زوہا کو اس کی سہیلیوں اور پڑوس کی لڑکیوں نے گھیرا ہوا تھا۔ زوہا کی آواز بہت اچھی تھی۔ اسے ڈھولک بجانا بھی خوب آتا تھا۔ وہ شادی بیاہ کی جان سمجھی جاتی تھی۔ شادی کسی کی ہوتی ، کہیں ہوتی۔ رشتے داروں میں ، پڑوس میں یا سہیلیوں میں جب تک زوہا نہ آ جاتی ، گانوں میں جان ہی نہ پڑتی۔
اب خود اس کی شادی تھی ۔ روزانہ گانوں کی محفل سج رہی تھی۔ روز ہی اس سے گانے کی فرمائش ہو رہی تھی لیکن زوہا گانا تو کجا ڈھولک بجانے کو بھی راضی نہ تھی۔ میں نے بہت گا بجا لیا۔ جانے کتنی شادیاں نمٹا دیں اب تم لوگ گاؤ ۔۔۔ زوہا نے فیصلہ کن انداز میں کہا تھا۔
آج گانے کی آخری محفل تھی۔ آدھی رات سے زیادہ گزر چکی تھی۔ کل زوہا کی رخصتی تھی۔ جب یہ تقریب اختتام کو پہنچے لگی تو زوہا کی ایک بہت قریبی شادی شدہ سہیلی نے ڈھولک اس کے سامنے رکھی اور بولی ۔۔
دیکھ زوہا ۔۔ ہم نے جو گانا بجانا تھا، وہ گا بجا لیا ، اب تجھے آخری گیت سنانا ہو گا۔ اگر تو نہیں گائے گی تو ہم صبح تک یہیں بیٹھے رہیں گے ۔۔
زوہا نے اپنی نظریں اٹھا کر اپنی پیاری سہیلی نادیہ کو دیکھا۔ نادیہ نے اپنے ہونٹ سکوڑ کر مچ کیا اور ہاتھ جوڑ کر درخواست کی۔ تب زوہا کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑا۔ اس نے ڈھولک کھینچ کر اپنی ٹانگ کے نیچے دہائی اور ایک بہت پرانا گیت شروع کیا۔
چھوڑ بابل کا گھر ، موہے پی کے نگر ، آج جانا پڑا ۔۔
جب یہ گیت ختم ہوا تو ہر لڑکی کی آنکھوں میں آنسو تھے جبکہ زوہا کی آنکھوں میں ایک آنسو نہ تھا۔
پھر جانے کیا ہوا کہ گا ناختم کرنے کے بعد زوہا ایک جھٹکے سے اٹھی اور اپنے کمرے میں جا کر بیڈ پر گری اور سسک سسک کر رونے لگی اور بہت دیر تک روتی رہی۔
زوہا کی قسمت میں شاید رونا لکھا جا چکا تھا ۔ یہ زوہا کا دوسرا نکاح تھا۔ ایک نکاح اس سے پہلے ٹوٹ چکا تھا۔ لڑکے والے دولت مند لوگ تھے۔ انہیں اپنے اسٹیٹس کا بڑا خیال تھا۔ رشتہ کرتے وقت تو خوب آگے پیچھے گھومے۔ پھر جیسے ہی نکاح ہوا تو ان لوگوں نے کینچلی تبدیل کر لی۔ نت نئی فرمائشیں شروع کر دیں۔ شادی ہال کسی پوش علاقے میں بک کروائیں۔ اعلیٰ افسران شرکت کریں گے۔ جہیز اچھا ہو، رشتے دار دیکھیں گے۔ زوہا کے والد ملازم پیشہ سیدھے سادے انسان تھے۔ وہ یہ سب کہاں سے کرتے۔ انہوں نے معذرت کر لی تو لڑکے نے طلاق دینے میں ذرا بھی دیر نہ لگائی۔
زوہا کے والد ذاکر حسین کو احساس ہوا کہ شادی ہمیشہ اپنے برابر والوں میں کرنی چاہئے ۔ ویسے وہ اس رشتے پر راضی نہ تھے لیکن لڑکے والوں کے اصرار کی وجہ سے انہیں ہاں کہنا پڑی تھی اور جس بات کا ڈر تھا، وہ ہو کر رہی۔
اب جہاں رشتہ ہو رہا تھا ، وہ ان جیسا ہی گھرانہ تھا۔ لڑکا بینک میں ملازم تھا۔ اسمارٹ تھا۔ زوہا کے والدین کو یہ گھرانہ پسند آیا اور رشتہ طے ہو گیا۔
زوہا، ذاکر کی اکلوتی بیٹی تھی۔ انہوں نے قرض لے کر اپنی بساط سے زیادہ جہیز اکٹھا کر دیا۔ لڑکے والے کہتے رہے ہمیں کچھ نہیں چاہئے ۔ بس لڑکی چاہئے ۔ لیکن جہیز لینے سے انکار نہ کیا۔
اگرچہ زوہا، ذاکر کی سگی بیٹی نہ تھی لیکن انہوں نے اسے کبھی احساس نہ ہونے دیا کہ وہ سگی بیٹی نہیں ہے۔ اور یہ بات اس سے چھپائی بھی نہیں کہ اسے انہوں نے ایک فلاحی ادارے سے حاصل کیا تھا۔ اس کے والدین کا اتا پتا نہ تھا کیونکہ وہ انگوٹھا چوستی جھولے میں ڈالی گئی تھی۔ والدین نے اس کے ساتھ کوئی نشانی نہ چھوڑی تھی ۔
زوہا بڑی صابر، سیدھی اور شریف لڑکی تھی۔ اس نے اپنے والدین کے سامنے کبھی کوئی مسلہ نہیں کھڑا کیا تھا۔ وہ گریجویٹ تھی۔ بھرپور کالج لاٸف گزاری تھی لیکن کبھی کسی لڑکے کو اپنے پیچھے نہیں لگنے دیا تھا۔ گھر میں جو کھانے کو مل جاتا کھا لیتی، جو پینے کو دے دیا جاتا اسے بخوشی قبول کر لیتی ۔ فرمائش کرنا اس نے سیکھا ہی نہ تھا۔ شاید اس کے لاشعور میں یہ بات تھی کہ یہ اُس کے اصل والدین نہیں ہیں۔ اگر وہ اسے وہاں سے نہ لاتے تو پتا نہیں وہ اسی ادارے میں یا جانے کہاں رل رہی ہوتی۔ ان لوگوں نے اسے محبت دی، عزت دی، تعلیم دی۔ ہر طرح سے اس کا خیال رکھا، بالکل سگی بیٹیوں کی طرح پرورش کی۔ اور آج اسے ایک اچھے لڑکے اور اچھے جہیز کے ساتھ رخصت کیا جا رہا تھا۔
کوئی باپ اپنی بیٹی کے مقدر سے واقف نہیں ہوتا۔ اگر اسے یہ معلوم ہو جائے کہ شادی کے بعد اس کی بیٹی پر کیا پہاڑ ٹوٹنے والے ہیں تو وہ ہرگز اس کی شادی نہ کرے۔
زوہا کو توقع نہ تھی کہ اس کا شوہر عاشر ایسا نکلے گا۔ وہ دیکھنے میں جتنا معصوم اور شریف نظر آ رہا تھا، اندر سے اتنا ہی ٹیڑھا تھا۔
گھونگھٹ اٹھاتے ہیں عاشر نے جو تحفہ دیا، وہ لفظوں کا تھا۔ فرمایا ۔۔ لڑکوں کو لائن مارنے والی لڑکیاں مجھے ہرگز پسند نہیں۔ اگر تم نے کبھی ایسی حرکت کی تو قتل ہو جاؤ گی میرے ہاتھوں ۔۔
ایک پڑھے لکھے، بینک ملازم اور چہرے سے معصوم نظر آنے والے شوہر کی پہلی بات سن کر زوہا سنانے میں آ گئی۔ یہ کیا بات کی انہوں نے ۔ وہ عاشر کی شکل دیکھتی رہ گئی ۔ دولہا کے منہ سے نکلنے والا پہلا جملہ اس قدر بےہودہ اور لچر ۔ کہتے ہیں کہ چہرے شخصیت کے عکاس ہوتے ہیں لیکن یہاں تو چہرے پر ماسک چڑھا تھا جسے ایک جملے نے ہی اتار دیا۔ زوہا کو اندازہ لگانے میں دیر نہ لگی کہ اس کی زندگی آئندہ کس انداز میں گزرے گی۔ ساتھ ہی اس نے یہ بھی طے کر لیا تھا کہ جیسی گزرے گی ، وہ گزارے کی کبھی اپنے والدین پر اپنی زندگی کا حال نہ کھولے گی۔
عاشر انتہائی شکی شخص تھا۔ عورت غصہ ور شوہر کو برداشت کر لیتی ہے، کنجوس مرد کو سہہ لیتی ہے تھپڑ مارنے والے خاوند کو درگزر کر جاتی ہے لیکن نہیں برداشت ہوتا تو شکی شوہر ۔ شکی بیوی بھی مرد کے لئے عذاب بنتی ہے لیکن شوہر کے پاس چوائس ہوتی ہے۔ ایسی بیوی سے چھٹکارا حاصل کرنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا جبکہ عورت کے پاس کوئی چوائس نہیں ہوتی۔ شک ایک ایسا زہر ہے جو ازدواجی زندگی کو تہس نہس کر دیتا ہے۔ شکی مرد اس بات سے نا واقف ہوتے ہیں کہ عورت میں فریب دینے کی صلاحیت مرد سے زیادہ ہوتی ہے۔ آپ عورت کو سات تالوں میں بند کر دیں اور اگر اسے خراب ہونا ہے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اسے خراب ہونے سے نہیں روک سکتی۔ شکی شوہر کے ذہن میں اگر عورت کی فطرت کا یہ پہلو واضح ہو جائے تو پھر ہر جھگڑا مٹ جاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورت کو آزاد چھوڑ دیا جائے ۔ شوہر نگرانی رکھے لیکن شک نہ کرے، اس وقت تک جب تک اس کے ہاتھ ٹھوس ثبوت نہ آجائے۔
زوہا برقع نہیں پہنتی تھی۔ سسرال والوں کی طرف سے فرمائش آئی کہ بیٹی کو جہیز میں برقع دیں۔ ذاکر نے زوہا سے بات کی۔ زوہانے خوشدلی سے کہا ۔۔
کوئی بات نہیں ابو، میں برقع پہن لوں گی ۔۔
زوہا نے سسرال آ کر برقع پہننا شروع کر دیا۔ لیکن عاشر کو کسی طرح چین نہ تھا۔ عاشر کی ماں بہنیں پردہ نہیں کرتی تھیں۔ بس باہر نکلتے ہوئے چادر لے لیا کرتی تھیں جبکہ عاشر کے حکم پر زوہا کو برقع اوڑھنا پڑا۔ گھر میں خاندان کے لڑکوں کا آنا جانا تھا۔ عاشر کی بہنیں پڑوس میں بلا روک ٹوک جایا کرتی تھیں۔ زوہا کو پڑوس میں جانے کی اجازت نہ تھی۔ زوہا کو پاس پڑوس سے کوئی دلچسپی بھی نہ تھی۔ پڑوس سے کوئی لڑکی آ جاتی تو وہ اس سے اچھی طرح بات کر لیتی ورنہ اسے آئے گٸے کی کوئی فکر نہ ہوتی۔
عاشر کا دو منزلہ مکان تھا۔ زوہا کی اوپر رہائش تھی۔ دو کمرے تھے۔ ایک میں زوہا، دوسرے میں اس کی جیٹھانی رہائش پذیر تھی۔ کھانا مشترک تھا۔ بھرا پرا گھر تھا۔ دو بھائیوں کی ہیویاں نیچے ساس سسر کے ساتھ رہتی تھیں۔ ایک دیور جو ابھی غیر شادی شدہ تھا، ساتھ رہتا تھا۔
زوہا شوہر کا مزاج سمجھتے ہوئے اپنے دیور یا جیٹھوں سے بات کرتے ہوئے خاصی محتاط رہتی تھی جبکہ بھائیوں کی بیویاں اور بھائی آزادانہ گفتگو کرتے تھے۔ یہ گفتگو کبھی بے تکلفانہ بھی ہو جاتی تھی لیکن ایسی گفتگو میں زوہا کبھی حصہ نہ لیتی تھی۔
ان تمام احتیاطوں کے باوجود عاشر صاحب کے دماغ نہ ملتے تھے۔ وہ کسی بھی وقت چراغ پا ہو جاتے اور زوہا سے سوال کرتے ۔۔ صادق تمہیں گھور کر کیوں دیکھ رہا تھا ؟ ۔۔
صادق، عاشر کے چھوٹے بھائی کا نام تھا۔ سوال یہ تھا کہ اگر کوئی گھور کر دیکھ رہا ہے تو اس سے پوچھا جاتا ۔ پوچھا زوہا سے جاتا تھا۔ زوہا اس کا کیا جواب دیتی۔ صبر کا گھونٹ پی کر رہ جاتی۔
دو چار گھر چھوڑ کر ایک لڑکا اپنی گیلری میں آکر کھڑا ہو جاتا تو عاشر ا سے ٹوکتا ۔۔ تمہیں دیکھنے کے لئے یہاں کھڑا ہوتا ہے ، ضرور تم نے اسے لائن دی ہوگی ۔۔
اس بیچاری کو یہ تک معلوم نہ تھا کہ کسی گھر سے کون لڑکا گیلری میں کھڑا ہوتا ہے۔ وہ زیادہ تر اپنے کمرے میں رہتی۔ اگر کسی کام سے صحن میں آنا بھی پڑتا تو وہ اپنا کام کرتی اور اندر چلی جاتی۔
کوئی دکاندار خوش اخلاقی سے بات کر لیتا تو ارشاد ہوتا۔ تمہیں دیکھ کر ہنس کیوں رہا تھا ؟ ۔۔ اس نے تمہارے بات کرتے ہی پیسے کم کر دیے۔ مجھے تو کم کرنے سے منع کر دیا تھا ۔۔
برقع میں زوہا کی صرف آنکھیں نظر آتی تھیں۔ چہرہ نظر آتا تو فریفتہ ہونے کا شبہ بھی کیا جا سکتا تھا۔ پیسے اگر کم کر دیئے تو اس لئے نہیں کہ زوہا نے کوئی بے تکلفانہ انداز اختیار کیا۔ پیسے اس نے اس لئے کم کر دیئے کہ زوہا نے اس کی گرفت کی اور دوسری دکان کا حوالہ دیا جہاں وہ کم پیسوں میں دستیاب تھی۔
دو سال کے بعد عاشر کے ہاں ایک بچی نے جنم لیا۔ یہ بچی بھی اس کی نظر میں مشکوک ٹھہری۔ اس دن زوہا بکھر گئی۔ اس نے عاشر کے سامنے ہاتھ جوڑے اور آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا۔۔ اللہ کے واسطے مجھ پر ایسا الزام نہ لگائیں ۔ آپ مجھے روزانہ مار لیا کریں۔ مار کا زخم بھر جائے گا لیکن یہ زبان کا وار میری روح تک زخمی کئے دے رہا ہے۔ مجھے اس سے بچائیں ۔۔
رونے دھونے اور ہاتھ جوڑنے سے بہتر ہے کہ اس بچی کے باپ کا نام بتا دو ۔۔۔ عاشر نے انتہائی سفاکی سے کہا۔
اس کے باپ کا نام عاشر ہے ۔۔۔ زوہا نے پر یقین لہجے میں کہا۔
جھوٹ بولتی ہے تو ۔۔۔ عاشر نے چیخ کر کہا۔
میں جھوٹ بولتی ہوں تو پھر آپ ہی بتا دیں ۔۔۔ بالآخر زوہا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔
میں جانتا ہوں اس کا نام لیکن میں تیری زبان سے کہلوا کر رہوں گا ۔۔۔ عاشر نے اندھیرے میں تیر چلایا۔
عاشر کے والد اس وقت گھر پر تھے۔ انہوں نے جو یہ تکرار سنی تو کمرے سے باہر آگئے اور بولے۔ "عاشر ، یہ کیا بک رہے ہو تم ۔ ایسی پاکباز بہو پر الزام لگاتے تمہیں شرم نہیں آتی؟ ۔۔
ابا ۔ آپ نہ بولیں۔ یہ آپ کا معاملہ نہیں ، میرا اور اس آوارہ عورت کا معاملہ ہے۔ آپ درمیان سے ھٹ جائیں۔ مجھے اس سے پوچھنے دیں۔ دیکھنا ابھی یہ اصل باپ کا نام بتائے گی ۔۔۔ عاشر نے اپنے باپ کو ایک طرف ہٹاتے ہوئے کہا۔
تب ماں آگے بڑھی۔ اس نے عاشر کو سختی سے ڈانٹا ۔۔ باپ کے ساتھ بدتمیزی کرتے تمہیں غیرت نہیں آٸی ، بےغیرت کہیں جا کر ڈوب مرو ۔۔
اس سے پہلے کہ وہ ماں کے ساتھ کوئی بدسلوکی کرتا ، اس کی جیب میں پڑا ہوا موبائل بج اٹھا۔ اس نے غصے سے موبائل جیب سے باہر نکالا اور آن کر کے بولا ۔۔ "ہیلو۔" ۔۔
عاشر کو جواب میں جو سننے کو ملا، اس نے اس کے تن بدن میں آگ لگا دی۔
آگ تو لگنا ہی تھی ۔۔۔
فون ایک لڑکی کا تھا۔ اس لڑکی کا جو گاہے بگاہے عاشر کو زوہا کے بارے میں نت نئی خبریں دیتی رہتی تھی۔ وہ خود کو زوہا کی سہیلی بتاتی تھی۔ ایسی راز دار سہیلی جس سے زوہا کچھ نہیں چھپاتی تھی۔ جب اس کا جی چاہتا تھا، وہ عاشر سے بات کرتی اور یہ یقین دلانے کے لئے وہ سچی ہے، عاشر کو یہ بھی بتا دیا کرتی تھی کہ آج زوہا نے کسی رنگ کے کپڑے پہن رکھے ہیں اور اس کے گھر کیا پکا تھا اور کس نے پکایا تھا۔ ایسی پکی رپورٹ کو نظر انداز کرنا آسان نہ تھا جبکہ عاشر کا مزاج بے پر کا کوا بنانے کا تھا۔ وہ انتہائی وہمی اور شکی مرد تھا۔
وہ لڑکی آگ لگانے کے بعد اپنا موبائل فون آف کر دیتی تھی۔ اگر عاشر بعد میں اس سے رابطہ کرنا چاہتا تو نہ ہوتا ۔ وہ لڑ کی بات کرنے کے بعد پہلے موبائل فون کا سوئچ آف کرتی، پھر سم تبدیل کر لیتی۔ نتیجہ یہ کہ عاشر کوشش کے باوجود اس سے رابطہ نہ کر پاتا۔
اس فون کے سلسلے کو ایک ڈیڑھ ماہ سے زائد نہیں ہوئے تھے۔ زوہا کو معلوم نہ تھا کہ کوئی لڑکی اس کی سہیلی بن کر اس کے بارے میں کیا زہر اگل رہی ہے۔ اس لڑکی کا زوہا سے ہرگز کوئی تعلق نہ تھا۔ وہ پڑوس کی لڑکی تھی ، جس کی عاشر کی بہن فرخندہ سے خاصی دوستی تھی۔ فرخندہ کی شادی کے بعد اس نے عاشر کی بھائیوں سے دوستی گانٹھ لی۔ دراصل وہ اس گھر میں عاشر کے چھوٹے بھائی صادق کے لئے آتی تھی۔ وہ ایک منتقم مزاج اور حاسد قسم کی لڑکی تھی۔ نام تھا اس کا ریحانہ۔
ریحانه برابر والے فلیٹ میں رہتی تھی۔ وہ اپنے گھر کے بجائے زیادہ تر یہیں گھسی رہتی۔ فلم اور فیشن اس کے مرغوب موضوعات تھے۔ زوہا کسی اور مزاج کی تھی ، اس لئے وہ اسے زیادہ منہ نہ لگاتی تھی۔ اور یہ بات ریحانہ کو اچھی نہ لگی تھی۔ نتیجہ یہ کہ وہ اس کے خلاف بھائیوں کے دلوں میں نفرت کے بیج ہوتی رہتی تھی۔ ریحانہ اس گھر کی ہر بات سے واقف تھی۔ وہ صادق پر جان دیتی تھی۔ اس سے شادی کرنا چاہتی تھی لیکن صادق کو اس طرح کی ”اچھال چھکا“ قسم کی لڑکیاں پسند نہ تھیں۔ وہ سنجیدہ مزاج لڑکا تھا۔ اس گھر میں اگر کوئی آئیڈیل شخصیت تھی تو وہ زوہا تھی۔ صادق اپنے بھائی کے مزاج سے واقف تھا۔ اس لئے زوہا سے دور رہتا تھا۔ بہت نپی تلی بات کرتا تھا۔
پھر ایک دن وہ ہوا جس کی ریحانہ کو کسی طور توقع نہ تھی۔ جب ریحانہ نے شادی کے لئے شدید اصرار کیا اور صادق کے ٹرخاؤ جواب پر اس نے فیصلہ کن انداز اختیار کیا تو بالآخر صادق کو نفی میں جواب دینا پڑا اور یہ جواب ریحانہ کوشدید خلجان میں مبتلا کر گیا۔ اس نے سوچ لیا کہ وہ صادق سے اس انکار کا انتقام لے کر رہے گی۔
اس نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی ٹھانی۔
صادق" منکر اور زوہا متکبر" کو کیوں نہ ایک ہی چھری سے ذبح کر دیا جائے۔ شاطر ریحانہ نے بڑی جامع منصوبہ بندی کی۔ زوہا کے ہاں کسی بھی وقت مہمان آنے کی توقع تھی۔ عاشر کے مزاج سے بھی وہ اچھی طرح واقف تھی۔ وہ گھر کی بھیدی تھی۔ اس نے لنکا ڈھانے کی ٹھان لی اور اس نے عاشر کے کان میں قطرہ قطرہ زہر پکانا شروع کیا۔ یہ جلتی پر تیل ڈالنے والی بات تھی۔ پہلے عاشر کو زوہا کی طرف سے ہوشیار رہنے کو کہا گیا پھر جب زوہا کے ہاں مہمان کی آمد ہو گئی تو اس نوزائیدہ بچی کو مشکوک بنا دیا گیا۔
وہ خود کوز زوہا کی راز دار سہیلی بتائی تھی لہذا ساری باتیں زوہا کے حوالے سے کہی جاتی تھیں۔ مثلا زوہا نے مجھے یہ بتایا ہے کہ کیونکہ میرا شوہر مجھ پر شک کرتا ہے لہذا میں نے بھی اس سے ایسا انتقام لیا ہے کہ زندگی بھر یاد کرے گا۔ یہ بچی اس کی نہیں ہے۔ یہ بچی اس گھر میں رہنے والے کسی فرد کی ہے۔ میں عاشر کو چائے میں نیند کی گولی دے کر اس کو بلا لیتی تھی۔ یہ مجھ پر خواہ مخواہ شک کرتا تھا۔ اب میں نے اس کا شک یقین میں بدل دیا ہے اور اس احمق کو کچھ معلوم نہیں۔ ایک شکی آدمی کو خود اس کی بیوی کے حوالے سے بتایا جائے تو پھر اس کا تلملانا حق بجانب تھا۔
جب عاشر اپنے مجرم کا نام پوچھا تو وہ ہنس کر کہتی ۔ بتا دوں گی ، اتنی جلدی کیا ہے ؟ ۔۔
اب عاشر سے صبر نہیں ہو رہا تھا۔ لہذا اس نے شرم و لحاظ چھوڑ کر زوہا کو اپنے نشانے پر لے لیا۔ ریحانہ اس وقت گھر میں موجود تھی ۔ بھابی اسے رپورٹ دیتی رہتی تھی۔ اس وقت وہ آپے سے باہر ہوا تو بھابی نے ریحانہ سے ایسے نازک وقت میں گھر سے جانے کا اشارہ کر دیا۔
ریحانہ خود اب یہاں نہیں ٹھہرنا چاہتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ فیصلہ کن مرحلہ آ پہنچا ہے۔ حملہ آور حملے کے لئے تیار ہے۔ بس ریموٹ کا بٹن دبانا ہے۔ ریموٹ کی صورت موبائل فون اس کے ہاتھ میں تھا۔ وہ سیدھی اپنے گھر گئی۔ تیزی سے اس نے سم تبدیل کی اور واش روم میں جا کر اس نے عاشر کو فون کیا۔
عاشر نے اپنی جیب سے فون نکالا اور بولا ۔۔ "ہیلو۔"
آپ کئی دنوں سے مجھ سے اپنی بچی کے اصل باپ کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ اگرچہ میری سہیلی زوہا نے مجھے اصل باپ کا نام بتا دیا تھا لیکن میں آپ کو اس کا نام بتا کر صدمہ نہیں پہنچانا چاہ رہی تھی۔ لیکن اب آپ بضد میں اور مجھے قسم بھی دے دی ہے لہذا مجبور ہو کر اس کا نام بتائے دیتی ہوں۔ آپ کی بچی کا اصل باپ ہے آپ کا چھوٹا بھائی صادق ۔۔
اس اطلاع نے عاشر کے تن بدن میں آگ لگا دی۔ وہ آپے سے باہر ہو گیا۔ اس کی نسوں میں دوڑنے والا خون تیزاب بن گیا۔ وہ دوڑتا ہوا کچن میں گیا، وہاں سے اس نے نو انچ لمبے پھل کی تیز دھار چھری اٹھائی اور تیزی سے زوہا پر وار کرتا چلا گیا۔
هر وار پر کہتا ۔۔ بتا، اس کا باپ کون ہے؟ ۔۔
زوہا تڑپ کر جواب دیتی ۔۔ آپ ۔۔
زوہا میں جب تک جان رہی ، وہ آپ کہتی رہی اور وہ چیختا رہا ۔۔ میں نہیں ، صادق بول ۔۔
گھر میں سب لوگ دم بخود کھڑے تھے۔ کسی میں ہمت نہ تھی کہ اس جنونی کا ہاتھ پکڑ لے۔
جب شیطانی کھیل ختم ہو گیا تو وہ خون آلود چھری لے کر گھر سے نکل گیا۔ تھانے میں جا کر اقبال جرم کر لیا۔ اس نے تھانیدار سے کہا کہ اس بچی کو کسی فلاحی ادارے میں بھجوا دیا جائے ، اسے گھر میں نہ رکھا جائے۔ میں اس گند کو گھر میں نہیں دیکھنا چاہتا اور صادق سے کہنا میرا انتظار کرے ۔۔۔۔۔
جب انارہ زوہا کے قتل کا منظر دیکھ رہی تھی تو حسب معمول اس کی حالت بگڑنے لگی۔ اس نے چھری کے یہ وار اپنے جسم پر محسوس کئے ۔ زوہا کے جسم سے ابلتا ہوا خون اس کے ہوش اڑا گیا۔ وہ گھٹی گھٹی سانس کے ساتھ بولی ۔۔ اماں بس کر ۔ ہٹا اس منظر کو میرے سامنے سے ۔۔
اچھا ۔۔ پریشان نہ ہو ۔۔۔ مائی پنکھی نے اپنی مٹھی کھولی ۔ جلدی جلدی کچھ پڑھا اور تیسرے گھر میں بیٹھی انارہ پر پھونک ماری۔
انارہ کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ وہ تیسرے گھر میں بیٹھی اپنے حواس درست کرنے لگی۔ لمبے اور گہرے سانس لے کر اس نے خود کو سنبھالا ۔
اتنی دیر میں مائی پنکھی نے چاندی کا بھاری تعویذ گلے میں ڈالا اور ساتویں گھر سے نکلتے ہوئے بولی ۔۔ چل انجو ۔۔ آ جا ۔۔
مائی پنکھی اپنی چارپائی پر جا کر لیٹ گئی۔ وہ جب بھی انارہ کی زندگی کی جھلک دکھاتی تو وہ خود بھی متاثر ہوتی تھی ۔ وہ نڈھال سی ہو جاتی تھی۔ انارہ، مائی پنکھی کے پیروں میں چارپائی پر بیٹھ گئی اور اس کی سوکھی ٹانگیں اپنی گود میں رکھ کر دبانے لگی۔ یہ وہ عمل تھا جس سے مائی پنکھی کو بہت سکون ملتا تھا اور اس کا دل خوش ہو جاتا تھا۔
ہاں انجو ۔۔ دیکھ لیا تو نے اپنا تیسرا گھر ۔۔۔ مائی پنکھی اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھے رکھے بولی۔
اماں ۔ اس حرافہ ریحانہ نے مجھ پر بڑا ظلم کیا ۔۔۔ انارہ نے بڑے تاسف سے کہا۔
ہاں ۔۔ لیکن بچی وہ بھی نہیں ۔ اس نے جوش میں آکر عاشر کی بھابی کے سامنے یہ راز کھول دیا۔ بھابی اتنے بڑے راز کو راز نہ رکھ سکی۔ اس نے صادق کو بتا دیا کہ یہ سب کیا دھرا ریحانہ کا ہے۔ اس نے شادی سے انکار کا انتقام لیا۔ صادق نے ریحانہ سے دوبارہ تعلقات استوار کئے اور پھر ایک دن وہ اسے سمندر پر لے گیا۔ اس کا گلا گھونٹا اور سمندر میں پھینک کر گھر آ گیا ۔۔۔ مائی پنکھی نے بتایا۔
اماں ۔ یہ بہت اچھا ہوا۔ یہ جان کر میرے کلیجے میں ٹھنڈک پڑ گئی ۔۔۔ انارہ خوش ہوتے ہوئے بولی۔
چل اب تو آرام کر ۔۔ اور مجھے اپنا کام کرنے دے ۔۔۔ مائی پنکھی چارپائی سے اٹھتے ہوئے بولی۔
اماں ۔ آدھی سے زیادہ رات گزر چکی ہے۔ اب تو کیا کام کرے گی۔ چل تو بھی سو جا ۔۔۔ انارہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
تجھے پتا ہے کہ میں رات کو نہیں سوتی۔ میں جانے کہاں ہوتی ہوں ۔۔ یہ کہہ کر مائی پنکھی ٹہلنے لگی ۔
اور انارہ نے کمرے کی طرف رخ کیا۔
0 تبصرے