Subscribe Us

خوفناک مسکن - دسواں حصہ

Urdu Stories Online 83

آج پھر اماوس کی رات تھی ۔ مائی پنکھی کے گھر میں جادو ٹونے کرنے والوں کا اجتماع تھا۔ جل مسان تقسیم ہو چکا تھا۔ مکروہ چہرے والے مرد، عورتیں اپنے اپنے مسائل بیان کر کے مائی پنکھی سے ماہرانہ رائے لے رہے تھے۔ جب ہر شخص اپنے سوال کا جواب پا چکا تو مائی سکھی نے عذرا ڈیوڈ عرف سریلی کی طرف دیکھا۔
ہاں ۔ سریلی کچھ سنائے گی؟ ۔۔۔ مائی پنکھی نے پوچھا۔
آپ جو حکم کریں رانی جی ۔۔۔ عذرا نے سعادت مندی سے کہا۔
بس وہیں سے شروع کر ۔۔۔ مائی دیکھی بولی۔
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ ۔۔۔ عذرا نے پوچھا ۔۔ یہیں سے نا ۔۔ رانی جی ۔۔
ہاں ۔۔۔ مائی پنکھی نے کہا۔
ڈھائی بجے کا عمل صحن میں ٹمٹماتا ایک مریل سا بلب، پُراسرار اندھیرا، نیم کے درخت سے جھڑتی زرد پتیاں ، مرد عورتوں سے بھرا ہوا صحن ۔۔ عجب فضا تھی اس گھر کی۔
عذرا اپنی جگہ سے اٹھی۔ اس نے مائی پنکھی کے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا اور پھر وہ پائنتی کی جانب چارپائی پر بیٹھ گٸی۔
عذرا نے الاپ لے کر جب ”مجھ سے پہلی سی محبت" شروع کی تو لگا جیسے فضا ٹھہر گئی ہے۔
دروازے پر کھڑے سپاہی نے گانے کی آواز سنی تو وہ دوڑا ہوا دلدار بخش کے پاس پہنچا اور بڑی رازداری سے بولا ۔۔
سر جی ۔۔ جوا ختم ، مجر ا شروع ۔۔
یہ سنتے ہی دلدار بخش کو کرنٹ سا لگا۔ وہ گاڑی سے چھلانگ مار کر باہر آیا اور مائی پنکھی کے دروازے کی طرف بڑھا۔
دلدار بخش، مائی پنکھی کو اپنے ذہن سے نکال نہیں سکا تھا۔ رب نواز کے قاتل بننے اور تھانے میں کوؤں کی بھر مار کی وجہ سے وہ اس سے کچھ خوف زدہ ضرور تھا لیکن اتنے لوگوں کے گھر سے غائب ہو جانے کا تجسس جیسے اس کی روح میں اتر گیا تھا۔ وہ ہر قیمت پر اس راز سے پردہ اٹھائے جانے کا خواہش مند تھا۔ نتیجے میں اس نے سادہ لباس میں پولیس والوں کو اس کے گھر کی نگرانی پر مامور کر دیا تھا۔ یہ نگرانی چوبیس گھنٹے جاری تھی ۔ مائی پنکھی کو اس بارے میں کچھ معلوم نہ تھا۔
دلدار بخش کو جیسے ہی معلوم ہوا کہ آدھی رات کے بعد سے اس کے گھر پر لوگوں کی غیر معمولی آمد کا سلسلہ جاری ھے تو پولیس پارٹی کے ساتھ گلی میں آ دھمکا تھا
مائی پنکھی کے دائیں بائیں مکانوں کا سلسلہ تھا۔ وہاں سے لوگوں کا فرار ممکن نہ تھا۔ گھر کے سامنے وہ خود موجود تھا۔ البتہ قبرستان والی دیوار سے فرار ہونا ممکن تھا۔ اس مرتبہ اس نے قبرستان میں بھی اپنے لوگ تعینات کر دیئے تھے۔ اب کسی طرف سے گھر میں موجود لوگوں کے فرار کا کوئی راستہ نہ بچا تھا۔
دلدار بخش دروازے پر پہنچا تو اسے اندر سے گانے کی آواز آئی۔ دلدار بخش نے سوچا کہ کوئی اور ہاتھ آئے نہ آئے یہ ”پہلی سی محبت“ ضرور پھڑی جائے گی۔ اسے معلوم تھا کہ درواز ہ محض ایک بھاری پتھر رکھ کر بند کیا جاتا ہے۔ اس نے ایک کواڑ کو اس انداز سے دھکا دیا کہ پیچھے سے پتھر ہٹ گیا۔
اپنی جگہ سے کوئی نہ ہلے ورنہ گولی مار دوں گا ۔۔۔ چند قدم اندر آنے کے بعد اس نے تنبیہہ کی۔
اسے سامنے فرش پر بیٹھے لوگ نظر آئے تھے لیکن مائی پنکھی دکھائی نہ دی تھی ۔ دراصل اس کی چارپائی باورچی خانے کی آڑ میں تھی اور چارپائی قبرستان والی دیوار سے لگی تھی۔
مائی پنکھی کے ساتھ عذرا بیٹھی گا رہی تھی۔
اس دھمکی کو سن کر صحن میں بیٹھے لوگوں کے ہوش اُڑ گئے ۔ مائی پنکھی جو ”پہلی محبت“ میں گم تھی، ایک دم چونکی اور دلدار بخش کی دھمکی سنتے ہی اس کے سارے حواس بیدار ہو گئے۔
اس نے قدموں میں بیٹھی رنکل کے پیر پر پیر مارا اور دھیرے سے بولی ۔۔ " اس کی آنکھوں میں دھول جھونک ۔“
رنکل نے کسی کمانڈو کی طرح چھلانگ لگائی اور پھر رقص کے انداز میں گھنگھرو چھنکاتی ہوئی دلدار بخش کے سامنے آ گئی۔ پرکشش جسم کو اس نے اس انداز سے حرکت دی کہ دلدار بخش گولی چلانا بھول گیا۔ وہ ریوالور کو ہاتھ کے اشارے سے حرکت تو دے رہا تھا لیکن یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ یہ عورت آخر کرنا کیا چاہتی ہے۔ وہ کلاسیکی انداز کا رقص کر رہی تھی جس میں اس کی آنکھیں ، گردن اور ہاتھ کی انگلیاں بہت تیزی سے ہل رہی تھیں۔
دلدار بخش اپنے ساتھیوں سمیت دم بخود کھڑا تھا۔
بس اتنی مہلت مائی پنکھی کے لئے کافی تھی ۔ مائی پنکھی چارپائی سے اٹھ کر یکدم دلدار بخش کے سامنے آگئی۔ اس نے رنکل کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔۔ بس ۔۔
رنکل نے مائی پنکھی کا حکم سنتے ہی دو بار پاؤں زمین پر مارا اور پھر جیسے پتھر کی ہو گئی۔ مائی پنکھی دو قدم آگے بڑھی اور مسکرا کر بولی ۔۔ آخر تجھے چین نہ آیا، پھر آ گیا ۔۔
دلدار بخش بغیر پلک جھپکے اسے دیکھتا رہا، کچھ نہ بولا ۔
لا کاکا ۔۔ اپنی یہ بندوق مجھے دے دے ۔۔۔ مائی پنکھی نے عجیب سے انداز میں کہا۔
جانے اس کی آواز میں ایسا کیا تھا کہ دلدار بخش نے کسی ہارے ہوئے سپاہی کی طرح ریوالور اس کے سپرد کر دیا۔ مائی پنکھی نے ریوالور لے کر ان سپاہیوں کو دیکھا جو دلدار بخش کی پشت پر مٹی کے مادھوؤں کی طرح کھڑے تھے۔
مائی پنکھی نے پاس کھڑی رنکل کو ایک منتر بتایا۔ پھر بولی ۔۔ پڑھو اور نکلو ۔۔
اب وہاں موجود بندے بندیاں دل ہی دل میں وہ منتر پڑھتے ، پولیس کی آنکھوں میں دھول جھونکتے دروازے سے نکل گئے ۔ سب سے آخر میں رنکل گھنگھرو چھنکاتی دلدار بخش کے سامنے آئی۔ چند لمحے بھاؤ بتائے اور پھر مٹکتی ہوئی اس کے سامنے سے گزر گئی۔
صحن خالی ہو چکا تھا۔ گھر میں موجود سب لوگ خیر و عافیت سے جا چکے تھے۔ ماٸی پنکھی آگے بڑھی اس نے ریوالور دم بخود دلدار بخش کے ہاتھ میں تھمایا اور شرارتی انداز میں بولی۔۔
ہاں کاکا ۔۔ کیسے آیا ؟ ۔۔
دلدار بخش کو یہ سنتے ہی جھٹکا سا لگا اور پھر وہ فورا ایکشن میں آ گیا۔ یوں لگا جیسے رکی ہوئی فلم دوبارہ چل پڑی ہو۔ دلدار بخش کو یاد آیا کہ اس نے گھر میں گھستے ہی وارننگ دی تھی۔ اسے صحن میں بیٹھے ہوئے لوگ نظر آئے تھے لیکن چشم زدن میں جانے کیا ہوا تھا کہ اب وہاں کوئی بھی نہ تھا، بس مائی پنکھی اس کے سامنے کھڑی تھی۔
او مائی پھر تو نے ہاتھ دکھا دیا۔ کہاں گئے سارے لوگ؟ ۔۔۔ دلدار بخش حیرت زدہ تھا۔
کاکا ۔۔ تو کن لوگوں کی بات کر رہا ہے، یہاں میں اکیلی رہتی ہوں یا میرے ساتھ میری پالتو بلی ہوتی ہے۔ انجو ۔۔ تو کہے تو اسے بلاؤں ۔۔۔ مائی پنکھی نے کہا۔
او مائی ۔۔ دیکھ تو مجھے دھوکا نہیں دے سکتی۔ میں نے خود یہاں لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا ہے۔ ادھر کوئی عورت گا رہی تھی۔ مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ ۔۔ وہ عورت کدھر ہے؟ دلدار بخش نے آگے بڑھ کر چاروں طرف نظر دوڑائی۔
کبھی تو کہتا ہے لوگ بیٹھے تھے کبھی تو کہتا ہے کہ کوئی عورت گا رہی تھی۔ کاکا ۔۔ کہیں ٹیپ بج رہا ہو گا ۔۔۔ مائی پنکھی نے اسے الجھانا چاہا۔ میرا گھر تیرے سامنے ہے، تو تلاشی لے لے ۔۔
دلدار بخش نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے پیچھے مڑ کر اپنے ساتھیوں سے کہا۔۔
" اس گھر کا کونا کونا چھان مارو۔“
جی سر ۔۔۔ سپاہی بڑی مستعدی سے پورے گھر میں پھیل گئے اور گھر کا کونا کونا چھان مارا لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ گھر میں بلی کے سوا کوئی اور نہ تھا۔ دلدار بخش کو خیال آیا کہ گھر میں موجود لوگ کہیں قبرستان کی طرف سے تو نہیں نکل گئے۔ اس نے ایک پولیس والے کو باورچی خانے کی چھت پر چڑھایا۔ چھت پر چڑھ کر اس نے دیوار سے قبرستان کی طرف جھانگا اور ادھر موجود پولیس والے سے پوچھا۔۔ قاسم ، ادھر سے کوئی بندہ تو نہیں نکلا ؟
نہیں ادھر تو کوئی نہیں آیا ۔۔ قاسم نے جواب دیا۔
دیوار کے اس طرف کھڑے دلدار بخش نے اپنے آدمی کا جواب سن لیا تھا۔ دیوار سے بھی کوئی بندہ ادھر نہیں کودا۔ یہاں عورتیں بھی تھیں، ان کا دیوار پر چڑھنا اور پھر کودنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ دروازے پر وہ مع سپاہیوں کے موجود تھا۔ اس کے سامنے سے کوئی نہیں گزرا تو پھر ان لوگوں کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔ آخر ہوا کیا ؟ وہ یہاں اس راز سے پردہ اٹھانے آیا تھا کہ پچھلے چھاپے میں گھر میں موجود لوگ کہاں غائب ہو گئے تھے۔ آج کے چھاپے نے گتھی سلجھانے کے بجائے مزید الجھا دی تھی۔ اس کے لوگوں نے ایک ماہ تک اس گھر کی کڑی نگرانی کی تھی۔ آج جب گھر میں طرح طرح کے مرد اور عورتیں اکٹھا ہونے لگے تو وہ خود جائے واردات پر آ پہنچا تھا۔ اس نے یہ آپریشن خود اپنے ہاتھوں کیا تھا لیکن ہاتھ کچھ نہ آیا تھا۔
کاکا ۔۔ کیا سوچ رہا ہے؟ مائی پنکھی نے سپاٹ لہجے میں پوچھا۔
مائی میں سوچ رہا ہوں کہ پولیس کی نوکری چھوڑ کر تیری چاکری کر لوں ۔۔۔ دلدار بخش نے جل کر جواب دیا۔
تیری سوچ بالکل ٹھیک ہے ۔۔۔ مائی پنکھی نے ہنس کر کہا۔۔ میرا چاکر نہیں شاگرد بن جا، بہت فائدے میں رہے گا ۔۔
مائی۔ میں نے تجھے استاد مانا ۔ بس مجھے اتنا بتا دے کہ یہ کون لوگ ہوتے ہیں اور کیسے غاٸب ہو جاتے ہیں؟ ۔۔۔ دلدار بخش کے لہجے میں بے چارگی تھی۔ مائی پنکھی کو اس پر اچانک ترس آ گیا۔ وہ چارپائی کی طرف اشارہ کر کے بولی۔۔
آ بیٹھ کاکا ۔۔ میں تجھے بتاتی ہوں۔ پر تو اپنے بندوں کو یہاں سے نکال ۔۔
دلدار بخش نے اپنے ساتھیوں سے کہا ۔۔ چلو تم لوگ باہر نکلوں میں آتا ہوں ۔۔
دیکھ کاکا ۔۔ پہلے تو اپنی یہ غلط فہمی دور کر لے کہ میں یہاں کوئی جوئے کا اڈا چلاتی ہوں یا یہاں عورتوں کا کاروبار ہوتا ہے ۔۔۔ مائی پنکھی نے سنجیدگی سے کہا۔۔ یہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا ۔ ہر اماوس کی رات کو یہ لوگ میرے پاس آتے ہیں۔ یہ مختلف عملیات کے ماہر ہوتے ہیں۔ یہ اپنے اپنے مسئلے لے کر یہاں آتے ہیں۔ میں ان کے مسائل کا حل انہیں بتاتی ہوں۔ یہ تو ہو گیا اس بات کا جواب کہ یہ کون لوگ ہوتے ہیں۔ رہی یہ بات کہ کیسے غائب ہو جاتے ہیں، یہ میں تجھے بتاتی ہوں اور بتا اس لئے رہی ہوں کہ تو اس گھر کا پیچھا چھوڑ دے۔ مجھ سے وعدہ کر کہ ان لوگوں کا راز جاننے کے بعد تو ادھر کا رخ نہیں کرے گا۔ میں تجھے ذاتی طور پر آنے سے منع نہیں کر رہی ہوں، تو سو باری آ ۔ میں تیرا ہر مسئلہ حل کروں گی۔ پر تو یہاں اپنی فوج کے ساتھ مت آ ۔ وعدہ کر کہ تو نہیں آئے گا اور آئے گا تو اکیلا آئے گا۔ دلدار بخش بن کر ۔۔
چل مائی ۔۔ وعدہ رہا ۔۔۔ دلدار بخش نے وعدہ کرنے میں ہی عافیت جانی۔
اب سن غور سے سن ۔۔ اتنے لوگوں کا چند لمحوں میں آنکھ سے اوجھل ہو جانا کوئی بڑا کمال نہیں، یہ کوئی بچہ بھی کر سکتا ہے۔ پچھلی دفعہ جب تو آیا تھا تو درواز بجا کر آیا تھا۔ مجھے تھوڑی سی مہلت مل گئی تھی۔ اس بار تو نے یہ مہلت بھی نہ دی۔ میں گانا سننے میں محو تھی کہ تو دندناتا ہوا اندر آگیا، جب میں نے رنکل کو تیرے سامنے بھیجا۔ اس نے تیرے سامنے آ کر اچانک ناچنا شروع کیا تو تیری سمجھ میں نہ آیا کہ یہ کیا چیز تیرے سامنے آ گئی ہے۔ بس اتنی ہی مہلت مجھے درکار تھی۔ میں نے تجھ پر اور تیرے سپاہیوں پر منتر پھونکا، تو میری گرفت میں آ گیا تو میں نے تیرے ہاتھ سے بندوق لے لی، اب تو وہ کرنے پر مجبور تھا جو میں چاہتی ، اب تو وہ دیکھنے پر مجبور تھا جو میں دکھاتی ۔ اگرچہ رنکل میرے ساتھ کھڑی تھی لیکن تو اسے اپنے سامنے وحشیانہ رقص کرتے اپنی مرضی کے لباس میں دیکھ رہا تھا۔ تو میری بات سمجھ گیا نا ؟
دلدار بخش نے اثبات میں گردن ہلائی ۔۔ ہاں ۔۔ مائی ۔۔
بس پھر کیا تھا، ہر شخص منتر پڑھتا تیرے سامنے سے گزر گیا اور تو اور تیرے ساتھی کسی کو جاتا نہ دیکھ سکے۔ کاکا یوں سمجھ لے، یہ ایک طرح سے نظربندی کا کھیل تھا۔ پھر جب میں نے بندوق تیرے ہاتھ میں تھمائی تو تو میرے سحر سے آزاد ہوا، بس اتنی سی بات تھی جس کے لئے تو نے اتنا وقت ضائع کیا ۔۔۔ مائی پنکھی نے اپنی بات ختم کر کے دلدار بخش کو دیکھا۔
اس کا مطلب ہے کہ تو جادو گرنی ہے ۔۔۔ دلدار بخش کے دل نے ایک نئی کروٹ لی۔
جادو گرنی میرے لئے چھوٹا لفظ ہے، میں بہت آگے کی چیز ہوں ۔۔۔ مائی پنکھی بولی۔
مائی ۔۔ میری نظر میں تو کسی بڑے شیطان سے کم نہیں ۔۔۔ دلدار بخش چارپائی سے الھتا ہوا بولا ۔۔ تو نے میرے محکمے کے بندے کو قاتل بنا دیا۔ اگر تو اسے اس کی بیوی کے بارے میں نہ بتاتی تو وہ بھلا اپنی بیوی اور اس کے آشنا کو قتل کیوں کرتا لیکن تو شر پھیلائے بغیر نہ رہ سکی۔ اب بھی تو اپنے چیلے چانٹوں کے ساتھ یہی کام کر رہی ہے، پھر میں کیوں نہ اس شر کو جڑ سے کاٹ دوں ۔ نہ ہو گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ چل مرنے کے لئے ہو جا تیار ۔۔۔ یہ کہہ کر دلدار بخش نے چارپائی پر بیٹھی مائی پنکھی پر ریوالور تان لیا۔
او کاکا ۔۔ تو رہا کاکے کا کاکا ۔۔۔ مائی پنکھی طنزیہ انداز میں بولی ۔۔ تیرے رب نواز کو میں نے تو نہیں کہا تھا کہ قتل کر دے، جو کیا اس نے اپنی مرضی سے کیا، اس میں میرا کیا قصور ۔۔
اب میں تیری کوئی بکواس سننے کے لئے تیار نہیں ۔۔۔ دلدار بخش نے ریوالور سیدھا کیا۔۔ میں تجھ جیسی شیطان عورت کو ہرگز زندہ نہیں چھوڑوں گا ۔۔
کاکا۔ میرا جرم تو بتا۔ پولیس کا کام لوگوں کو مارنا نہیں ، ان کی حفاظت کرنا ہے ۔۔۔ مائی پنکھی اسے باتوں میں الجھا کر اپنا مقصد پورا کرنا چاہتی تھی۔
پولیس کا کام تجھ جیسے شیطانوں کی حفاظت کرنا ہرگز نہیں۔ تو ایسی مجرم ہے جس کا جرم کسی عدالت میں ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ بس تجھے اسی طرح مار کر معاشرے سے گند دور کیا جا سکتا ہے ۔۔۔ دلدار بخش نے فیصلہ سنایا۔
اچھا ۔۔ چل پہلے میرے ہاتھ پر گولی مار ۔۔۔ مائی پنکھی نے اپنا ہاتھ اس کے سامنے کیا۔ دلدار بخش کو اس کی ہتھیلی پر جو نظر آیا ، اسے دیکھ کر اس کے ہوش اُڑ گئے ۔
ہوش کیوں نہ اڑتے۔
اس نے اپنے بڑے بیٹے کو ہتھکڑیاں لگے پولیس وین سے اترتے دیکھا۔ جس وین سے وہ اترا، وہ ملحقہ تھانے کی تھی۔ یہ منظر دیکھتے ہی دلدار بخش ساری چوکڑی بھول گیا۔ وہ فورا باہر کی طرف بھاگا۔
اسے بھاگتے دیکھ کر مائی پنکھی نے پیچھے سے آواز لگائی ۔۔
او کاکا ۔۔ بھاگ کیوں رہا ہے۔ چلا نا گولی ۔۔
تو فکر نہ کر مائی ۔۔ میں آؤں گا ضرور واپس آؤں گا۔ تجھے چھوڑوں گا نہیں۔ پہلے میں ذرا اپنے بیٹے کی خبر لے لوں ۔ اسے پولیس نے کیوں گرفتار کیا ہے۔
مائی پنکھی چارپائی سے اٹھ گئی۔ اس نے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔۔ کوئی جرم کیا ہو گا۔ جب ہی تیرے بیٹے کو پولیس نے پکڑا ہے۔ پولیس کسی معصوم کو تو نہیں پکڑتی، ہے نا ۔۔
دلدار بخش دروازے سے نکل چکا تھا۔ اس نے مائی پنکھی کا طنز بھرا جملہ سن تو لیا تھا لیکن جواب دینے کا اس کے پاس وقت نہ تھا۔
کاکا ۔۔ تیرے حق میں اچھا یہ ہے کہ تو واپس نہ آئے ۔ واپس آیا تو نقصان اٹھائے گا ۔۔۔ اس نے دروازہ بند کرتے ہوئے زور سے کہا۔ اس کا خیال تھا کہ اس کی بات دلدار تک ضرور پہنچ گئی ہو گی۔
دلدار بخش کا بیٹا جس کی گرفتاری کا منظر اس نے مائی پنکھی کی ہتھیلی پر دیکھا تھا، کالج اسٹوڈنٹ تھا۔ دلدار کے چار بچے تھے۔ بیٹا جس کا نام شمشاد تھا، بڑا تھا، اس سے تین چھوٹی بیٹیاں تھیں۔ وہ ابھی پڑھ رہی تھیں۔ دلدار کو بیٹیوں کے مقابلے میں شمشاد سے زیادہ لگاؤ تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ شمشاد پڑھ لکھ کر کچھ بن جائے۔ اس نے پڑھائی کے معاملے میں اسے ہر سہولت دے رکھی تھی۔ دلدار کی اپنے بیٹے کے بارے میں بہت اچھی رائے تھی۔ اس کا خیال تھا کہ پڑھائی کے علاوہ اس کا دھیان کسی اور طرف نہیں ہے۔ لیکن حقیقت کچھ اور تھی ۔ پڑھائی کے علاوہ اس کا دھیان ہر طرف تھا۔ وہ ہر سال اچھے نمبروں سے پاس ہو جاتا تو باپ سمجھتا تھا کہ پڑھائی کے علاوہ یہ کسی اور چیز سے آشنا نہیں ہے۔ شمشاد ایک چالاک اور شاطر لڑکا تھا۔ وہ پولیس والے کا بیٹا تھا لہذا کلاس پاس کرنے میں سارے ہتھکنڈے استعمال کرتا تھا۔
شمشاد کو ہتھکڑی میں دیکھ کر دلدار کو شدید جھٹکا لگا تھا۔ آخر ایسا کیا ہوا کہ اس کے پڑھاکو بیٹے کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ جب وہ ملحقہ تھانے پہنچا تو وہاں کئی اور جھٹکے اس کے منتظر تھے۔
اس تھانے کا انچارج اتفاق سے اس کا دوست تھا۔ خالد قریشی نا صرف اس کا کلاس فیلو تھا بلکہ وہ پولیس میں ایک ساتھ ہی بھرتی ہوئے تھے۔
رات کے پچھلے پہر دلدار بخش کو اپنے کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر وہ حیران ہو گیا ۔
"اوئے۔ دلدار خیریت۔ تو اس وقت ۔ "
خالد قریشی نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
اوئے۔ یارا تو نے میرا بیٹا پکڑ لیا۔ پھر اس وقت میں کیسے نہ آتا ۔۔۔ دلدار بخش کے لہجے میں شکوہ تھا۔
تیرا بیٹا ۔۔۔ کیسی بات کرتا ہے دلدار ۔۔ میں بھلا تیرا بیٹا پکڑوں گا ۔۔۔خالد قریشی نے کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔ تو بیٹھ، میں بھٹی کو بلاتا ہوں ۔۔
خالد قریشی کی لاعلمی نے دلدار بخش کو پریشان کیا۔ وہ سوچنے لگا کہ کہیں مائی پنکھی نے کوئی فریب تو نہیں دے دیا۔ اگر اس کا بیٹا یہاں ہوتا تو خالد قریشی کے علم میں ضرور ہوتا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ شمشاد نے اپنی شناخت ہی نہ کروائی ہو۔ لیکن ممکن نہ تھا۔ وہ گرفتار ہوتا تو اپنی جان چھڑانے کے لیے اپنے باپ کا نام ضرور لیتا۔
اردلی کے ذریعے بلوائے جانے پر اے ایس آئی شریف بھٹی کمرا میں داخل ہوا، اس نے سلام کیا اور خالد قریشی سے مخاطب ہو کر بولا ۔۔ جی سر ۔۔
بھٹی تم انہیں جانتے ہو؟ خالد قریشی نے دلدار کی طرف اشارہ کیا۔
اچھی طرح سر ۔۔۔ بھٹی بولا ۔۔ ایس ایچ او دلدار بخش صاحب۔ آپ کے دوست ۔۔
یار تم نے مجھے ان کے سامنے شرمندہ کروا دیا ۔۔۔ خالد قریشی نے کہا۔
کیوں سر ۔ ایسا کیا ہوا ؟ شریف بھٹی کی کچھ سمجھ میں نہ آیا۔
بھٹی تم نے دلدار کا بیٹا پکڑ لیا اور مجھے بتایا تک نہیں ۔۔۔ خالد قریشی نے انکشاف کیا۔
سر ایسا بھلا کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔ بھٹی نے بڑے یقین سے کہا۔۔ ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ۔۔
" کیا تم نے آج کوئی گرفتاری کی ہے؟ خالد نے پوچھا۔
ایک گھنٹہ پہلے میں ایک لڑکے کو پکڑ کر لایا ہوں لیکن اس نے تو سر کا نام نہیں لیا ۔۔۔ بھٹی بولا ۔
نام کیا ہے اس کا ؟ اس بار دلدار بخش نے گفتگو میں مداخلت کی۔
اس کا نام شمشاد ہے جی ۔۔۔ بھٹی بولا ۔
یہی نام ہے میرے بیٹے کا ۔۔ دلدار بخش نے بے تاب ہو کر کہا۔
تم نے اسے کس جرم میں گرفتار کیا ہے ؟ ۔۔ خالد قریشی اسے تیز نظروں سے گھورتے ہوئے بولا ۔
سرچی ۔۔ اس نے ایک لڑکی کے چہرے پر تیزاب پھینکا ہے ۔۔۔ بھٹی نے فرد جرم بتائی۔
تیزاب پھینکا ہے ۔۔ میرے بیٹے نے ۔۔۔ دلدار بخش کے لیے یہ جھٹکا اعصاب شکن تھا ۔
بھٹی ۔۔ شمشاد کو فورا لے کر ادھر آؤ اور اپنے دماغ میں یہ بات اچھی طرح بٹھا لو کہ تم نے شمشاد کو گر فتار نہیں کیا۔ اس کی جگہ کوئی اور لڑکا تلاش کرو۔ چلو جلدی کرو ۔ خالد قریشی نے حکم دیا ۔
جی سر ۔۔ بہت اچھا،، بھٹی نے مرے ہوئے لہجے میں کہا اور حکم کی تعمیل کرنے کے لیے کمرے سے نکل گیا۔ بھٹی کے جانے کے بعد خالد قریشی نے اس سے معذرت کی۔۔
یار ۔۔ معاف کرنا غلطی ہو گئی ۔۔
کوئی بات نہیں یار ۔۔۔ دلدار بخش ممنون لہجے میں بولا ۔۔ غلطی میرے بیٹے کی ہے کہ اس نے اپنا تعارف کیوں نہیں کرایا۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ جرم اسی سے ہوا ہے۔ شاید وہ شرمندگی کی وجہ سے میرا نام نہیں لے سکا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ کسی طرح مجھے اس کی گرفتاری کا علم ہو گیا۔ ورنہ میڈ یا پر خبر آنے کے بعد جان چھڑانا مشکل ہو جاتی۔ یار تیرا بہت شکریہ۔ تو نے تو دوستی کا حق ادا کر دیا ۔
کوئی بات نہیں یار ،، خالد قریشی بولا ۔۔ لیکن تجھے کیسے پتا چلا کہ تیرا بیٹا یہاں ہے؟ خالد قریشی کا تجسس جاگا۔
جواب میں دلدار بخش نے مائی پنکھی کے بارے میں ہر وہ بات بتا دی جو اس کے علم میں تھی۔
اس کا مطلب ہے کہ وہ خاصی کام کی عورت ہے ۔ خالد قریشی نے ساری داستان سن کر اپنی رائے سے نوازا۔تو خواہ مخواہ اس کی جان کا دشمن ہوا ہے ۔
دلدار بخش نے سوچا۔ خالد قریشی ٹھیک کہتا ہے۔ مائی پنکھی واقعی کام کی عورت ہے۔ اگر وہ ہتھیلی پر شمشاد کی گرفتاری کا منظر نہ دکھاتی، تو وہ کس طرح اسے تھانے سے مکھن سے بال کی طرح نکال کر لے جاسکتا تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ مائی پنکھی نے یہ کار روائی اپنی جان بچانے کے لیے کی تھی لیکن اس نے دلدار کو فائدہ پہنچا دیا تھا۔ ایک تو اس کو خواہ مخواہ قاتل بننے سے بچا دیا تھا۔ دوسرے اس کی اطلاع پر اس کا بیٹا بھی بچ گیا تھا۔ اب خالد قریشی نے ایک نیا راستہ دکھایا تھا۔ اس عورت سے واقعی کام لیا جا سکتا تھا۔
اگلے دن شام کو دلدار، خالد قریشی کے ساتھ مائی پنکھی کے گھر پہنچ گیا۔ اس کے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ اور ڈبے کے اندر پانچ ہزار روپے تھے ۔
👇👇

خوفناک مسکن - گیارواں حصہ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے