دونوں
پولیس والوں کو اپنے گھر کے دروازے پر دیکھ کر مائی پنکھی مسکرائی۔ دلدار
بخش کا انداز بالکل بدلا ہوا تھا۔ وہ جو اس کے قتل کے درپے تھا، اب خود
مقتول ہو گیا تھا۔ دلدار بخش کے ساتھ جو پولیس والا تھا، اس کا رویہ بھی
فدویانہ تھا۔
مائی پنکھی دونوں کو اندر لے آئی۔ اس نے دیوار سے لگی چارپائی کو دیوار سے ہٹا کر دونوں کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ دلدار پخش اور خالد قریشی دائیں بائیں سرہانے کی طرف بیٹھ گئے ۔ مائی پنکھی پائینتی کی جانب پٹی پر بیٹھ گئی۔ خالد قریشی بغور اس عجوبہ روزگار بڑھیا کو دیکھ رہا تھا۔ دلدار کے مقابلے میں اس کا مشاہدہ زیادہ تیز تھا۔
اسی سال کی ایسی چاق و چوبند بڑھیا جس کی کمر تیر کی طرح سیدھی اور آنکھوں میں مردنی کے بجائے بھرپور زندگی تھی۔ ایسی بڑھیا اس نے آج تک نہ دیکھی تھی۔ یہ بڑھیا اسے بڑے کام کی نظر آئی۔
او مائی ۔۔ تیرا نام کیا ہے؟ ۔۔۔ دلدار بخش نے بڑے نرم لہجے میں پوچھا۔
بڑی جلدی تجھے میرے نام کا خیال آ گیا ۔۔۔ مائی پنکھی نے طنزا کہا۔
کسی نے بتایا تو تھا، پر میں بھول گیا ۔۔۔ دلدار بخش نے بات بنائی۔
کاکا ۔۔ میرا نام پنکھی ہے ۔۔۔ مائی پنکھی نے بتایا ۔۔ سب مجھے مائی پنکھی کہتے ہیں ۔۔
مائی پنکھی تیرا شکریہ ۔۔۔ دلدار بخش نے مٹھائی کا ڈبا اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔۔ تو اس دن کمال نہ دکھاتی تو میرا بیٹا تو گیا تھا جیل میں ۔۔
کاکا ۔۔ یہ کون ہے؟ ۔۔۔ مائی سپنھی نے خالد قریشی کی طرف اشارہ کیا۔
مائی پنکھی۔ یہ میرا دوست ہے، تھانے دار خالد قریشی۔ یہ تجھ سے ملنے کا خواہش مند تھا ۔۔۔ دلدار بخش نے تعارف کرایا۔ پھر مٹھائی کا ڈ یا اٹھا کر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا ۔۔
یہ تیرے لیے مٹھائی لایا ہوں۔ لاہور کی سب سے بڑی دکان کی ہے ۔۔
مائی پنکھی نے ڈبا اس کے ہاتھ سے لے کر چارپائی پر رکھ دیا اور بولی ۔۔ کاکا ۔۔ میں تو مٹھائی نہیں کھاتی ۔۔
مائی پنکھی کا جواب سن کر خالد قریشی کی نوک زباں پر بےاختیار جملہ آیا ۔۔ تو پھر کیا زھر کھاتی ہے ۔۔ لیکن وہ کہتے کہتے رک گیا۔ اور بولا ۔۔ مائی پھر تو کیا کھاتی ہے؟ ۔۔
کاکا ۔۔ میں سنکھیا کھاتی ہوں ۔۔ مائی پنکھی نے بڑی سادگی سے کہا۔
خالد قریشی بڑا حیران ہوا۔ اس کا مطلب ہے اس نے جو سوچا، سچ سوچا تھا۔ پھر بھی اس نے وضاحت چاہی ۔۔
سنکھیا ۔۔ یعنی زہر ۔۔
ہاں سنکھیا کے علاوہ میں افیون بھی کھاتی ہوں۔ بس تو یوں سمجھ لے منھائی میرے لئے زہر ہے ۔۔
پھر ہیروئن پیا کر ۔۔
ہش ۔۔ ماٸی پنکھی عجیب انداز میں بولی۔۔ ہیروئن بچے پیتے ہیں۔ کاکا ۔۔ اگر تجھے کہیں سے اصلی افیون مل جائے تو لے آنا ۔۔
مائی پنکھی ۔۔ یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ۔۔۔ دلدار بخش نے کہا۔ اچھا ۔۔ مٹھائی نہیں کھانی تو نہ کھا۔ ہمیں تو کھلا ۔۔
اچھا ۔۔۔ مائی پنکھی نے ڈبا کھولا تو اس میں مٹھائی کے اوپر ایک لفافہ رکھا دکھائی دیا۔ اس نے پوچھا۔۔
کاکا ۔۔ اس میں کیا ہے؟ ۔۔
مائی پنکھی کھول کر دیکھے گی تو پتا چلے گا نا ۔۔۔ دلدار بخش بولا۔
مائی پنکھی نے لفافہ کھول کر دیکھا تو اس میں ہزار روپے کے پانچ نوٹ رکھے نظر آئے ۔ مائی پنکھی نے لفافہ جوں کا توں بند کر کے مٹھائی پر رکھا اور ہنس کر بولی ۔۔
کاکا ۔۔ پولیس تو رشوت لیتی ہے۔ یہ اس نے دینا کب سے شروع کر دیا ۔۔
مائی پنکھی ۔۔ پولیس بھی انسان ہے۔ اس کی بھی کہیں گوٹ پھنس سکتی ہے ۔۔۔ خالد قریشی بولا ۔
اس کا مطلب ہے کہ تم لوگوں کی کوئی گوٹ پھنسی ہے۔ تبھی مٹھائی اور پیسے لے کر آئے ہو۔ او کاکا ۔۔ یہ اٹھا میرے سامنے سے۔ مجھے پیسہ چاہیے نہ مٹھائی۔ چل اپنا کام بتا ۔۔
جب خالد قریشی نے کام بتایا تو مائی پنکھی کے چہرے پر کئی رنگ آ کر گزر گئے ۔۔
وہ سوچنے لگی۔ پولیس والے کسی قسم کا کام اس کے پاس لے کر آئے ہیں ؟ اگر کوئی فلمی ہیروئن کسی بھی محفل میں رقص کرنے کے لئے راضی نہیں تو وہ اسے کیسے مجبور کر سکتی ہے۔
او کاکا ۔۔ وہ تم پولیس والوں کے قابو نہیں آتی تو میں بھلا کیا کر سکتی ہوں ۔۔۔ مائی پنکھی کو بالآخر کہنا پڑا۔
اس کی پہنچ بہت اوپر تک ہے۔ سمجھ رہی ہے نا تو بات کو ۔ ہم اگر کوئی ہتھکنڈا استعمال کریں تو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں ۔۔۔ خالد قریشی نے اندر کا حال کھولا۔
تو پھر اس کی جان چھوڑ دو۔ ناچنے والیاں بہت ۔۔۔ مائی پنکھی نے اپنی جان چھڑانے کی کوشش کی۔
مائی پنکھی ۔۔ نٸی ناچنے والیوں کا ہم نے انتظام کر لیا ہے۔ یہ سرکاری افسروں کی خاص محفل ہے۔ سب سے اونچے افسر کی فرمائش ہے کہ سمیرا کو ہر قیمت پر شامل کیا جائے ۔۔۔ خالد قریشی نے اپنی بے بسی ظاہر کرتے ہوٸے کہا۔۔ ماٸی پنکھی تو کچھ ایسا کام دکھا دے کہ وہ جانے پر مجبور ہو جائے ۔۔
اسے اچھے پیسے دو ۔ چلی جائے گی ۔۔۔ مائی پنکھی اپنے پروں پر پانی نہیں پڑنے دینا چاہتی تھی۔
میں نے خود اسے منہ مانگے پیسوں کی پیشکش کی ہے، پر وہ پیسوں کی بات ہی نہیں کرتی ۔ وہ کہتی ہے کہ مجھے ایک کروڑ روپے دو گے تب بھی نہیں جاؤں گی۔ میں نجی محفلوں میں پرفارم نہیں کرتی ۔ مائی پنکھی، بڑی نخریل ہے وہ ۔۔۔ خالد قریشی نے بتایا۔
اب تو کیا چاہتا ہے کہ میں اس کے نخرے توڑ دوں؟ ۔۔۔ اس نے اپنی چمکیلی آنکھوں سے خالد قریشی کو دیکھا۔
ہاں مائی پنکھی ۔۔ یہ ہوئی نا بات۔ کچھا ایسا کر دے کہ وہ انکار نہ کر سکے ۔۔
اچھا چل تو بھی کیا یاد کرے گا ۔۔۔ مائی پنکھی اپنے جوبن میں آگئی ۔۔ لا۔ ایک کاغذ دے مجھے۔ سادہ، کچھ لکھا نہ ہو اس پر ۔۔ خالد قریشی نے اپنی جیبیں کھنگال ڈالیں۔ جیبوں میں کاغذ تو تھے لیکن سادہ نہ تھے۔ جب دلدار بخش نے اپنی قمیض کی جیب سے چھوٹی ڈائری نکالی اور بولا ۔۔
مائی ۔۔ اتنے بڑے کاغذ سے کام چل جائے گا ؟ ۔۔
مائی پنکھی نے کھلی ہوئی ڈائری پر ایک نظر ڈالی اور کہا ۔۔
ہاں ۔۔ کاکا ۔۔
دلدار بخش نے ڈائری کا سادہ ورق پھاڑ کر مائی پنکھی کی طرف بڑھایا۔ مائی پنکھی کاغذ ہاتھ میں تھام کر چار پائی سے اٹھی اور بغیر کچھ کہے اندر کمرے میں چلی گئی۔
کچھ دیر کے بعد جب وہ واپس آئی تو کاغذ کی چار تہہ کر کے اس پر کالا دھاگا لپیٹا ہوا تھا۔ اس نے دھاگے میں لپٹا ہوا کاغذ خالد قریشی کی طرف بڑھایا اور تنبیہی انداز میں بولی ۔۔
لے او کاکا ۔۔ یہ پریم پتر اس کو دے دینا۔ کیا نام ہے اس کا ؟ ۔۔
"سمیرا " ۔۔۔ خالد قریشی جلدی سے بولا ۔
ہاں سمیرا ۔۔۔ مائی پنکھی کو یاد آیا۔۔ بےشک وہ مجھے نہیں جانتی لیکن اس سے کہنا یہی کہ مائی پنکھی نے بھیجا ہے۔ اسے کھول کر اچھی طرح دیکھ لے۔ اور ہاں ۔۔۔۔ میری ایک بات تو غور سے سن لے۔ اگر تو نے اسے کھول کر دیکھنے کی کوشش کی تو پھر تجھے ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ میرے پاس لوٹ کر مت آنا ۔۔
نہیں میں ایسی غلطی ہرگز نہیں کروں گا۔ پر مائی وہ جانے پر راضی ہو جائے گی؟ ۔۔۔ خالد قریشی نے تصدیق چاہی۔
یہ تو اسی وقت پتا چلے گا جب تو یہ پریم پتر اسے دے گا ۔۔۔ ماٸی پنکھی نے اقرار نہ کیا۔
ٹھیک ہے مائی ۔۔ ہم اب چلتے ہیں۔ تیرا بہت شکریہ خالدقریشی اٹھا تو اس کے ساتھ دلدار بخش بھی کھڑا ہو گیا۔ انہوں نے مٹھائی کا ڈبا نہ اٹھایا۔
جب وہ جانے لگے تو مائی پنکھی نے پیچھے سے آواز لگا کر کہا ۔۔ کاکا۔ یہ مصیبت اٹھاؤ یہاں سے۔ میری طرف سے اپنے بچوں کو کھلا دینا اور یہ پیسے پی پلا کر ختم کر دینا ۔
اچھا ۔۔ مائی پنکھی جیسی تیری مرضی ۔ ہم تجھے ناراض نہیں کرنا چاہتے ۔۔۔ خالد قریشی خوشامدانہ لہجے میں بولا ۔۔ میں بہت جلد تیرے لئے اعلیٰ قسم کی افیون لے کر آؤں گا ۔۔
ہاں کاکا ۔۔ یہ ٹھیک ہے ۔۔۔ مائی پنکھی کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی ۔۔
جب وہ دونوں گاڑی میں بیٹھنے لگے تو دلدار بخش بولا۔۔
یار ۔۔ یہ ماٸی نے کیا تعویذ سا پکڑا دیا۔ تیرا کیا خیال ہے کہ سمیرا اسے کھول کر دیکھ لے گی ؟
یہ بات خود میری سمجھ نہیں آ رہی۔ کہیں میں مذاق نہ بن جاؤں ۔۔۔ خالد قریشی بےیقینی سے بولا ۔
اس پریم پتر کو کھول کر نہ دیکھ لیں ۔۔۔ دلدار بخش کے اندر کا تجس جاگا۔
اوئے نہیں ۔۔ وہ سخت وارنگ دے چکی ہے۔ کہیں ہم مصیبت میں نہ پھنس جائیں ۔۔۔ خالد قریشی نے سمجھداری کا ثبوت دیا۔
چل پھر ۔۔ مائی کا پریم پتر سمیرا تک پہنچاٸیں ۔۔۔ دلدار بخش بولا ۔۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے ۔۔
جب وہ دونوں سمیرا کی کوٹھی پر پہنچے جو لاہور کے ایک پوش علاقے میں واقع تھی تو وہاں حیرت انگیز طور پر کچھ ایسا ہوا کہ دونوں پولیس افسران انگشت بدنداں رہ گئے۔
وہ گاڑی سے اتر کر گیٹ پر آئے تو وہاں موجود گارڈ نے خالد قریشی کو سلام کیا اور بیل کا بٹن دبا کر اندر سے گھر کے ملازم کو بلایا۔ یہ اچھی بات تھی کہ سمیرا گھر پر موجود تھی۔ وہ کچھ دیر کے بعد شوٹنگ پر جانے والی تھی۔
ذاتی ملازم نے دونوں پولیس والوں کو چھوٹے ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور کہا۔ میں میڈم کو جا کر بتاتا ہوں۔ جبکہ اس نے سمیرا کی اجازت سے ہی ڈرائنگ روم کھولا تھا۔
پندرہ منٹ کے انتظار کے بعد سمیرا انتہائی سنجیدہ انداز میں ڈراٸنگ روم میں داخل ہوٸی۔ اسے خالد قریشی کی آمد کی غرض وغایت کا اندازہ ہو گیا تھا۔ اس لئے اس نے پہلے ہی سے ایک لا تعلقی کا انداز اختیار کر لیا تھا۔
خالد قریشی اور دلدار بخش اسے دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے۔ سمیرا نے دلدار بخش پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی لیکن اس کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا۔ بے نیاز لہجے میں بس اتنا کہا۔۔
بیٹھیں ۔۔
یہ میرے دوست ہیں دلدار بخش۔ میرے ہم منسب۔ آپ کے بڑے پرستار ہیں۔ میرے ساتھ آپ کو دیکھنے چلے آئے ۔۔۔ خالد قریشی نے بساط کھولی۔
اچھا ۔۔۔ سمیرا نے ایک نظر دلدار بخش کو دیکھا اور بس۔
میں آپ کے لئے ایک خاص چیز لایا تھا ۔۔۔ خالد قریشی جلدی سے بٹوا نکال کر ماٸی پنکھی کا دیا ہوا پریم پتر نکالنے لگا۔ ساتھ وہ بولتا بھی جا رہا تھا ۔۔
ایک بزرگ خاتون ہیں، نام ان کا مائی پنکھی ہے، بڑی اللہ والی ہیں، انہوں نے ایک خاص چیز آپ کو بھجوائی ہے۔ پتا نہیں کیا ہے، آپ خود کھول کر دیکھ لیں ۔۔۔ اس نے نوٹوں کے درمیان سے دھاگے میں لپیٹا کاغذ اس کی طرف بڑھاتے ہوٸے کہا ۔۔ یہ لیں ۔۔
ایک پہنچی ہوئی بزرگ کا نام سن کر سمیرا نے بڑی دلچسپی سے اس کاغذ کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔
آپ اسے ہمارے سامنے کھول کر دیکھنا نہ چاہیں تو اندر چلی جائیں ۔۔۔ خالد قریشی نے مشورہ دیا۔
نہیں۔ میں اسے آپ کے سامنے ہی کھول کر دیکھوں گی۔ اس میں کہیں دھماکا خیز مواد تو نہیں بھرا ہے ۔۔۔ سمیرا نے مسکرا کر کہا۔
ہمیں اسے کھول کر دیکھنے کی اجازت نہیں ورنہ میں آپ کو کھول کر دے دیتا ۔۔۔ خالد قریشی بولا ۔
ارے نہیں ۔۔ میں ایسے ہی کہہ رہی تھی ۔۔۔ سمیرا نے ہنس کر کہا۔۔ میں یہیں بیٹھ کر کھولتی ہوں۔ ویسے عجیب تعویذ ہے جسے گلے میں ڈالنے کے بجائے کھول کر دیکھنے کو کہا گیا ہے ۔۔۔ سمیرا نے بہت تیزی سے کاغذ پر لپٹا ہوا کالا دھاگا کھول کر صوفے کے ہتھے پر رکھا اور ذرا سنبھل کر بیٹھی۔ پھر پرشوق نگاہوں سے وہ چھوٹا سالائنوں والا کاغذ کھولا۔
دونوں پولیس والے بغور اس کا چہرہ دیکھ رہے تھے۔
کاغذ کھولتے ہی سمیرا کے چہرے کی رنگت اڑ گئی۔ خالد قریشی اور دلدار بخش اندازہ نہ کر پائے کہ آخر سمیرا کو اس چھوٹے سے کاغذ میں کیا نظر آیا جسے مائی پنکھی نے پریم پتر قرار دیا تھا۔
کاغذ پر ایسا جانے کیا تھا کہ سمیرا ایکدم پریشان ہو گئی تھی۔ اس نے الجھے ہوئے لہجے میں پوچھا ۔۔ یہ مائی پنکھی کون ہیں ؟ ۔۔
ہم آپ کو ملوا دیں گے۔ پہلے ذرا اسلام آباد سے ہو آئیں ۔۔۔ خالد قریشی نے ترپ کا پتا پھینکا۔
اچھا۔ ہاں کب ہے آپ کا پروگرام ۔۔۔ سمیرا ایک دم راہ راست پر آ گئی۔
دو دن بعد ہفتے کی رات کو ۔۔ اتوار کی شام تک واپسی ہو جاٸے گی۔ میڈم، آپ چل رہی ہیں نا ۔۔۔ خالد قریشی نے پوچھا۔
سمیرا نے ایک نظر کاغذ پر ڈالی۔ اب وہاں کچھ نہ تھا محض سادہ کاغذ تھا۔ اس نے کاغذ کو مٹھی میں بھینچ کر اس پر تھوڑا سا دھاگا لپیٹ کر میز پر ڈال دیا اور بہت ٹھہرے لہجے میں بولی ۔۔ ہاں میں چل رہی ہوں ۔۔
بہت شکریہ میڈم آپ کا ۔۔ آپ ہفتے کی شام کو تیار رہنا۔ میں گاڑی لے کر آ جاؤں گا ۔ اب اجازت ۔۔۔ خالد قریشی فوراً کھڑا ہو گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ فیصلہ بدلے، اس کی نظروں سے اوجھل ہو جانا اچھا تھا۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ سمیرا بھی کھڑی ہوگئی۔
تجسس کے مارے دلدار بخش نے میز پر پڑی ہوئی اپنی ٹوپی اس انداز سے اٹھائی کہ وہ دھاگے میں لپٹا مڑا تڑا کاغذ ٹوپی کے اندر آ گیا۔ اس نے پورے اطمینان سے ٹوپی سر پر رکھی اور ڈرائنگ روم سے باہر نکل آیا۔ وہ اپنے اس کارنامے پر بہت خوش تھا۔
خالد قریشی سمیرا سے کچھ بات کرنے لگا تھا۔ وہ آنے جانے اور رقم کی تفصیلات سے اسے آگاہ کر رہا تھا۔ اتنے میں دلدار بخش اس کی کوٹھی سے باہر نکل آیا اور اپنی گاڑی میں آ بیٹھا۔
اس کاغذ میں ایسا کیا تھا جسے دیکھ کر سمیرا کے چہرے پر پریشانی دوڑ گی تھی، وہ یہ معلوم کرنے کے لئے بےچین تھا۔ اسٹیئرنگ سیٹ پر بیٹھ کر اس نے کوٹھی کے گیٹ کی طرف دیکھا۔ گیٹ بند تھا۔ ابھی خالد قریشی باہر نہیں آیا تھا۔
اس نے ٹوپی اتار کر کاغذ ہاتھ میں لیا اور ٹوپی سر پر جما لی۔ پھر کاغذ سے کالا دھاگا ہٹایا۔ اسے کھڑکی سے باہر پھینکا اور بڑی احتیاط سے کاغذ کو سیدھا کرنے لگا۔ جب اس نے کاغذ کھول کر اس پر نظریں جمائیں تو وہ منظر اس کا دل دہلانے کے لئے کافی تھا۔
اوٸے ۔۔ تم یہ پریم پتر وہاں سے اٹھا لائے ۔ یار بڑی صفائی سے کام دکھایا۔ کیا ہے اس کا غذ میں۔ مائی پنکھی نے تو کمال کر دیا۔ اس سو نخرے والی کے سارے نخرے توڑ دیئے ۔۔
اچانک خالد قریشی کو احساس ہوا کہ دلدار بخش اس کی بات نہیں سن رہا ہے۔ وہ گم صم بیٹھا تھا۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ اسے یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ خالد قریشی کب گاڑی کے پاس آ کھڑا ہوا اور گفتگو شروع کر دی۔
اوئے ۔۔ یار تجھے کیا ہوا ؟ خالد قریشی نے اس کا کندھا ہلایا اور گاڑی میں اس کے برابر آ بیٹھا ۔۔ دکھا کاغذ ۔۔
دلدار بخش نے کاغذ کسی روبوٹ کی طرح اس کی طرف بڑھا دیا۔ دیتے وقت اس نے یہ ضرور دیکھ لیا تھا کہ وہ کاغذ یکدم کورا تھا۔
خالد قریشی نے کاغذ اپنے دونوں ہاتھ میں پکڑ کر بڑے اہتمام سے اس پر نظر ڈالی۔ وہ منظر دوبارہ نمودار ہوا اور خالد قریشی کا بھی دل دہلا گیا۔ اب اسے پتا چلا کہ دلدار بخش کیوں سکتے کے عالم میں بیٹھا تھا۔
کاغذ پر جو منظر نمودار ہوا تھا ، وہ ان دونوں سے متعلق تھا۔ اس منظر سے سمیرا کا دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ تو پھر وہ اسلام آباد جانے پر کس طرح راضی ہوگئی تھی۔ خالد قریشی کو اچھی طرح یاد تھا کہ کاغذ کھولتے ہی سمیرا کا چہرہ فق ہو گیا تھا۔ آخر اس نے کاغذ پر کیا دیکھا تھا۔ ضرور اس نے کوئی ایسی چیز دیکھی تھی جس کے دباؤ میں آکر وہ اس رقص و سرود کی محفل میں جانے کے لئے تیار ہو گئی تھی۔ اسے اس بات سے دلچسپی نہیں تھی کہ وہ کیا دیکھ کر اسلام آباد جانے پر مجبور ہوگئی تھی۔ اسے اس بات کی خوشی تھی کہ مائی پنکھی نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا تھا۔ اور اب خالد قریشی کو پکی امید تھی کہ اس کے اس کارنامے پر ترقی تو ملے گی شاید کوئی پلاٹ بھی ہاتھ آ جائے۔
خالد قریشی وقت مقررہ پر اسلام آباد کے نواح میں اس شاندار فارم ہاؤس پر سمیرا کو لے کر پہنچ گیا جہاں یہ انتہائی خفیہ محفل سجائی گئی تھی۔ رقص کی اس محفل میں ایک وزیر اعلی ، چند اعلی سرکاری افسران اور پولیس کے منتخب افسران مدعو تھے۔
فارم ہاؤس کے سبزہ زار پر ایک لمبا اسٹیج بنایا گیا تھا۔ یہ اسٹیج چارفٹ اونچا تھا۔ اسٹیج کے شروع میں سیڑھیاں تھیں تا کہ رقاصہ ان سیڑھیوں کے ذریعے اسٹیج پر پہنچ سکے۔ اس اسٹیج کے چاروں طرف آرام دہ صوفے رکھے گئے تھے۔ ان صوفوں کے سامنے شیشے کی نفیس میزیں تھیں جن پر ناؤ نوش کا سامان سجایا گیا تھا اور اسٹیج تیز روشنیوں میں نہایا ہوا تھا۔
یہ خاص لوگوں کی محفل تھی۔ بیورو کریٹس اور پولیس افسران کی دو کیٹگریاں بنائی گئی تھیں ۔ اعلیٰ کیٹیگری کے لوگوں کے لئے رات بارہ بجے کے بعد پروگرام رکھا گیا تھا جبکہ ادنی کیٹیگری والوں کو ڈنر کے بعد چلے جانا تھا۔ بارہ بجے کے بعد صرف چارا داکاراؤں کو اپنے فن کا مظاہرہ کرنا تھا۔ ان میں سمیرا کے ساتھ دو انڈیا کی آٸیٹم گرلز بھی مدعو تھیں۔
خالد قریشی اور دلدار بخش سادہ لباس میں تھے۔ ان لوگوں نے مقامی رقاصاؤں کا رقص دیکھا ، کھایا پیا اور کرائے کی گاڑی میں بیٹھ کر عازم لاہور ہو گئے۔
سمیرا کے بارے میں منتظمین نے کہا تھا کہ وہ اس کی فکر نہ کرے، اسے بحفاظت لاہور پہنچا دیا جائے گا۔ خالد قریشی کو اس کی قطعا فکر نہ تھی۔ اس نے ایک ٹیڑھی کھیر کو منزل تک پہنچا دیا تھا۔ اب اسے بحفاظت پہنچایا جائے یا لنگڑا لولا کر کے ، اس کی بلا سے ۔
یہ ٹیڑھی کھیر یونہی سیدھی نہیں ہو گئی تھی۔ فلموں میں آنے سے پہلے سمیرا نرسنگ کے پیشے سے وابستہ تھی۔ اس کے چچا نے جائداد پر قبضہ کر لیا تھا۔ تنگدستی کی وجہ سے اسے نرس بننا پڑا۔ ٹریفک کے ایک حادثے میں ٹانگ تڑوا کر جب اس کا چچا اسپتال میں داخل ہوا تو سمیرا نے بیہوشی کی حالت میں ایک ایسا انجکشن لگا دیا جس کی وجہ سے اس کی موت یقینی تھی۔ کاغذ پر جو منظر دکھایا گیا، وہ یہ تھا کہ سمیرا چچا کو انجکشن لگا رہی ہے اور خوفزدہ نظروں سے دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی کہ کوٸی اندر نہ آجائے۔ وہ اپنے چچا کی قاتل تھی اور یہ بات اس کے سوا کسی کو معلوم نہ تھی لیکن اب کسی اور کو بھی معلوم ہو گئی تھی۔ تو جان بچانے کا آسان راستہ یہی تھا کہ اس نجی محفل میں شرکت کر کے کسی بڑی مصیبت سے خود کو محفوظ کر لیا جائے۔
سمیرا نے تو ہوش کے ناخن لے کر خود کو محفوظ کر لیا تھا لیکن ان دونوں نے اتنی چڑھا لی تھی کہ عقل ان کے ٹخنوں میں آ گئی تھی اور ہوش جاتے رہے تھے۔ وہ اسلام آباد ہائی وے پر جیٹ کی رفتار سے لاہور کی طرف چلے جا رہے تھے۔
خالد قریشی اس وقت ڈراٸیونگ کر رہا تھا اور دلدار بخش اس کے برابر بیٹھا مختلف رقاصاؤں کے خدوخال پر بےلگام تبصرہ کر رہا تھا۔
دونوں ہی بےقابو تھے۔ دلدار کو اپنی زبان پر قابو نہ تھا اور خالد قریشی کو اسٹیرنگ پر۔ اس وقت وہ یہ بھی بھولے ہوئے تھے کہ ان دونوں نے کاغذ پر جو ایک جیسا منظر دیکھا تھا، وہ اگر لائیو ہو گیا تو کیا ہوگا۔ خالد قریشی اور دلدار بخش نے باری باری جو منظر دیکھا، وہ ایک خطر ناک ایکسیڈنٹ کی نوید تھا۔ اب اس منظر کے زندہ ہونے کا وقت آچکا تھا۔ خالد قریشی نے تیز رفتار گاڑی پر قابو پانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ دوسری گاڑی سے ٹکرا کر قلا بازی کھاتی چلی گئی ۔
مائی پنکھی دونوں کو اندر لے آئی۔ اس نے دیوار سے لگی چارپائی کو دیوار سے ہٹا کر دونوں کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ دلدار پخش اور خالد قریشی دائیں بائیں سرہانے کی طرف بیٹھ گئے ۔ مائی پنکھی پائینتی کی جانب پٹی پر بیٹھ گئی۔ خالد قریشی بغور اس عجوبہ روزگار بڑھیا کو دیکھ رہا تھا۔ دلدار کے مقابلے میں اس کا مشاہدہ زیادہ تیز تھا۔
اسی سال کی ایسی چاق و چوبند بڑھیا جس کی کمر تیر کی طرح سیدھی اور آنکھوں میں مردنی کے بجائے بھرپور زندگی تھی۔ ایسی بڑھیا اس نے آج تک نہ دیکھی تھی۔ یہ بڑھیا اسے بڑے کام کی نظر آئی۔
او مائی ۔۔ تیرا نام کیا ہے؟ ۔۔۔ دلدار بخش نے بڑے نرم لہجے میں پوچھا۔
بڑی جلدی تجھے میرے نام کا خیال آ گیا ۔۔۔ مائی پنکھی نے طنزا کہا۔
کسی نے بتایا تو تھا، پر میں بھول گیا ۔۔۔ دلدار بخش نے بات بنائی۔
کاکا ۔۔ میرا نام پنکھی ہے ۔۔۔ مائی پنکھی نے بتایا ۔۔ سب مجھے مائی پنکھی کہتے ہیں ۔۔
مائی پنکھی تیرا شکریہ ۔۔۔ دلدار بخش نے مٹھائی کا ڈبا اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔۔ تو اس دن کمال نہ دکھاتی تو میرا بیٹا تو گیا تھا جیل میں ۔۔
کاکا ۔۔ یہ کون ہے؟ ۔۔۔ مائی سپنھی نے خالد قریشی کی طرف اشارہ کیا۔
مائی پنکھی۔ یہ میرا دوست ہے، تھانے دار خالد قریشی۔ یہ تجھ سے ملنے کا خواہش مند تھا ۔۔۔ دلدار بخش نے تعارف کرایا۔ پھر مٹھائی کا ڈ یا اٹھا کر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا ۔۔
یہ تیرے لیے مٹھائی لایا ہوں۔ لاہور کی سب سے بڑی دکان کی ہے ۔۔
مائی پنکھی نے ڈبا اس کے ہاتھ سے لے کر چارپائی پر رکھ دیا اور بولی ۔۔ کاکا ۔۔ میں تو مٹھائی نہیں کھاتی ۔۔
مائی پنکھی کا جواب سن کر خالد قریشی کی نوک زباں پر بےاختیار جملہ آیا ۔۔ تو پھر کیا زھر کھاتی ہے ۔۔ لیکن وہ کہتے کہتے رک گیا۔ اور بولا ۔۔ مائی پھر تو کیا کھاتی ہے؟ ۔۔
کاکا ۔۔ میں سنکھیا کھاتی ہوں ۔۔ مائی پنکھی نے بڑی سادگی سے کہا۔
خالد قریشی بڑا حیران ہوا۔ اس کا مطلب ہے اس نے جو سوچا، سچ سوچا تھا۔ پھر بھی اس نے وضاحت چاہی ۔۔
سنکھیا ۔۔ یعنی زہر ۔۔
ہاں سنکھیا کے علاوہ میں افیون بھی کھاتی ہوں۔ بس تو یوں سمجھ لے منھائی میرے لئے زہر ہے ۔۔
پھر ہیروئن پیا کر ۔۔
ہش ۔۔ ماٸی پنکھی عجیب انداز میں بولی۔۔ ہیروئن بچے پیتے ہیں۔ کاکا ۔۔ اگر تجھے کہیں سے اصلی افیون مل جائے تو لے آنا ۔۔
مائی پنکھی ۔۔ یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ۔۔۔ دلدار بخش نے کہا۔ اچھا ۔۔ مٹھائی نہیں کھانی تو نہ کھا۔ ہمیں تو کھلا ۔۔
اچھا ۔۔۔ مائی پنکھی نے ڈبا کھولا تو اس میں مٹھائی کے اوپر ایک لفافہ رکھا دکھائی دیا۔ اس نے پوچھا۔۔
کاکا ۔۔ اس میں کیا ہے؟ ۔۔
مائی پنکھی کھول کر دیکھے گی تو پتا چلے گا نا ۔۔۔ دلدار بخش بولا۔
مائی پنکھی نے لفافہ کھول کر دیکھا تو اس میں ہزار روپے کے پانچ نوٹ رکھے نظر آئے ۔ مائی پنکھی نے لفافہ جوں کا توں بند کر کے مٹھائی پر رکھا اور ہنس کر بولی ۔۔
کاکا ۔۔ پولیس تو رشوت لیتی ہے۔ یہ اس نے دینا کب سے شروع کر دیا ۔۔
مائی پنکھی ۔۔ پولیس بھی انسان ہے۔ اس کی بھی کہیں گوٹ پھنس سکتی ہے ۔۔۔ خالد قریشی بولا ۔
اس کا مطلب ہے کہ تم لوگوں کی کوئی گوٹ پھنسی ہے۔ تبھی مٹھائی اور پیسے لے کر آئے ہو۔ او کاکا ۔۔ یہ اٹھا میرے سامنے سے۔ مجھے پیسہ چاہیے نہ مٹھائی۔ چل اپنا کام بتا ۔۔
جب خالد قریشی نے کام بتایا تو مائی پنکھی کے چہرے پر کئی رنگ آ کر گزر گئے ۔۔
وہ سوچنے لگی۔ پولیس والے کسی قسم کا کام اس کے پاس لے کر آئے ہیں ؟ اگر کوئی فلمی ہیروئن کسی بھی محفل میں رقص کرنے کے لئے راضی نہیں تو وہ اسے کیسے مجبور کر سکتی ہے۔
او کاکا ۔۔ وہ تم پولیس والوں کے قابو نہیں آتی تو میں بھلا کیا کر سکتی ہوں ۔۔۔ مائی پنکھی کو بالآخر کہنا پڑا۔
اس کی پہنچ بہت اوپر تک ہے۔ سمجھ رہی ہے نا تو بات کو ۔ ہم اگر کوئی ہتھکنڈا استعمال کریں تو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں ۔۔۔ خالد قریشی نے اندر کا حال کھولا۔
تو پھر اس کی جان چھوڑ دو۔ ناچنے والیاں بہت ۔۔۔ مائی پنکھی نے اپنی جان چھڑانے کی کوشش کی۔
مائی پنکھی ۔۔ نٸی ناچنے والیوں کا ہم نے انتظام کر لیا ہے۔ یہ سرکاری افسروں کی خاص محفل ہے۔ سب سے اونچے افسر کی فرمائش ہے کہ سمیرا کو ہر قیمت پر شامل کیا جائے ۔۔۔ خالد قریشی نے اپنی بے بسی ظاہر کرتے ہوٸے کہا۔۔ ماٸی پنکھی تو کچھ ایسا کام دکھا دے کہ وہ جانے پر مجبور ہو جائے ۔۔
اسے اچھے پیسے دو ۔ چلی جائے گی ۔۔۔ مائی پنکھی اپنے پروں پر پانی نہیں پڑنے دینا چاہتی تھی۔
میں نے خود اسے منہ مانگے پیسوں کی پیشکش کی ہے، پر وہ پیسوں کی بات ہی نہیں کرتی ۔ وہ کہتی ہے کہ مجھے ایک کروڑ روپے دو گے تب بھی نہیں جاؤں گی۔ میں نجی محفلوں میں پرفارم نہیں کرتی ۔ مائی پنکھی، بڑی نخریل ہے وہ ۔۔۔ خالد قریشی نے بتایا۔
اب تو کیا چاہتا ہے کہ میں اس کے نخرے توڑ دوں؟ ۔۔۔ اس نے اپنی چمکیلی آنکھوں سے خالد قریشی کو دیکھا۔
ہاں مائی پنکھی ۔۔ یہ ہوئی نا بات۔ کچھا ایسا کر دے کہ وہ انکار نہ کر سکے ۔۔
اچھا چل تو بھی کیا یاد کرے گا ۔۔۔ مائی پنکھی اپنے جوبن میں آگئی ۔۔ لا۔ ایک کاغذ دے مجھے۔ سادہ، کچھ لکھا نہ ہو اس پر ۔۔ خالد قریشی نے اپنی جیبیں کھنگال ڈالیں۔ جیبوں میں کاغذ تو تھے لیکن سادہ نہ تھے۔ جب دلدار بخش نے اپنی قمیض کی جیب سے چھوٹی ڈائری نکالی اور بولا ۔۔
مائی ۔۔ اتنے بڑے کاغذ سے کام چل جائے گا ؟ ۔۔
مائی پنکھی نے کھلی ہوئی ڈائری پر ایک نظر ڈالی اور کہا ۔۔
ہاں ۔۔ کاکا ۔۔
دلدار بخش نے ڈائری کا سادہ ورق پھاڑ کر مائی پنکھی کی طرف بڑھایا۔ مائی پنکھی کاغذ ہاتھ میں تھام کر چار پائی سے اٹھی اور بغیر کچھ کہے اندر کمرے میں چلی گئی۔
کچھ دیر کے بعد جب وہ واپس آئی تو کاغذ کی چار تہہ کر کے اس پر کالا دھاگا لپیٹا ہوا تھا۔ اس نے دھاگے میں لپٹا ہوا کاغذ خالد قریشی کی طرف بڑھایا اور تنبیہی انداز میں بولی ۔۔
لے او کاکا ۔۔ یہ پریم پتر اس کو دے دینا۔ کیا نام ہے اس کا ؟ ۔۔
"سمیرا " ۔۔۔ خالد قریشی جلدی سے بولا ۔
ہاں سمیرا ۔۔۔ مائی پنکھی کو یاد آیا۔۔ بےشک وہ مجھے نہیں جانتی لیکن اس سے کہنا یہی کہ مائی پنکھی نے بھیجا ہے۔ اسے کھول کر اچھی طرح دیکھ لے۔ اور ہاں ۔۔۔۔ میری ایک بات تو غور سے سن لے۔ اگر تو نے اسے کھول کر دیکھنے کی کوشش کی تو پھر تجھے ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ میرے پاس لوٹ کر مت آنا ۔۔
نہیں میں ایسی غلطی ہرگز نہیں کروں گا۔ پر مائی وہ جانے پر راضی ہو جائے گی؟ ۔۔۔ خالد قریشی نے تصدیق چاہی۔
یہ تو اسی وقت پتا چلے گا جب تو یہ پریم پتر اسے دے گا ۔۔۔ ماٸی پنکھی نے اقرار نہ کیا۔
ٹھیک ہے مائی ۔۔ ہم اب چلتے ہیں۔ تیرا بہت شکریہ خالدقریشی اٹھا تو اس کے ساتھ دلدار بخش بھی کھڑا ہو گیا۔ انہوں نے مٹھائی کا ڈبا نہ اٹھایا۔
جب وہ جانے لگے تو مائی پنکھی نے پیچھے سے آواز لگا کر کہا ۔۔ کاکا۔ یہ مصیبت اٹھاؤ یہاں سے۔ میری طرف سے اپنے بچوں کو کھلا دینا اور یہ پیسے پی پلا کر ختم کر دینا ۔
اچھا ۔۔ مائی پنکھی جیسی تیری مرضی ۔ ہم تجھے ناراض نہیں کرنا چاہتے ۔۔۔ خالد قریشی خوشامدانہ لہجے میں بولا ۔۔ میں بہت جلد تیرے لئے اعلیٰ قسم کی افیون لے کر آؤں گا ۔۔
ہاں کاکا ۔۔ یہ ٹھیک ہے ۔۔۔ مائی پنکھی کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی ۔۔
جب وہ دونوں گاڑی میں بیٹھنے لگے تو دلدار بخش بولا۔۔
یار ۔۔ یہ ماٸی نے کیا تعویذ سا پکڑا دیا۔ تیرا کیا خیال ہے کہ سمیرا اسے کھول کر دیکھ لے گی ؟
یہ بات خود میری سمجھ نہیں آ رہی۔ کہیں میں مذاق نہ بن جاؤں ۔۔۔ خالد قریشی بےیقینی سے بولا ۔
اس پریم پتر کو کھول کر نہ دیکھ لیں ۔۔۔ دلدار بخش کے اندر کا تجس جاگا۔
اوئے نہیں ۔۔ وہ سخت وارنگ دے چکی ہے۔ کہیں ہم مصیبت میں نہ پھنس جائیں ۔۔۔ خالد قریشی نے سمجھداری کا ثبوت دیا۔
چل پھر ۔۔ مائی کا پریم پتر سمیرا تک پہنچاٸیں ۔۔۔ دلدار بخش بولا ۔۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے ۔۔
جب وہ دونوں سمیرا کی کوٹھی پر پہنچے جو لاہور کے ایک پوش علاقے میں واقع تھی تو وہاں حیرت انگیز طور پر کچھ ایسا ہوا کہ دونوں پولیس افسران انگشت بدنداں رہ گئے۔
وہ گاڑی سے اتر کر گیٹ پر آئے تو وہاں موجود گارڈ نے خالد قریشی کو سلام کیا اور بیل کا بٹن دبا کر اندر سے گھر کے ملازم کو بلایا۔ یہ اچھی بات تھی کہ سمیرا گھر پر موجود تھی۔ وہ کچھ دیر کے بعد شوٹنگ پر جانے والی تھی۔
ذاتی ملازم نے دونوں پولیس والوں کو چھوٹے ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور کہا۔ میں میڈم کو جا کر بتاتا ہوں۔ جبکہ اس نے سمیرا کی اجازت سے ہی ڈرائنگ روم کھولا تھا۔
پندرہ منٹ کے انتظار کے بعد سمیرا انتہائی سنجیدہ انداز میں ڈراٸنگ روم میں داخل ہوٸی۔ اسے خالد قریشی کی آمد کی غرض وغایت کا اندازہ ہو گیا تھا۔ اس لئے اس نے پہلے ہی سے ایک لا تعلقی کا انداز اختیار کر لیا تھا۔
خالد قریشی اور دلدار بخش اسے دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے۔ سمیرا نے دلدار بخش پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی لیکن اس کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا۔ بے نیاز لہجے میں بس اتنا کہا۔۔
بیٹھیں ۔۔
یہ میرے دوست ہیں دلدار بخش۔ میرے ہم منسب۔ آپ کے بڑے پرستار ہیں۔ میرے ساتھ آپ کو دیکھنے چلے آئے ۔۔۔ خالد قریشی نے بساط کھولی۔
اچھا ۔۔۔ سمیرا نے ایک نظر دلدار بخش کو دیکھا اور بس۔
میں آپ کے لئے ایک خاص چیز لایا تھا ۔۔۔ خالد قریشی جلدی سے بٹوا نکال کر ماٸی پنکھی کا دیا ہوا پریم پتر نکالنے لگا۔ ساتھ وہ بولتا بھی جا رہا تھا ۔۔
ایک بزرگ خاتون ہیں، نام ان کا مائی پنکھی ہے، بڑی اللہ والی ہیں، انہوں نے ایک خاص چیز آپ کو بھجوائی ہے۔ پتا نہیں کیا ہے، آپ خود کھول کر دیکھ لیں ۔۔۔ اس نے نوٹوں کے درمیان سے دھاگے میں لپیٹا کاغذ اس کی طرف بڑھاتے ہوٸے کہا ۔۔ یہ لیں ۔۔
ایک پہنچی ہوئی بزرگ کا نام سن کر سمیرا نے بڑی دلچسپی سے اس کاغذ کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔
آپ اسے ہمارے سامنے کھول کر دیکھنا نہ چاہیں تو اندر چلی جائیں ۔۔۔ خالد قریشی نے مشورہ دیا۔
نہیں۔ میں اسے آپ کے سامنے ہی کھول کر دیکھوں گی۔ اس میں کہیں دھماکا خیز مواد تو نہیں بھرا ہے ۔۔۔ سمیرا نے مسکرا کر کہا۔
ہمیں اسے کھول کر دیکھنے کی اجازت نہیں ورنہ میں آپ کو کھول کر دے دیتا ۔۔۔ خالد قریشی بولا ۔
ارے نہیں ۔۔ میں ایسے ہی کہہ رہی تھی ۔۔۔ سمیرا نے ہنس کر کہا۔۔ میں یہیں بیٹھ کر کھولتی ہوں۔ ویسے عجیب تعویذ ہے جسے گلے میں ڈالنے کے بجائے کھول کر دیکھنے کو کہا گیا ہے ۔۔۔ سمیرا نے بہت تیزی سے کاغذ پر لپٹا ہوا کالا دھاگا کھول کر صوفے کے ہتھے پر رکھا اور ذرا سنبھل کر بیٹھی۔ پھر پرشوق نگاہوں سے وہ چھوٹا سالائنوں والا کاغذ کھولا۔
دونوں پولیس والے بغور اس کا چہرہ دیکھ رہے تھے۔
کاغذ کھولتے ہی سمیرا کے چہرے کی رنگت اڑ گئی۔ خالد قریشی اور دلدار بخش اندازہ نہ کر پائے کہ آخر سمیرا کو اس چھوٹے سے کاغذ میں کیا نظر آیا جسے مائی پنکھی نے پریم پتر قرار دیا تھا۔
کاغذ پر ایسا جانے کیا تھا کہ سمیرا ایکدم پریشان ہو گئی تھی۔ اس نے الجھے ہوئے لہجے میں پوچھا ۔۔ یہ مائی پنکھی کون ہیں ؟ ۔۔
ہم آپ کو ملوا دیں گے۔ پہلے ذرا اسلام آباد سے ہو آئیں ۔۔۔ خالد قریشی نے ترپ کا پتا پھینکا۔
اچھا۔ ہاں کب ہے آپ کا پروگرام ۔۔۔ سمیرا ایک دم راہ راست پر آ گئی۔
دو دن بعد ہفتے کی رات کو ۔۔ اتوار کی شام تک واپسی ہو جاٸے گی۔ میڈم، آپ چل رہی ہیں نا ۔۔۔ خالد قریشی نے پوچھا۔
سمیرا نے ایک نظر کاغذ پر ڈالی۔ اب وہاں کچھ نہ تھا محض سادہ کاغذ تھا۔ اس نے کاغذ کو مٹھی میں بھینچ کر اس پر تھوڑا سا دھاگا لپیٹ کر میز پر ڈال دیا اور بہت ٹھہرے لہجے میں بولی ۔۔ ہاں میں چل رہی ہوں ۔۔
بہت شکریہ میڈم آپ کا ۔۔ آپ ہفتے کی شام کو تیار رہنا۔ میں گاڑی لے کر آ جاؤں گا ۔ اب اجازت ۔۔۔ خالد قریشی فوراً کھڑا ہو گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ فیصلہ بدلے، اس کی نظروں سے اوجھل ہو جانا اچھا تھا۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ سمیرا بھی کھڑی ہوگئی۔
تجسس کے مارے دلدار بخش نے میز پر پڑی ہوئی اپنی ٹوپی اس انداز سے اٹھائی کہ وہ دھاگے میں لپٹا مڑا تڑا کاغذ ٹوپی کے اندر آ گیا۔ اس نے پورے اطمینان سے ٹوپی سر پر رکھی اور ڈرائنگ روم سے باہر نکل آیا۔ وہ اپنے اس کارنامے پر بہت خوش تھا۔
خالد قریشی سمیرا سے کچھ بات کرنے لگا تھا۔ وہ آنے جانے اور رقم کی تفصیلات سے اسے آگاہ کر رہا تھا۔ اتنے میں دلدار بخش اس کی کوٹھی سے باہر نکل آیا اور اپنی گاڑی میں آ بیٹھا۔
اس کاغذ میں ایسا کیا تھا جسے دیکھ کر سمیرا کے چہرے پر پریشانی دوڑ گی تھی، وہ یہ معلوم کرنے کے لئے بےچین تھا۔ اسٹیئرنگ سیٹ پر بیٹھ کر اس نے کوٹھی کے گیٹ کی طرف دیکھا۔ گیٹ بند تھا۔ ابھی خالد قریشی باہر نہیں آیا تھا۔
اس نے ٹوپی اتار کر کاغذ ہاتھ میں لیا اور ٹوپی سر پر جما لی۔ پھر کاغذ سے کالا دھاگا ہٹایا۔ اسے کھڑکی سے باہر پھینکا اور بڑی احتیاط سے کاغذ کو سیدھا کرنے لگا۔ جب اس نے کاغذ کھول کر اس پر نظریں جمائیں تو وہ منظر اس کا دل دہلانے کے لئے کافی تھا۔
اوٸے ۔۔ تم یہ پریم پتر وہاں سے اٹھا لائے ۔ یار بڑی صفائی سے کام دکھایا۔ کیا ہے اس کا غذ میں۔ مائی پنکھی نے تو کمال کر دیا۔ اس سو نخرے والی کے سارے نخرے توڑ دیئے ۔۔
اچانک خالد قریشی کو احساس ہوا کہ دلدار بخش اس کی بات نہیں سن رہا ہے۔ وہ گم صم بیٹھا تھا۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ اسے یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ خالد قریشی کب گاڑی کے پاس آ کھڑا ہوا اور گفتگو شروع کر دی۔
اوئے ۔۔ یار تجھے کیا ہوا ؟ خالد قریشی نے اس کا کندھا ہلایا اور گاڑی میں اس کے برابر آ بیٹھا ۔۔ دکھا کاغذ ۔۔
دلدار بخش نے کاغذ کسی روبوٹ کی طرح اس کی طرف بڑھا دیا۔ دیتے وقت اس نے یہ ضرور دیکھ لیا تھا کہ وہ کاغذ یکدم کورا تھا۔
خالد قریشی نے کاغذ اپنے دونوں ہاتھ میں پکڑ کر بڑے اہتمام سے اس پر نظر ڈالی۔ وہ منظر دوبارہ نمودار ہوا اور خالد قریشی کا بھی دل دہلا گیا۔ اب اسے پتا چلا کہ دلدار بخش کیوں سکتے کے عالم میں بیٹھا تھا۔
کاغذ پر جو منظر نمودار ہوا تھا ، وہ ان دونوں سے متعلق تھا۔ اس منظر سے سمیرا کا دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ تو پھر وہ اسلام آباد جانے پر کس طرح راضی ہوگئی تھی۔ خالد قریشی کو اچھی طرح یاد تھا کہ کاغذ کھولتے ہی سمیرا کا چہرہ فق ہو گیا تھا۔ آخر اس نے کاغذ پر کیا دیکھا تھا۔ ضرور اس نے کوئی ایسی چیز دیکھی تھی جس کے دباؤ میں آکر وہ اس رقص و سرود کی محفل میں جانے کے لئے تیار ہو گئی تھی۔ اسے اس بات سے دلچسپی نہیں تھی کہ وہ کیا دیکھ کر اسلام آباد جانے پر مجبور ہوگئی تھی۔ اسے اس بات کی خوشی تھی کہ مائی پنکھی نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا تھا۔ اور اب خالد قریشی کو پکی امید تھی کہ اس کے اس کارنامے پر ترقی تو ملے گی شاید کوئی پلاٹ بھی ہاتھ آ جائے۔
خالد قریشی وقت مقررہ پر اسلام آباد کے نواح میں اس شاندار فارم ہاؤس پر سمیرا کو لے کر پہنچ گیا جہاں یہ انتہائی خفیہ محفل سجائی گئی تھی۔ رقص کی اس محفل میں ایک وزیر اعلی ، چند اعلی سرکاری افسران اور پولیس کے منتخب افسران مدعو تھے۔
فارم ہاؤس کے سبزہ زار پر ایک لمبا اسٹیج بنایا گیا تھا۔ یہ اسٹیج چارفٹ اونچا تھا۔ اسٹیج کے شروع میں سیڑھیاں تھیں تا کہ رقاصہ ان سیڑھیوں کے ذریعے اسٹیج پر پہنچ سکے۔ اس اسٹیج کے چاروں طرف آرام دہ صوفے رکھے گئے تھے۔ ان صوفوں کے سامنے شیشے کی نفیس میزیں تھیں جن پر ناؤ نوش کا سامان سجایا گیا تھا اور اسٹیج تیز روشنیوں میں نہایا ہوا تھا۔
یہ خاص لوگوں کی محفل تھی۔ بیورو کریٹس اور پولیس افسران کی دو کیٹگریاں بنائی گئی تھیں ۔ اعلیٰ کیٹیگری کے لوگوں کے لئے رات بارہ بجے کے بعد پروگرام رکھا گیا تھا جبکہ ادنی کیٹیگری والوں کو ڈنر کے بعد چلے جانا تھا۔ بارہ بجے کے بعد صرف چارا داکاراؤں کو اپنے فن کا مظاہرہ کرنا تھا۔ ان میں سمیرا کے ساتھ دو انڈیا کی آٸیٹم گرلز بھی مدعو تھیں۔
خالد قریشی اور دلدار بخش سادہ لباس میں تھے۔ ان لوگوں نے مقامی رقاصاؤں کا رقص دیکھا ، کھایا پیا اور کرائے کی گاڑی میں بیٹھ کر عازم لاہور ہو گئے۔
سمیرا کے بارے میں منتظمین نے کہا تھا کہ وہ اس کی فکر نہ کرے، اسے بحفاظت لاہور پہنچا دیا جائے گا۔ خالد قریشی کو اس کی قطعا فکر نہ تھی۔ اس نے ایک ٹیڑھی کھیر کو منزل تک پہنچا دیا تھا۔ اب اسے بحفاظت پہنچایا جائے یا لنگڑا لولا کر کے ، اس کی بلا سے ۔
یہ ٹیڑھی کھیر یونہی سیدھی نہیں ہو گئی تھی۔ فلموں میں آنے سے پہلے سمیرا نرسنگ کے پیشے سے وابستہ تھی۔ اس کے چچا نے جائداد پر قبضہ کر لیا تھا۔ تنگدستی کی وجہ سے اسے نرس بننا پڑا۔ ٹریفک کے ایک حادثے میں ٹانگ تڑوا کر جب اس کا چچا اسپتال میں داخل ہوا تو سمیرا نے بیہوشی کی حالت میں ایک ایسا انجکشن لگا دیا جس کی وجہ سے اس کی موت یقینی تھی۔ کاغذ پر جو منظر دکھایا گیا، وہ یہ تھا کہ سمیرا چچا کو انجکشن لگا رہی ہے اور خوفزدہ نظروں سے دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی کہ کوٸی اندر نہ آجائے۔ وہ اپنے چچا کی قاتل تھی اور یہ بات اس کے سوا کسی کو معلوم نہ تھی لیکن اب کسی اور کو بھی معلوم ہو گئی تھی۔ تو جان بچانے کا آسان راستہ یہی تھا کہ اس نجی محفل میں شرکت کر کے کسی بڑی مصیبت سے خود کو محفوظ کر لیا جائے۔
سمیرا نے تو ہوش کے ناخن لے کر خود کو محفوظ کر لیا تھا لیکن ان دونوں نے اتنی چڑھا لی تھی کہ عقل ان کے ٹخنوں میں آ گئی تھی اور ہوش جاتے رہے تھے۔ وہ اسلام آباد ہائی وے پر جیٹ کی رفتار سے لاہور کی طرف چلے جا رہے تھے۔
خالد قریشی اس وقت ڈراٸیونگ کر رہا تھا اور دلدار بخش اس کے برابر بیٹھا مختلف رقاصاؤں کے خدوخال پر بےلگام تبصرہ کر رہا تھا۔
دونوں ہی بےقابو تھے۔ دلدار کو اپنی زبان پر قابو نہ تھا اور خالد قریشی کو اسٹیرنگ پر۔ اس وقت وہ یہ بھی بھولے ہوئے تھے کہ ان دونوں نے کاغذ پر جو ایک جیسا منظر دیکھا تھا، وہ اگر لائیو ہو گیا تو کیا ہوگا۔ خالد قریشی اور دلدار بخش نے باری باری جو منظر دیکھا، وہ ایک خطر ناک ایکسیڈنٹ کی نوید تھا۔ اب اس منظر کے زندہ ہونے کا وقت آچکا تھا۔ خالد قریشی نے تیز رفتار گاڑی پر قابو پانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ دوسری گاڑی سے ٹکرا کر قلا بازی کھاتی چلی گئی ۔
0 تبصرے