خوفناک مسکن - پارٹ 13

 
urdu stories online 8

ہماری بہو کے پیچھے یہ خبیث سمندر سے لگا ہے۔ بہو جب اپنی فیملی کے ساتھ ہاکس بے گئی تو ضرورت کے تحت ان جھاڑیوں میں چلی گئی جو ہٹ کے بائیں جانب موجود تھیں۔ اگرچہ ہماری بہو اپنی دو بہنوں کے ساتھ گئی تھی لیکن بہنیں جھاڑیوں کے باہر کھڑی رہی تھیں جبکہ یہ اندر چلی گئی تھی۔ ادھر کسی کے آنے کا امکان نہ تھا۔ سو احتیاطاً اپنی نگرانی کے لئے انہیں اپنے ساتھ لے گئی تھی۔
 
ہماری بہو کو یہ معلوم نہ تھا کہ ان جھاڑیوں میں کسی خبیث کا بسیرا ہے۔ بہو جھاڑیوں سے خوفزدہ ہو کر ضرور نکلی لیکن وہ یہ ادراک نہ کر سکی کہ کسی قسم کی بلا اس نے اپنے سر منڈھ لی ھے۔ اس طرح کی چیزیں بندے کے اندر داخل ہو جاتی ہیں۔ ان کا طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ یہ بندے کو مفلوج کر دیتی ہیں۔ اسے بیمار ڈال دیتی ہیں۔ اس کی رگوں میں خون کے ساتھ گردش کرنے لگتی ہیں۔ کسی کو اندازہ نہیں ہوتا کہ اس کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ متاثرہ بندے کو بھی کچھ نہیں معلوم ہوتا وہ خود کو بیمار سمجھتا ہے۔ اس خبیث نے بہو کو پوری طرح جکڑ لیا ہے۔ اس کے گھٹنے بیکار کر دیئے ہیں۔ دم کئے ہوئے پانی سے وہ وقتی طور پر سنبھل گئی ہے لیکن یہ مستقل علاج نہیں۔ ہمیں بہو کو اس خبیث سے آزاد کرانا ہو گا ۔۔

نثار ایوب ، پروفیسر کی کہانی منہ کھولے سن رہے تھے۔ اس انکشاف پر کہ ان کی بہو نازنین کسی کی چھیٹ میں ہے، وہ سخت پریشان ہو گئے تھے۔ گھبرا کر بولے ۔۔
پروفیسر مجاہد اب کیا ہوگا ؟ ۔۔
کچھ نہیں ہو گا۔ انگریز یہاں سے جائیں گے اور پاکستان آزاد ہو گا ۔۔۔ پروفیسر مجاہد نے بات کو ہنسی میں اڑانے کی کوشش کی۔
پروفیسر صاحب میں سنجیدہ ہوں ۔۔۔ نثار ایوب بولے۔
تو پیارے بھائی ۔۔ میں نے کون سی غیر سنجیدہ بات کی ہے۔ کیا انگریز کے جائے بغیر پاکستان آزاد ہو سکتا ہے؟ ۔۔۔ پرنالہ پھر وہیں گرا ۔
آپ مجھے معاف نہیں کر سکتے ۔۔۔ نثار ایوب کی پریشانی میں کوئی کمی نہ آئی ۔۔ میں بہت پریشان ہوں ۔۔
لیکن آپ کی پریشانی سے کیا ہوگا۔ وہ خبیث تو بھاگنے سے رہا ۔۔
پھر کون ہھگائے گا اسے؟ ۔۔
میں ہھگاؤں گا اس خبیث کو ۔ نثار ایوب، آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں ۔۔۔ پروفیسر مجاہد نے تسلی آمیز لہجے میں کہا ۔۔ جہاں سے وہ آیا ہے، اسے وہیں چھوڑ کر آنا ہو گا ۔۔
جان چھوڑ جائے گا وہ ؟ ۔۔۔ نثار ایوب نے پوچھا۔
کوشش تو میری یہی ہو گی ۔۔۔ پروفیسر مجاہد سنجیدگی سے بولے ۔۔ میں ایک سفید دھاگا دوں گا، اس میں سات گرہ لگی ہوں گی۔ یہ دھاگا اس جگہ سمندر میں پھینکنا ہو گا جہاں سے وہ پیچھے لگا تھا۔ بہو کو ساتھ لے جانا ہوگا، یہ کام آپ کی نگرانی میں ہو گا۔ علی نثار ہمراہ جاسکتے ہیں، بھابی کو بھی ساتھ لے جانا ہو گا ۔۔
پروفیسر صاحب کوئی پریشان کن مسئلہ تو در پیش نہیں ہو گا ۔۔۔ نثار ایوب جھجکتے ہوئے بولے ۔۔ کیا آپ ساتھ نہیں جائیں گے؟ ۔۔
نہیں ۔۔ میں ساتھ نہیں جاؤں گا۔ میں سیٹلائٹ کے ذریعے اس آپریشن کی نگرانی کروں گا۔ آخر کو میں کسی امریکی صدر سے کم ہوں ۔۔۔ ایک بار پھر ان کی رگ ظرافت پھڑکی۔
اچھا ۔۔۔ ان کی بات سن کر نثار ایوب مسکرائے بنا نہ رہ سکے ۔۔ جانا کب ہو گا ؟ ۔۔
آج کیا دن ہے؟ پھر فوراً ہی بولے ۔۔ آج تو اتوار ہے ۔ تو پیارے بھائی، آپ کو ہاکس بے جانا ہوگا جمعرات کی صبح ۔ ٹھیک ہے ۔۔
جمعرات کی صبح ساڑھے سات بجے کے قریب نثار ایوب اپنی بہو، بیٹے اور بیگم فریدہ کے ساتھ گاڑی میں ہاکس بے کی جانب عازم سفر ہوئے۔ پروفیسر مجاہد فجر کے بعد گھر آکر نثار ایوب کو دھاگا دے گئے تھے، ساتھ بتا گئے تھے کہ کیا کرنا، کیسے کرنا ہے۔
یہ بٹا ہوا دھاگا تھا، ڈوری نما۔ کوئی نو انچ لمبا ہو گا۔ اس میں سات گرہیں لگی تھیں۔ نثار ایوب نے بہت احتیاط سے اسے اپنی جیب میں رکھ لیا اور راستے بھر جیب پر ہاتھ رکھ کر تصدیق کرتے رہے کہ دھاگا جیب میں موجود ہے کہ نہیں۔
سر دست مسئلہ یہ تھا کہ اس جگہ کیسے پہنچا جائے جہاں دس ماہ پہلے نازنین کی فیملی نے پکنک منائی تھی۔ نازنین کو راستہ معلوم نہ تھا لیکن انہوں نے اتنا ضرور کہا تھا کہ اگر انہیں آس پاس کے علاقے میں پہنچا دیا جائے تو وہ ھٹ پہچان لیں گی۔ علی نثار نے نازنین کے بھائیوں سے بات کر کے اس ھٹ کی لوکیشن کا اندازہ کر لیا تھا۔ اس وقت گاڑی علی نثار ہی چلا رہے تھے۔
پروفیسر مجاہد کی ہدایت تھی کہ یہ دھاگا اسی ھٹ کے سامنے سمندر برد کیا جائے جہاں پہ پکنک منائی گئی تھی۔
اگر ہم اس جگہ نہ پہنچ سکیں تو ۔۔۔ نثار ایوب نے پوچھا تھا۔
نہیں ۔۔ ایسا نہیں ہوگا ۔ آپ لوگ ضرور وہاں پہنچ جائیں گے ۔۔۔ پروفیسر مجاہد کے لہجے میں یقین تھا۔
اور ایسا ہی ہوا۔ کسی خاص دقت کے بغیر وہ لوگ مطلوبہ ھٹ تک پہنچ گئے ۔ نثار ایوب نے اپنے بیٹے علی نثار کو گاڑی میں دونوں خواتین کے ساتھ چھوڑا اور خود سمندر کی طرف چلے۔

سڑک سے اترتے ہی ڈھلانی راستہ تھا جو ھٹ تک پہنچتے پہنچتے ہموار ہو گیا تھا۔ دائیں جانب گھنی جھاڑیاں تھیں۔ گاڑی میں موجود کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ نثار ایوب یہاں کیوں آئے ہیں ۔ البتہ علی نثار کو تھوڑا بہت اندازہ تھا کہ ابا، پروفیسر مجاہد کی دی ہوئی کوئی چیز سمندر برد کرنے آئے ہیں۔ پروفیسر نے جو کچھ بتایا تھا، وہ بس نثار ایوب تک محدود تھا۔ نثار ایوب بظاہر پورے اعتماد سے سمندر کی جانب بڑھ رہے تھے لیکن کبھی چند لمحوں کے لئے خوف کی ایک لہر آ کر گزر جاتی تھی۔ ھٹ کے دائیں جانب سے راستہ گھوم کر سمندر پر نکلتا تھا۔

اس وقت صبح کے نو بجے تھے۔ سورج پوری آب و تاب کے ساتھ روشن تھا۔ سمندر پر ابھی رش زیادہ نہیں تھا۔ ایک دو خاندان سمندر کی لہروں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ نثار ایوب نے اپنے جوتے اتار کر ریت پر رکھے اور پینٹ کے پائنچے چڑھا کر سمندر کی طرف بڑھے۔ جب وہ گھٹنوں تک پانی میں چلے گئے تو انہوں نے کھڑے ہو کر ایک نظر اپنے اطراف ڈالی۔ کوئی متوجہ نہ تھا۔

انہوں نے جیب سے دھاگا نکال کر اسے تہہ کیا اور جتنے زور سے اسے سمندر کی طرف اچھال سکتے تھے، اچھالا۔ اور فورا واپسی کے لئے قدم اٹھا دیئے۔ پروفیسر مجاہد کی خاص ہدایت تھی کہ جب دھا گا سمندر میں پھینک دو تو پھر پیچھے پلٹ کر مت دیکھنا۔ نثار ایوب نے من وعن ان کی ہدایات پر عمل کیا تھا۔ نازنین اور فریدہ گاڑی میں بیٹھی تھیں۔ علی نثار گاڑی سے اتر کر سڑک پر ٹہل رہے تھے۔ وہ بے چینی سے نثار ایوب کا انتظار کر رہے تھے۔ جیسے ہی وہ انہیں آتے نظر آئے ، وہ ان کی طرف لپکے اور قریب پہنچ کر بولے ۔۔
ابا جان ۔۔ ہو گیا کام؟ ۔۔
ہاں ۔ بیٹا ۔۔۔ نثار ایوب نے بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی؟ ۔۔۔ علی نثار نے پوچھا۔
نہیں بیٹا ۔۔۔ نثار ایوب بولے ۔۔ علی ۔ ادھر کا حال سناو۔ ادھر تو کوئی گڑبڑ نہیں ہوئی۔ نازنین نے پریشان تو نہیں کیا ؟ ۔۔
اہا جان ۔ جیسے ہی آپ سمندر کی طرف گئے تو نازنین نے گاڑی سے نکلنے کی کوشش کی تھی۔ امی نے بڑی مشکل سے نازنین کو سمجھا بجھا کر روکا ۔۔۔ علی نے بتایا۔
کیوں نکلنا چاہ رہی تھی؟ ۔۔۔ نثار ایوب نے پوچھا۔
وہ جھاڑیوں میں جانا چاہ رہی تھیں ۔۔۔ علی نثار نے بتایا۔
پھر ۔۔۔ نثار ایوب بولے۔
امی نے کہا کہ جب تک علی کے ابا جان نہیں آ جاتے تم باہر نہیں نکل سکتیں۔ وہ باہر نکلنے کو سختی سے منع کر گئے ہیں ۔۔۔ علی نثار نے کہا۔ وہ دونوں باتیں کرتے گاڑی تک آگئے تھے۔ علی نثار نے پوچھا۔۔ چلیں ابا ۔۔
ہاں ۔۔۔ نثار ایوب نے کہا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھ گئے۔ علی نثار گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ پر آ گئے۔
ابا جان ۔۔۔ نازنین نے پیچھے سے مخاطب کیا۔ ان کی آواز میں عجب وحشت سی تھی۔
نثار ایوب پریشان ہو گئے ۔ انہوں نے پلٹ کر کہا۔۔ "جی بٹیا۔"
ابا جان ۔ میری بات سنیں ۔۔
نثار ایوب کو محسوس ہوا جیسے نازنین کوئی خاص بات کرنا چاہ رہی ہیں۔ انہوں نے پوچھا ۔۔
" کیا اتر کر تمہارے پاس آجاؤں؟“
جی ابا جان ۔۔۔ نازنین کے چہرے پر ہوائیاں اُڑی ہوئی تھیں۔
نثار ایوب فورا گاڑی سے باہر آگئے اور پچھلے دروازے سے نازنین نے اترنے کی کوشش کی تو فریدہ نے انہیں پکڑ لیا اور سختی سے بولیں ۔۔ باہر مت نکلو ۔۔
بھٸی کیا مسئلہ ہے ۔۔۔ نثار ایوب نے بیوی سے مخاطب ہو کر کہا۔ کچھ نہیں ، آپ گاڑی میں بیٹھیں اور چلیں ۔۔۔ فریدہ فیصلہ کن انداز میں بولیں۔
نثار ایوب خاموشی سے فرنٹ سیٹ پر آ کر بیٹھ گئے تو پیچھے سے فریدہ کی آواز آئی ۔۔ علی ۔ جلدی چلو ۔۔
علی نثار نے تیزی سے گاڑی بیک کی اور پھر تیزی سے ہی گھما کر سڑک پر ڈال دی۔ نثار ایوب چاہ رہے تھے کہ کسی پبلک بوتھ سے ٹیلیفون کر کے پروفیسر مجاہد کو صورتحال سے آگاہ کر دیں لیکن راستے میں کوئی پبلک بوتھ نظر نہیں آیا۔ تب انہوں نے ایک جنرل اسٹور دیکھ کر گاڑی رکوائی اور علی سے کہا۔۔
بیٹا ۔ دیکھنا یہاں ٹیلیفون ہے کیا ؟ ۔۔
علی نے اسٹور سے واپس آ کر بتایا ۔۔ جی۔ ابا جان ۔ ٹیلیفون ہے ۔۔
نثار ایوب گاڑی سے اترے تو فریدہ بھی باہر آ گئیں اور ان کے پیچھے آتے ہوئے بولیں ۔۔ سنئے ۔۔
کیا ہوا ؟ ۔۔۔ نثار ایوب نے رک کر پوچھا۔
وہ نازنین کو واش روم کی شدید ضرورت ہے، پریشان ہو رہی ہے ۔۔۔ فریدہ نے کہا۔
لیکن یہاں کہاں جائے گی؟ ۔۔۔ نثار ایوب نے ادھر اُدھر نظریں گھمائیں۔ باٸیں ہاتھ ایک اور ذیلی سڑک تھی اور ساتھ کوارٹر نما گھر بنے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا۔۔ یہیں کسی گھر میں جانا ہو گا۔۔
ٹھیک ہے، میں لے جاتی ہوں ۔۔۔ فریدہ یہ کہہ کر گاڑی کی طرف بڑھیں۔
بیگم، ایک منٹ ۔۔۔ نثار ایوب نے انہیں روکا ۔۔ میں ذرا پروفیسر مجاہد کو فون کر کے آجاؤں۔ پھر آپ لے جائیے گا ۔۔

اچھا ۔۔۔ فریدہ نے اثبات میں گردن ہلاٸی اور گاڑی میں جا بیٹھیں ۔
دو منٹ بعد ہی نثار ایوب اسٹور سے باہر آ گئے اور نازنین کو واش روم لے جانے کا گرین سگنل دیتے ہوئے کہا۔۔ جلدی واپس آ جائیں ۔۔
دس پندرہ منٹ میں دونوں کی واپسی ہو گئی ۔ گھر کے مکیں بااخلاق تھے۔ انہوں نے خندہ پیشانی سے استقبال کیا۔ یہاں تک کہ چائے پینے کی پیشکش کی۔ نازنین جو دہشت زدہ اور الجھی ہوئی سی دکھائی دے رہی تھیں، وہ اب پرسکون ہو چکی تھی ۔
واپسی پر جانے کیوں اس قدر ٹریفک جام ہو گیا کہ گھنٹے ڈیڑھ دو گھنٹے کا سفر تین چار گھنٹے میں کیا۔ جب گھر پہنچے تو تھکن سے سب کا برا حال تھا۔
رات کو پروفیسر مجاہد، نثار ایوب کے گھر آگئے۔ انہوں نے تفصیل سے سارا حال سنا اور پھر اپنے مخصوص انداز میں بولے ۔۔ پیارے بھائی۔ آپ کا دورہ کامیاب رہا۔ وہ جہاں سے آیا تھا، اسے وہیں واپس بھیج دیا ہے۔ اس نے آخری کوشش کے طور پر بہو کو گاڑی سے نکال کر جھاڑیوں میں لے جانے کی کوشش کی تھی جسے بھابی نے ناکام بنا دیا ۔۔
اگر نازنین، بیگم کے کنٹرول میں نہ آتی اور جھاڑیوں میں چلی جاتی تو ۔۔۔ سوال ہوا۔
تو کچھ نہ ہوتا۔ تھوڑی بہت پیچیدگی ہو جاتی، ہم سنبھال لیتے ۔۔۔ پروفیسر مجاہد نے کہا۔
اب کیا کرنا ھے ۔۔
اللہ کا شکر ادا کرنا ہے ۔۔۔ پروفیسر مجاہد مسکرا کر بولے۔
اس کے علاوہ ۔۔۔ نثار ایوب نے پوچھا۔
آپ ذرا بہو کو بلوائیں، میں ایک نظر دیکھ لوں ۔ پھر آگے کا بتاتا ہوں ۔۔
ڈرائنگ روم کے اندرونی دروازے میں جا کر انہوں نے علی نثار کو آواز لگائی۔۔ علی۔ ذرا بہو کو تو لے کر آؤ ۔۔
جی اچھا ابا جان ۔۔۔ اندر سے آواز آئی۔
اس کی گھٹنے کی تکلیف کیسی ہے؟
کم ہے لیکن ختم نہیں ہوئی ۔۔
ایک آدھ ہفتے میں ختم ہو جائے گی ، انشاء اللہ ۔۔
کوئی احتیاط وغیرہ ۔۔
بس مغرب کے بعد بہو گھر سے باہر نہ نکلے۔ پروفیسر مجاہد نے کہا ۔ اور اگر نکلنا بہت ضروری ہو تو مغرب کے آدھ گھنٹے کے بعد گھر سے نکلے اور ٹیلیفون پر مجھے بتا دیں ۔۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ نثار ایوب نے کہا۔
اتنے میں نازنین علی نثار کے ساتھ ڈرائنگ روم میں آ گئیں۔ پروفیسر مجاہد نے انہیں اپنے سامنے والے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ایک نظر ادھ کھلے چہرے پر ڈالی اور دونوں ہاتھوں کے ناخنوں کو بغور دیکھا اور ایک پرسکون سانس لے کر بولے ۔۔ اللہ تیرا شکر ہے ۔۔ اس کے بعد نازنین سے مخاطب ہوئے ۔۔ بس جائیں بٹیا اللہ نے آپ پر بڑا کرم کر دیا ۔۔
نازنین نے ادب سے پروفیسر مجاہد کو سلام کیا اور علی نثار کے ساتھ ڈرائنگ روم سے نکل گئیں۔ 
 
پیارے بھائی بات یہ ہے ۔۔۔ نازنین کے جانے کے بعد پروفیسر مجاہد، نثار ایوب سے مخاطب ہو کر بولے ۔۔ سیلاب ہمیشہ تباہی لاتا ہے۔ جب وہ واپس جاتا ہے تو اپنی تباہی کے نشانات چھوڑ جاتا ہے۔ ان خبیثوں کا بھی یہی وتیرہ ہے۔ جب کسی لڑکی کو جکڑتے ہیں تو اسے توڑ پھوڑ کر رکھ دیتے ہیں اور واپسی پر اپنے اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔ اللہ مالک ہے، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ پانی کی ایک بوتل منگاؤ۔ میں پانی دم کر دیتا ہوں۔ بہو وہ پیتی رہے۔ پانی ختم ہونے لگے تو اس میں اور ملا لے ۔ ٹھیک ہے۔ ہاں ایک بات اور ۔۔۔
پھر جو بات پروفیسر مجاہد نے بتائی ، وہ خاصی چونکا دینے والی تھی ۔
ادھر دلدار بخش اور خالد قریشی کی گاڑی نے قلابازی کھائی اور ادھر مائی پنکھی کوٸلے سے لکیر کھنچتی کھینچتی رک گئی۔ اس نے اچانک ایک زور دار دھماکے کے ساتھ آگ کے شعلے اٹھتے دیکھے۔

نہیں مانے نا ۔۔ اب بھگتو ۔۔ زندہ جلو آگ میں ۔۔۔ مائی پنکھی غصے سے بولی ۔ انارہ چارپائی پر بیٹھی، مائی پنکھی کو بغور دیکھ رہی تھی۔ اس نے انارہ کو آج کی رات دوسرا گھر دکھانے کی بات کی تھی۔ مائی پنکھی چھ گھر بنا چکی تھی ، ساتواں بنانے جارہی تھی کہ یکدم غصے میں آ گئی۔
"اماں کیا ہوا ؟ کیوں غصہ کر رہی ہے؟ ۔۔۔ انارہ نے پوچھا۔
انجو ۔۔ دو پولسیے ہیں۔ منع کیا تھا کہ کاغذ مت دیکھنا لیکن نہیں مانے۔ اب بند گاڑی میں پڑے جھلس رہے ہیں۔ میں کیا کروں ؟ ۔۔۔ مائی پنکھی بولی ۔۔ اچھا چل دفع کر انہیں۔ آ جا ہم اپنا کھیل شروع کرتے ہیں ۔۔
اس نے پھر ساتواں گھر مکمل کیا اور پھسکڑ مار کر بیٹھ گئی اور انارہ سے بولی۔۔ چل انجو۔ چل آ جا۔ دوسرے گھر میں بیٹھ جا ۔۔
انارہ اسی انداز میں جس طرح مائی پنکھی بیٹھی تھی ، دوسرے گھر میں براجمان ہو گئی۔
مائی پنکھی نے گلے سے بھاری تعویذ اتار کر اسے بائیں ہاتھ پر رکھ کر مٹھی سختی سے بند کر لی اور انارہ سے بولی ۔۔
دیکھ انجو دیکھ ۔۔
یکدم انارہ کے سامنے ایک منظر کھلا۔ ایک تیرہ چودہ سال کی لڑکی اسکول یونیفارم میں کندھے پر بیگ لٹکائے گلی میں جاتی نظر آئی۔ یہ ایک چوڑی گلی تھی ، آمنے سامنے گھروں کے دروازے تھے، چھوٹے چھوٹے گھر، نچلے متوسط طبقے کی بستی ۔
یہ تیرہ چودہ برس کی لڑکی نویں کلاس کی طالبہ تھی۔ اٹھان اچھی تھی لہذا اپنی عمر سے دو برس بڑی نظر آتی تھی۔ گوری چٹی، دلکش آنکھیں مسحور کن سراپا۔ گلی محلے کے ہر لڑکے کی اس پر نظر تھی لیکن وہ اپنی نظریں ہمیشہ نیچی رکھتی۔ اسے علم ہی نہ ہوا کہ کون لڑکا کہاں کھڑا ہے اور کون اس کے پیچھے چل رہا ہے گلی کے آخر میں ایک چھوٹا سا چوک تھا، وہاں دو چار دکانیں تھیں۔ انہی میں ایک پنواڑی بھی تھا۔ باپ کے اچانک انتقال کے بعد اس کے سولہ ستر سالہ لڑکے نے دکان سنبھال لی تھی۔ اس کی دکان پر محلے کے نوجوان اوباش لڑ کے کھڑے رہتے تھے جو ہر آنے جانے والی لڑکی کو دیکھ کر اس پر کوئی جملہ کسنا یا کوئی گانا گا کر اپنی نا آسودہ خواہشوں کا اظہار کرنا، فرض اولین سمجھتے تھے۔

نویں کلاس کی یہ طالبہ افشاں ان کے خاص نشانے پر تھی لیکن اس کی شرافت کے سامنے اُن کی کوئی پیش نہیں چل رہی تھی۔ افشاں اپنی پڑوسی لڑکی طاہرہ کے ساتھ اسکول جایا کرتی تھی۔ طاہرہ کو نظریں نیچی رکھنے کی عادت نہ تھی۔ وہ اسکول جاتے ہوئے ارد گرد کھڑے لڑکوں کے بارے میں اپنی رننگ کمنٹری جاری رکھتی تھی ۔ افشاں اس کو کتنا ہی ٹوکتی لیکن اس کی صحت پر کوئی اثر نہ پڑتا۔

اس کمنٹری کا نتیجہ یہ نکلا کہ افشاں کے کان، آنکھیں بن گئے۔ وہ کافی عرصے سے کسی اسد نامی لڑکے کے بارے میں سن رہی تھی جو ان کے تعاقب میں رہتا تھا لیکن اس نے کبھی کوئی اوچھی حرکت نہیں کی تھی۔ وہ بس خاموشی سے ان کے پیچھے چلتا اور اسکول سے واپس لوٹ جاتا تھا۔ طاہرہ اکثر اسے اکساتی، نظریں اٹھا کر اس کی طرف دیکھنے کی فرمائش کرتی۔ یہ باور کرانے کی کوشش کرتی کہ وہ صرف افشاں کے لئے آتا ہے۔ افشاں ان باتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتی۔ طاہرہ نے جب دیکھا کہ افشاں کے دل کا موم چھلتا ہی نہیں تو اس نے ایک نیا گل کھلایا۔ ایک دن بےچین طاہرہ نے اپنے پاس سے گزرتے اسد سے بڑے رسان سے کہا ۔۔
یوں آخر کب تک پیچھا کئے جاؤ گے، کچھ منہ سے تو بول ؟ ۔۔ طاہرہ کی اس حرکت پر افشاں نے اس کے زور سے چٹکی لی۔ وہ بلبلا اٹھی ۔۔ مجھے کیوں نوچتی ہے، اس گونگے سے کیوں نہیں پوچھتی؟ ۔۔ پھر یکدم خیال آیا۔ کیا پتا کہیں یہ سچ سچ گونگا نہ ہو ۔
اسد مسکراتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ وہ کچھ نہیں بولا ۔
اس کے آگے جانے کے بعد افشاں نے طاہرہ کی اچھی خاصی خبر لی۔ اسے شدید غصہ آیا اور اس غصے میں اس نے طاہرہ سے دوستی توڑ لی۔
آج وہ اکیلی اسکول گئی اور واپس آئی تھی۔ اسے سب سے زیادہ پریشانی پان کی دکان پر کھڑے لڑکوں کے قریب سے گزرتے ہوئے ہوتی تھی ۔ طاہرہ ساتھ ہوتی تو وہ ہمت کر کے وہاں سے گزر جاتی تھی۔ آج اسکول جاتے اس دکان کے سامنے سے گزرتے اسے پسینے آ گئے تھے۔ ایک دو لڑکوں نے اس کا پیچھا بھی کیا تھا۔ انہی میں سے کسی لڑکے نے فلمی مکالمے بولتے ہوئے اس کا دوپٹہ کھینچنے کی کوشش کی تھی۔
نزدیک ہی اسد موجود تھا۔ وہ قد و کاٹھ کا اچھا تھا۔ اس نے اس سوکھے بڑے لڑکے کی اچھی خاصی پٹائی کر دی اور اسے بہ حفاظت اسکول تک چھوڑ کر گیا۔ اسکول کے گیٹ کے نزدیک پہنچ کر افشاں چند لمحوں کے لئے رکی۔ جیسے ہی اسد اس کے قریب آیا، اس نے پہلی بار نظر اٹھا کر اسد کو دیکھا اور دھیرے سے بولی ۔۔ آپ کا شکریہ ۔۔
پھر شکریہ ادا کر کے دو وہاں رکی نہیں۔ اس نے اسد کا جواب بھی سننے کی کوشش نہیں کی تھی۔

اسد اچھے ڈیل ڈول کا اٹھارہ انیس سال کا وجیہہ لڑکا تھا۔ وہ ایک نظر میں اس کی آنکھوں میں بس گیا۔ اس کے بعد خطوط کا سلسلہ شروع ہوا اور چلتا رہا۔
افشاں میٹرک میں پہنچ گئی۔ اب اسے سوتے جاگتے ، اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے، ہر وقت ہر جگہ اسد کا خیال رہنے لگا۔ اس کے اندر کی کیفیت بدل گئی۔ وہ جو ان معاملات سے دور بھاگتی تھی ، اب اس معاملے میں اندر تک اتر گئی۔ طاہرہ سے پھر دوستی ہو گئی۔ جو باتیں اسے پہلے بری لگتی تھیں ، اب وہ باتیں اچھی لگنے لگیں۔ اپنے دل کا حال تمام کہنے کے لئے اس نے طاہرہ کو راز دار بنا لیا۔
اسد نے اب باہر ملنے کا تقاضا شروع کیا۔ اس کے بےحد اصرار پر وہ طاہرہ کے ساتھ ایک پارک میں ملنے لگی۔ طاہرہ پارک میں جا کر الگ ہو جاتی اور وہ دونوں کسی تنہا بنچ پر جا بیٹھتے۔ ایسا دو تین بار ہوا۔ اسد کو طاہرہ کی موجودگی کھٹکتی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ طاہرہ ان کی ملاقاتوں میں حائل نہ ہو لیکن افشاں خوفزدہ رہتی تھی۔ طاہرہ کی وجہ سے اسے تحفظ حاصل تھا۔

افشاں کے والد اور بھائی ایک گارمنٹس فیکٹری میں ملازم تھے۔ دیکھے جانے کی صورت میں اس پر قیامت ٹوٹ سکتی تھی۔ ایک دن اسکول سے چھٹی کے بعد اسکول سے باہر نکلی تو اسد گاڑی لئے سامنے کھڑا تھا۔ اس نے افشاں اور طاہرہ کو ساتھ بٹھایا۔ راستے میں اس نے افشاں کو بتایا کہ وہ اسے اپنی بڑی بہن سے ملانا چاہتا ہے۔ وہ اس سے ملنے کے بعد امی سے سفارش کریں گی۔ پھر امی ابو اس کے گھر آئیں گے۔ یہ ایک اچھی خبر تھی۔

افشاں چاہتی تھی کہ طاہر ہ بھی ساتھ چلے لیکن اس نے جانے سے انکار کر دیا تو اسد نے طاہرہ کو گھر کے نزدیک چھوڑا اور اسے لے کر آگے بڑھ گیا۔ اسد ایک باتونی لڑکا تھا۔ وہ راستے بھر افشاں کو شادی کے خواب دکھاتا آیا۔ افشاں بہت خوش تھی کہ اس کی زندگی میں ایک ایسا لڑکا آیا تھا جس نے اس سے کبھی کوئی غیر اخلاقی حرکت نہ کی تھی ، اب وہ اسے بڑی بہن سے ملانے لے جار ہا تھا کہ شادی میں حائل رکاوٹیں دور ہوں ۔
جب وہ دونوں ہنستے مسکراتے سیڑھیاں چڑھتے آخری یعنی چوتھے فلور کے ایک فلیٹ کے دروازے پر پہنچے تو اسد نے ایک ایسی حرکت کی کہ افشاں پریشانی میں مبتلا ہو گٸی ۔
اور بات تھی بھی پریشانی کی۔
اسد نے جینز کی جیب سے ایک لمبی چابی نکالی اور دروازے میں لگے تالے کے سوراخ میں ڈال دی اور اسے دیکھ کر مسکرا دیا۔
یہ آپ کی بہن کا گھر ہے؟ ۔۔۔ افشاں نے پریشان ہو کر پوچھا۔
ہاں ۔۔۔ اسد نے پورے اعتماد سے چابی گھمائی۔
کہاں ہیں اور ان کے گھر کی چابی آپ کے پاس کیوں ہے؟ ۔۔۔ افشاں کی گھبراہٹ بدستور تھی۔

اسد دروازہ کھولتے کھولتے رک گیا اور اس کی طرف پلٹتے ہوئے بولا ۔۔
باجی ایک اسکول میں ہیڈ مسٹریس ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر مجھے اسکول سے آنے میں دیر ہو جائے تو پریشان نہ ہونا یہ ڈپلیکیٹ چابی رکھ لو، دروازہ کھول کر اطمینان سے بیٹھ جانا اور افشاں کو کولڈ ڈرنک پلانا نہ بھولنا ۔۔۔ اتنا بول کر اس نے افشاں کی طرف دیکھا ۔۔ اب تم بیٹھنا نہ چاہو تو واپس چلتے ہیں ۔۔۔ یہ کہہ کر اس نے افشاں کے جواب کا انتظار نہ کیا۔ اور سیٹرھیوں کی طرف قدم بڑھائے ۔۔
" آؤ چلیں ۔"
نہیں اسد باچی برا مانیں گی۔ کچھ دیر انتظار کر لیتے ہیں ۔۔۔ افشاں بولی۔
" جیسی تمہاری مرضی ۔۔۔ یہ کہہ کر اس نے تیزی سے تالے میں چابی گھمائی اور دروازہ کھول کر اسے اندر آنے کی جگہ دی۔
جب وہ اندر آ گئی تو اسد نے لاؤنج کی لائٹ روشن کی۔ اگرچہ یہ دوپہر کا وقت تھا لیکن فلیٹ میں اندھیرا تھا۔ لاؤنج میں چار کرسیوں والی چھوٹی شیشے کی ڈائننگ ٹیبل پڑی تھی۔ افشاں نے اپنا بیگ ٹیبل پر رکھا۔ لاؤنج میں چاروں طرف نظریں گھمائیں۔ اسد نے دروازہ لاک کیا اور چابی تالے میں لگی چھوڑ دی۔ پھر اس نے ڈرائنگ روم کی لائٹ جلائی اور افشاں سے پوچھا۔۔ کہاں بیٹھیں گی محترمہ ؟
اسد ، یہیں بیٹھ جاتے ہیں ۔۔۔ افشاں ڈائننگ ٹیبل کی طرف بڑھتے ہوئے بولی۔ وہ چاہتی تھی کہ دروازے کے قریب رہے۔
اس کا مطلب ہے کہ افشاں صاحبہ کو خاصی بھوک لگی ہے ۔۔۔ اسد نے شرارت سے کہا۔
نہیں۔ جناب ایسی کوئی بات نہیں ۔۔۔ افشاں چور سی بن گئی۔
باجی کا گھر دیکھ لو۔ پھر جہاں دل چاہے بیٹھ جانا ۔۔۔ اسد نے بیڈ روم کی طرف قدم بڑھائے۔
اس فلیٹ میں دو بیڈ رومز تھے۔ نفاست سے سجے ہر کمرے سے بہن کا سلیقہ جھلکتا تھا۔ اسد بیڈ رومز کی لائٹ جلی چھوڑ کر اسے لاؤنج میں لے آیا اور بولا ۔۔ جی افشاں، کہاں بیٹھیں گی ۔۔
یہیں بیٹھ جاتے ہیں ۔۔۔ افشاں نے ڈائننگ ٹیبل کی ایک کرسی کھینچتے ہوئے کہا۔
بھئی اس سے پہلے کہ باجی آ جائیں، ہمیں کولڈ ڈرنک پی لینی چاہئے ۔ ورنہ وہ آتے ہی میری پٹائی کریں گی۔ آخر کو وہ ہیڈ مسٹریس ہیں ۔۔۔ اسد فریج کی طرف بڑھتے ہوئے بولا ۔
افشاں مسکرا کر رہ گئی۔ اسد نے ٹھنڈے مشروب کی بوتل نکالی۔ اس میں بمشکل ایک ڈیڑھ گلاس مشروب نظر آ رہا تھا۔ اس نے دو گلاس اور بوتل میز پر رکھی ، ڈھکن کھول کر مشروب گلاس میں انڈیلا ۔ اس بوتل میں اتنا ہی مشروب تھا کہ ایک گلاس بھر سکا۔
بھرا گلاس اسد نے افشاں کی طرف بڑھایا۔۔
" لیجے محترمہ آپ شروع کیجئے۔"
میں اکیلی پیوں کی کیا ؟ ۔۔۔ افشاں دوسرے خالی گلاس کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولی ۔۔ آدھا آدھا کر لیتے ہیں ۔۔
ارے نہیں ۔۔ اسد خالی گلاس اپنے قبضے میں کرتے ہوئے بولا ۔۔ فریج میں ایک بوتل اور ہے، میں وہ نکالتا ہوں ۔۔
دیکھ لیں۔ بوتل ہے بھی کہ نہیں ۔۔۔ افشاں ہنس کر بولی۔
ایسا نہیں ہو سکتا۔ میری باجی ایسا غیر زمہ دارانہ کام نہیں کر سکتیں کہ فریج میں بوتل نہ ہو اور پینے کی دعوت دے دیں ۔۔۔ اسد نے بڑے یقین سے کہا۔
فریج میں نئی بوتل موجود تھی۔ اس نے ڈھکن کھول کر اپنا خالی گلاس بھر لیا اور اس کے سامنے آ بیٹھا اور پھر گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے بولا ۔۔ پتا نہیں باجی کب آئیں گی۔ میرا خیال ہے کہ کولڈ ڈرنک پی کر نکلتے ہیں۔ بند گھر میں بیٹھنے سے کہیں بہتر ہے کہ باہر نکلیں۔ چلو سمندر پر چلتے ہیں ۔۔

چلیں گے۔ پہلے باجی سے تو مل لیں ۔۔۔ افشاں کے دل میں خالی گھر دیکھ کر جو ہول اٹھا تھا وہ اسد کی باتوں کے سبب ختم ہو گیا تھا۔ وہ پرسکون ہو گئی تھی اسے یقین آگیا تھا کہ اسد جو کہہ رہا ہے، وہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ گھر اسد کی باجی کا تھا۔ مگر باجی نے افشاں کو ملاقات کے لئے گھر بلایا تھا۔ یہ سو فیصد جھوٹ تھا۔ باجی بےچاری اپنی فیملی کے ساتھ کوئٹہ گئی ہوئی تھی۔ چابی وہ اپنی ماں کو دے گئی تھی کہ اسد کو بھیج کر گھر چیک کروا لیں کیونکہ بند گھر چوروں اور ڈاکوؤں کیلئے انتہائی کشش رکھتا ہے۔
بہن کا خالی گھر دیکھ کر اسد نے ڈاکے کی منصوبہ بندی کرلی تھی۔ اس وقت ڈاکے کا پہلا سین جاری تھا۔ کولڈ ڈرنک میں پہلے سے خواب آور دوا ملائی جا چکی تھی ۔ شکار اپنے انجام سے بےخبر خوشی خوشی مشروب نوش جاں کر رہا تھا اور شکاری کی آنکھوں میں گلاس خالی ہوتے دیکھ کر نشہ پڑھتا جا رہا تھا۔ اسد نے گلاس اٹھا کر مشروب کا آخری گھونٹ لیا اور افشاں کو اس طرح کا تاثر دیا جیسے وہ اس انتظار میں ہے کہ کب افشاں گلاس خالی کرے اور وہ لوگ یہاں سے نکلنے کی تیاری کریں۔
عجلت کے اس تاثر نے اپنا کام دکھایا۔ افشاں نے جلدی جلدی کولڈ ڈرنک کے گھونٹ بھرے اور گلاس خالی کر دیا۔ اسد نے دونوں خالی گلاس کچن میں جا کر دھوئے۔ بوتل فریج میں رکھی اور افشاں کی طرف دیکھا اور بولا ۔۔
ہاں افشاں چلیں۔ باجی تو آئی نہیں ۔۔

جی ۔۔۔ افشاں نے جواب دیا لیکن اسے یہ یاد نہ رہا کہ اسد نے اس سے کیا کہا تھا جس کے جواب میں اس نے جی کہا تھا۔ اس کے دماغ میں غبار سا بھر گیا تھا۔
اس سے قبل کہ وہ بےسدھ ہو کر کرسی سے گرتی، اسد نے اسے تھام لیا اور اٹھا کر بیڈ روم میں لے آیا۔

دو تین گھنٹے کے بعد جب افشاں کو ہوش آیا تو اسے اپنی تہی دامنی کا احساس ہوا۔ شکار ہو جانے پر اس کے دل میں شدید ٹیس سی اٹھی تھی۔ اس کی آنکھیں بےاختیار چھلک پڑیں۔ وہ تکیے میں منہ چھپا کر بلک بلک کر رونے لگی۔ اپنے لٹنے کا احساس تو تھا ہی، یہ غم اس سے سوا تھا کہ اسد نے اس کے ساتھ دھوکا کیا تھا، اس کا اعتماد پارہ پارہ کیا تھا۔ اسد نے ہاتھ جوڑ کر اس سے معافی مانگی اور کہا کہ گہری نیند میں اس کا حسن بلا خیز دیکھ کر وہ خود پر قابو نہ رکھ سکا۔ یہ نہ بتایا کہ کولڈ ڈرنک میں نیند کی گولی کس نے ڈالی تھی۔ اس نے بہن کے بارے میں بتایا کہ وہ اسکول میں ٹیچرز کی میٹنگ میں پھنس گئی تھیں، اس لئے آ نہ سکیں۔ یہ نہ بتایا کہ وہ اس شہر میں ہی نہیں تھیں اور آئندہ ان سے ملاقات کا کوئی امکان بھی نہیں۔
اسد نے اس کے آنسو پونچھ کر تسلی دی کہ وہ بہت جلد اپنے والدین کو اس کے گھر بھیجے گا۔ اگر والدین نہ مانے تو وہ اس سے کورٹ میرج کر لے گا، اسے اپنا بنا لے گا، وہ پریشان نہ ہو۔
لیکن پریشانی تو اس کا مقدر ہو چکی تھی۔ وہ افشاں کو گاڑی میں بٹھا کر اسے گھر کے قریب چھوڑ گیا، ہمیشہ کے لئے۔
گھر کا دروازہ کھلا تھا۔ وہ گھر میں داخل ہوئی تو ماں کچن میں چائے بنا رہی تھی۔ افشاں کچن کے سامنے سے گزرتی ہوئی کمرے میں چلی گئی۔ بیگ رکھ کر ابھی وہ شوز اتار رہی تھی کہ ماں اندر آ گئی اور آتے ہی سخت لہجے میں بولی ۔۔
کہاں تھی تو ؟
افشاں ایک سیدھی لڑکی تھی۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ ماں سے کیا کہے لیکن جواب بہر حال دینا تھا۔ وہ اتنا ہی کہ سکی۔۔ امی۔ میں اسکول میں تھی ٹیچر نے روک لیا تھا ۔۔ 
 
جھوٹ بولتی ہے تو۔ میں طاہرہ کے گھر گئی تھی، اس نے مجھے بتا دیا ہے کہ تو کسی کے ساتھ گئی تھی ۔۔۔ ماں نے اس کی اجڑی صورت دیکھ کر اندازہ لگا لیا کہ وہ کیا کر کے آ رہی ہے۔ اس نے افشاں کا جو تا اٹھایا اور اسے مارنے لگی۔۔ بتا تو کس کے ساتھ گئی تھی ؟"
وہ چپ چاپ پٹتی رہی اور روتی رہی۔ وہ کیا جواب دیتی، اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ اس کا جسم ہی نہیں ، روح بھی زخمی تھی۔
جب ماں مار مار کر تھک گئی تو اس نے جوتا پھینک دیا۔ تب افشاں نے ماں کا ہاتھ پلڑ کر کہا۔۔ 
 
امی مجھے اور ماریں۔ اتنا ماریں کہ میں مر جاؤں، میں زندہ نہیں رہنا چاہتی ۔۔
ہونے والی بات ہو کر رہی ۔۔ کوئی ٹونا ٹوٹکا کوئی گولی کام نہ آ سکی۔ جب کسی کا آنا ٹھہر گیا تو افشاں کی ماں زاہدہ کی روح تک کانپ گئی۔ رسوائی اور بدنامی نے اس کا گھر دیکھ لیا تھا۔ افشاں سے زیادہ زاہدہ کی حالت خراب تھی۔ جو ہونے والا تھا، وہ اسے کسی قیمت پر برداشت کرنے کو تیار نہ تھی۔ زاہدہ، افشاں کو ایک قریبی کلینک لے کر پہنچی۔ زاہدہ نے لیڈی ڈاکٹر کی منت سماجت کی۔ اس کے پاؤں تک پکڑے کہ وہ کسی طرح افشاں کو اس مصیبت سے نجات دلا دے لیکن اصول پسند ڈاکٹر ٹس سے مس نہ ہوئی۔ وہ قاتل ڈاکٹر بننے کے لئے ہرگز تیار نہ تھی۔
نہیں بی بی۔ میں یہ ہرگز نہیں کر سکتی ۔۔۔ بالآخر اس نے حتمی انداز میں فیصلہ سنا دیا۔ 
 
ڈاکٹر صاحبہ ۔ اگر آپ نے ہمیں رسوائی سے نجات نہ دلائی تو میں اپنی بیٹی کو زہر دے دوں گی ۔۔۔ زاہدہ نے اپنے دوپٹے سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
لیڈی ڈاکٹر کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہ تھا۔ وہ خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔ زاہدہ، افشاں کو لے کر کلینک سے نکل گئی لیکن لیڈی ڈاکٹر کے دل میں پھانس سی چبھا گئی۔ وہ ماں کا دکھ سمجھتی تھی لیکن اس کے پاس دکھ کا مداوا نہ تھا۔ بس وہ بے بسی سے سوچتی رہ گئی۔ لیڈی ڈاکٹر کے حتمی فیصلے کی طرح زاہدہ نے بھی حتمی فیصلہ کر لیا تھا۔ اگر ڈاکٹر اس کی بیٹی کو رسوائی سے نجات دلانے سے قاصر تھی تو کیا ہوا، وہ خود تو بے بس نہ تھی۔ وہ اپنی افشاں کو اس رسوائی سے نجات دلانے پر قادر تھی۔
اسی رات اس نے افشاں کو اس کے آخری انجام سے دو چار کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا۔ جب گھر کے سب افراد سو گئے تو زاہدہ نے اپنے برابر سوئی ہوئی افشاں کو اٹھایا ۔ اُٹھ جا بدبخت ۔۔
امی کیا ہوا ؟ افشاں آنکھ ملتی ہوئی اٹھ گئی۔
اب بھی کچھ اور ہونے کو باقی رہ گیا ہے ۔۔۔ زاہدہ نے بڑے زہریلے انداز میں کہا۔ " جا نہا کر آ "
امی ۔۔ کیوں ؟ یہ کون سا وقت ہے نہانے کا ۔۔۔ افشاں حیران تھی۔
اب تجھے اوپر جانا ہے۔ اچھا ہو گا کہ نہا دھو کر جائے ۔۔۔ زاہدہ نے عجیب لہجے میں کہا۔

ٹھیک ہے امی ۔۔۔ افشاں کو جیسے ساری بات یکلخت سمجھ میں آگئی۔ وہ اٹھ کر غسل خانے میں چلی گئی۔ دس منٹ کے بعد وہ واپس آئی تو اس کے چہرے پر بڑا نکھار تھا۔ چراغ بجھنے سے پہلے پھڑکتا ہے۔ اس کا چہرہ اس کیفیت کا غماز تھا۔
زاہدہ نے اس کے چہرے سے فورا نظر ہٹاتے ہوئے کہا۔۔ " بیٹھ"
افشاں زاہدہ کا حکم سن کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔ زاہدہ نے لکڑی کی الماری سے بوتل نکالی۔ وہ ایک شاپر میں لپٹی تھی۔ زاہدہ نے بوتل شاپر سے نکالی اور افشاں کو دیتے ہوئے بولی ۔
لے میری جان، پی جا اسے ۔۔
امی تم نے میری جان کہا ، اب یہ سفر میرے لئے آسان ہو گیا ، لاو بوتل دو مجھے ۔۔۔ افشاں نے ماں کے ہاتھ سے بوتل لے لی۔ پھر اس نے بوتل کا ڈھکن کھولا اپنا چہرہ اوپر اٹھایا، منہ کھولا اور تیزی سے تیزاب پیتی چلی گئی۔ تیزاب کے اندر جاتے ہی اس کی حالت خراب ہو گئی۔ وہ بری طرح کراہنے لگی۔ 
 
تب ہی انارہ چیخ پڑی ۔۔ اماں ، اماں ۔۔ اس منظر کو ہٹا میرے سامنے ہے۔ مجھ سے نہیں دیکھا جا رہا۔ میرے جسم میں آگ سی لگ گئی ہے ۔۔
مائی پنکھی یکدم چونکی اور جلدی سے بولی ۔۔ اچھا صبر کر ۔۔
یہ منظر انتہائی دلخراش تھا۔ افشاں کا سیال آگ میں جلتا وجود، اس کا تڑپتا جسم کسی بھی انسان کو خون کے آنسو رلا سکتا تھا۔ مائی پنکھی نے مٹھی کھول کر تیزی سے کچھ پڑھا اور دوسرے گھر میں بیٹھی انارہ پر پھونک ماری۔
انارہ کی آنکھوں کے سامنے یکدم گہرا اندھیرا چھا گیا۔ افشاں کا تڑپتا وجود اس کی آنکھوں کے سامنے سے اوجھل ہو گیا۔ بس انارہ گہرے اندھیرے میں گہرے سانس لیتی رہ گئی۔

اسے لگا تیزاب افشاں نے نہیں ، خود اس نے پیا تھا۔ ابھی تک اس کے وجود میں آگ لگی ہوئی تھی۔ وہ اس دل دہلانے والے منظر کو بھلا نہیں پا رہی تھی۔
چل اٹھ جا انجو ۔۔۔ مائی پنکھی نے چاندی کا بھاری تعویز اپنے گلے میں ڈالتے ہوئے کہا اور خود بھی ساتویں گھر سے نکل آئی۔ وہ چار پائی پر لیٹ گئی۔ اس پر شدید تھکن طاری تھی۔ 
 
انارہ اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے دوسرے گھر سے نکل آئی اور چارپائی کی پاٸنتی کی جانب بیٹھ گئی۔ اس نے مائی پنکھی کی لکڑی کی طرح سوکھی ٹانگوں کواپنی گود میں رکھ لیا اور آہستہ آہستہ دبانے لگی۔
مائی پنکھی اپنا ایک ہاتھ آنکھوں پر رکھے کچھ دیر یونہی لیٹی رہی۔ پھر اچانک بولی ۔۔ انجو۔ ابھی تو نے جو کچھ دیکھا، وہ کس کی جیون کتھا تھی؟
اماں۔ مجھے نہیں معلوم ۔۔۔ انارہ نے جانتے بوجھتے انکار کیا۔
جنم جلی - یہ تیری جیون کتھا تھی، تیرا دوسرا گھر ۔۔۔ مائی پنکھی نے اپنے پاؤں سکوڑتے ہوئے کہا۔۔ جا اب اندر چلی جا ۔۔
جاتی ہوں اماں ۔۔۔ انارہ اٹھتے ہوئے بولی۔۔ تو مجھے اپنے پاس بیٹھنے کیوں نہیں دیتی ؟
تو مجھ بڑھیا کے پاس بیٹھ کر کیا کرے گی ۔۔۔ مائی پنکھی نے ہنس کر کہا۔۔ ویسے بھی میرے پاس وقت کہاں ہوتا ہے۔ چل جا اب تو ۔
انارہ کوئی جواب دیئے بغیر کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے