وہ خبیث ، بہو کے وجود سے نکل ضرور گیا ہے لیکن جیسا میں نے کہا کہ سیلاب کی طرح اپنے اثرات چھوڑ گیا ہے۔ اب آپ کو اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ جیسے ہی بہو کا پاؤں بھاری ہو، مجھے فورا بتانا۔ بچے کی ولادت تک ہمیں بہو کا خاص خیال رکھنا ہوگا ۔ اب میں چلتا ہوں ۔ اللہ حافظ ۔۔۔
پروفیسر مجاہد اٹھتے ہوئے ہوئے۔
اس کا مطلب ہے کہ یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں ۔۔۔ نثار ایوب ساتھ چلتے ہوئے بولے۔
بس یوں سمجھ لیں کہ ہاتھی نکل گیا ہے، اس کی دم باقی رہ گئی ہے یا یوں کہہ لیں کہ پلکوں کی سوئیاں رہ گئی ہیں، جو اچھا لگے، وہ سمجھ لیں۔ پر حقیقت یہی ہے کہ ابھی آخری مرحلہ باقی ہے۔ اللہ بہتر کرے گا ۔۔۔ پروفیسر مجاہد نے کہا۔ نثار ایوب سے ہاتھ ملایا اور رخصت ہو گئے۔
یہ آخری مرحلہ ضرور تھا لیکن کسی معرکے سے کم نہ تھا۔ پاؤں بھاری ہوتے ہی پروفیسر مجاہد کو مطلع کیا گیا ۔ انہوں نے اسی دن مغرب کے بعد حاضری دی۔ بہو کو اپنے سامنے بٹھا کر دو تین منٹ کچھ پڑھا، پانی بھرے گلاس پر دم کیا اور نازنین کو پلا دیا اور بغیر ایک لفظ بولے گھر سے نکل گئے۔
دو گھنٹے کے بعد ان کا فون آیا کہ علی نثار کو میرے پاس بھیج دیں۔ نثار ایوب نے فورا علی کو پروفیسر مجاہد کے گھر روانہ کر دیا۔ پروفیسر مجاہد نے علی نثار کو نازنین کے پیٹ پر باندھنے کے لئے ایک گنڈا دیا اور کہا۔
" بہو سے کہنا کہ اسے ہر وقت پیٹ پر باندھے رکھے ، اسے کسی بھی صورت اُتارے نہیں۔"
جی اچھا ۔۔۔ علی نثار مؤدبانہ لہجے میں بولے۔
مغرب کے بعد گھر سے نکلنے پر سخت پابندی ہے ۔۔۔ پروفیسر مجاہد نے ایک اور ہدایت دی ۔۔ یہ پابندی کم از کم تین ماہ رہے گی، تین ماہ بعد بہو گھر سے باہر جاسکے گی لیکن میری اجازت کے بغیر نہیں ۔۔
جی ٹھیک ہے ۔۔۔ علی نثار نے کہا۔
دو ڈھائی ماہ خیریت سے گزر گئے پھر ایک واقعہ ہوا۔
نازنین اور علی نثار دوپہر کا کھانا کھا کر اپنی خالہ کے گھر سے واپس آ رہے تھے۔ وہ سیڑھیاں اتر رہے تھے، فلیٹ کی آخری پانچ چھ سیڑھیاں رہ گئی تھیں کہ اچانک علی نثار کو جانے کیا ہوا کہ وہ لڑھکتے ہوئے نیچے آ رہے۔ نازنین ان سے دو سیڑھیاں پیچھے تھیں۔ اپنے شوہر کو گرتے دیکھ کر ان کی چیخ نکل گئی۔ وہ کم سیڑھیوں سے گرے تھے لہذا کسی گہری چوٹ سے بج گئے، بس ہاتھوں اور کہنی پر معمولی چوٹیں آئیں۔
نثار ایوب نے فون کر کے پروفیسر مجاہد کو اس واقعہ سے مطلع کیا۔ انہوں نے علی نٹار سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ جب علی نثار فون پر آئے تو پروفیسر مجاہد نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا۔۔ ہاں بھئی، کہاں گرتے پھر رہے ہو۔ کیا ہوا تھا ؟
جواب میں علی نثار نے واقعہ بیان کیا۔
کیا سیڑھیوں پر کوئی پھسلن وغیرہ تھی ؟ ۔۔۔ پروفیسر مجاہد نے پوچھا۔۔ تمہارا پاؤں پھسلا تھا ؟ ۔۔
نہیں ۔۔ پاؤں نہیں پھسلا بلکہ مجھے یہ محسوس ہوا جیسے کسی نے دھکا دیا ہے ۔۔۔ علی نثار نے بتایا۔
لیکن پچھے تو تمہارے تمہاری بیگم تھی۔ کیا انہوں نے دھکا دیا تھا ؟ ۔۔۔ پروفیسر مجاہد بولے۔
نہیں، ایسا ممکن نہیں ۔۔۔ علی نثار نے کہا۔۔ ہو سکتا ہے یہ میرا وہم ہو ۔
ہاں بیٹا۔ ایسا ہی ہو گا ۔۔۔ پروفیسر مجاہد نے تسلی آمیز لہجے میں کہا۔
پندرہ بیس دن آرام سے گزر گئے۔ پھر ایک مسئلہ کھڑا ہوا ۔۔
آدھی رات کو اچانک نازنین کی آنکھ کھلی۔ کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔ نائٹ بلب بھی روشن نہ تھا۔ انہوں نے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا تھا۔ اس کی دہشت سے آنکھ کھلی تھی۔ کمرے میں اندھیرا پا کر وہ مزید حواس گم کر بیٹھی تھیں ۔ ابھی وہ سوچ ہی رہی تھیں کہ وہ کہاں ہیں اور انہوں نے خواب میں کیا دیکھا تھا کہ کسی نوزائیدہ بچے کے رونے کی چیخ نما آواز آئی۔
یہ آواز ان کے پہلو سے آئی تھی۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھیں اور جلدی سے کمرے کی لائٹ آن کی گھبرا کر بیڈ کی جانب دیکھا۔ بیڈ پر علی نثار موجود تھے اور وہاں کچھ نہ تھا۔
علی نثار کی لائٹ جلتے ہی آنکھ کھل گئی۔ ان کی نظر متوحش نازنین پر پڑی تو وہ پریشان ہو کر اٹھ بیٹھے۔
کیا ہوا نازنین ؟ ۔۔
نازنین علی نثار کے پاس آ بیٹھیں۔ وہ کانپ رہی تھیں۔ علی نثار نے انہیں قریب کرتے ہوئے پوچھا۔۔
" کیا ہوا۔ کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ لیا کیا ؟"
جی ڈراؤنا خواب تو دیکھا ہی ۔۔۔۔ لیکن آنکھ کھلتے ہی ایک عجیب بات ہوئی۔ پہلے یہ بتائیں یہ نائٹ بلب کس نے بند کیا ۔۔۔ نازنین نے نیلے زیرو واٹ کے بلب کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
میں نے تو بند نہیں کیا ۔۔۔ علی نثار نے بٹن کی طرف دیکھا جو آن تھا۔ وہ اٹھے اور بٹن کو آن آف کیا ، لب نہ چلا۔
" میرا خیال ہے فیوز ہو گیا ۔"
اس کمبخت نے بھی ابھی فیوز ہونا تھا ۔۔۔ نازنین نے غصہ کیا۔
کچھ بتاؤ تو، آخر ہوا کیا ؟ ۔۔۔ علی نثار، نازنین کے قریب آبیٹھے۔
تب نازنین نے اچانک خوفزدہ ہو کر آنکھ کھلنے کی بات کی۔ انہوں نے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا تھا۔ خواب انہیں یاد نہ تھا، بس ایک احساس تھا۔ پھر انہوں نے بتایا کہ اندھیرے میں یوں محسوس ہوا جیسے کوئی نوزائیدہ بچہ ان کے پہلو میں لیٹا چیخ رہا ہے ۔۔
مجھے لگتا ہے کہ یہ بھی تم نے خواب میں ہی دیکھا ۔۔۔ علی نثار نے نازنین کی ساری بات سن کر کہا۔
نہیں ۔۔ اس بچے کی چیخنے کی آواز میں نے پورے ہوش وحواس میں سنی ۔۔۔ نازنین اس چیخ کو خواب کا حصہ ماننے کو تیار نہ تھیں۔
اور ابھی یہ بحث چل رہی تھی کہ واش روم سے پھر ویسی ہی رونے کی چیخ نما آواز آئی۔ یہ آواز انتہائی کرخت اور تیز تھی۔
ھائے اللہ ۔۔۔ نازنین خوف کے مارے علی نٹار سے لپٹ گئیں۔۔ کیا آپ نے یہ آواز سنی ؟"
ہاں۔ میں دیکھتا ہوں ۔۔۔ علی نثار اٹھ کر واش روم کی طرف بڑھے۔
واش روم کا درواز مکمل بند نہ تھا تھوڑا سا کھلا ہوا تھا۔ علی نثار نے پورا دروازہ کھول دیا۔ اندر ملگجا سا اندھیرا تھا۔ کچھ دکھائی نہ دیا۔ انہوں نے واش روم کی لائٹ جلائی۔ اتنے میں نازنین بھی بیڈ سے اٹھ کر دروازے پر آگئی تھیں۔ علی نثار نے واش روم کے اندر جا کر اچھی طرح معائنہ کیا لیکن انہیں کہیں کوئی بچہ نہ دکھائی دیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ وحشت بڑھتی گئی۔ نازنین پر ہر دم ایک گھبراہٹ سی طاری رہنے لگی۔ پروفیسر مجاہد کا علاج جاری تھا۔ انہیں ہر بات سے آگاہ رکھا جا رہا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ جب تک بچے کی ولادت نہیں ہو جاتی ، اس قسم کے واقعات پیش آتے رہیں گے۔ بچے کی پیدائش کے بعد ہر طرف سکون چھا جائے گا۔
بچے کے جنم میں ابھی تین ماہ باقی تھے۔ نازنین وحشت میں مبتلا تھیں۔ جو کچھ ان پر بیت رہی تھی ، وہ ان کا سکون برباد کرنے کیلئے کافی تھی۔ اب انہیں صرف بچے کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی بلکہ بچہ بھی دکھائی دینے لگا تھا۔ عجیب الخلقت بچہ ۔ اس کے سر اور چہرے پر بے پناہ بال تھے کسی بن مانس کی طرح۔ وہ کسی بھی وقت کہیں بھی دکھائی دے جاتا۔
کبھی پہلو میں لیٹا غرا رہا ہوتا، کبھی قالین پر پڑا ہاتھ پیر مار رہا ہوتا، کبھی نازنین کپڑے نکالنے کیلئے الماری کھولتیں تو وہ کپڑوں پر پڑا انگوٹھا چوس رہا ہوتا۔ نازنین اسے جب بھی دیکھتیں ، ان کی دلخراش چیخ نکل جاتی۔ گھر کے افراد پریشان ہو کر ان کے کمرے کی طرف بھاگتے۔
" کیا ہوا۔ کیا ہوا ؟ ۔۔ سب پوچھتے۔
وہ بیڈ پر بیٹھی رو رہی ہوتیں۔ ان کا پورا جسم کانپ رہا ہوتا۔
فورا پروفیسر مجاہد کو اطلاع کی جاتی۔ وہ اگر گھر پر ہوتے تو بلا تاخیر آ جاتے ، جھاڑ پھونک کرتے ، پانی دم کر کے دیتے اور نازنین کے سر پر ہاتھ رکھ کر تسلی دیتے ۔۔ بیٹا۔ بس تھوڑا اور صبر کر لو، سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔
پھر ایک دن تو حد ہی ہو گئی ۔۔۔
دوپہر کا وقت تھا۔ نازنین کھانا کھا کر بیڈ پر نیم دراز تھیں ۔ بیڈ روم کا دروازہ کھلا تھا لیکن پردہ پڑا ہوا تھا۔ اتفاق سے وہ دروازے کی طرف ہی دیکھ رہی تھیں۔ اچانک پردہ بلا اور وہ نوزائیدہ شیطان بچہ چلتا ہوا اندر آیا اور بیڈ کے نزدیک آکر بولا ۔۔ اماں دو دو ۔۔
نازنین کے ہوش اُڑ گئے ۔ وہ چیخ بھی نہ سکیں ، ان کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا آ گیا۔ وہ اپنی سدھ بدھ کھو بیٹھیں۔ نازنین جانے کتنی دیر بے ہوش پڑی رہیں۔ فریدہ کسی وجہ سے کمرے میں آئیں تو انہوں نے نازنین کو بے ہوش پایا۔ وہ دوڑ کر اپنے شوہر نثار ایوب کے پاس گئیں، انہیں صورتحال سے آگاہ کیا۔ فوری طور پر نازنین کو اسپتال پہنچایا گیا۔ گمان یہ تھا کہ بلڈ پریشر یکدم ہائی ہونے کی وجہ سے نازنین پر بے ہوشی طاری ہوئی ہے۔ لیکن ایسا نہ تھا۔ بلڈ پریشر کنٹرول میں تھا لیکن دیگر معاملات کنٹرول میں نہ تھے۔
ایمرجنسی میں آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
وہ بیڈ پر بیٹھی رو رہی ہوتیں۔ ان کا پورا جسم کانپ رہا ہوتا۔
فورا پروفیسر مجاہد کو اطلاع کی جاتی۔ وہ اگر گھر پر ہوتے تو بلا تاخیر آ جاتے ، جھاڑ پھونک کرتے ، پانی دم کر کے دیتے اور نازنین کے سر پر ہاتھ رکھ کر تسلی دیتے ۔۔ بیٹا۔ بس تھوڑا اور صبر کر لو، سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔
پھر ایک دن تو حد ہی ہو گئی ۔۔۔
دوپہر کا وقت تھا۔ نازنین کھانا کھا کر بیڈ پر نیم دراز تھیں ۔ بیڈ روم کا دروازہ کھلا تھا لیکن پردہ پڑا ہوا تھا۔ اتفاق سے وہ دروازے کی طرف ہی دیکھ رہی تھیں۔ اچانک پردہ بلا اور وہ نوزائیدہ شیطان بچہ چلتا ہوا اندر آیا اور بیڈ کے نزدیک آکر بولا ۔۔ اماں دو دو ۔۔
نازنین کے ہوش اُڑ گئے ۔ وہ چیخ بھی نہ سکیں ، ان کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا آ گیا۔ وہ اپنی سدھ بدھ کھو بیٹھیں۔ نازنین جانے کتنی دیر بے ہوش پڑی رہیں۔ فریدہ کسی وجہ سے کمرے میں آئیں تو انہوں نے نازنین کو بے ہوش پایا۔ وہ دوڑ کر اپنے شوہر نثار ایوب کے پاس گئیں، انہیں صورتحال سے آگاہ کیا۔ فوری طور پر نازنین کو اسپتال پہنچایا گیا۔ گمان یہ تھا کہ بلڈ پریشر یکدم ہائی ہونے کی وجہ سے نازنین پر بے ہوشی طاری ہوئی ہے۔ لیکن ایسا نہ تھا۔ بلڈ پریشر کنٹرول میں تھا لیکن دیگر معاملات کنٹرول میں نہ تھے۔
ایمرجنسی میں آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
علی نثار اور پروفیسر مجاہد اسپتال پہنچ چکے تھے۔ پروفیسر مجاہد نے نثار ایوب کو ہدایت کر رکھی تھی کہ ڈلیوری کے وقت انہیں ضرور اسپتال بلوا لیا جائے۔ اگرچہ فطری طور پر بچے کی پیدائش میں کچھ وقت باقی تھا لیکن صورتحال کی نزاکت کے پیش نظر آپریشن ناگزیر تھا۔
یہ چھوٹا اسپتال تھا، بنیادی طور پر میٹرنٹی ہوم تھا۔ اس اسپتال کی روح رواں ایک تجربہ کار لیڈی ڈاکٹر نگہت خان تھیں۔ وہ اطلاع ملتے ہی اسپتال آچکی تھیں۔ آپریشن جاری تھا۔ پروفیسر مجاہد اسپتال کے پرائیویٹ روم میں بیٹھے سر جھکائے کچھ پڑھ رہے تھے۔ ایک کرسی پر نثار ایوب اور بیڈ پر علی نثار بیٹھے تھے۔ فریدہ آپریشن تھیٹر کے سامنے موجود تھیں۔ وہ دل ہی دل میں بہو کے بخیر وعافیت فارغ ہونے کی دعا مانگ رہی تھیں۔
آپریشن تھیٹر میں عجب پر اسراری سنسنی تھی۔ جیسے ہی بچے نے جنم لیا، پہلے تو ڈاکٹر نگہت کے ہاتھ کانپے۔ پھر کمزور دل نرس اسے دیکھتے ہی بے ہوش ہو گئی۔ آیا نے اسے ہاتھ لگانے سے انکار کر دیا۔ وہ چیختی ہوئی باہر بھاگی۔
ڈاکٹر نگہت کے ہاتھوں ہزاروں بچے دنیا میں آچکے تھے لیکن انہوں نے ایسا عجیب الخلقت بچہ آج تک نہیں دیکھا تھا۔ اس کا چہرہ ہالوں سے ڈھکا تھا، گول سی آنکھیں، سیاہ رنگت، غیر معمولی ہاتھ پاؤں جو اندر کی جانب مڑے ہوئے تھے۔
یہ انسان کا بچہ تھا ہی نہیں۔ پیدا ہوتے ہی اس نے انتہائی کریہہ چیخ ماری اور اٹھنے کی کوشش کی۔ اس بچے کو دیکھ کر آپریشن تھیٹر میں موجود اسٹاف کی جان نکل گئی۔ سب سے پہلے آیا تھیٹر سے نکل کر بھاگی، پھر بے ہوش نرس کے علاوہ وہاں کوئی نہ رہا۔ اگر ڈاکٹر نگہت مضبوط اعصاب کی نہ ہوتیں تو شاید وہ بھی بے ہوش پڑی ہوتیں یا سر پر پیر رکھ کر آپریشن تھیٹر سے بھاگ چکی ہوتیں۔
فریدہ نے چیختی ہوئی آیا کو تھیٹر سے نکلتے دیکھا تو وہ دل تھام کر رہ گئیں۔ آیا فریدہ کے قریب آئی اور بمشکل بولی ۔۔
خدا کی قسم ہاجی ۔۔ وہ انسان کا بچہ نہیں ۔۔
یا اللہ رحم یا اللہ خیر ۔۔۔ فریدہ یہ کہتی ہوئیں کمرے کی طرف بھاگیں۔
پروفیسر مجاہد اور نثار ایوب انہیں دروازے کے باہر ہی مل گئے۔ فریدہ کو خوفزدہ دیکھ کر وہ ان کی طرف بڑھے۔
بیگم، خیر تو ہے؟ ۔۔
وہ بچہ ۔۔ وہ بچہ ۔۔۔ فریدہ نے رک کر گہرا سانس لیا اور پھر بولیں ۔۔ وہ انسان کا بچہ نہیں۔ پتا نہیں کیا ہے ۔۔
پریشان نہ ہوں۔ اسے چادر میں لپیٹ کر باہر لے آئیں ۔۔۔ پروفیسر مجاہد جلدی سے بولے۔ وہ جانتے تھے کس کا بچہ ہے؟
ھائے نہیں ۔۔۔ فریدہ نے خوفزدہ ہو کر کہا۔
بیگم۔ میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں ۔۔ ڈریں نہیں۔ ڈاکٹر سے کہیں وہ بچہ ہمارے حوالے کر دے۔ میں دروازے پر کھڑا ہوں ۔۔۔ نثار ایوب نے فریدہ کا ہاتھ پکڑ کر آپریشن تھیٹر کی طرف لے جاتے ہوئے کہا۔
پھر اندر کیا ہوا؟ کس طرح ہوا؟ بہر حال فریدہ اس بچے کو چادر میں لپیٹ کر باہر لے آئیں۔ آپریشن تھیٹر کے دروازے پر نثار ایوب موجود تھے۔ انہوں نے لپک کر اس شیطان کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور تیر کی طرح وہاں سے نکلے۔
راستے میں پروفیسر مجاہد مل گئے۔ وہ اس غیر انسانی بچے کے لئے انتہائی مضطرب تھے۔ انہوں نے چادر کھول کر ایک نظر اس شیطان کو دیکھا۔ وہ انہیں دیکھ کر غیر انسانی آواز میں غرایا اور ہاتھ، پاؤں مارنے لگا۔
پروفیسر مجاہد نے اس کے چہرے پر چادر ڈالتے ہوئے کہا۔
وہ بچہ ۔۔ وہ بچہ ۔۔۔ فریدہ نے رک کر گہرا سانس لیا اور پھر بولیں ۔۔ وہ انسان کا بچہ نہیں۔ پتا نہیں کیا ہے ۔۔
پریشان نہ ہوں۔ اسے چادر میں لپیٹ کر باہر لے آئیں ۔۔۔ پروفیسر مجاہد جلدی سے بولے۔ وہ جانتے تھے کس کا بچہ ہے؟
ھائے نہیں ۔۔۔ فریدہ نے خوفزدہ ہو کر کہا۔
بیگم۔ میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں ۔۔ ڈریں نہیں۔ ڈاکٹر سے کہیں وہ بچہ ہمارے حوالے کر دے۔ میں دروازے پر کھڑا ہوں ۔۔۔ نثار ایوب نے فریدہ کا ہاتھ پکڑ کر آپریشن تھیٹر کی طرف لے جاتے ہوئے کہا۔
پھر اندر کیا ہوا؟ کس طرح ہوا؟ بہر حال فریدہ اس بچے کو چادر میں لپیٹ کر باہر لے آئیں۔ آپریشن تھیٹر کے دروازے پر نثار ایوب موجود تھے۔ انہوں نے لپک کر اس شیطان کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور تیر کی طرح وہاں سے نکلے۔
راستے میں پروفیسر مجاہد مل گئے۔ وہ اس غیر انسانی بچے کے لئے انتہائی مضطرب تھے۔ انہوں نے چادر کھول کر ایک نظر اس شیطان کو دیکھا۔ وہ انہیں دیکھ کر غیر انسانی آواز میں غرایا اور ہاتھ، پاؤں مارنے لگا۔
پروفیسر مجاہد نے اس کے چہرے پر چادر ڈالتے ہوئے کہا۔
" نثار ایوب، جلدی چلیں۔ یہ مرنے نہ پائے۔“
کمرے میں جا کر انارہ بیڈ پر بیٹھ گئی۔ اس کے دل کو سکون نہ تھا۔ بار بار افشاں کا تڑپتا جسم اس کی نگاہوں میں آ جاتا تھا۔ اسے اسد پر شدید غصہ آ رہا تھا جس نے معصوم افشاں کو انتہائی عیاری سے اپنے جال میں پھنسایا تھا۔ سزا تو اسے ملنی چاہئے تھی ، تیزاب تو اسے پلایا جانا چاہئے تھا۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ اُڑتی ہوئی چلی جائے اور اسے تیزاب سے بھرے ڈرم میں دھکا دے دے۔ لیکن وہ ایسا کر نہیں سکتی تھی۔ اس نے سوچا مائی پنکھی سے بات کرے۔ اس کی مدد سے وہ اسد کے ٹھکانے پر پہنچ جائے۔
وہ ایک جھٹکے سے اٹھی اور کمرے سے باہر نکل آئی۔
مائی پنکھی چار پائی پر بیٹھی جاپ میں مصروف تھی۔ انارہ کو کمرے سے باہر آتے دیکھ کر اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ وہ ابھی تک آزاد تھی، نہ صرف آزاد تھی بلکہ وہ کمرے سے بھی نکل آئی تھی۔ مائی پنکھی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی اور اسے ڈانٹتے ہوئے بولی ۔۔
انجو تو باہر کیوں آئی ۔۔ چل جلدی اندر چل ۔۔ میں تجھے زنجیر کروں ۔۔
اماں کر دیتا۔ میں کہیں بھاگی نہیں جا رہی ۔۔۔ انارہ نے اس کی ڈانٹ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہا۔۔ مجھے ایک بات بتا۔ اماں جس لڑکے کی وجہ سے مجھے تیزاب پینا پڑا، کیا میں اس سے انتقام نہیں لے سکتی ؟ اماں تو بڑی مہان ہے۔ بس ذرا مجھے اس لڑکے تک پہنچا دے۔ میں اسے جلا کر واپس آ جاؤں گی ۔۔
او میری انجو ۔۔ تو بڑی بھولی ہے۔ یہ گزرے وقتوں کی باتیں ہیں ۔ گزرے وقت کو چھیڑا نہیں جا سکتا ۔ لکھے کرموں کو بدلا نہیں جاسکتا۔ جو گزر گیا اسے بھول جا۔ ماضی میں جانا ممکن نہیں ، اگر تو اس طرح انتقام پر اترے گی تو تیرے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا، تو ادھر کی رہے گی نہ ادھر کی ۔۔۔ مائی پنکھی نے اسے سمجھانے کی کوشش کی ۔
اماں۔ بس میرا جی چاہا کہ اس کو زندہ آگ میں جلا دوں ۔۔۔ انارہ کو کسی کل چین نہ تھا۔
اس کا مطلب ہے کہ مجھ سے غلطی ہوئی ۔۔۔ مائی پنکھی بولی ۔ تجھ سے بھلا کیا غلطی ہوئی؟ انارہ اس کی بات نہ سمجھی۔ تیرا جیون تجھ پر کھول کر ۔۔۔ مائی پنکھی نے کہا۔
نہیں اماں ۔ ایسا نہ کہہ ۔۔۔ انارہ تڑپ کر بولی۔۔ میں چاہتی ہوں کہ مجھے اپنے بارے میں سب معلوم ہو۔ میں کون ہوں، میں یہ جانتا چاہتی ہوں ۔۔
بس یہی سوچ کر میں نے تجھ پر تیرا جیون کھولنا شروع کیا۔ جو روز میرے کان کھاتی تھی کہ اماں بتا میں کون ہوں ۔۔۔ مائی پنکھی اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔ بڑی مشکل سے مجھے اس بات کی اجازت ملی۔ اب میں آئندہ اس وقت ہی تیرے جیون کے بارے میں کچھ بولوں گی جب تو مجھ سے وعدہ کرے گی ۔۔
کیسا وعدہ اماں؟ ۔۔۔ انارہ نے پوچھا۔
یہی کہ جو کچھ دیکھے گی ، اسے دیکھ کر چپ رہے گی ۔۔
چل ٹھیک ہے اماں ۔ وعدہ کیا ۔۔۔ انارہ نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔۔ پر ایک بات ہے اماں ۔ یہ مرد ہم پر کب تک ظلم کرتے رہیں گے اور ہم کب تک چپ رہیں گے؟
مورکھ انجو ۔۔ تو نے ظلم دیکھے ہی نہیں۔ ایک وہ وقت تھا جب لڑکی کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ پتی کے مرتے ہی اس کی پتنی کو اس کے ساتھ چتا میں جلا دیا جاتا تھا اور وہ اف نہ کرتی تھی۔ عورت بیوہ ہو جاتی تو اسے جیتے جی مار دیا جاتا۔ اس کے جذبات پر پتھر برسائے جاتے۔ پر اب وہ کل جیسی عورت نہ رہی۔ مرد اس پر تیزاب پھینکتا ہے تو اب عورت بھی اس پر تیزاب ڈالنے لگی ہے۔ اب بیوی اپنے شوہر کو مار کر اس کا سالن بنانے لگی ہے۔ کل کی انارہ اور آج کی انارہ میں بڑا فرق ہے۔ کل کی انارہ خاموشی سے تیزاب پی گئی لیکن آج کی انارہ انتقام پر اتر آئی۔ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب بیوی ظالم شوہر سے چھٹکارا پانے کے لئے ہاتھ میں تیزاب سے بھری بوتل پکڑے گی اور اپنے شوہر سے کہے گی۔
مجھے فور اطلاق دے ورنہ میں پھینکتی ہوں تجھ پر تیزاب ۔ آج کوئی مرد اسے سگریٹ سے جلاتا ہے تو کل کوئی عورت گرم چمٹے سے اس کا جسم داغے گی ۔۔۔ مائی پنکھی اپنی دھن میں بولتی گئی۔
چھوڑ اماں ۔ جانے تو کیا خواب دیکھنے لگی ۔۔۔ انارہ نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔ دو چار مثالوں سے سماج نہیں بدلا کرتا ۔ سماج بدلنے کے لئے انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے، اور انقلاب مرد لایا کرتے ہیں۔ پھر عورتیں رہیں نا مفتوح کی مفتوح ۔۔
میری انجو تو نہیں جانتی کہ عورت کس قدر طاقتور ہوتی ہے۔ جب مرد کے اعصاب پر سوار ہوتی ہے تو اس کا سارا انقلاب، سمارا فلسفہ ساری عقل ٹخنوں میں آ جاتی ہے ۔۔۔ مائی پنکھی نے بڑے پتے کی بات کی ۔۔ عورت کو اپنا آپ کھوجنا چاہئے ۔ وہ کیسی دو دھاری تلوار ہے، اسے جاننا چاہئے ۔ وہ کیسا میٹھا زہر ہے، اسے سمجھنا چاہئے ۔۔
چھوڑ اماں ۔ جانے تو کیا خواب دیکھنے لگی ۔۔۔ انارہ نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔ دو چار مثالوں سے سماج نہیں بدلا کرتا ۔ سماج بدلنے کے لئے انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے، اور انقلاب مرد لایا کرتے ہیں۔ پھر عورتیں رہیں نا مفتوح کی مفتوح ۔۔
میری انجو تو نہیں جانتی کہ عورت کس قدر طاقتور ہوتی ہے۔ جب مرد کے اعصاب پر سوار ہوتی ہے تو اس کا سارا انقلاب، سمارا فلسفہ ساری عقل ٹخنوں میں آ جاتی ہے ۔۔۔ مائی پنکھی نے بڑے پتے کی بات کی ۔۔ عورت کو اپنا آپ کھوجنا چاہئے ۔ وہ کیسی دو دھاری تلوار ہے، اسے جاننا چاہئے ۔ وہ کیسا میٹھا زہر ہے، اسے سمجھنا چاہئے ۔۔
اماں ! ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دوسرے کے مظالم کی تو بات کرتے ہیں لیکن خود جو ظلم کر رہے ہوتے ہیں ، اس پر غور نہیں کرتے ۔۔۔ انارہ نے نیا موضوع چھیڑا۔
انجو کیا کہنا چاہتی ہے۔ صاف بول ۔۔۔ مائی پنکھی نے اسے گھورا۔ اماں اصاف بولی تو تو ناراض ہو جائے گی ۔۔
نہیں ہوں گی ناراض۔ تیرے دل میں جو آیا ہے، اسے باہر نکال ۔۔ ماں ! تو نے مجھے قید کر رکھا ہے، کیا یہ علم نہیں ؟ انارہ نے بڑے پیار سے بڑے میٹھے انداز میں کہا۔ ہم مردوں کی تو بات کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ عورت عورت پر زیادہ ظلم کرتی
ہے۔۔
اچھا۔ بہت بول لی ، اب چپ کر ۔۔۔ مائی پنکھی آئینے میں اپنی اصل شکل دیکھ کر غصہ ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔۔
چل اندر ۔۔ تو بلی ہی بھلی
تجھے کسی دن پنجہ ماروں گی، پھر پتا چلے گا میرے بلی ہونے کا ۔۔۔ انارہ یہ بات کہہ نہ سکی۔ بس سوچ کر رہ گئی اور سوچ عمل کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے۔
0 تبصرے