خوفناک مسکن - پارٹ 15

urdu stories online 10

وہ دونوں اسپتال سے باہر نکلے۔ نثار ایوب کے ہاتھوں میں وہ شیطان موجود تھا۔ چادر میں لپٹا ہونے کے باوجود وہ ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ اس میں نوزائیدہ بچے سے کہیں زیادہ طاقت تھی۔

اتفاق سے اسپتال کے گیٹ پر ہی ایک خالی رکشا مل گیا۔ وہ دونوں تیزی سے اس میں سوار ہو گئے اور قریبی قبرستان چلنے کو کہا۔ رکشا والا فورا چل پڑا۔
پروفیسر مجاہد مسلسل کچھ پڑھ رہے تھے۔ جیسے جیسے وہ پڑھ رہے تھے، وہ غیر انسانی بچہ اکڑتا چلا جا رہا تھا۔ اس کے ہاتھ پاؤں چلانے کے انداز میں سختی آتی جا رہی تھی۔ قبرستان پہنچ کر پروفیسر مجاہد نے کھڑے ہو کر ادھر ادھر دیکھا۔ شاید قبرستان کا جائزہ لیا اور پھر تیزی سے ایک طرف چل دیئے۔ پروفیسر مجاہد کی رفتار بہت تیز تھی ۔ نثار ایوب کو ان کے ساتھ چلنا دوبھر ہو رہا تھا۔
پروفیسر مجاہد مڑ کر ایک لمحے کو نثار ایوب کو دیکھتے اور انہیں اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتے۔ کافی اندر جا کر پروفیسر مجاہد ایک ٹوٹی قبر کے پاس ٹھہر گئے۔ راستے میں انہیں ایک پھاؤڑا اور پانی کا کنستر رکھا ہوا نظر آیا تھا۔ انہوں نے پھاؤڑا اٹھا لیا تھا۔ یہ پھاؤڑا ان کے ہاتھ میں تھا۔
ٹوٹی قبر کے برابر ایک اور قبر تھی۔ ان دونوں قبروں کے درمیان اتنی جگہ موجود تھی کہ اس شیطان کے لئے گڑھا کھودا جا سکتا تھا۔ نثار ایوب نے چاہا کہ پروفیسر مجاہد اس شیطان کو اپنے ہاتھوں میں لے لیں تو وہ خود اس کے لئے گڑھا کھود دیں۔ لیکن پروفیسر مجاہد نے انہیں منع کر دیا۔ یہ کام وہ خود کرنا چاہتے تھے۔ یہ ان کے عمل کا حصہ تھا۔
پیارے بھائی۔ اس منحوس کو کب تک گود میں اٹھائے رکھو گے۔ ارے پھینکو اسے زمین پر ۔۔۔ پروفیسر مجاہد نے آستین چڑھاتے ہوئے کہا۔
نثار ایوب نے چادر میں لپٹی اس غیر انسانی مخلوق کو زمین پر لٹا دیا اور وہ ابھی سیدھے کھڑے ہوٸے ہی رہے تھے کہ عقب سے ایک کرخت آواز آئی ۔۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ ۔۔
پروفیسر مجاہد نے پھاؤڑا چلاتے ہوئے مڑ کر دیکھا۔ نثار ایوب نے ایک نظر چادر میں لپٹے شیطان پر ڈالی جو بڑی تیزی سے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ پھر انہوں نے بھی پیچھے مڑ کر دیکھا۔
چند قدم کے فاصلے پر ایک ادھیڑ عمر گورکن حیران پریشان کھڑا تھا۔
یہ آپ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ ۔۔۔ اس نے دوبارہ پوچھا۔۔ قبر کھودنی تھی تو ہمیں بتاتے۔۔۔ ارے ۔۔۔ یہ بچہ تو زندہ ہے ۔۔
نثار ایوب ۔۔۔ پروفیسر مجاہد ان سے مخاطب ہوئے۔۔ یہ تجربے کار گور کن ہے۔ اس نے سینکڑوں مردے دفنائے ہوں گے۔ اسے یہ انسان کا زندہ بچہ سمجھ رہا ہے۔ ذرا اسے ، اس کا چہرہ تو دکھا دیں ۔۔۔ یہ کہہ کر وہ پورے اطمینان سے قبر کھودنے میں مصروف ہو گئے۔
آ جاؤ بھئی۔ زندہ بچہ دیکھ لو ۔۔۔ نثار ایوب نے خوفزدہ کرنے والے لہجے میں کہا۔ گورکن بغیر کچھ بولے دو قدم آگے بڑھ آیا اور ہلتی چادر پر نظریں جما دیں۔ نثار ایوب نے زمین پر پڑی اس غیر انسانی مخلوق کے چہرے سے بہت احتیاط سے چادر ہٹائی اور جیسے ہی چادر ہئی، اس شیطان نے ایک غیر انسانی چیخ ماری۔ چیخ کے ساتھ جب گورکن کی اس پر نظر پڑی تو ہر وقت مردوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کے باوجود وہ خود پر قابو نہ رکھ سکا۔ وہ گھبرا کر بولا ۔۔ ارے جلدی کرو، اس مصیبت کو جلدی دفن کرو ۔۔۔۔ پھر وہ وہاں نہیں ٹھہرا۔
اس کے جانے کے بعد نثار ایوب نے پروفیسر مجاہد کے اشارے پر چادر میں اس کا چہرہ اچھی طرح لپیٹ دیا۔ وہ بیڈ کی چادر تھی جو خاصی بڑی تھی ، اس نوزائیدہ شیطان کا چادر سے باہر نکل آنا ممکن نہ تھا۔ لیکن نثار ایوب محسوس کر رہے تھے کہ وہ چادر میں بری طرح ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ اس کی کوشش تھی کہ کسی طرح آزاد ہو جائے۔ تب وہ نثار ایوب سے مخاطب ہو کر بولے ۔۔
پیارے بھائی ۔ اب میں ایک خاص عمل شروع کروں گا۔ آپ چار قدم آگے جا کر پیٹھ موڑ کر کھڑے ہو جائیں۔ آپ کسی صورت پیچھے مڑ کر نہیں دیکھیں گے، چاہے میری چیخنے کی آواز ہی کیوں نہ آئے۔ اول تو ایسا کچھ نہیں ہوگا، محض احتیاطا بتایا ہے۔ میں اپنا کام کر کے خود آپ کے سامنے آؤں گا۔ پیچھے پھر بھی مڑ کر نہیں دیکھنا ہے۔ سمجھ گئے نا پیارے بھائی ، میری بات ؟ ۔۔
جی سمجھ گیا ۔۔۔ نثار ایوب نے پر یقین انداز میں کہا۔
چلیں پھر قدم بڑھائیں ۔۔۔ پروفیسر مجاہد نے ہدایت کی۔
نثار ایوب نے چار پانچ قدم آگے بڑھائے اور پھر ٹھہر گئے اور پیچھے مڑے بغیر بولے ۔۔ ٹھیک ہے ۔۔
ہاں جناب ٹھیک ہے ۔۔۔ پروفیسر مجاہد نے کیا اور چادر میں لپٹے شیطان کی طرف متوجہ ہوئے۔
نثار ایوب پیٹھ موڑے کھڑے تھے۔ انہیں پروفیسر مجاھد کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ وہ کچھ پڑھ رہے تھے لیکن اتنی تیزی سے پڑھ رہے تھے کہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا پڑ رہے ہیں۔ اچانک ایک انتہائی تیز چیخنے کی آواز آئی۔ یہ اسی شیطان کی آواز تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ سخت تکلیف میں مبتلا ہو۔ پھر اس چیخ میں کئی مرد عورتوں کی آوازیں شامل ہو گئیں۔ وہ سب چیخ چیخ کر رو رہے تھے۔ پھر یکلخت ساری آوازیں بند ہو گئیں۔ اب صرف پھاؤڑا چلائے جانے کی آواز آ رہی تھی۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے پروفیسر مجاہد اس گڑھے میں مٹی ڈال رہے ہوں۔ بلند آواز میں ان کے پڑھنے کی آواز مسلسل سنائی دے رہی تھی۔
گڑھا بھرا جا چکا تھا۔ پھاؤڑے سے مٹی دہا دبا کر گڑھے کو سخت کر دیا گیا تھا۔ اب پروفیسر مجاہد اس ہموار گڑھے کی مٹی میں اپنی انگشت شہادت پھسا کر زیر لب تیزی سے پڑھ رہے تھے۔ یہ اس عمل کا آخری حصہ تھا۔
ہر کام اطمینان بخش طریقے سے ہو گیا تھا۔ غیر انسانی مخلوق زندہ دفنائی جا چکی تھی۔ مغرب کا وقت قریب تھا۔ قبرستان پر گہرا سناٹا چھایا ہوا تھا اور نثار ایوب شدت سے پروفیسر مجاہد کے سامنے آنے کے منتظر تھے۔
پروفیسر مجاہد نے ہموار قبر پر کچھ پڑھ کر تین بار پیر مارا اپنے ہاتھ جھاڑے اور پھاؤڑا اٹھا کر نثار ایوب کے مقابل آگئے اور ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے ۔۔
مبارک ہو پیارے بھائی ۔۔ وہ شیطان کا بچہ دفنایا گیا۔ بس اب سکھ ہی سکھ ہے ۔۔
پروفیسر مجاہد، نثار ایوب کے ساتھ قبرستان سے نکل آئے۔ راستے میں انہوں نے پھاؤڑا جہاں سے اٹھایا تھا، وہیں واپس رکھا۔ گیٹ پر گورکن کو کھڑے دیکھ کر انہوں نے کچھ رقم جیب سے نکال کر اس کے حوالے کی اور اسے ہدایت کی کہ ہموار زمین پر بلاک رکھ دے اور گڑھے کو کھودنے کی ہرگز کوشش نہ کرے ورنہ اندھا ہو جائے گا۔ وہ بے چارہ پہلے ہی اس کی شکل دیکھ کر خوفزدہ ہو گیا تھا۔ اب کیا اسے پاگل کتے نے کاٹا تھا کہ وہ گڑھا کھود کر دوبارہ اس شیطان کی شکل دیکھتا۔ قبرستان سے باہر آ کر وہ رکشے کا انتظار کرنے لگے۔
پیارے بھائی ۔۔ میں اب گھر جاؤں گا۔ آپ نے جو کچھ قبرستان میں دیکھا سنا، وہ سب امانت ہے ہماری۔ یہ راز ، راز ہی رہے ۔۔
یہاں کا حال تو راز رہے گا لیکن گھر کے لوگوں خصوصا علی نثار کو کچھ تو بتاتا ہو گا ۔۔۔ نثار ایوب نے پوچھا۔
ہاں۔ بس اتنا کہ اس مردود کو زندہ دفن کر دیا ہے۔ اب آئندہ فکر کی کوئی بات نہیں ۔۔۔ پروفیسر مجاہد نے کہا۔
اس اثنا میں ایک رکشا آکر ان کے نزدیک رکا۔ وہ بولے۔۔
میرے ساتھ آجائیں، میں آپ کو اسپتال چھوڑ کر گھر نکل جاؤں گا۔ وہاں سب پریشان ہوں گے ۔۔
اور پھر جیسا کہ پروفیسر مجاہد نے کہا تھا کہ سکھ ہی سکھ ہے، تو ایسا ہی ہوا۔ اگلے سال علی نثار کے ہاں صائمہ نے جنم لیا اور اس کے دو سال بعد عابر نے دنیا میں آنکھ کھولی۔ عابر کی آمد سے پہلے ہی نثار ایوب اللہ کو پیارے ہو گئے۔ وہ اپنے پوتے کی شکل نہ دیکھ سکے۔
وہ بس بیٹھے بٹھائے چلے گئے تھے۔ رات کا کھانا کھا کر اپنے بیڈ پر آ کر بیٹھے۔ اپنی بیگم سے پانی مانگا۔ فریدہ پانی لے کر کمرے میں آئیں ، اتنی دیر میں وہ نقل مکانی کر چکے تھے۔
اب ان کا پوتا عابر تین دن سے انہیں خواب میں دیکھ رہا تھا اور ان کی گود میں اپنے اس بھائی کو دیکھ رہا تھا جو انسان نہ تھا، غیر انسانی مخلوق تھا۔ علی نثار نے ہر وہ بات عابر کو بتا دی تھی جو ان کے علم میں تھی۔ نازنین ان واقعات کو دہرانا تو دور کی بات ، سوچتے ہوئے بھی گھبراتی تھیں لیکن انہوں نے ہمت کر کے صائمہ کی موجودگی میں ان دل دہلا دینے والے واقعات کو دہرا دیا تھا۔
سارے واقعات سن کر عابر نے تو کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا تھا لیکن صائمہ ماں سے لپٹ گئی تھی۔
ہائے امی ۔۔ وہ بچہ کون تھا ؟ ۔۔
مجھے کیا پتا ؟ ۔۔۔ نازنین اس بچے کا تصور کر کے ہی تھرا اٹھیں۔ امی ۔ کیا آپ نے اس کی شکل دیکھی تھی ؟ ۔۔۔ صائمہ نے پوچھا۔
نہیں میں نے نہیں دیکھی۔ میں اس وقت بے ہوش تھی ۔۔۔ نازنین نے بتایا۔۔ اچھا ہی ہوا جو میں نے اس منحوس کی شکل نہیں دیکھی۔ ہاں تمہاری دادی نے اسے ضرور دیکھا تھا اور انہوں نے ہی اسے تمہارے دادا کے حوالے کیا تھا۔ بعد میں تمہاری دادی نے اس کی شکل وصورت کے بارے میں مجھے بتایا تھا ۔۔
امی کیسا تھا وہ ؟ ۔۔۔ اس مرتبہ عابر نے سوال کیا۔
اب چھوڑو بیٹا ۔۔ اپنے ابو سے پوچھ لینا۔ انہوں نے بھی اس منحوس کو دیکھا تھا ۔۔۔ نازنین نے اس کی شکل وصورت کو بیان کرنے سے احتراز کیا۔ اور اس سے قبل کہ بچے کوئی مزید سوال کر کے ان کو پریشان کرتے ، وہ کمرے سے اُٹھ کر چلی گئیں۔
علی نثار، عابر کو مسلسل تین روز تک دکھائی دینے والے خواب سے پریشان تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ عابر کو وبی خواب کیوں نظر آیا جبکہ وہ ان واقعات سے لاعلم تھا۔ اس نے اپنے دادا کو بھی نہ دیکھا تھا۔
یه خواب تین دن تک ایک خاص وقت اور ایک انداز میں نظر آیا تھا۔ علی نثار سوچتے رہے کہ اس مسئلے پر کس سے بات کی جائے؟ سوچتے سوچتے اچانک ان کا دھیان پروفیسر مجاہد کی طرف گیا۔ وہی اس مسئلے پر صحیح روشنی ڈال سکتے تھے۔ ایک طویل عرصے سے ان کی پروفیسر مجاہد سے ملاقات نہ ہوئی تھی۔
والد کے انتقال کے بعد بس ایک آدھ بار ہی وہ گھر پر آئے تھے۔ علی نثار البتہ عید ، بقر عید انہیں سلام کرنے چلے جاتے تھے۔ پھر وہ ریٹائرمنٹ کے بعد حیدر آباد اپنے بڑے بیٹے کے پاس شفٹ ہو گئے۔ حیدر آباد منتقل ہونے کے بعد علی نثار کا ان سے رابطہ نہ رہا۔
ایک شام وہ پروفیسر مجاہد کے پرانے گھر چلے گئے۔ انہیں معلوم تھا کہ وہاں پروفیسر کے چھوٹے بیٹے رہائش پذیر ہیں۔ ان سے ان کا حیدرآباد کا پتا حاصل کر کے وہ عابر کو اپنے ہمراہ لے کر ان سے مل آئیں گے۔
جب علی نثار، پروفیسر مجاہد کے چھوٹے بیٹے کے گھر پہنچے اور انہوں نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا تو بیٹے نے افسردگی کے ساتھ بتایا۔ ابا کا تو انتقال ہو گیا ۔۔
ہیں ۔۔ کب ؟ ۔۔۔ علی نثار کو یہ سن کر جھٹکا سا لگا۔
آج آٹھ دن ہو گئے۔ جمعرات کی شام ان کا انتقال ہوا تھا اور یہ وہ دن تھا جس کی صبح عابر کو پہلی بار وہ خواب نظر آیا تھا. کیا مجاہد کی موت سے اس خواب کا کوئی تعلق تھا۔ یہ بات تو بعد کی تھی کہ اس خواب کا تعلق ان کی موت سے تھا یا نہیں۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ عابر کو یہ خواب نظر آیا کیوں؟ اس معمے پر اگر کوئی روشنی ڈال سکتا تھا تو وہ پروفیسر مجاہد ہی تھے۔ وہی نہ رہے تھے تو اب کس سے اس مسئلے پر بات کی جاتی؟
بس پھر یہ بات آئی گئی ہو گئی ۔۔
عابر دو چار دن تو اس خواب سے متاثر رہا۔ جب تین دن کے بعد خوابوں کا یہ سلسلہ بند ہو گیا تو وہ بھی بھولتا گیا۔ ملکہ کو وہ البتہ بھول نہ پایا تھا۔ وہ یوں سلیقے سے اسے یاد آتی جیسے بارش ہو وقفے وقفے سے۔ لیکن جب اس کی بے وفائی کسی سنسناتی گولی کی طرح اس کے آر پار ہوتی تو پھر اسے کچھ یاد نہ رہتا۔
صائمہ نے ان دنوں عابر کا خاص خیال رکھا تھا۔ اس نے اپنے یا والدین کے حوالے سے کبھی کوئی بات نہیں کی تھی۔ وہ اسے مطعون کر کے اس کا باطن چھاتی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس عمر میں ایسا ہو جاتا ہے۔ خوبصورت لڑکی کسی خوشبو کی طرح ہوتی ہے۔ آپ چاہیں یا نہ چاہیں ، وہ آپ کے اندر اتر جاتی ہے۔ صائمہ چاہتی تھی کہ اسکا بھائی ملکہ کو بھلا دے۔ وہ اس کے اندر سے نکل جائے۔ اس لئے وہ جان بوجھ کراسکا ذکر چھیڑتی رہتی تھی۔ کرید کرید کر اس کے بارے میں پوچھتی تھی۔ یادوں کے پھوڑے پر نشتر زنی کرتی کہ یادوں کا زہر اس کے اندر سے نکل جائے اور وہ ذہنی اور روحانی طور پر صحت مند ہو جائے۔ صائمہ باپ کے گھر آتی تو وہ زیادہ تر وقت عابر کے ساتھ گزارتی اور اپنے گھر ہوتی تو اسے بلا لیتی ۔ صائمہ کے بچوں سے اسے عشق تھا اور صائمہ کے شوہر اسلم کو اس سے لگاؤ اسے تھا ۔
ایک دن صائمہ، عابر کو لے کر بڑے ڈپارٹمنٹل اسٹور گئی۔ اسے اپنے گھر کا سودا لینا تھا۔ نازنین نے بھی اسے ایک فہرست تھما دی تھی۔ عابر اس طرح کی شاپنگ سے گھبراتا تھا۔ لیکن صائمہ کے اصرار پر وہ اس کے ساتھ چلا گیا۔
اسٹور پر خاصا رش تھا۔ اچانک وہ ایک ٹرالی سے ٹکرایا۔ جھٹکا لگنے سے ٹرالی سے کچھ پیکٹ نیچے گرے۔ سوری کہہ کر عابر نے پیکٹ فرش سے اٹھا کر ٹرالی میں رکھے اور جب اس نے ٹرالی والی پر نظر کی تو اسے بڑی پر شوق نگاہوں سے اپنی طرف دیکھتے پایا۔ کہ بابر نے خود کو اچانک گہرے بادلوں میں گھرا پایا۔ اس نے محسوس کیا ہے اس کا وجود عدم ہو گیا ہو۔ یہ احساس بس چند لمحوں کا تھا۔ پھر سب کچھ ٹھیک ہو گیا۔
وہ دلکش لڑکی اسے دیکھ کر مسکرائی اور آگے بڑھ گئی۔ عابر نے اسے مڑ کر دیکھا۔ وہ جینز پہنے ہوئے تھی۔ جہیز کے اوپر ہاف سلیوز کی سرخ شرت تھی۔ شرٹ جینز کے اندر نہ تھی، اوپر تھی اور لمبی تھی ۔ مونی صورت تھی لیکن اس کے چہرے پر سب سے پرکشش اس کی آنکھیں تھیں۔ بڑی پتلیوں والی آنکھوں کا رنگ گہرا کالا تھا۔ یہ غیر معمولی آنکھیں تھیں جو بہت تیزی سے بندے کو اپنی گرفت میں لے لیتی تھیں۔
اتنے میں صائمہ اس کے قریب آگئی۔ پھر وہ دونوں شاپنگ میں مصروف ہو گئے ۔ وہ لڑکی اسٹور میں دو تین مرتبہ اسے دکھائی دی۔ وہ اسے دیکھ کر ہر بار ہلکا سا مسکرائی اور رش میں گم ہو گئی۔
صائمہ کی خریداری تقریبا ختم ہو چکی تھی۔ بس اسے بچوں کے لئے بسکٹ اور ٹافیاں لینا تھیں اور عابر کو اپنے لئے شرٹ خریدنا تھی ۔ صائمہ نے اس سے کہا کہ وہ گارمنٹس کی شاپ پر شرٹس نکلوائے ، وہ بسکٹ اور ٹافیاں لے کر وہاں آرہی ہے۔
گارمنٹس کی دکان پر ابھی اس نے شرٹس نکلوا کر دیکھنا شروع کی تھیں کہ اسے اپنے پاس ایک مسحور کن دھیمی خوشبو کا احساس ہوا۔ بےاختیار اس نے اپنے بائیں جانب دیکھا تو اسے اپنے برابر کھڑے پایا۔ جانے کب وہ چپکے سے اس کے برابر آ کر کھڑی ہو گئی تھی۔ عابر تھوڑا سا پیچھے ہٹا تاکہ وہ نگاہ کے زاویے میں آ سکے۔ وہ بھی تھوڑا سا پیچھے ہٹی۔ اس نے کندھے پر پڑے بیگ کی چھوٹی زپ کھولی۔ اس میں سے ایک کارڈ نکالا، زپ بند کی، بیگ کو کندھے پر درست کیا اور وزیٹنگ کارڈ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی۔۔ " یہ میرا کارڈ ہے۔ اگر آپ کا جی چاہے تو مجھ سے ملنے آ جائیے گا۔"
آپ کون ہیں؟ ۔۔۔ عابر نے اس کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
میں ایک معمولی سی آرٹسٹ ہوں۔ چاہتی ہوں آپ کو پینٹ کروں ۔۔۔ لڑکی کارڈ اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے بولی۔
عابر نے کارڈ پر نظر ڈالی۔ کارڈ پر آرزو اور اس کے نیچے آرٹسٹ لکھا تھا۔ ڈیفنس کے کسی اپارٹمنٹ کا پتا درج تھا۔ یہ اپارٹمنٹ ہاکی اسٹیڈیم کے آس پاس تھا اور آخر میں موبائل نمبر تھا۔ اچھا میں چلتی ہوں۔ دیکھئے میری درخواست کو رد مت کیجئے گا۔ آئیے گا ضرور، مجھے آپ کا انتظار رہے گا ۔۔۔ آرزو نے مسکراتے ہوئے عجب لہجے میں کہا۔
اس نے جانے یہ بات کس انداز میں کہی کہ اس کے ذہن پر نقش ہوتی چلی گئی۔ ابھی وہ اس کی بات کا کچھ جواب دینے کا سوچ رہا تھا کہ وہ جا چکی تھی۔ اس نے عابر کا جواب سننے کی بھی زحمت گوارا نہ کی تھی۔
عابر نے جاتی ہوئی آرزو کو اپنی نظروں کے حصار میں لینا چاہا لیکن وہ دائیں جانب مڑ کر نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی۔ عابر نے ایک گہرا سانس لے کر کارڈ کو دیکھا اور پھر اسے بڑی احتیاط سے جیب میں رکھ لیا۔
چند لمحوں بعد ہی صائمہ وہاں پہنچ گئی۔ عابر نے شکر ادا کیا کہ صائمہ نے اس اچانک واردات کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا تھا۔ اس نے جلدی سے صائمہ کو شرٹوں کی جانب متوجہ کر دیا اور آرزو کے بارے میں سوچنے لگا کہ یہ کیسی گھٹا تھی جو بن برسے ہی اسے شرابور کر گئی تھی۔
پنجہ مارنا تو کوئی مشکل کام نہ تھا۔ بعض وقت انارہ کو مائی پنکھی پر شدید غصہ آتا۔ وہ انتقام کی آگ میں جلنے لگتی اور اس کا جی چاہتا کہ وہ پنجہ مار کر مائی پنکھی کی دونوں آنکھیں باہر نکال دے۔ اور وہ ایسا کرنے کی قدرت رکھتی تھی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ پھر اس کے بعد کیا ہو گا۔ مائی پنکھی اسے اپنی قید سے آزاد تو نہیں کر دے گی۔ ابھی تو اتنا تھا کہ جب اس کا جی بہت گھٹنے لگتا تو وہ اسے لڑکی کے روپ میں لے آتی تھی۔ اس طرح اسے کچھ سکون مل جاتا تھا۔ پنجہ مارنے کی صورت میں ممکن تھا کہ وہ ہمیشہ کے لئے اسے بلی کا روپ دھار نے پر مجبور کر دیتی۔ پھر کیا ہوتا ۔ وہ یونہی گھٹ کر مر جاتی۔
آسان اور سہل طریقہ یہی تھا کہ وہ کسی انتقامی کارروائی کے بارے میں نہ سوچے بلکہ اس کی خوشامد کر کے جلدی جلدی اپنے بارے میں سب کچھ جان لے اور اگر اس دوران کوئی ایسا راز ہاتھ لگ جائے کہ وہ بڑھیا کو مار کر اپنے اصل روپ میں آ سکے تو پھر وہ یہاں سے نکل بھاگے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ آئندہ کوئی ایسا اقدام نہ کرے گی جس سے وہ مشکل میں پھنس جائے۔
صبح وہ اس کی آواز سن کر باہر گٸی۔ اس نے باورچی خانے میں جھانکا۔ مائی پنکھی چولہے کے آگے بیٹھی تھی۔ مٹی کی ہنڈیا میں سیال اہلنے کو تھا۔
انجو ۔۔ جلدی کر ۔۔۔ مائی پنکھی نے کالے منہ کی سفید بلی کو دیکھتے ہی کہا۔
انجو تیزی سے باورچی خانے سے نکلی۔ اس نے چارپائی پر چھلانگ لگائی۔ وہاں سے باورچی خانے کی چھت پر چڑھی۔ اسے دیکھتے ہی چھت پر بیٹھے کوؤں میں کھلبلی مچ گئی۔ وہ چیختے ہوئے جھکائی دے کر فضا میں اُڑ گئے۔
انجو نے باورچی خانے کی چھت سے قبرستان والی دیوار کی منڈیر پر زقند بھری لیکن وہ منڈیر پر بیٹھے دو تین کوؤں میں سے کسی کو اپنی گرفت میں نہ لے سکی۔
تب انجو نے نیم کے درخت پر چھلانگ لگائی۔ یہاں کوئی کوا نہ تھا۔
وہ نیم کے پتوں میں چھپ کر بیٹھ گئی اور اس نے نظریں منڈیر پر جما دیں۔ میدان خالی دیکھ کر کوے ادھر اُدھر سے منڈیر پر اترنے لگے۔ انجو نے ایک کوے کو اپنی نظروں کی گرفت میں لیا اور اس پر بجلی کی طرح گری۔ اب کوے کا اس کی گرفت سے نکلنا محال تھا۔ وہ اس کے منہ میں دبا پھڑپھڑا کر رہ گیا۔
انجو نے منڈیر سے براہ راست چارپائی پر چھلانگ لگائی اور کوے کو منہ میں دبوچے مائی پنکھی کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی ۔ مائی پنکھی نے بڑے ماہرانہ انداز سے پھڑ پھڑاتے کوے کو اپنے ہاتھ کی گرفت میں لیا اور اسے ہنڈیا میں جھونک کر ڈھکن ڈھک دیا اور اس پر وزنی اینٹ رکھ دی۔
عام طور سے انجو اپنا کام سر انجام دینے کے بعد باورچی خانے سے چلی جاتی تھی۔ وہ صحن میں چارپائی کے پائے کے ساتھ لگ کر لیٹ جاتی یا پھر کمرے میں گھس جاتی تھی۔ آج وہ پیڑھی کے پاس کھڑی ہو کر اس کی طرف منہ اٹھا کر دیکھنے لگی۔
مائی پنکھی نے چولہے کی آنچ تیز کرتے ہوئے اپنا چہرہ گھما کر اس کی آنکھوں میں دیکھا اور پھر بڑے پیار سے بولی ۔۔
کیا ہوا میری انجو؟
انجو جواب میں اس کی سوکھی ٹانگوں سے اپنا جسم رگڑنے لگی۔ مائی پنکھی نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی ۔۔ کیا چاہتی ہے؟
اماں ۔۔ میں اپنا تیسرا گھر دیکھنا چاہتی ہوں ۔۔۔ مائی پنکھی کے دماغ میں آواز آئی۔
کوئی بات نہیں ۔۔ دکھا دوں گی ۔۔۔ مائی پنکھی بغیر لب ہلائے بولی۔
کب؟ ۔۔۔ آواز آئی۔
آج رات کو ۔۔۔ مائی پنکھی نے جواب دیا۔
کیا یہ کام دوپہر میں نہیں ہو سکتا ؟ ۔۔۔ اس کی آواز آئی۔
نہیں ۔ ہم لوگوں کے لئے رات بنائی گئی ہے۔ ہماری قوتیں تاریکی میں بیدار ہوتی ہیں۔ سورج چھپتے ہی ہم آزاد ہو جاتے ہیں۔ تو دن کو رات میں تبدیل ہونے تک انتظار کر لے۔ پھر میں وہ دکھا دوں گی جس کی تو خواہشمند ہے۔ ٹھیک انجو ۔۔۔ مائی پنکھی اس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے بولی۔
ٹھیک اماں ۔۔۔ انجو نے میاؤں کی آواز نکالی اور باورچی خانے سے نکل گئی۔ وہ خوش تھی کہ آج کی رات اسے اپنا ایک نیا روپ دیکھنے کو ملے گا۔
رات کے چہرے پر نکھار آچکا تھا۔ وہ ایک نئے روپ میں ڈھل رہی تھی۔ قبرستان سے لوگوں کے بولنے اور کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ انسان سو چکے تھے اور شیطانوں کی آنکھیں کھل رہی تھیں۔ رات اپنے جوبن پر تھی۔ باہر گہری تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ مائی پنکھی کے صحن میں بھی گھپ اندھیرا تھا۔ مائی پنکھی نے صحن میں لگا مریل بلب بجھوا دیا تھا اور وہ خود پھسکڑ امار کر ساتویں گھر میں بیٹھ چکی تھی۔
چل انجو ۔۔ بیٹھ جا تیسرے گھر میں ۔۔۔ مائی پنکھی نے آواز لگائی۔
انارہ جو چارپائی پر بےچینی سے اس آواز کی منتظر تھی ، فورا اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس نے تیسرے گھر میں مائی پنکھی کے انداز میں نشست جمالی اور اس کی طرف دیکھنے لگی۔ سیاہ چہرے سیاہ کپڑوں اور سیاہ رات میں اسے نظروں سے ڈھونڈ نکالنا آسان نہ تھا۔
مائی پنکھی نے چاندی کا تعویذ گلے سے اتار کر مٹھی میں لیا اور بولی۔۔
" دیکھ تیرے سامنے کیا ہے؟"
انارہ نے آنکھیں کھول کر سامنے دیکھا۔ اسے مائی پنکھی کے دھندلے ہیولے کے سوا کچھ دکھائی نہ دیا۔
اماں ۔ کچھ نظر نہیں آرہا بس تو نظر آرہی ہے، وہ بھی دھندلی سی ۔۔۔ انارہ نے بتایا۔
انجو ۔ کیا تو نے آنکھیں کھولی ہوئی ہیں ؟ ۔۔
ہاں اماں ۔۔۔ انارہ بولی۔
انجو آنکھیں بند کر ۔۔۔ مائی پنکھی نے حکم دیا۔۔ " کر لیں ؟“
ہاں اماں ۔۔۔ وہ بولی۔۔ اب دیکھ تیرے سامنے کیا ہے؟ ۔۔۔ مائی پنکھی نے پوچھا۔
اماں ۔ میرے سامنے ایک فلاحی ادارے کا سائن بورڈ ہے ۔۔۔ انارہ جلدی سے بولی۔
چل اندر چل ۔۔ ٹھیک ہے چلتی جا۔ اب دائیں طرف مڑ جا۔ سامنے جو دروازہ کھلا ہے، اس میں داخل ہو جا۔ یہ جو سامنے ایک بڈھی مائی بیٹھی ہے، اس کے پاس ایک نوزائیدہ بچی لیٹی ہے۔ نظر آئی ؟ ۔۔۔ مائی پنکھی کی آواز آئی۔
ہاں اماں نظر آئی ۔ پیاری بچی ہے۔ اماں کیا یہ میں ہوں؟ ۔۔۔ انارہ نے سوال کیا۔
نہیں، یہ تو نہیں ہے ۔۔۔ مائی پنکھی اتنا کہہ کر چپ ہو گئی۔
دیکھ اماں ۔ خواہ مخواہ تجسس نہ پیدا کر ۔ جلدی بتا ۔۔۔ انارہ بےچین ہوئی۔
تو نہیں ، تیری بچی ہے ۔۔۔ مائی پنکھی نے انکشاف کیا۔
اماں ۔۔ پھر میں کہاں ہوں؟ ۔۔۔ انارہ بولی۔
میں تجھے ابھی نہیں بتاؤں گی ۔ البتہ یہ بتائے دیتی ہوں کہ تیرا شوہر جیل میں ہے ۔۔۔ مائی پنکھی نے کہا۔
اماں ۔ میرا شوہر جیل میں کیوں ہے۔ اس نے کیا جرم کیا ہے ؟ ۔۔۔ انارہ نے پوچھا۔
وہ قاتل ہے ۔۔۔ مائی پنکھی نے بتایا۔
کس کو قتل کیا ہے اس نے ؟ ۔۔
یہ بھی ابھی نہیں بتاؤں گی ۔۔۔ مائی پنکھی ہنس کر بولی۔
پھر کچھ بتائے گی بھی یا مجھے ایسے ہی ٹہلاتی رہے گی ؟ ۔۔
اچھا چل۔ میں وقت کی دھارا کو پلٹتی ہوں۔ اب تو دیکھتی جا اور سمجھتی جا ۔۔
ٹھیک ہے اماں ۔۔۔ انارہ مطمئن لہجے میں بولی۔
ایک متوسط طبقے کا درمیانہ گھر اس کے سامنے تھا۔ گھر میں چہل پہل تھی۔ شادی کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں۔ گھر میں جہیز کا سامان بھرا ہوا تھا۔ دوسرے شہر سے آئے ہوئے مہمان بھی موجود تھے۔ جوڑوں کی پیکنگ جاری تھی۔ لڑکیاں ڈھولک لئے گا بجا رہی تھیں ۔ ان لڑکیوں کے درمیان دلہن بھی موجود تھی۔ زرد کپڑوں میں بیٹھی دلہن کے چہرے پر ان کپڑوں کا عکس پڑ رہا تھا لیکن ہلدی چہرے پر ایک طمانیت کا احساس تھا۔ پیا گھر جانے کی خوشی تھی۔ وہ سر جھکائے بیٹھی تھی۔
 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے