیا۔

ڈاکٹر نوشاد نے ماں کو ہر وہ چیز دے دی جس کی وہ خواہش مند تھی۔ میری ماں کو کپڑوں اور زیور سے عشق ہے۔ میری ماں روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کر سکتی ہے لیکن اچھے کپڑوں اور نت نئے زیورات کے بغیر وہ ادھوری ہے۔ ماں کی چوتھے شوہر سے خوب گاڑھی چھننے لگی ۔ دونوں نے مل کر ہمیں بیٸرر چیک بنالیا۔ اگر ہم میں سے کوئی بہن "کیش" ہونے سے انکار کرتی تو اس کا کھانا پینا بند کر کے قید کر دیا جاتا۔ بھوک پیاس اور قید تنہائی ہمارے ہوش ٹھکانے لگا دیتی۔ یوں بھی ہم نے اپنے بچپن سے اپنی ماں کو آزاد روپ میں دیکھا تھا۔ گھر کا ماحول ایک دم کھلا تھا۔ ہمارے چاروں طرف گنگا بہہ رہی تھی، ہمیں تو ہاتھ دھونے ہی تھے۔
ڈاکٹر نوشاد انتہائی اثر ورسوخ والا شخص ہے۔ اسے مشکل سے مشکل کام بتا دیں، وہ اس کو آسان بنا دیتا ہے۔ کسی کی کہیں کوئی گوٹ پھنسی ہو، کوئی فائل رکی ہو، ترقی نہ ہو رہی ہو، ملازمت دلوانی ہو تو ڈاکٹر نوشاد سے لوگ رجوع کرتے ہیں۔ ڈاکٹر نوشاد ہمیں فائل کا پہیہ بنا دیتا ہے۔ بس پھر پہیہ لگتے ہی ہر چیز گردش میں آ جاتی ہے ۔۔۔

ملکہ نے گہر اسانس لے کر کہا۔۔ میرا خیال ہے کہ اب اس گھر کی ہر چیز صاف ہو گئی ہو گی۔۔
ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ جب تم لوگوں کے ذریعے گھر کی گاڑی ٹھیک ٹھاک چل رہی تھی تو پھر تمہاری شادی کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ ۔۔۔ عابر نے پوچھا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس گھر کے لئے ایک سیدھا سادہ چوکیدار چاہیے تھا۔ وہ آپ کی صورت میں مل گیا۔ دوسرے میں اس گھر کی ”ھاٹ کیک“ ہوں۔ اس کیک کو اچھی پیکنگ کی ضرورت تھی تاکہ بوقت ضرورت محفوظ کیا جا سکے۔ دکان کے اندر بےشک جو بھی کاروبار ہوتا ہو لیکن دھوکا دینے کے لئے ایک اچھے سائن بورڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ آپ کی صورت میں اس دکان نما گھر کو میسر آ گیا ۔۔۔ ملکہ نے تلخی سے کہا اور سرجھکا کر بیٹھ گٸی ۔
آج جو ہاتیں تم نے بتائی ہیں، اگر کل مجھ پر آشکار کر دیتیں تو کتنا اچھا ہوتا ۔۔۔ عابر نے سپاٹ لہجے میں کہا۔

میں نے کئی بار چاہا کہ میں آپ کو ہر وہ بات بتا دوں جو مجھے معلوم ہے لیکن بنا نہ سکی ، بس ارادہ باندھ کر رہ گئی۔ میں نے اشارہ تو کیا لیکن آپ نے کوئی توجہ نہ کی ۔ آپ اپنی محبت سے مجبور تھے اور میں اپنے گھر والوں کی تنبیہہ سے۔ راز کھولنے کی صورت میں مجھے زہر دیا جا سکتا تھا ۔۔۔ ملکہ نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
کیا اب زہر سے بچ جاؤ گی؟ ۔۔۔ عامر نے پوچھا۔
اب مجھے زہر دے کر مارا جائے یا کسی چھری سے میرا گلا کاٹا جائے ، مجھے کوئی خوف نہیں۔ میرے دل پر ایک بوجھ تھا، وہ میں نے اتار دیا ۔۔۔ ملکہ نے بڑے پرسکون انداز میں کہا ۔۔ یوں ایک بات کہوں ، پتا نہیں آپ کو میری بات کا یقین آئے گا کہ نہیں۔ میں اس گندگی کا حصہ ضرور تھی لیکن اس گندگی کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا۔ آپ کے نکاح میں آ کر یہ احساس اور بڑھا۔ عابر میں اس گند سے نکلنا چاہتی ہوں۔ میں اس گھر کو چھوڑنا چاہتی ہوں۔ آپ مجھے اپنے ساتھ لے چلیں۔ مجھے آپ سے محبت ہوگئی ہے۔ ہم اپنی ایک نئی دنیا بسائیں گے ۔۔
نہیں ۔۔ اب بہت دیر ہو چکی ۔۔۔ عابر کے ہونٹوں پر ایک تلخ مسکراہٹ آئی ۔۔ میری آنکھیں کھل چکی ہیں، میں انہیں بند نہیں کر سکتا ۔۔
عابر ۔۔ ایسا نہ کہو، اپنی ملکہ کا کچھ خیال کرو ۔۔۔ ملکہ نے التجا کی۔
تمہارا خیال کرتے ہوئے ہی میں نے فیصلہ کیا ہے ۔۔۔ عابر محکم انداز میں بولا ۔
فیصلہ ۔۔ کیسا فیصلہ؟ ۔۔۔ ملکہ نے چونک کر کہا۔

میں نے اس دکان کو ، اسے گھر کہنا تو گھر کی توہین ہے، چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ساتھ ہی میں نے تمہیں بھی چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بلاؤ اس شیطان ڈاکٹر نوشاد کو ، بلاو اس حرافہ چاندنی کو ، بلاؤ اپنی کٹھ پتلی بہنوں کو تاکہ ہر شخص میرا فیصلہ اپنے کانوں سے سن لے ۔۔۔ عابر نے تقریبا چیخ کر کہا۔
ملکہ صوفے سے اٹھی۔ وہ اس کے قدموں میں آبیٹھی ۔ آنکھوں میں آنسو بھر کر بولی۔۔
" کیا آپ مجھے معاف نہیں کر سکتے ؟“
معاف کر تو دیا اور کیسے کروں ؟ ورنہ جو کچھ میں نے دیکھا، وہ واجب القتل تھا۔ لیکن تم نے دیکھا کہ میں نے تمہیں قتل نہیں کیا، میں نے تو تم سے کچھ بھی نہیں کہا۔ میرے قدموں سے اٹھ جاؤ ، میرے صبر کو مت آزماؤ ، جاؤ سب کو بلا کر لاؤ ۔۔۔ عابر اتنا کہہ کر دوسرے صوفے پر جا بیٹھا۔
عابر کے لہجے میں کوئی ایسی بات تھی کہ وہ اس سے مزید بات نہ کر سکی۔ ناچار اٹھی اور ڈرائنگ روم کا دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔ گھر کا ہر فرد اس وقت ٹی وی لاؤنج میں موجود تھا۔ ملکہ دوپٹے سے اپنے آنسو پونچھتی لاؤنج میں داخل ہوئی اور سب پر ایک نظر ڈالتے ہوئے بولی۔۔
" آپ سب کو عابر بلا رہے ہیں۔"

سب سے پہلے چاندنی اٹھی۔ ڈاکٹر نوشاد دوڑ کر ملکہ کے نزدیک پہنچا۔ چاندنی نے پوچھا۔۔ خیریت تو ہے نا ؟ ۔۔
قیامت گزر چکی ، اعمال نامہ ہاتھ میں آنے کا وقت آ پہنچا ۔۔ ملکہ نے عجیب سے انداز میں کہا۔
چاندنی کی سمجھ میں اس کی بات نہ آئی۔ اس نے ڈاکٹر نوشاد کی طرف دیکھا۔ ڈاکٹر نوشاد نے کھلے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔ پھر دونوں تیزی سے ڈرائنگ روم میں داخل ہو گئے۔ ان کے پیچھے لڑکیاں تھیں، سب سے آخر میں ملکہ اندر آئی۔
بیٹا ۔۔ خیر تو ہے؟ ۔۔۔ چاندنی نے کسی قدر جھجکتے ہوئے پوچھا۔
میں بیٹا کیسے ہوا؟ گھر داماد بیٹا نہیں، گھر کا چوکیدار ہوتا ہے، سائن بورڈ ہوتا ہے تاکہ اس کی آڑ میں جو چاہے کاروبار کیا جاسکے۔ میں اس سائن بورڈ کو آج توڑتا ہوں۔ میں اس دکان کو چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ میں ملکہ کو طلاق دیتا ہوں ۔۔۔ عابر نے اس جملے کو تین بار دہرایا اور پھر یہ دیکھنے کی بھی کوشش نہ کی کہ اس جملے کا کس پر کیا اثر ہوا۔
طلاق دے کر وہ ایک لمحہ بھی وہاں نہ ٹھہرا۔ مضبوط قدموں سے چلتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا۔
اس کے جانے کے بعد سب ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنے لگے۔ کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ وہ بولے تو آخر کیا بولے۔ ڈاکٹر نوشاد کے جی میں جانے کیا آٸی کہ وہ تیزی سے دروازے کی طرف بڑھا۔ اس سے پہلے کہ ڈاکٹر نوشاد ڈرائنگ روم سے نکلتا، چاندنی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور صاف لہجے میں بولی ۔۔ بس اب کھیل ختم ہوا، جانے والا چلا گیا۔ اب تعاقب بیکار ہے، اب آگے کی سوچو ۔۔
عابر چاہتا بھی یہی تھا کہ اب اس کے تعاقب میں کوئی نہ آئے ۔ وہ یہاں گزارے وقت کو کسی ڈراؤنے خواب کی طرح بھول جانا چاہتا تھا۔ بازی الٹ گئی تھی ، اب پھر سے بساط بچھانے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ وہ اس گھر سے واپس آنے کے لئے نہیں نکلا تھا۔

اس وقت رات کے دس بج رہے تھے۔
وہ دھیرے دھیرے قدم بڑھاتا آگے بڑھ رہا تھا۔ اس کی کوئی منزل نہ تھی ، جدھر اس کا منہ اٹھا، چل دیا تھا۔ اس وقت اس کی کیفیت کسی ہارے ہوئے جواری کی سی تھی جو اپنا سب کچھ لٹا کے بے سمت جا رہا تھا۔ ان لوگوں نے اس کا سب کچھ لوٹ لیا تھا، اس کی محبت لوٹ لی تھی ، اس کا وقار داؤ پر لگا دیا تھا، اس کی انا ٹکڑے ٹکڑے کر دی تھی ، اس کی روح پر ایسا گھاؤ لگایا جو نظر تو نہیں آ رہا تھا لیکن اس گھاؤ سے رہنے والا کرب اسے تڑپائے دے رہا تھا۔

اچانک اسے اپنا باپ یاد آیا۔ علی نثار کی کہی ہوئی بات یاد آئی۔ انہوں نے کہا تھا کہ کوئی نوکری، کوئی ملازمت تمہارے پاس نہیں۔ وہ ایک بےروزگار شخص کو اپنی بیٹی کیسے دے رہے ہیں۔ پھر نازنین نے بھی شبہ ظاہر کیا تھا کہ ضرور کچھ دال میں کالا ہے۔

واقعی دال میں بہت کچھ کالا تھا۔ اس نے اپنے والدین کی بات نہ مانی اور وہ غصے میں گھر چھوڑ کر چلا آیا۔ اپنا گھر چھوڑ کر کیا ملا۔ ذلت اور رسوائی ۔ کاش اس نے اپنا گھر نہ چھوڑا ہوتا ۔ خوبصورت لڑکی کے چکر میں آ کر اپنی زندگی برباد نہ کی ہوتی۔ وہ اپنی دھن میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک کوئی اس سے ٹکرایا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے