خوفناک مسکن - پارٹ 11

urdu stories online 1

عابر سے ٹکرانے والا وہی فقیر تھا جو اسپتال سے باہر آتے ہوئے ملا تھا۔ جس نے علی نثار سے صدقہ مانگا تھا اور عابر کا چہرہ دیکھ کر کہا تھا۔۔ تجھے دنیا ڈھونڈ 
رہی ہے ۔۔
 
عابر نے اسے فورا پہچان لیا۔ چہرہ ایسا تھا جسے ایک بار دیکھ کر بھولا نہیں جا سکتا تھا۔ چھوٹی داڑھی، کندھے پر پڑے کالے اور گھنے بال ، روشن آنکھیں جن میں محبت کے سوا کچھ نہ تھا۔ فقیر نے محبت بھری آنکھوں سے عابر کا اوپر سے نیچے تک جائزہ لیا۔ پھر اوپر آسمان کی طرف گردن اٹھائی۔ آسمان کو یوں دیکھا جیسے کچھ تلاش کر رہا ہو۔ چند لمحوں کے بعد اس فقیر نے عابر کی آنکھوں میں دیکھا۔ عابر اسی کی طرف دیکھ رہا تھا لیکن وہ اس کی روشن آنکھوں کی تاب نہ لا سکا۔ اس نے نظریں جھکا لیں۔
تجھے دنیاڈھونڈ رہی ہے ۔۔۔ اس فقیر نے کہا۔
بابا ۔۔ یہ دنیا مجھے کب تک ڈھونڈتی رہے گی۔ مجھ تک پہنچتی کیوں نہیں؟ ۔۔۔ عابر کے منہ سے بےاختیار نکلا۔
اس کی بات سن کر فقیر نے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ دیر تک ہنستا رہا۔ عابر کو لگا کہ بابا شاید پاگل ہو گیا ہے۔ اس نے اسے، اس کے حال پر چھوڑ کر آگے قدم بڑھایا۔
فقیر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اپنی ہنسی روک کر انتہائی سنجیدہ لہجے میں بولا ۔۔ کہاں جاتا ہے۔ بے وقوف اپنے گھر جا۔ تیری ماں شدید بیمار ہے ۔۔۔ عابر یہ سن کر یکدم پریشان ہو گیا۔
اس کا گھر جانے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ وہ اپنے باپ کے مزاج سے اچھی طرح واقف تھا۔ جس طرح وہ گھر چھوڑ کر آیا تھا، اس کے بعد اس گھر میں اس کی قطعاً گنجائش نہ تھی۔ وہ اسے کبھی گھر میں داخل نہ ہونے دیتے لیکن اس وقت فقیر کی بات سن کر وہ تڑپ گیا تھا۔
اسے گھر سے نکلے کئی ماہ ہو گئے تھے۔ جب سے گھر چھوڑا تھا، اس نے پلٹ کر خبر نہ لی تھی کہ اس کے گھر چھوڑنے کے بعد والدین پر کیا گزری۔ اس نے نہ اپنی بہن صائمہ سے رابطہ کیا تھا اور نہ اس کے رابطہ کرنے کی گنجائش چھوڑی تھی۔ اس نے اپنے موبائل کی سم تبدیل کر لی تھی۔ اسے یقین تھا کہ کوئی اور رابطہ کرے نہ کرے. بہن اس کے لیے ضرور تر پے گی۔
فقیر جا چکا تھا اور وہ سڑک کے کنارے کھڑا کسی سواری کا انتظار کر رہا تھا۔ اتنے میں ایک رکشہ نظر آیا۔ اس نے اسے ہاتھ دے کر روکا اور اپنے گھر کا پتا بتا کر رکشا میں بیٹھ گیا۔
گھر کے دروازے پر جب رکشا رکا تو عابر کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ گیٹ پر لگے گھنٹی کے بٹن پر ہاتھ رکھا۔ بٹن دبتے ہی گھر کے اندر سے بیل کی آواز آئی۔ وہ دروازے سے تھوڑ اسا پیچھے ہو کر کھڑا ہو گیا۔ وہ گھر تک آ تو گیا تھا لیکن اب اس کے اعصاب جواب دے رہے تھے۔
علی نثار اس وقت کوئی ٹاک شو دیکھ رہے تھے۔ صائمہ بھی اتفاق سے گھر میں موجود تھی۔ وہ رات رکنے کے لئے آ گئی تھی۔ اس وقت وہ نازنین کے ساتھ بیڈ روم میں تھی۔ گھنٹی کی آواز سن کر وہ کمرے سے باہر نکلی اور لاؤنج میں بیٹھے علی نثار سے مخاطب ہو کر بولی۔ " اس وقت کون آ گیا ؟"
علی نثار نے لاؤنج میں لگی گھڑی کی طرف نظر ڈالی۔ گیارہ بج رہے تھے، وہ بولے ۔۔ پتا نہیں ٹھہرو، میں دیکھتا ہوں ۔۔
گیٹ کی طرف بڑھتی ہوئی صائمہ رک گئی ۔۔ جی ، اچھا ۔۔
علی نثار یہ سوچتے ہوئے گیٹ کی طرف بڑھے کہ اس وقت کون آ سکتا ہے۔ لیکن وہ اندازہ نہ لگا سکے۔ گیٹ کے نزدیک پہنچ کر انہوں نے بلند آواز میں پوچھا ۔۔ کون؟ ۔۔
جی ۔۔ ابو، میں ہوں عابر ۔۔۔ عابر کی مری ہوئی آواز باہر سے آئی۔
عابر کی آواز سن کر علی نثار کے جسم میں یکدم جان سی پڑ گئی۔ انہوں نے فورا پیچھے مڑ کر دیکھا۔ پیچھے دروازے پر صائمہ کھڑی تھی۔ اس نے عابر کی آواز سن لی تھی۔ چند لمحے اس پر سکتہ سا ہو گیا۔ کتنے عرصے کے بعد اس نے عابر کی آواز سنی تھی۔ وہ جلدی سے آگے بڑھی۔ اس سے پہلے کہ علی نثار کوئی رد عمل ظاہر کرتے ، صائمہ ان کے نزدیک آ کر سرگوشی میں بولی ۔۔
پلیز ابو ۔۔۔ اس کی آواز میں التجا تھی۔
علی نثار نے گہرا سانس لے کر گھر کا بیرونی گیٹ کھول دیا۔
عابر تیزی سے اندر آیا۔ اس نے سامنے کھڑے اپنے باپ کو ایک نظر دیکھا اور جھک کر ان کے پاؤں پکڑ لیے۔۔
ابو مجھ سے غلطی ہوگئی۔ مجھے معاف کر دیں ۔۔
جوان بیٹے کو اپنے پاؤں پکڑتے دیکھ کر ان کے اندر کا باپ جاگ گیا اور ان کی اصول پسندی کہیں پیچھے سو گئی ۔ انہوں نے قدموں میں جھکے عابر کو اٹھا کر سینے سے لگا لیا۔ باپ کے سینے سے لگ کر عامر کی آنکھیں چھلک پڑیں۔
علی نثار کو گلے لگاتے دیکھ کر صائمہ سے وہاں کھڑا نہ رہا گیا وہ دوڑتی ہوئی اندر بھاگی ۔۔ امی ۔۔ امی ۔۔
نازنین نے کچھ دیر پہلے نیند کی گولی کھائی تھی۔ اب اس کی آنکھوں میں نیند اترنے کو تھی کہ صائمہ کی چیختی آواز سنائی دی۔ ان کا دل بیٹھنے لگا اور آنکھوں سے نیند غائب ہو گئی۔
امی ۔۔ امی ۔۔۔ صائمہ پھولی سانسوں کے ساتھ بیڈ روم میں داخل ہوئی اور ماں سے لپٹ گئی ۔
میری بچی ۔۔۔ نازنین نے اسے لپٹا لیا اور پریشان ہو کر بولیں ۔۔
کیا ہوا ؟ ۔۔
امی ۔۔ عابر آ گیا ہے ۔۔۔ صائمہ نے خبر سنائی۔
ہیں ۔۔ عابر آ گیا ۔۔ کہاں ہے میرا بچہ ۔۔۔ نازنین نے صائمہ کو ہٹا کر اٹھتے ہوئے کہا۔ اس خبر نے ان پر جادو کا سا اثر کیا تھا۔ ورنہ ان سے اٹھنا بیٹھنا مشکل تھا۔ اب کہاں کی بیماری؟ کیسی نقاہت ۔ وہ بڑی تیزی سے اٹھ کر بیٹھ گئیں اور بیڈ سے پاوں اتار کر چپل پہننے کو تھیں کہ عابر اندر داخل ہوا۔
اس نے ماں کو اٹھنے سے روکا اور ان کے برابر بیٹھ کر انہیں اپنے سے لپٹا لیا اور رونے لگا۔
اوہ ۔۔ میرے عابر ۔۔ میرے بچے ۔۔ تو کہاں چلا گیا تھا ۔۔۔ نازنین بےتاب ہو کر بولیں۔
بس ۔۔ بھول ہو گئی امی ۔ مجھے معاف کر دیں ۔۔۔ وہ آنسوؤں کے دوران بولا ۔
صائمہ نے اس کے نزدیک بیٹھ کر کندھے پر اپنا سر ٹکا دیا۔ وہ بے آواز رو رہی تھی۔ عابر نے بہن کو نزدیک دیکھ کر اسے اپنے قریب کر لیا۔ اب وہ تینوں رو رہے تھے۔ علی نثار دروازے پر کھڑے اس منظر کو شفیق نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ آنکھیں ان کی بھی بھیگی ہوئی تھیں۔ وہ وہاں زیادہ دیر نہ کھڑے ہو سکے۔ ٹی وی لاؤنج میں آکر بیٹھ گئے ۔ چلتا ٹاک شو بند کیا اور ٹی وی کی سیاہ اسکرین پر نظریں جما دیں۔
جب آنسوؤں کا سیل رواں تھما تو نازنین نے عابر کے چہرے کو دونوں ہاتھ میں تھام لیا اور محبت بھری نظروں سے دیکھنے لگیں۔ ان کا لخت جگر کئی ماہ بعد دکھائی دیا تھا۔ اس کی دیدان
کے لیے راحت جاں تھی۔
امی ۔۔ اب آپ کی کیسی طبیعت ہے؟ ۔۔۔ عابر نے پوچھا۔
میں ٹھیک ہوں ۔۔ مجھے کیا ہوا ؟ ۔۔۔ نازنین نے عابر کی پیشانی چومتے ہوئے کہا۔
امی ۔۔ آپ بہت کمزور دکھائی دے رہی ہیں ۔۔۔ عابر فکر مند ہو کر بولا۔
عابر تمہارے جانے کے بعد امی شدید بیمار ہو گئی تھیں۔ اٹھنا بیٹھنا بھی مشکل تھا۔ یہ تو تمہیں دیکھ کر یکدم ان میں جان آئی ہے۔ ورنہ رو رو کر امی نے برا حال کیا ہوا تھا ۔۔۔ صائمہ نے بتایا۔
اس کا مطلب ہے کہ اس فقیر نے ٹھیک کہا تھا ۔۔۔ عابر کو یک لخت اس فقیر کا کہا یاد آ گیا۔
کسی فقیر نے عابر ۔۔۔ صائمہ نے پوچھا۔
آپی یاد ہے جس دن میں اسپتال سے باہر آیا تھا تو ایک فقیر نے ابو سے صدقہ مانگا تھا ۔۔۔ عامر نے یاد دلایا۔
ہاں اچھی طرح یاد ہے ۔ وہ تمہیں کہاں مل گیا ؟ ۔۔
فٹ پاتھ پر ۔۔۔ عابر نے بتایا۔۔ اس نے یہ کہہ کر کہ جا اپنے گھر جا، تیری ماں شدید بیمار ہے۔ میرا رخ موڑ دیا۔ ورنہ اس وقت میں جانے کہاں بھٹک رہا ہوتا ۔۔
اللہ اس فقیر کو خوش رکھے جس نے مجھے میرا بیٹا لوٹا دیا ۔۔۔ نازنین کے دل سے دعا نکلی۔۔ بیٹا آئندہ تمہیں وہ فقیر کہیں دکھائی دے تو اسے گھر لے آنا ۔۔
" عابر تم آخر کہاں غائب ہو گئے تھے۔ تم نے ہم پر بہت ظلم کیا ۔۔۔ صائمہ نے کہا۔
آپی ظلم مجھ پر بھی بہت ہوا۔ گھر چھوڑ کر مجھے بھی چین نہ ملا ۔۔۔ عابر بولا ۔۔ لیکن یہ گڑھا خود میں نے کھودا تھا۔ کسی سے کیا شکوہ کرتا ۔۔
ہوا کیا ؟ ۔۔۔ صائمہ بےچین تھی اس کی آپ بیتی سننے کے لئے۔
صائمہ ۔۔ یہ ابھی گھر آیا ہے ۔۔۔ نازنین نے ٹوکا ۔۔ اس سے یہ تو پوچھو کہ کھانا کھایا ہے کہ نہیں ؟ ۔۔
نہیں امی ۔۔ میں نے کھانا نہیں کھایا۔ میں بہت بھوکا ہوں ۔۔۔ عابر کو یکدم اپنے پیٹ کا خیال آگیا۔
چل صائمہ عابر کو کھانا گرم کر کے دے دے اور یہ تیرے ابو کہاں ہیں ؟ ۔۔۔ نازنین نے کہا۔
جی امی ۔۔ ابو لاؤنج میں ہیں۔ صاٸمہ نے بیڈ روم کے دروازے پر پہنچ کر لاؤنج میں نظر ڈالی۔
کھانا کھانے کے بعد عابر اپنے کمرے میں آ گیا۔ اس کمرے میں ہر چیز ویسی ہی رکھی تھی جیسی وہ چھوڑ کر گیا تھا۔ بس اس کی کمی تھی تو وہ لوٹ آیا تھا۔ کمرے میں صائمہ کے بچے سو رہے تھے۔ عامر نے سوتے بچوں کو پیار کیا ۔ اتنے میں صاٸمہ اس کیلیے چائے لے کر آ گئی۔
بس پھر دونوں کی رات آنکھوں میں کٹی۔ عابر نے اپنی بڑی بہن سے کچھ نہیں چھپایا۔ وہ چھپا بھی نہیں سکتا تھا۔ اس کا دل تو پہلے ہی بھرا ہوا تھا۔ وہ خود ایسے ہمدرد سامع کی تلاش میں تھا جس کے سامنے وہ اپنا دل کھول کر رکھ دے۔ صائمہ سے اچھی سامع اسے کہاں مل سکتی تھی۔ وہ اس سے دو سال بڑی ضرور تھی لیکن عابر اس سے ہر بات کہہ لیا کرتا تھا۔
ساری رام کہانی سن کر صائمہ نے ان تلخ حقائق کو بھول جانے کی تلقین کی اور سرد آہ بھر کر بولی ۔۔
عابر اس بات کو کبھی مت بھولنا کہ والدین اولاد کے حق میں ہمیشہ اچھا سوچتے ہیں۔ ابو کو وہ لوگ مشکوک دکھائی دیئے تھے۔ وقت نے ان کی بات سچ ثابت کر دی۔ کیسے کیسے لوگ اس دنیا میں پڑے ہیں ۔۔
ہاں آپی ۔۔ ابو اور امی نے جو کہا سچ کہا۔ میری آنکھوں پر پردہ پڑ گیا تھا ۔۔۔ عابر کے لہجے میں دکھ کے ساتھ شدید پچھتاوا تھا۔ بس اب خوابوں کے پیچھے بھاگنا چھوڑ دو۔ اپنی زندگی سنوارو اپنا کیریئر بناؤ دیکھنا تمہیں ہزار ملکاٸیں مل جائیں گی ۔۔۔ صائمہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
نہیں آپی ۔۔ اب مجھے ملکہ نہیں چاہئے ۔ اللہ بچائے ملکہ جیسی لڑکیوں سے ۔۔۔ عابر پرعزم لہجے میں بولا۔
علی نثار، نازنین اور صائمہ سب بہت خوش تھے کہ عابر کی کایا پلٹ گئی تھی۔ اس نے عملی زندگی میں قدم رکھ دیا تھا۔ خوابوں کی دنیا میں رہنا چھوڑ دیا تھا۔
لیکن وہ خواب عابر کو مسلسل تین روز سے نظر آ رہا تھا۔ وہ اپنے دادا نثار ایوب کو عجب انداز سے دیکھ رہا تھا۔ پریشان ہو کر اس نے اس خواب کا تذکرہ اپنے باپ علی نثار سے کیا تو وہ حیرت زدہ رہ گئے۔
انہوں نے عابر سے سوال کیا ۔۔ لیکن بیٹا تم نے تو اپنے دادا کو نہیں دیکھا، پھر خواب میں تم نے کیسے پہچان لیا کہ وہ تمہارے دادا ہیں ؟ ۔۔
میں نے پہچانا نہیں، بس یہ احساس ہے کہ دادا ہیں ۔۔۔ عابر نے بتایا۔
ان کے ساتھ کوئی ہے؟ ۔۔۔ علی نثار نے پوچھا۔
کوئی بزرگ ہیں ان کے ساتھ ۔۔۔ وہ بولا ۔
یہ خواب تم کب سے دیکھ رہے ہو ؟ ۔۔
ابو ۔۔ مجھے تین دن ہو گئے اس خواب کو دیکھتے ہوئے ۔ ایک جیسا خواب اور خواب دیکھنے کا وقت بھی تقریبا ایک ہے۔ صبح پانچ سوا پانچ بجے یہ خواب نظر آتا ہے۔ میری آنکھ کھلتی ہے تو مجھے خوف محسوس ہوتا ہے ۔۔
کیا دیکھتے ہو؟ ۔۔۔ علی نثار نے پوچھا۔
ابو ۔۔ میں دیکھتا ہوں کہ جیسے دادا ہیں ، ان کے ہاتھوں میں کوئی بچہ ہے۔ پاس کھڑے بزرگ دادا کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قبر کھودنی ہے اور اس شیطان کو زندہ دفن کرنا ہے۔ بس اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ھے ۔۔۔ عابر نے خوفزدہ انداز میں بتایا۔
عابر تین دن سے جو خواب دیکھ رہا تھا وہ حقیقت پرمبنی تھا لیکن علی نثار کو حیرت اس بات پر تھی کہ اس واقعہ سے عابر قطعا نا واقف تھا اور ان کے والد نثار ایوب کا انتقال عابر کی پیدائش سے پہلے ہو گیا تھا۔ عابر نے اپنے دادا کو بس تصویروں میں ہی دیکھا تھا اور یہ تصویریں دیکھے ہوٸے بھی اسے ایک عرصہ بیت گیا تھا۔ اس واقعہ سے نازنین کسی حد تک واقف تھیں لیکن انہیں بھی یہ معلوم نہ تھا کہ اس بچے کے ساتھ کیا معاملہ کیا گیا تھا۔ اس قصے سے اگر کوٸی پوری طرح واقف تھا تو وہ علی نثار تھے۔
یہ قصہ علی نثار کی شادی سے شروع ہوا۔ علی نثار کے لیے ان کی شادی جی کا جنجال بن گئی۔ اس شادی میں عشق وشق کا کوئی دخل نہ تھا۔ یہ رشتہ والدین کی مرضی سے ہوا تھا۔ نازنین علی نثار کے والد نثار ایوب کو شروع ہی سے پسند تھیں۔ وہ ان کے ایک قریبی دوست کی بیٹی تھیں۔ خوبصورت ہونے کے ساتھ سلیقہ مند تھیں۔ علی نثار نے نازنین کو دیکھ رکھا تھا۔ انہیں کوئی اعتراض نہ تھا۔ نازنین اسکول میں ٹیچر تھیں۔ علی نثار یا گھر کے لوگوں کو ان کی ملازمت پر اعتراض نہ تھا۔ لہذا اسکول میں ٹیچنگ کرتی رہیں۔
شادی کی رات جب علی نثار نے نازنین کے چہرے سے گھونگھٹ اٹھایا تو ان کے حسن میں کھو گئے۔ ان کے اصرار پر نازنین نے جھکی آنکھیں اٹھائیں اور علی نثار کے چہرے پر نظر کی تو ان کے ہوش اڑ گئے۔ علی نثار بےشک پرکشش نوجوان تھے لیکن اتنے بھی حسین نہیں کہ کوئی ان کے حسن کی تاب نہ لا کر بےہوش ہو جائے۔ نازنین علی نثار کا چہرہ دیکھتے ہی بےہوش ہو گئی تھیں۔ علی نثار کی سمجھ میں ان کی بے ہوشی کی وجہ نہ آئی۔ آخر ایسا انہوں نے کیا دیکھا تھا کہ ان کے حواس جاتے رہے۔ خیر گھر والوں کی مدد سے وہ انہیں ہوش میں لائے۔ پھر وہیں سے سلسلہ شروع کیا جہاں سے ٹوٹا تھا۔ اس بار عافیت رہی۔ علی نثار کو ہر وہ خوشی مل گئی جو انہیں درکار تھی۔
صبح ناشتے کے بعد جب انہوں نے نازنین سے بے ہوشی کی وجہ دریافت کی تو یکدم ان کا چہرہ فق ہو گیا۔ ان کے چہرے کا رنگ اُڑتے دیکھ کر علی نثار نے ادھر ادھر کی باتیں شروع کر دیں۔ جب فضا سازگار ہو گئی تو پھر انہوں نے بے ہوشی کی وجہ پوچھی اور ساتھ ہی کہا۔۔
حقیقت چاہے جتنی تکلیف دہ ہو، بلا جھجک بیان کر دو۔ آج کی تکلیف کل کی راحت بنے گی ۔۔
میں خود بھی بتانا چاہتی ہوں ۔ لیکن ڈرتی ہوں کہ کہیں آپ ناراض نہ ہو جائیں ۔۔۔ نازنین نے جھجکتے ہوئے کہا۔
نہیں ۔۔ میں ناراض نہیں ہوں گا، چاہے حقیقت کتنی ہی تلخ کیوں نہ ہو ۔۔۔ علی نثار نے پریقین انداز میں کہا۔
ٹھیک ہے میں بتاتی ہوں ۔۔۔ نازنین نے یہ کہتے ہوئے فورا علی نثار کے چہرے سے نظریں ہٹا لیں اور دھیرے سے بولیں ۔۔ میں نے جب آپ کا چہرہ دیکھا تو ۔۔۔۔۔۔
علی نثار نے محسوس کیا کہ وہ بولنا چاہ رہی ہیں لیکن بول نہیں پار ہیں۔ انہوں نے نازنین کا ہاتھ تھام لیا اور بولے ۔۔
اچھا جب تم نے میرا چہرہ دیکھا تو پھر کیا ہوا۔ کیا میرے سر پر سینگ نکل آئے تھے؟ ۔۔
نہیں ۔۔ میں نے آپ کے پیچھے ایک اور چہرہ دیکھا۔ انتہائی ڈراؤنا ۔۔ وہ چہرہ کسی بن مانس سے ملتا تھا۔ اسے دیکھ کر میں اپنے ہوش گنوا بیٹھی ۔۔۔ نازنین اتنا بتا کر تھرتھر کانپنے لگیں۔
ابھی تو نازنین نے ہوش گنوائے تھے۔ ایک رات علی نثار کے حواس قابو میں نہ رہے۔ ایک رات سوتے ہوئے اچانک علی نثار کی آنکھ کھلی۔ کمرے میں بلیو نائٹ بلب روشن تھا۔
انہوں نے دائیں جانب لیٹی نازنین پر نظر کی وہ بڑے پرسکون انداز میں محو خواب تھیں۔
علی نثار دیوار گیر گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے اٹھ بیٹھے۔ گھڑی میں ڈیڑھ بجا تھا۔ انہوں نے واش روم کا رخ کیا۔ پانچ منٹ کے بعد جب وہ واش روم سے باہر آئے تو ان کی نظر نازنین پر پڑی جو کمرے میں ٹہل رہی تھیں۔ انہیں بڑی حیرت ہوئی کیونکہ نازنین جس پرسکون انداز میں گہری نیند سوبرہی تھیں، ان کی نیند ٹوٹنے کا امکان نہ تھا۔ شاید واش روم کی ضرورت نے انہیں اٹھایا اور واش روم خالی نہ پا کر وہ انتظار میں ٹہلنے لگیں۔ یہ کوئی پریشان کن بات نہ تھی۔
ہوش ان کے اس وقت اُڑے جب انہوں نے نازنین کو اسی طرح محو استراحت پایا جیسا وہ انہیں چھوڑ کر گئے تھے۔ اب صورت حال یہ تھی کہ ایک نازنین ٹہل رہی تھی اور ایک نازنین سو رہی تھی۔
کمرے میں دو نازنین تھیں اور یہ بات ان کے اعصاب چٹخانے کے لیے کافی تھی ۔ وہ فورا ہی دروازہ کھول کر کمرے سے نکل گئے۔ گھر کے سب افراد سو رہے تھے۔ انہوں نے کسی کو ڈسٹرب کرنا مناسب نہ سمجھا۔ فریج سے ٹھنڈی بوتل نکال کر علی نثار نے دو گلاس پانی پیا۔ حواس بحال ہوئے تو سوچا یہ کیا ہوا ؟ بھلا ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک نازنین کی دو نازنین بن جائیں۔ ضرور یہ ان کی نظروں کا فتور ہوگا۔ یہ فیصلہ کر کے کہ چلو پھر چل کر دیکھتے ہیں۔ وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھے۔
اتنے میں نازنین دروازہ کھول کر باہر آئیں اور انہیں لاؤنج میں دیکھ کر بولیں ۔۔ کیا ہوا ؟ ۔۔
ایک منٹ ۔۔۔ علی نثار نے کہا اور کمرے میں داخل ہو گٸے۔ بیڈ خالی تھا۔ وہ فورا واپس آگئے اور بولے۔۔
نازنین لگتا ہے میری آنکھیں خراب ہو گئی ہیں ۔۔
کیوں کیا ہوا؟ ۔۔۔ نازنین نے حیرت سے پوچھا۔ مجھے ایک کے دو نظر آنے لگے ہیں ۔۔۔ علی نار نے بتایا۔
اس وقت میں آپ کو کتنی نظر آ رہی ہوں؟ ۔۔۔ نازنین نے ہنس کر کہا۔
فی الحال تو ایک ہی نظر آ رہی ہو۔ لیکن کچھ دیر قبل ۔۔۔
اللہ کے واسطے میرے بارے میں کوئی خوفزدہ کرنے والی بات مت کیجئے گا ۔۔۔ نازنین نے علی نثار کی بات کاٹ کر کہا۔
علی نثار نہ چاہتے ہوئے بھی جانے کیوں خاموش ہو گئے۔ پھر انہوں نے اس بات کو فریب نظر سمجھ کر دماغ سے نکالنا چاہا لیکن یہ بات فریب نظر نہ تھی حقیقت پر مبنی تھی۔
ایک رات پھر انہوں نے نازنین کو اسی طرح ٹہلتے اور اسی طرح لیٹے دیکھا۔تب انہوں نے اس صورتحال کا ذکر نہ نازنین سے کیا، نہ اپنی ماں کو بتایا۔ انہوں نے اس مسئلے پر براہ راست اپنے والد نثار ایوب سے بات کی ۔ ان کے والد کے ذہن میں پہلی رات کو علی نثار کو دیکھ کر بے ہوش ہو جانے والا واقعہ محفوظ تھا۔
نثار ایوب نے اپنے بیٹے علی نار سے دو چار سوالات کیے اور پھر بس اتنا کہا۔۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔۔
علی نثار اپنے باپ سے بات کر کے مطمئن ہو گئے لیکن پریشانیوں کا سلسلہ تھما نہیں۔ ایک دن اسکول میں نازنین کلاس لے کر نکلیں اور نیچے اسکول کے دفتر میں جانے کے لیے سیڑھیاں اترنے لگیں تو انہیں ایسا احساس ہوا جیسے کسی نے پیچھے سے دھکا دے دیا ہو جبکہ پیچھے کوئی نہ تھا۔ وہ دو چار سیڑھیاں نیچے گریں ان کے گھٹنے میں چوٹ آٸی ۔
شام کو نازنین نے علی نثار کو گھٹنے کی چوٹ دکھائی اور کسی کے دھکا دینے کی بات بتائی۔ گھٹنے کی چوٹ تو دو چار دن میں ٹھیک ہو گئی لیکن گھٹنے کا درد نہ گیا بلکہ درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ۔
یہ واقعہ دوبارہ اسی طرح پیش آیا۔ سیڑھیاں اترتے ہوٸے پھر کسی نے دھکا دیا اور وہ دو چار سیٹرھیاں نیچے گریں۔ اس بار دوسرے گھٹنے میں چوٹ آئی۔ چوٹ دو چار دن میں ٹھیک ہو گئی لیکن گھٹنے کا درد نہ گیا۔ گھٹنوں کی یہ تکلیف اس قدر بڑھی کہ اٹھنا بیٹھنا دوبھر ہو گیا۔ نوعمری میں گویا پیرانہ سالی نے آ گھیرا۔
جب اٹھنا بیٹھنا محال ہوا تو نازنین نے اسکول سے چھٹی لے لی۔ علی نثار نے اپنے والد نثار ایوب کو دھکا دیے جانے والے واقعات گوش گزار کر دیئے تھے۔ جواب میں نثار ایوب نے دونوں بار بس یہی کہا تھا ۔۔
" پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔"
ابا جان ۔ آخر کب تک پریشان نہیں ہوں گا ۔ نازنین اسکول جانے کے قابل نہیں رہی ہے ۔۔۔ علی نثار نے پریشان ہو کر کہا۔
تو اچھا ہے ۔۔ ہمیں بہو کی نوکری کی کون سی ضرورت ہے ۔۔۔ نثار ایوب نے آرام سے جواب دیا۔
ابا جان ۔۔ چلیں نوکری کو چھوڑیں۔ اس کے لیے اٹھنا بیٹھنا دشوار ہے ۔۔۔ علی نثار نے دوسری دلیل دی۔
اچھا چلو ۔۔ میں کسی اور اچھے ڈاکٹر کا پتا کرتا ہوں ۔۔۔ نثار ایوب نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔
اہا جان کئی اچھے ڈاکٹروں کو دکھایا جا چکا ہے۔ سارے ٹیسٹ ہو چکے ہیں۔ ہر ڈاکٹر یہ کہتا ہے کہ ان کے گھٹنوں میں کوئی مرض نہیں ۔۔۔ علی نثار نے وہ بات بتائی جسے نثار ایوب اچھی طرح جانتے تھے۔
کسی بڑے اسپتال میں نہ دکھا لیں؟ ۔۔۔ نثار ایوب نے پھر نیا راستہ دکھایا۔
ابا جان ۔۔ آپ پروفیسر صاحب سے کیوں بات نہیں کرتے؟ ۔۔۔ علی نثار کو بالآخر وہ کہنا پڑا جو کہنا نہیں چاہتے تھے۔
پروفیسر مجاہد کی بات کر رہے ہو؟ ۔۔۔ نثار ایوب نے سوال کیا۔
جی ابا جان ۔۔ میں انہی کی بات کر رہا ہوں۔ یہ کیس ڈاکٹروں کے بس کا نہیں ۔۔
بھٸی میں ان سے کئی بار بات کر چکا ہوں۔ ہر بار بس اتنا کہہ کر چپ ہو جاتے ہیں کہ اچھا دیکھتا ہوں ۔۔۔ نثار ایوب نے بتایا۔
ان سے پوچھیں آخر کب تک دیکھیں گے؟ ۔۔۔ علی نثار نے اکسایا ۔۔ آخر وہ آپ کے دوست ہیں ۔۔
وہ میرے دوست ضرور ہیں لیکن اپنی مرضی کے مالک ہیں۔ میں انہیں مجبور نہیں کر سکتا ۔۔۔ نثار ایوب نے صاف گوئی کہا۔ پھر علی نثار کو تسلی دیتے ہوئے بولے۔۔ اچھا، میں ایک بار پھر بات کرتا ہوں ۔۔
لیکن پھر بات کرنے کی نوبت نہ آئی ۔۔
اتوار کے دن صبح ہی صبح پروفیسر مجاہد گھر تشریف لے آئے علی نثار نے گیٹ کھولا ۔ سامنے پروفیسر مجاہد کو پایا تو انہیں دیکھ کر علی نثار کا دل باغ باغ ہو گیا۔ بڑے ادب سے سلام کیا۔
ارے بھئی ۔۔ گھر پر تمہارے ابا ہیں ؟ ۔۔۔ پروفیسر مجاہد نے سلام کا جواب دے کر پوچھا۔
جی جی ۔۔ ہیں۔ آپ اندر آ جائیے۔ میں انہیں ڈرائنگ روم میں بھیجتا ہوں ۔۔۔ علی نثار نے کہا۔
پروفیسر مجاہد نے بیٹھتے ہوئے کہا۔۔ بیٹا۔ ایک گلاس پانی مل جائے گا ؟
جی کیوں نہیں ۔۔۔ علی نثار نے جواب دیا۔
کچھ دیر بعد دونوں باپ بیٹے ایک ساتھ ڈراٸنگ روم میں داخل ہوئے۔ علی نثار نے پانی سے بھرا گلاس جو شیشے کی خوبصورت پلیٹ میں رکھا اور جھالر دار سرپوش سے ڈھکا تھا، میز پر رکھا۔
پروفیسر مجاہد نے ایک نظر گلاس پر ڈالی ۔ پھر نثار ایوب سے مخاطب ہو کر بولے۔۔" آپ کی بہو کہاں ہیں، ذرا انہیں بلائیے۔"
بہو کا یہاں آنا دشوار ہوگا ۔ آپ اندر چل کر دیکھ لیجئے ۔۔۔ نثار ایوب نے ان کا مقصد سمجھتے ہوئے جواب دیا۔
بھئی آپ لوگوں نے خواہ مخواہ انہیں بیمار بنا رکھا ہے ۔۔۔ یہ کہہ کر انہوں نے گلاس اٹھایا اور سرپوش ہٹا کر ایک پھونک ماری اور بولے ۔۔ جائیے بیٹا، اپنی بیگم کو پانی پلائیے ، اور پھر دیکھئے تماشا۔ وہ دوڑی ہوئی چلی آئیں گی ۔۔
علی نثار نے گلاس ان کے ہاتھ سے لے لیا اور تیزی سے اندر کی طرف قدم بڑھائے۔
نازنین بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ انہوں نے گلاس کا سر پوش اٹھا کر کہا۔۔ نازنین ۔ یہ پانی پی لیں ۔۔
نازنین نے عجیب انداز سے گلاس کی طرف دیکھا اور مشکوک لب ولہجے میں بولیں ۔۔ کیسا پانی ہے یہ؟ ۔۔
یہ پڑھا ہوا پانی ہے ۔ پروفیسر مجاہد نے دیا ہے۔ وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہیں۔ تمہیں بلا رہے ہیں ۔۔ علی نثار نے گلاس ان کے ہاتھ میں دے دیا۔
اچھا ۔۔۔ نازنین نے گلاس ہاتھ میں لیتے ہوئے پانی کی طرف دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں ابھرا شک یقین میں بدلا اور چند لمحوں بعد انہوں نے گلاس لبوں سے لگا لیا۔
علی نثار، نازنین کو بغور دیکھ رہے تھے۔ پانی پی کر ان کے چہرے پر جو ایک کرب کی سی کیفیت مسلسل درد ربنے کی وجہ سے منجمد ہو گئی تھی ، وہ پگھلتی ہوئی محسوس ہوئی۔
اور پھر علی نار نے حیرت انگیز منظر دیکھا کہ نازنین کسی سہارے کے بغیر بیڈ سے اتر کر سیدھی کھڑی ہو گئیں۔ انہوں نے دوپٹہ سر پر رکھا تھا۔ ہلکا ساگھونگھٹ نکالا اور علی نثار کی طرف دیکھ کر بولیں ۔۔ آئیے چلیں ۔۔
پھر ویساہی ہوا جیسا پروفیسر مجاہد نے کہا تھا۔ وہ بڑے اطمینان سے چلتی ہوئی ڈرائنگ روم میں داخل ہوئیں۔ نازنین کو بغیر سہارے کے یوں آتا دیکھا تو نثار ایوب بولتے بولتے رک گئے اور حیرت زدہ نظروں سے اپنی بہو کو دیکھنے لگے۔
بیٹھیے بیٹا ۔۔۔ پروفیسر مجاہد نے سامنے والے صوفے کی طرف اشارہ کیا۔
نازنین بہت ادب سے مسکرا کر سمٹ کر بیٹھ گئیں اور سر قدرے جھکا لیا۔ پروفیسر مجاہد نے چندلمحوں کے لیے اپنی آنکھیں بند کیں۔ پھر یک لخت آنکھیں کھول کر نازنین کے چہرے کی طرف دیکھا۔ نازنین کا آدھا چہرہ دوپٹے سے ڈھکا ہوا تھا۔ پھر انہوں نے ہاتھوں کی طرف توجہ کی اور کہا۔۔
" بیٹا۔ ذرا اپنا بایاں ہاتھ آگے کیجئے۔"
نازنین نے اپنا بایاں ہاتھ جو چوڑیوں سے بھرا تھا، تھوڑا سا آگے کر دیا۔ پروفیسر مجاہد نے ہاتھ کے ناخنوں کو بغور دیکھا۔ پھر ان کی نظر انگوٹھے کے ناخن پر جم گئی۔ وہ کچھ دیر ناخن دیکھتے رہے اور پڑھتے رہے۔ پھر بولے ۔۔ آپ کو کیا تکلیف ہے؟
اس سے قبل کہ نازنین کوئی جواب دیتیں، نثار ایوب بول پڑے۔ ہماری بہو کے گھٹنوں میں شدید تکلیف ہے۔ یہ ۔۔۔۔
نثار صاحب۔ میں نے آپ سے تو یہ سوال نہیں کیا ۔۔۔ پروفیسر مجاہد نے ان کی بات کاٹ کر کہا۔۔ یہ سوال میں نے آپ کی بہو سے کیا ہے۔ انہیں بولنے دیجئے ۔۔
اس وقت تو مجھے کوئی تکلیف نہیں ۔۔۔ نازنین نے دیے لہجے میں جواب دیا۔
سمندر بہت اچھا لگتا ہے آپ کو؟ ۔ پروفیسر مجاہد نے پوچھا۔
جی ۔۔۔ نازنین نے مختصر جواب دیا۔
سمندر پر گئے ہوئے کتنا عرصہ ہو گیا ؟
کافی دن ہو گئے۔ میرا خیال ہے کہ آٹھ دس مہینے ہو گئے ہوں گے۔ میں شادی سے پہلے اپنی فیملی کے ساتھ پکنک پر ہاکس بے گئی تھی ۔۔۔ نازنین نے کچھ اس انداز میں جواب دیا کہ ہر اس سوال کا جواب آگیا جو پروفیسر مجاہد کے ذہن میں تھا۔
ٹھیک ہے بیٹا۔ آپ جائیے۔ یہ کہہ کر پروفیسر مجاہد نے پھر علی نثار کی طرف دیکھا۔۔ آپ بھی جائیے ۔۔
جب نازنین اور علی نثار ڈرائنگ روم سے نکل گئے تو پروفیسر مجاہد نے نثار ایوب کو مسکرا کر دیکھا اور بولے۔۔
پیارے بھائی۔ دیکھنے میں کچھ وقت لگتا ہے نا۔ پھر یہ ہماری بہو کا معاملہ تھا، اس پر خصوصی توجہ درکار تھی۔ اب میں نے بہت کچھ دیکھ لیا ہے۔ آپ حکم کریں تو کچھ عرض کروں ؟ ۔۔
جی ۔۔ پروفیسر صاحب فرمائیے ۔۔۔ نثار ایوب نے سنجیدگی سے کہا۔
جواب میں پروفیسر مجاہد نے جو فرمایا وہ خاصا ہوشرہا تھا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے