جانے اس لڑکی میں کیا بات تھی کہ عابر کو وہ بھلائے نہ بھول رہی تھی۔ بس چھم سے اس کے سامنے آ کھڑی ہوتی۔ اس کی باتیں دماغ میں گونجنے لگتیں ۔۔
دیکھئے ، آئیے گا ضرور مجھے آپ کا انتظار رہے گا ۔۔
آخر یہ کون تھی جو گھٹا بن کر امڈی تھی، گھنگور گھٹا ۔ گھٹا چھاتی ہے تو ہر سو اندھیرا ہو جاتا ہے۔ اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ وہ بھی تو اسی طرح آئی تھی ، اسی طرح چھائی تھی۔ چند لمحے تو اسے اپنا ہوش بھی نہ رہا تھا۔ اس کی گلابی رنگت ، دوسرے کو اپنے حصار میں لینے والی آنکھیں، بات کرنے کا من موہنا انداز ، اس میں گہری دلچسپی، ملاقات کی آرزو۔ پیار بھرا انتظار ۔
عابر نا۔ نا کرتا، ایک شام اس کے اپارٹمنٹ کے دروازے پر جا پہنچا۔ دروازے پر کھڑے ہو کر جب اس نے نیم پلیٹ پر نظر ڈالی تو اسے احساس ہوا کہ شاید وہ غلط اپارٹمنٹ پر آ گیا ہے۔ نیم پلیٹ پر لکھا تھا۔ ڈاکٹر آرزو (ایم بی بی ایس)
عابر نے فورا اپنی جیب میں پڑا اس کا دیا ہوا وزٹنگ کارڈ نکالا ۔ کارڈ پر درج تھا ۔۔ آرزو ۔۔ اور نام کے نیچے آرٹسٹ لکھا تھا۔ اس نے سوچا، ہو سکتا ہے اس فلور پر آرزو نام کی کوئی ڈاکٹر بھی رہتی ہو۔ لیکن اپارٹمنٹ کا نمبر وہی تھا جو کارڈ پر لکھا تھا۔
عابر دراصل آرزو کو بغیر بتائے اس سے ملاقات کے لئے آ گیا تھا۔ وہ اسے سرپرائز دینا چاہتا تھا لیکن اب وہ خود متحیر رہ گیا تھا۔
مسئلے کا ایک حل تو یہ تھا کہ وہ کال بیل کا بٹن دبا کر دروازہ کھلنے کا انتظار کرے۔ دوسرے وہ آرزو کو اس کے موبائل پر کال کرے اور اس سے اس پہیلی کا جواب مانگے۔ ایک خیال اسے یہ بھی آیا کہ وہ بغیر بتائے اس کے دروازے تک پہنچ تو گیا ہے ممکن ہے وہ اس وقت گھر پر موجود نہ ہو۔ اس نے بجائے کال بیل کا بٹن دبانے کے اپنے موبائل فون کا بٹن دبانا زیادہ بہتر سمجھا۔ اپارٹمنٹ سے جانے کون نکلے اور اس سے جانے کیا سوال جواب کرنے پڑیں۔ ابھی موبائل کی گھنٹی پوری طرح بھی نہ بجی تھی کہ ادھر سے فون ریسیو کر لیا گیا۔ آرزو کی دلکش آواز سنائی دی۔ ”ہیلو“
آرزو صاحبہ میں عابر بول رہا ہوں ۔۔
کون عابر ۔۔ معاف کیجئے گا۔ میں آپ کو پہچانی نہیں ۔۔
وہ پہچانتی کیسے؟ وہ اس کے نام سے کب واقف تھی۔
میں وہ ہوں جسے آپ نے ایک سپر اسٹور میں اپنا کارڈ دیا اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی ۔۔
تھینکس گاڈ ۔ انتہائی سرشاری کے انداز میں کہا گیا۔ آپ کا فون تو آیا۔
آرزو صاحبہ فون ہی نہیں، میں خود بھی آ پہنچا ہوں ۔۔۔ عابر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اوہ گاڈ ۔۔ آپ تو مجھے خوشی سے دیوانہ کر دیں گے۔ کہاں ہیں آپ؟
آپ کے دروازے پر ۔۔۔ عابر خوشدلی سے بولا۔
اوہ گاڈ ۔۔ آپ تو نیم پلیٹ پڑھ کر پریشان ہو گئے ہوں گے ۔۔۔ آرزو نے مسئلے کو سمجھنے میں دیر نہ کی۔
جی واقعی ۔۔ ورنہ میں فون تھوڑے ہی کرتا ۔ کال بیل بجا کر آپ کو زبردست سر پرائز دیتا ۔۔۔ اس کا لہجہ خوشگوار تھا۔
اب بھی آپ کی آمد کسی سر پرائز سے کم نہیں۔ میں کھولتی ہوں دروازہ پلیز ویٹ ۔۔۔ آرزو نے بڑے پیار سے کہا۔ دروازہ کھولنے میں آرزو نے پانچ منٹ لگائے ۔ اتنی دیر میں شاید اس نے گھر سمیٹا یا پھر خود کو ٹچ اپ کرنے میں لگائے یا پھر اس نے لباس تبدیل کیا۔
دروازہ کھول کر وہ والہانہ انداز میں عابر کی طرف بڑھی۔ وہ جینز میں تھی۔ بال کھلے ہوئے تھے لیکن سادگی سے انہیں ایک کلپ میں سمیٹنا گیا گیا تھا۔ چہرے پر کوئی میک آپ نہ تھا، اگر تھا تو محض ٹچنگ کی صورت میں تھا۔
وہ اپنی مسحور کن آنکھوں میں ستارے سجائے بے اختیار اس کی طرف بڑھی۔ عابر دروازے سے چار قدم پیچھے کھڑا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرایا لیکن اپنی جگہ ساکت کھڑا رہا۔ آرزو اس کے گلے لگنا چاہتی تھی۔ عابر اس بات کو سمجھ نہ پایا۔
رسپانس نہ ملا تو آرزو نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔ عابر نے اس کا ریشمیں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ آرزو نے بہت نرم انداز میں اس کے ہاتھ پر دباؤ ڈالا اور ہلکا سا جھٹکا دے کر بولی ۔۔
بڑی خوش نصیب ہوں میں ۔۔ آپ آئے ۔۔
آرزو کا چہرہ گلنار ہو گیا تھا۔ خوشی اس سے سمٹائے نہیں سمٹ رہی تھی۔۔ آئیے پلیز۔ اندر آئیے ۔۔۔ وہ دروازے کے سامنے سے ایک طرف ہوتے ہوئے بولی۔
اپارٹمنٹ میں داخل ہوتے ہی سامنے دیوار تھی۔ سیدھے ہاتھ کو ایک دروازہ تھا جو بند تھا۔ آرزو اپارٹمنٹ کا دروازہ بند کر کے پلٹی ۔ عابر کا خیال تھا کہ دائیں جانب ڈرائنگ روم ہے۔ وہ اسے لے کر اندر جائے گی لیکن وہ بائیں جانب مڑی اور مسکراتے ہوئے بولی ۔۔ آئیے ۔۔
داٸیں جانب والا دروازہ ڈرائنگ روم نہ تھا۔ بعد میں عابر کو معلوم ھوا کہ وہ واش روم تھا۔ راہداری میں تھوڑا آگے چلنے کے بعد بائیں جانب ایک دروازہ نظر آیا۔ عابر نے سوچا یہ ڈرائنگ روم ہو گا لیکن وہ بھی ڈرائنگ روم نہ تھا، بیڈ روم تھا۔
آرزو آگے جا کر دائیں جانب مڑی جب عابر کو ایک وسیع لاؤنج نظر آیا۔ بائیں جانب ایک ڈائٹنگ ٹیبل تھی ، اس کے سامنے کچن تھا اور کچن کے ساتھ ایک بیڈ روم ۔ لاؤنج کے آخر میں ایک بڑا صوفہ پڑا تھا۔ سامنے شیشے کی دو میزیں تھیں اور کونے میں ایک بیڈ روم تھا جس کا دروازہ کھلا تھا۔
یہ ہے میرا غریب خانہ ۔۔۔ آرزو نے عابر کو ایک صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے سادگی سے کہا۔
یہ چار بیڈ کا انتہائی کشادہ اپارٹمنٹ تھا۔ آرزو کی طرح اس کا گھر بھی سادگی کا نمونہ تھا۔ عابر جہاں بیٹھا تھا، وہاں سے پورا اپارٹمنٹ اس کی نظر میں تھا۔ اس اپارٹمنٹ کا ہر دروازہ بند تھا، سوائے اس دروازے کے جو عابر کے سامنے تھا۔ چند لمحوں بعد آرزو نے اسے بھی بند کر دیا اور سامنے والے صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولی ۔۔
" کیسا لگا آپ کو میرا گھر ؟"
بہت اچھا ۔۔ بہت پیارا ۔۔۔ عابر نے سراہتے ہوئے کہا۔
تھینکس آپ کو میرا گھر ڈھونڈ نے میں وقت تو نہیں ہوئی؟ ۔۔۔ آرزو نے پوچھا۔
نہیں ۔۔ اس علاقے کے ایک پراپرٹی ڈیلر نے مجھے اس بلڈنگ کا پتا سمجھا دیا تھا۔ میں با آسانی یہاں تک پہنچ گیا لیکن دروازے پر لگی نیم پلیٹ نے مجھے چکرا دیا۔ کارڈ پر آرٹسٹ لکھا ہے۔ نیم پلیٹ پر ڈاکٹر ۔ آپ آخر ہیں کیا ؟ ۔۔
مجھے خود نہیں معلوم کہ میں کیا ہوں ۔۔۔ آرزو نے فلسفہ بگھارا۔
تو پھر آرزو کے آگے نا معلوم لکھوائیے اور شاعری فرمائیے ۔۔۔ عابر نے ہنس کر کہا۔
آپ ہنستے ہوئے بہت اچھے لگتے ہیں ۔۔۔ آرزو اسے اپنی گہری آنکھوں کے حصار میں لیتے ہوئے بولی۔۔ میں اصل میں ڈاکٹر ہوں۔ ایک سرکاری اسپتال میں ملازمت کرتی ہوں اور پینٹنگ میرا شوق ہے۔ اپنی پسند کے چہرے پینٹ کرتی ہوں ۔۔
کبھی آپ نے اپنی تصویروں کی نمائش بھی کی؟ ۔۔۔ عابر نے پوچھا اور یہاں سے وہاں تک دیوار پر نظر دوڑائی ۔ اسے ایک بھی پینٹنگ آویزاں نظر نہ آئی۔
چھی ۔۔۔ اس نے ایک خاص انداز سے ناک سکوڑ کر کہا۔۔" مجھے نمائش سے کوئی دلچسپی نہیں۔"
پھر بھی آپ کو اپنا کام لوگوں کے سامنے لانا چاہئے ۔۔۔ عابر بولا ۔
ارے چھوڑیں عابر صاحب۔ میں جانتی ہوں یہاں کے لوگوں کو۔ پینٹنگز چھوڑ کر مجھے دیکھنے لگ جائیں گے۔ میں تماشا بننے کے لئے تیار نہیں ۔۔۔ آرزو نے عجیب تاویل دی ۔
تو کیا ہوا ۔۔۔ عابر مسکرا کر بولا ۔۔ آپ بھی تو شاہکار ہیں ۔۔
شکریہ عابر صاحب ۔۔۔ آرزو نے اسے ترچھی نظروں سے دیکھا۔۔ آپ باتیں بھی زیر دست کرتے ہیں ۔۔
مجھے اتنا اہم بنانے کا بہت شکریہ ۔۔۔ عابر بولا ۔
اچھا ۔۔ یہ بتائیں کیا پٸیں گے؟ آرزو نے اٹھتے ہوئے کہا۔
کچھ نہیں ۔۔۔ عابد نے جلدی سے کہا۔۔ ارے۔ آپ بیٹھ جائیں ۔۔
نہیں۔ کچھ توبتائیں؟ ۔۔۔ آرزو نے اصرار کیا۔۔ چائے میں بہت اچھی بناتی ہوں ، چلیں چائے پیتے ہیں ۔۔۔ یہ کہہ کر وہ کچن میں داخل ہو گئی۔
کچن میں چائے بناتے دیکھ کر عابر کو احساس ہوا کہ شاید وہ اتنے بڑے اپارٹمنٹ میں اکیلی رہتی ہے۔ اگر اس گھر میں کوئی اس کے علاوہ ہوتا تو نظر تو آیا ہوتا۔ یا پھر اتنے تنہاٸی پسند لوگ تھے کہ اپنے کمروں میں بند تھے۔ گھر میں کون آیا، کون گیا، انہیں اس سے دلچسپی نہ تھی۔
آرزو نے چائے بہت تیزی سے بنائی۔ پانچ سات منٹ میں وہ چائے کے ساتھ فریج سے کباب نکال کر بھی تل لائی۔ ٹرے میز پر رکھ کر اس نے ایک کباب پلیٹ میں نکالا اور اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی۔۔
" میں نے سوچا آپ تکلف کریں گے، اس لئے خود ہی نکال کر دے دوں ۔ چکھ کر دیکھ لیجئے۔ شاید آپ کو پسند آئے ۔“
یہ کباب آپ نے بنائے ہیں؟ ۔۔۔ عابر نے پلیٹ اپنے سامنے رکھی، چھری سے کاٹ کر ٹکڑا کانٹے سے اُٹھایا اور منہ چلا کر بولا ۔۔
بہت عمدہ ۔۔
تھینکس ۔۔- آرزو مسکرائی۔
ایک بات بتائیے ۔۔۔ اس نے آرزو کو متوجہ کیا۔
جی۔ پوچھئے ۔۔۔ آرزو نے عابر کی آنکھوں میں دیکھا جیسے سوال کا اندازہ لگانا چاہتی ہو۔
کیا آپ اکیلی رہتی ہیں؟ عابر نے اپنے خیال کی تصدیق چاہی۔
یہ آپ نے کیسے اندازہ لگایا ؟ آرزو تھوڑا سا حیران ہوئی۔
مجھے ابھی تک کوئی آتا جاتا نظر نہیں آیا ۔۔۔ عابر نے کہا۔
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ میرے گھر والے اپنے کمروں میں آرام کر رہے ہوں ۔۔۔ آرزو نے سوال کیا۔
ہاں۔ ایسا ممکن ہے ۔۔۔ عابر نے اعتراف کیا۔
لیکن ایسا ہے نہیں۔ میں اس گھر میں واقعی اکیلی رہتی ہوں ۔۔
آپ کو ڈر نہیں لگتا ؟ ۔۔۔ عابر بولا ۔
نہیں ۔۔۔ آرزو نے بڑے یقین سے کہا۔۔ ”ڈر کس بات کا ؟“
لیکن میں اتنے بڑے گھر میں اکیلا نہیں سو سکتا ۔۔۔ عابر نے صاف گوئی سے کہا۔
آرزو نے کہنا چاہا کہ مرد ہو کر بھی ڈرتے ہیں لیکن کہا نہیں۔ وہ سادگی سے اتنا بولی ۔۔ حیرت ہے ۔۔
چائے کے دوران آرزو کا موبائل دو تین بار بجا۔ ایک نمبر اس نے دیکھ کر کاٹا ، دوسری کال پر ” اچھا ٹھیک ہے " کہہ کر موبائل بند کر دیا۔ تیسرے فون پر وہ "ہیلو، ہیلو“ کہتی صوفے سے اٹھ گئی جیسے اُدھر سے آواز صاف نہ آ رہی ہو۔ وہ سامنے والے کمرے میں چلی گئی اور دروازہ اندر سے بند کر لیا۔
پانچ منٹ بعد وہ واپس آئی ، موبائل فون شیشے کی میز پر پٹخا اور خود کلامی کے انداز میں بولی۔۔
اسپتال کی نوکری عذاب ہے۔ ہر وقت ایمرجنسی نافذ رہتی ہے۔ اسپتال سے ایمر جنسی کال ہے، مجھے جانا ہوگا ۔۔
جائیں ۔۔ فورا جائیں ۔۔۔ عابر اٹھتا ہوا بولا ۔
بیٹھیں پلیز۔ اب ایسی بھی ایمرجنسی نہیں ۔ گاڑی آئے گی تب جاؤں گی ۔۔۔ آرزو نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔ آپ پہلی بار آئے۔ میں آپ کو ٹائم نہ دے سکی۔ سوری ۔۔ عابر ۔۔ آپ مجھے اپنا سیل نمبر دینا پسند کریں گے؟
ڈاکٹر آرزو ۔۔ ابھی جو میں نے آپ کو کال کی تھی، اسے سیو کر لیں ۔۔۔ عابر نے خندہ پیشانی سے کہا۔
آرزو نے اس کے نمبر کو سیو کر لیا اور مسکراتے ہوئے بولی۔۔
" آپ آئے مجھے خوشی ملی ۔ آئندہ آئیں تو مجھے فون پر چیک ضرور کر لیں۔ میں گھر پر مشکل سے ہی ہوتی ہوں۔"
ٹھیک ہے ۔۔۔ عابر یہ کہہ کر اٹھنے لگا۔۔ " آپ جانے کی تیاری کیجئے، میں چلتا ہوں ، پھر ملیں گے۔"
آرزو اسے چھوڑ نے دروازے تک آئی۔ اس سے آئندہ آنے کا وعدہ لیا اور کھٹ سے دروازہ بند کر لیا۔
عابر سیڑھیاں اتر کر بلڈنگ سے باہر آیا تو ایک ڈارک شیشوں والی گاڑی جس پر سرکاری نمبر پلیٹ لگی تھی ، دروازے سے تھوڑا آگے کھڑی تھی۔ عابر اس گاڑی پر ایک سرسری سی
نظر ڈال کر سڑک پر آ گیا۔
ابھی وہ آگے بڑھا ہی تھا کہ سڑک کے کنارے اسے ”بابا دنیا“ نظر آ گیا۔ اس سے قبل کہ بابا اسے متوجہ کرتا ، عابر خود اس کی طرف بڑھ گیا۔ اس بابا سے عابر کو کچھ عقیدت سی ہو گئی تھی۔
ڈاکٹر شوکت کے گھر سے نکل کر جب عابر بےنشاں منزل کی طرف گامزن تھا تو اس بابا دنیا نے اسے منزل عطا کی تھی۔ اگر وہ نازنین کی بیماری کا ذکر نہ کرتا تو وہ ہرگز گھر کا رخ نہ کرتا اور اب جانے کہاں بھٹک رہا ہوتا ۔
نازنین کو جب معلوم ہوا کہ ایک فقیر نے اسے گھر کی راہ دکھائی تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ بیٹا وہ آئندہ ملے تو اسے گھر لے آنا۔ یہی سوچ کر وہ اس کی طرف بڑھا تھا۔
وہ فقیر اسے دیکھ کر اُٹھ کھڑا ہوا اور اس کے آگے ہاتھ پھیلا کر بولا ۔۔ دے اللہ کے نام پر ۔۔
عابر نے جیب سے پچاس روپے کا نوٹ نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیا اور بولا ۔۔ بابا ۔ آپ کا نام کیا ہے؟
فقیروں کا کوئی نام نہیں ہوتا ۔ نام بس اللہ کا ہے۔ وہی اول ، وہی آخر ۔۔
بابا ۔۔ آپ میرے ساتھ گھر چلیں۔ میری ماں آپ سے ملنا چاہتی ہیں ۔۔ عابر نے التجا آمیز لہجے میں کہا۔
اس سے اس کا بیٹا ملا دیا۔ اور کیا چاہتی ہے وہ؟ ۔۔۔ بابا دنیا نے سوال کیا۔
آپ کو دیکھنا چاہتی ہیں ۔۔۔ عابر نے بتایا۔
ہم کسی کے گھر نہیں جاتے ۔۔۔ بابا دنیا نے دوٹوک لہجے میں کہا۔
بابا چلیں نا ۔۔ میں آپ کو رکشا میں بٹھا کر لے جاؤں گا اور واپسی میں آپ جہاں کہیں گے، چھوڑ دوں گا ۔۔۔ عابر نے اصرار کیا۔
نہیں ۔۔ تو جا ۔۔ دیکھ تجھے دنیا ڈھونڈ رہی ہے ۔۔۔ بابا دنیا نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ وہ ان آنکھوں کی تاب نہ لا سکا۔ اس نے اپنی آنکھیں جھکا لیں۔
اور جب اس نے پلکیں اٹھائیں تو اسے بابا دنیا دس قدم دور نظر آیا۔ وہ اپنی دھن میں مگن تیزی سے چلا جا رہا تھا۔ عابر کو اس کے جانے کا بڑا افسوس ہوا۔ اول تو اسے امید نہ تھی کہ بابا سے آئندہ بھی ملاقات ہو گی ۔ اسے اچانک اپنے سامنے دیکھ کر عابر یکدم خوش ہو گیا تھا لیکن بابا دنیا نے اس کے گھر جانے سے صاف انکار کر کے اسے افسردہ کر دیا تھا۔ اگر بابا دنیا اس کے ساتھ چلا جاتا تو نازنین اس کو دیکھ کر کتنی خوش ہوتی ۔ یہ وہ بابا تھا جس نے اس پر احسانِ عظیم کیا تھا۔ لیکن وہ اس کو گرداننے کو تیار نہ تھا۔
عابر، بابا دنیا کے بارے میں سوچتا ہوا مارکیٹ تک پہنچا۔ اس اثنا میں اسے کوئی ٹیکسی یا رکشا نظر نہ آیا۔ ابھی وہ مین روڈ کی طرف مڑ ہی رہا تھا کہ پیچھے سے گاڑی کے ہارن کی آواز آئی۔ عابر نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ اتنے میں ایک کالی گاڑی اس کے برابر سے گزر گئی۔
یہ وہی گاڑی تھی جو آرزو کی بلڈنگ کے پاس کھڑی تھی۔ اندھے شیشوں کی وجہ سے عابر یہ نہ دیکھ سکا کہ اس کی پچھلی سیٹ پر آرزو براجمان تھی۔
تیرہویں کا چاند اپنی تیز روشنی صحرا پر بکھیر رہا تھا۔ چاند کی تیرہ ہونے کی وجہ سے چاند مکمل نہ تھا۔ ہلکا سا کٹا ہوا تھا لیکن اس کی روشنی چودھویں کے چاند سے زیادہ تیز تھی ۔ لق و دق صحرا پر برستی چاندنی اس کے ذرے ذرے کو منور کر رہی تھی۔ جنگل میں منگل کا سماں ہوتا ہے لیکن یہاں صحرا میں ” اتوار “ کا سماں تھا۔
ایک طرف پچاس ساٹھ دیگیں چڑھی تھیں جن میں نت نئے کھانے پکائے جا رھے تھے۔ تھوڑے فاصلے پر مونڈھے قطاروں میں رکھے تھے۔ مونڈھوں کے درمیان ایک چوڑا راستہ تھا جس پر موٹا سرخ قالین بچھا ہوا تھا اور یہ قالین اس اسٹیج تک چلا گیا تھا جو ایک ریت کے ٹیلے پر بنایا گیا تھا۔ اسٹیج پر بھی سرخ قالین بچھا تھا۔ چھ سات سیڑھیاں تھیں جنہیں عبور کر کے اسٹیج پر پہنچا جا سکتا تھا۔ اسٹیج پر پشتوں والے دو مونڈھے موجود تھے جن کی پشت پر مخملی غلاف چڑھا ہوا تھا اور ان پر چرمی موٹی گدیاں رکھی تھیں۔
لوگوں کی آمد شروع ہو چکی تھی ۔ ہر مہمان اپنی پسند کی نشست پر بیٹھتا جا رھا تھا ۔ مہمانوں میں مرد اور عورتیں دونوں تھے۔ عورتوں کی تعداد زیادہ تھی۔ شیطان نما انسانوں کی یہ سالانہ تقریب تھی۔ ایک بڑے شیطان کے ہاتھوں یہاں اعزازات دیے جانے تھے۔ اس تقریب میں ان انسانوں کو جو شیطان کے چیلے تھے اور اب شیطانوں کا روپ دھار چکے تھے، انعامات ملنے تھے۔ خصوصی انتظام کے تحت انہیں گھروں سے لایا اور پھر واپس چھوڑا جانا تھا۔
یہ تقریب دراصل ایک خواب کی کیفیت میں منعقد ہوتی تھی۔ جب بندہ سو کر اٹھتا تو اپنے سرہانے رکھے ایوارڈ کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں ایک فلم سی چل جاتی اور جسے ایوارڈ نہ ملتا، اس کے سرہانے تقریب کا پرساد موجود ہوتا ۔ یہ ایک کوٸلے جیسا چھوٹا ٹکڑا ہوتا۔ اسے دانتوں سے کاٹ کر کھایا جاتا تھا۔
کھلے آسمان تلے ہونے والی یہ سالانہ تقریب شروع ہونے والی تھی۔ سارے مہمان آ چکے تھے۔ اب ایک مونڈھا بھی خالی نہ تھا۔ ہر مہمان کو ان کی نشستوں پر ایک بڑی پلیٹ میں کھانا مہیا کیا جا چکا تھا۔ لوگ اپنی اپنی پلیٹیں خالی کر کے مونڈھوں کے ساتھ رکھ چکے تھے۔ اب مٹی کے پیالوں میں مشروب پیا جا رہا تھا۔ یہ خون نما تلخ مشروب مہمان مزے سے چسکیاں لے کر پی رہے تھے۔
اتنے میں ایک دیو نما شخص اسٹیج پر نمودار ہوا۔ اس کے ہاتھ پاؤں اور جسم دھویں کی سی کیفیت لئے ہوئے تھے جبکہ چہرہ ٹھوس مگر مکروہ تھا۔ اسٹیج پر اس کے نمودار ہوتے ہی ایک ہلچل سی مچ گئی۔ سارے مہمان اپنے ہاتھوں میں مٹی کے پیالے لئے ہوئے احتراماً کھڑے ہو گئے۔ پھر جب وہ دیو نما شخص ہلتا جلتا ایک بڑے مونڈھے پر بیٹھ گیا تو اس کے بیٹھتے ہی اور سب لوگ بھی اپنی نشستوں پر براجمان ہو گئے ۔
لوگوں کے بیٹھتے ہی ایک شخص سرخ لباس پہنے، اسٹیج پر پہلوانوں کی طرح چلتا آیا اور اسٹیج کے درمیان کھڑا ہو گیا۔ اس سخت چہرے والے شخص نے حاضرین پر نظر ڈالی اور چیخ کر بولا ۔۔
مائی پنکھی حاضر ہو ۔۔
اگلی قطار میں مونڈھے پر بیٹھی مائی پنکھی اپنا نام سن کر سرخ لباس سنبھالتی تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ سیڑھیاں چڑھ کر اسٹیج پر پہنچی تو اسے دیکھ کر بڑے مونڈھے پر بیٹھا شیطان اپنی جگہ کھڑا ہو گیا۔
مائی پنکھی اس کے سامنے جھکنے لگی تو اس نے اشارے سے روکا اور بولا ۔۔ آج تو ہمیں تیرے سامنے جھکنا چاہئے تو پہلی انسان ہے جس نے یہ اعزاز حاصل کیا ہے ۔۔
تیری بڑی مہربانی بگا ۔۔۔ مائی پنکھی بولی۔
آ بیٹھ جا ۔۔۔ بگا نے اپنے برابر رکھے خالی مونڈھے کی طرف اشارہ کیا۔
مائی پنکھی کے لئے یہ ایک اور اعزاز تھا کہ اسے بگا کے برابر بیٹھنے کی جگہ مل رہی تھی۔ مائی پنکھی کے مونڈھا سنبھالنے کے بعد بگا بھی اپنے مونڈھے پر براجمان ہو گیا۔
اتنے میں ایک کالی چمکتی ہوئی عورت تھال میں ایک جگمگاتا تاج لے کر آئی۔ اس کے پیچھے دو عورتیں اور تھیں۔ وہ دونوں مائی پنکھی کے پیچھے آ کر کھڑی ہو گئیں جبکہ تاج لانے والی عورت بگا کے سامنے آکر رک گئی۔
چند لمحوں بعد سخت چہرے والا شخص پھر نمودار ہوا۔ اس نے اسٹیج کے درمیان کھڑے ہو کر مائی پنکھی کے کارناموں پر روشنی ڈالنا شروع کی ۔۔۔
بتایا گیا کہ مائی پنکھی کو یہ اعزاز کس وجہ سے عطا کیا گیا ہے۔ مختلف شیطانی قو تیں حاصل کرنے کے لئے مائی پنکھی نے جو جتن کئے ، آج اس کے صلے میں اسے " رانی" کا خطاب دیا اور تاج پوشی کی جا رہی تھی۔
سپاس نامہ پڑھ کر وہ سخت چہرے والا شخص پہلوانوں کی طرح چلتا واپس چلا گیا ۔ تب وہ چمکتی ہوئی کالی عورت بگا کی جانب بڑھی۔ اس نے جھک کر تاج پیش کیا۔
بگا نے جگمگاتا تاج مائی پنکھی کے سر پر رکھا اور بولا ۔۔
” پنکھی ، آج سے تو رانی ہوئی ۔"
سر پر تاج سجاتے ہی حاضرین نے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں۔ پیچھے کھڑی عورتوں نے فورا تاج سنبھال لیا۔ اور مائی پنکھی کے سر پر اچھی طرح جما دیا۔ تب رانی پنکھی کھڑی ہوئی۔ اسے اٹھتے دیکھ کر بگا بھی کھڑا ہو گیا۔ دونوں ساتھ چلتے ہوئے اسٹیج کے درمیان میں آ کر کھڑے ہو گئے۔
بگا نے ہاتھ اٹھا کر ہوا میں لہرایا تو حاضرین نے یک لخت تالیاں بجانا بند کر دیں اور اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے۔
پھر بگا، رانی پنکھی کو لے کر سیڑھیوں سے اترا اور باٸیں جانب آگے بڑھا۔ تھوڑے فاصلے پر ایک رتھ کھڑا ہوا نظر آیا۔ اس رتھ میں آٹھ سفید گھوڑے جتے ہوئے تھے۔ بگا نے رانی پنکھی کو سہارا دے کر رتھ میں بٹھایا اور اس سے مخاطب ہو کر بولا ۔۔
پنکھی، اب تو رانی ہو گئی، اب تو مجھے اپنا راجہ کب بنائے گی؟
دیکھ بگا ۔۔ مجھے ابھی اور آگے جانا ہے۔ تیری رانی بن کر اپنی راہ کھوٹی نہیں کرنا چاہتی ۔۔۔ رانی پنکھی نے فیصلہ کن انداز میں کہا اور یہ جواب بگا کا دل چیر گیا۔
پنکھی ۔۔ پھر دیکھ لے؟ ۔۔۔ بگا کے لہجے میں دھمکی تھی۔
اب کیا دیکھنا ۔۔۔ رانی پنکھی نے بے اعتنائی سے جواب دیا۔ اب اسے پنکھ لگ چکے تھے۔
دیکھئے ، آئیے گا ضرور مجھے آپ کا انتظار رہے گا ۔۔
آخر یہ کون تھی جو گھٹا بن کر امڈی تھی، گھنگور گھٹا ۔ گھٹا چھاتی ہے تو ہر سو اندھیرا ہو جاتا ہے۔ اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ وہ بھی تو اسی طرح آئی تھی ، اسی طرح چھائی تھی۔ چند لمحے تو اسے اپنا ہوش بھی نہ رہا تھا۔ اس کی گلابی رنگت ، دوسرے کو اپنے حصار میں لینے والی آنکھیں، بات کرنے کا من موہنا انداز ، اس میں گہری دلچسپی، ملاقات کی آرزو۔ پیار بھرا انتظار ۔
عابر نا۔ نا کرتا، ایک شام اس کے اپارٹمنٹ کے دروازے پر جا پہنچا۔ دروازے پر کھڑے ہو کر جب اس نے نیم پلیٹ پر نظر ڈالی تو اسے احساس ہوا کہ شاید وہ غلط اپارٹمنٹ پر آ گیا ہے۔ نیم پلیٹ پر لکھا تھا۔ ڈاکٹر آرزو (ایم بی بی ایس)
عابر نے فورا اپنی جیب میں پڑا اس کا دیا ہوا وزٹنگ کارڈ نکالا ۔ کارڈ پر درج تھا ۔۔ آرزو ۔۔ اور نام کے نیچے آرٹسٹ لکھا تھا۔ اس نے سوچا، ہو سکتا ہے اس فلور پر آرزو نام کی کوئی ڈاکٹر بھی رہتی ہو۔ لیکن اپارٹمنٹ کا نمبر وہی تھا جو کارڈ پر لکھا تھا۔
عابر دراصل آرزو کو بغیر بتائے اس سے ملاقات کے لئے آ گیا تھا۔ وہ اسے سرپرائز دینا چاہتا تھا لیکن اب وہ خود متحیر رہ گیا تھا۔
مسئلے کا ایک حل تو یہ تھا کہ وہ کال بیل کا بٹن دبا کر دروازہ کھلنے کا انتظار کرے۔ دوسرے وہ آرزو کو اس کے موبائل پر کال کرے اور اس سے اس پہیلی کا جواب مانگے۔ ایک خیال اسے یہ بھی آیا کہ وہ بغیر بتائے اس کے دروازے تک پہنچ تو گیا ہے ممکن ہے وہ اس وقت گھر پر موجود نہ ہو۔ اس نے بجائے کال بیل کا بٹن دبانے کے اپنے موبائل فون کا بٹن دبانا زیادہ بہتر سمجھا۔ اپارٹمنٹ سے جانے کون نکلے اور اس سے جانے کیا سوال جواب کرنے پڑیں۔ ابھی موبائل کی گھنٹی پوری طرح بھی نہ بجی تھی کہ ادھر سے فون ریسیو کر لیا گیا۔ آرزو کی دلکش آواز سنائی دی۔ ”ہیلو“
آرزو صاحبہ میں عابر بول رہا ہوں ۔۔
کون عابر ۔۔ معاف کیجئے گا۔ میں آپ کو پہچانی نہیں ۔۔
وہ پہچانتی کیسے؟ وہ اس کے نام سے کب واقف تھی۔
میں وہ ہوں جسے آپ نے ایک سپر اسٹور میں اپنا کارڈ دیا اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی ۔۔
تھینکس گاڈ ۔ انتہائی سرشاری کے انداز میں کہا گیا۔ آپ کا فون تو آیا۔
آرزو صاحبہ فون ہی نہیں، میں خود بھی آ پہنچا ہوں ۔۔۔ عابر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اوہ گاڈ ۔۔ آپ تو مجھے خوشی سے دیوانہ کر دیں گے۔ کہاں ہیں آپ؟
آپ کے دروازے پر ۔۔۔ عابر خوشدلی سے بولا۔
اوہ گاڈ ۔۔ آپ تو نیم پلیٹ پڑھ کر پریشان ہو گئے ہوں گے ۔۔۔ آرزو نے مسئلے کو سمجھنے میں دیر نہ کی۔
جی واقعی ۔۔ ورنہ میں فون تھوڑے ہی کرتا ۔ کال بیل بجا کر آپ کو زبردست سر پرائز دیتا ۔۔۔ اس کا لہجہ خوشگوار تھا۔
اب بھی آپ کی آمد کسی سر پرائز سے کم نہیں۔ میں کھولتی ہوں دروازہ پلیز ویٹ ۔۔۔ آرزو نے بڑے پیار سے کہا۔ دروازہ کھولنے میں آرزو نے پانچ منٹ لگائے ۔ اتنی دیر میں شاید اس نے گھر سمیٹا یا پھر خود کو ٹچ اپ کرنے میں لگائے یا پھر اس نے لباس تبدیل کیا۔
دروازہ کھول کر وہ والہانہ انداز میں عابر کی طرف بڑھی۔ وہ جینز میں تھی۔ بال کھلے ہوئے تھے لیکن سادگی سے انہیں ایک کلپ میں سمیٹنا گیا گیا تھا۔ چہرے پر کوئی میک آپ نہ تھا، اگر تھا تو محض ٹچنگ کی صورت میں تھا۔
وہ اپنی مسحور کن آنکھوں میں ستارے سجائے بے اختیار اس کی طرف بڑھی۔ عابر دروازے سے چار قدم پیچھے کھڑا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرایا لیکن اپنی جگہ ساکت کھڑا رہا۔ آرزو اس کے گلے لگنا چاہتی تھی۔ عابر اس بات کو سمجھ نہ پایا۔
رسپانس نہ ملا تو آرزو نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔ عابر نے اس کا ریشمیں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ آرزو نے بہت نرم انداز میں اس کے ہاتھ پر دباؤ ڈالا اور ہلکا سا جھٹکا دے کر بولی ۔۔
بڑی خوش نصیب ہوں میں ۔۔ آپ آئے ۔۔
آرزو کا چہرہ گلنار ہو گیا تھا۔ خوشی اس سے سمٹائے نہیں سمٹ رہی تھی۔۔ آئیے پلیز۔ اندر آئیے ۔۔۔ وہ دروازے کے سامنے سے ایک طرف ہوتے ہوئے بولی۔
اپارٹمنٹ میں داخل ہوتے ہی سامنے دیوار تھی۔ سیدھے ہاتھ کو ایک دروازہ تھا جو بند تھا۔ آرزو اپارٹمنٹ کا دروازہ بند کر کے پلٹی ۔ عابر کا خیال تھا کہ دائیں جانب ڈرائنگ روم ہے۔ وہ اسے لے کر اندر جائے گی لیکن وہ بائیں جانب مڑی اور مسکراتے ہوئے بولی ۔۔ آئیے ۔۔
داٸیں جانب والا دروازہ ڈرائنگ روم نہ تھا۔ بعد میں عابر کو معلوم ھوا کہ وہ واش روم تھا۔ راہداری میں تھوڑا آگے چلنے کے بعد بائیں جانب ایک دروازہ نظر آیا۔ عابر نے سوچا یہ ڈرائنگ روم ہو گا لیکن وہ بھی ڈرائنگ روم نہ تھا، بیڈ روم تھا۔
آرزو آگے جا کر دائیں جانب مڑی جب عابر کو ایک وسیع لاؤنج نظر آیا۔ بائیں جانب ایک ڈائٹنگ ٹیبل تھی ، اس کے سامنے کچن تھا اور کچن کے ساتھ ایک بیڈ روم ۔ لاؤنج کے آخر میں ایک بڑا صوفہ پڑا تھا۔ سامنے شیشے کی دو میزیں تھیں اور کونے میں ایک بیڈ روم تھا جس کا دروازہ کھلا تھا۔
یہ ہے میرا غریب خانہ ۔۔۔ آرزو نے عابر کو ایک صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے سادگی سے کہا۔
یہ چار بیڈ کا انتہائی کشادہ اپارٹمنٹ تھا۔ آرزو کی طرح اس کا گھر بھی سادگی کا نمونہ تھا۔ عابر جہاں بیٹھا تھا، وہاں سے پورا اپارٹمنٹ اس کی نظر میں تھا۔ اس اپارٹمنٹ کا ہر دروازہ بند تھا، سوائے اس دروازے کے جو عابر کے سامنے تھا۔ چند لمحوں بعد آرزو نے اسے بھی بند کر دیا اور سامنے والے صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولی ۔۔
" کیسا لگا آپ کو میرا گھر ؟"
بہت اچھا ۔۔ بہت پیارا ۔۔۔ عابر نے سراہتے ہوئے کہا۔
تھینکس آپ کو میرا گھر ڈھونڈ نے میں وقت تو نہیں ہوئی؟ ۔۔۔ آرزو نے پوچھا۔
نہیں ۔۔ اس علاقے کے ایک پراپرٹی ڈیلر نے مجھے اس بلڈنگ کا پتا سمجھا دیا تھا۔ میں با آسانی یہاں تک پہنچ گیا لیکن دروازے پر لگی نیم پلیٹ نے مجھے چکرا دیا۔ کارڈ پر آرٹسٹ لکھا ہے۔ نیم پلیٹ پر ڈاکٹر ۔ آپ آخر ہیں کیا ؟ ۔۔
مجھے خود نہیں معلوم کہ میں کیا ہوں ۔۔۔ آرزو نے فلسفہ بگھارا۔
تو پھر آرزو کے آگے نا معلوم لکھوائیے اور شاعری فرمائیے ۔۔۔ عابر نے ہنس کر کہا۔
آپ ہنستے ہوئے بہت اچھے لگتے ہیں ۔۔۔ آرزو اسے اپنی گہری آنکھوں کے حصار میں لیتے ہوئے بولی۔۔ میں اصل میں ڈاکٹر ہوں۔ ایک سرکاری اسپتال میں ملازمت کرتی ہوں اور پینٹنگ میرا شوق ہے۔ اپنی پسند کے چہرے پینٹ کرتی ہوں ۔۔
کبھی آپ نے اپنی تصویروں کی نمائش بھی کی؟ ۔۔۔ عابر نے پوچھا اور یہاں سے وہاں تک دیوار پر نظر دوڑائی ۔ اسے ایک بھی پینٹنگ آویزاں نظر نہ آئی۔
چھی ۔۔۔ اس نے ایک خاص انداز سے ناک سکوڑ کر کہا۔۔" مجھے نمائش سے کوئی دلچسپی نہیں۔"
پھر بھی آپ کو اپنا کام لوگوں کے سامنے لانا چاہئے ۔۔۔ عابر بولا ۔
ارے چھوڑیں عابر صاحب۔ میں جانتی ہوں یہاں کے لوگوں کو۔ پینٹنگز چھوڑ کر مجھے دیکھنے لگ جائیں گے۔ میں تماشا بننے کے لئے تیار نہیں ۔۔۔ آرزو نے عجیب تاویل دی ۔
تو کیا ہوا ۔۔۔ عابر مسکرا کر بولا ۔۔ آپ بھی تو شاہکار ہیں ۔۔
شکریہ عابر صاحب ۔۔۔ آرزو نے اسے ترچھی نظروں سے دیکھا۔۔ آپ باتیں بھی زیر دست کرتے ہیں ۔۔
مجھے اتنا اہم بنانے کا بہت شکریہ ۔۔۔ عابر بولا ۔
اچھا ۔۔ یہ بتائیں کیا پٸیں گے؟ آرزو نے اٹھتے ہوئے کہا۔
کچھ نہیں ۔۔۔ عابد نے جلدی سے کہا۔۔ ارے۔ آپ بیٹھ جائیں ۔۔
نہیں۔ کچھ توبتائیں؟ ۔۔۔ آرزو نے اصرار کیا۔۔ چائے میں بہت اچھی بناتی ہوں ، چلیں چائے پیتے ہیں ۔۔۔ یہ کہہ کر وہ کچن میں داخل ہو گئی۔
کچن میں چائے بناتے دیکھ کر عابر کو احساس ہوا کہ شاید وہ اتنے بڑے اپارٹمنٹ میں اکیلی رہتی ہے۔ اگر اس گھر میں کوئی اس کے علاوہ ہوتا تو نظر تو آیا ہوتا۔ یا پھر اتنے تنہاٸی پسند لوگ تھے کہ اپنے کمروں میں بند تھے۔ گھر میں کون آیا، کون گیا، انہیں اس سے دلچسپی نہ تھی۔
آرزو نے چائے بہت تیزی سے بنائی۔ پانچ سات منٹ میں وہ چائے کے ساتھ فریج سے کباب نکال کر بھی تل لائی۔ ٹرے میز پر رکھ کر اس نے ایک کباب پلیٹ میں نکالا اور اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی۔۔
" میں نے سوچا آپ تکلف کریں گے، اس لئے خود ہی نکال کر دے دوں ۔ چکھ کر دیکھ لیجئے۔ شاید آپ کو پسند آئے ۔“
یہ کباب آپ نے بنائے ہیں؟ ۔۔۔ عابر نے پلیٹ اپنے سامنے رکھی، چھری سے کاٹ کر ٹکڑا کانٹے سے اُٹھایا اور منہ چلا کر بولا ۔۔
بہت عمدہ ۔۔
تھینکس ۔۔- آرزو مسکرائی۔
ایک بات بتائیے ۔۔۔ اس نے آرزو کو متوجہ کیا۔
جی۔ پوچھئے ۔۔۔ آرزو نے عابر کی آنکھوں میں دیکھا جیسے سوال کا اندازہ لگانا چاہتی ہو۔
کیا آپ اکیلی رہتی ہیں؟ عابر نے اپنے خیال کی تصدیق چاہی۔
یہ آپ نے کیسے اندازہ لگایا ؟ آرزو تھوڑا سا حیران ہوئی۔
مجھے ابھی تک کوئی آتا جاتا نظر نہیں آیا ۔۔۔ عابر نے کہا۔
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ میرے گھر والے اپنے کمروں میں آرام کر رہے ہوں ۔۔۔ آرزو نے سوال کیا۔
ہاں۔ ایسا ممکن ہے ۔۔۔ عابر نے اعتراف کیا۔
لیکن ایسا ہے نہیں۔ میں اس گھر میں واقعی اکیلی رہتی ہوں ۔۔
آپ کو ڈر نہیں لگتا ؟ ۔۔۔ عابر بولا ۔
نہیں ۔۔۔ آرزو نے بڑے یقین سے کہا۔۔ ”ڈر کس بات کا ؟“
لیکن میں اتنے بڑے گھر میں اکیلا نہیں سو سکتا ۔۔۔ عابر نے صاف گوئی سے کہا۔
آرزو نے کہنا چاہا کہ مرد ہو کر بھی ڈرتے ہیں لیکن کہا نہیں۔ وہ سادگی سے اتنا بولی ۔۔ حیرت ہے ۔۔
چائے کے دوران آرزو کا موبائل دو تین بار بجا۔ ایک نمبر اس نے دیکھ کر کاٹا ، دوسری کال پر ” اچھا ٹھیک ہے " کہہ کر موبائل بند کر دیا۔ تیسرے فون پر وہ "ہیلو، ہیلو“ کہتی صوفے سے اٹھ گئی جیسے اُدھر سے آواز صاف نہ آ رہی ہو۔ وہ سامنے والے کمرے میں چلی گئی اور دروازہ اندر سے بند کر لیا۔
پانچ منٹ بعد وہ واپس آئی ، موبائل فون شیشے کی میز پر پٹخا اور خود کلامی کے انداز میں بولی۔۔
اسپتال کی نوکری عذاب ہے۔ ہر وقت ایمرجنسی نافذ رہتی ہے۔ اسپتال سے ایمر جنسی کال ہے، مجھے جانا ہوگا ۔۔
جائیں ۔۔ فورا جائیں ۔۔۔ عابر اٹھتا ہوا بولا ۔
بیٹھیں پلیز۔ اب ایسی بھی ایمرجنسی نہیں ۔ گاڑی آئے گی تب جاؤں گی ۔۔۔ آرزو نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔ آپ پہلی بار آئے۔ میں آپ کو ٹائم نہ دے سکی۔ سوری ۔۔ عابر ۔۔ آپ مجھے اپنا سیل نمبر دینا پسند کریں گے؟
ڈاکٹر آرزو ۔۔ ابھی جو میں نے آپ کو کال کی تھی، اسے سیو کر لیں ۔۔۔ عابر نے خندہ پیشانی سے کہا۔
آرزو نے اس کے نمبر کو سیو کر لیا اور مسکراتے ہوئے بولی۔۔
" آپ آئے مجھے خوشی ملی ۔ آئندہ آئیں تو مجھے فون پر چیک ضرور کر لیں۔ میں گھر پر مشکل سے ہی ہوتی ہوں۔"
ٹھیک ہے ۔۔۔ عابر یہ کہہ کر اٹھنے لگا۔۔ " آپ جانے کی تیاری کیجئے، میں چلتا ہوں ، پھر ملیں گے۔"
آرزو اسے چھوڑ نے دروازے تک آئی۔ اس سے آئندہ آنے کا وعدہ لیا اور کھٹ سے دروازہ بند کر لیا۔
عابر سیڑھیاں اتر کر بلڈنگ سے باہر آیا تو ایک ڈارک شیشوں والی گاڑی جس پر سرکاری نمبر پلیٹ لگی تھی ، دروازے سے تھوڑا آگے کھڑی تھی۔ عابر اس گاڑی پر ایک سرسری سی
نظر ڈال کر سڑک پر آ گیا۔
ابھی وہ آگے بڑھا ہی تھا کہ سڑک کے کنارے اسے ”بابا دنیا“ نظر آ گیا۔ اس سے قبل کہ بابا اسے متوجہ کرتا ، عابر خود اس کی طرف بڑھ گیا۔ اس بابا سے عابر کو کچھ عقیدت سی ہو گئی تھی۔
ڈاکٹر شوکت کے گھر سے نکل کر جب عابر بےنشاں منزل کی طرف گامزن تھا تو اس بابا دنیا نے اسے منزل عطا کی تھی۔ اگر وہ نازنین کی بیماری کا ذکر نہ کرتا تو وہ ہرگز گھر کا رخ نہ کرتا اور اب جانے کہاں بھٹک رہا ہوتا ۔
نازنین کو جب معلوم ہوا کہ ایک فقیر نے اسے گھر کی راہ دکھائی تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ بیٹا وہ آئندہ ملے تو اسے گھر لے آنا۔ یہی سوچ کر وہ اس کی طرف بڑھا تھا۔
وہ فقیر اسے دیکھ کر اُٹھ کھڑا ہوا اور اس کے آگے ہاتھ پھیلا کر بولا ۔۔ دے اللہ کے نام پر ۔۔
عابر نے جیب سے پچاس روپے کا نوٹ نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیا اور بولا ۔۔ بابا ۔ آپ کا نام کیا ہے؟
فقیروں کا کوئی نام نہیں ہوتا ۔ نام بس اللہ کا ہے۔ وہی اول ، وہی آخر ۔۔
بابا ۔۔ آپ میرے ساتھ گھر چلیں۔ میری ماں آپ سے ملنا چاہتی ہیں ۔۔ عابر نے التجا آمیز لہجے میں کہا۔
اس سے اس کا بیٹا ملا دیا۔ اور کیا چاہتی ہے وہ؟ ۔۔۔ بابا دنیا نے سوال کیا۔
آپ کو دیکھنا چاہتی ہیں ۔۔۔ عابر نے بتایا۔
ہم کسی کے گھر نہیں جاتے ۔۔۔ بابا دنیا نے دوٹوک لہجے میں کہا۔
بابا چلیں نا ۔۔ میں آپ کو رکشا میں بٹھا کر لے جاؤں گا اور واپسی میں آپ جہاں کہیں گے، چھوڑ دوں گا ۔۔۔ عابر نے اصرار کیا۔
نہیں ۔۔ تو جا ۔۔ دیکھ تجھے دنیا ڈھونڈ رہی ہے ۔۔۔ بابا دنیا نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ وہ ان آنکھوں کی تاب نہ لا سکا۔ اس نے اپنی آنکھیں جھکا لیں۔
اور جب اس نے پلکیں اٹھائیں تو اسے بابا دنیا دس قدم دور نظر آیا۔ وہ اپنی دھن میں مگن تیزی سے چلا جا رہا تھا۔ عابر کو اس کے جانے کا بڑا افسوس ہوا۔ اول تو اسے امید نہ تھی کہ بابا سے آئندہ بھی ملاقات ہو گی ۔ اسے اچانک اپنے سامنے دیکھ کر عابر یکدم خوش ہو گیا تھا لیکن بابا دنیا نے اس کے گھر جانے سے صاف انکار کر کے اسے افسردہ کر دیا تھا۔ اگر بابا دنیا اس کے ساتھ چلا جاتا تو نازنین اس کو دیکھ کر کتنی خوش ہوتی ۔ یہ وہ بابا تھا جس نے اس پر احسانِ عظیم کیا تھا۔ لیکن وہ اس کو گرداننے کو تیار نہ تھا۔
عابر، بابا دنیا کے بارے میں سوچتا ہوا مارکیٹ تک پہنچا۔ اس اثنا میں اسے کوئی ٹیکسی یا رکشا نظر نہ آیا۔ ابھی وہ مین روڈ کی طرف مڑ ہی رہا تھا کہ پیچھے سے گاڑی کے ہارن کی آواز آئی۔ عابر نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ اتنے میں ایک کالی گاڑی اس کے برابر سے گزر گئی۔
یہ وہی گاڑی تھی جو آرزو کی بلڈنگ کے پاس کھڑی تھی۔ اندھے شیشوں کی وجہ سے عابر یہ نہ دیکھ سکا کہ اس کی پچھلی سیٹ پر آرزو براجمان تھی۔
تیرہویں کا چاند اپنی تیز روشنی صحرا پر بکھیر رہا تھا۔ چاند کی تیرہ ہونے کی وجہ سے چاند مکمل نہ تھا۔ ہلکا سا کٹا ہوا تھا لیکن اس کی روشنی چودھویں کے چاند سے زیادہ تیز تھی ۔ لق و دق صحرا پر برستی چاندنی اس کے ذرے ذرے کو منور کر رہی تھی۔ جنگل میں منگل کا سماں ہوتا ہے لیکن یہاں صحرا میں ” اتوار “ کا سماں تھا۔
ایک طرف پچاس ساٹھ دیگیں چڑھی تھیں جن میں نت نئے کھانے پکائے جا رھے تھے۔ تھوڑے فاصلے پر مونڈھے قطاروں میں رکھے تھے۔ مونڈھوں کے درمیان ایک چوڑا راستہ تھا جس پر موٹا سرخ قالین بچھا ہوا تھا اور یہ قالین اس اسٹیج تک چلا گیا تھا جو ایک ریت کے ٹیلے پر بنایا گیا تھا۔ اسٹیج پر بھی سرخ قالین بچھا تھا۔ چھ سات سیڑھیاں تھیں جنہیں عبور کر کے اسٹیج پر پہنچا جا سکتا تھا۔ اسٹیج پر پشتوں والے دو مونڈھے موجود تھے جن کی پشت پر مخملی غلاف چڑھا ہوا تھا اور ان پر چرمی موٹی گدیاں رکھی تھیں۔
لوگوں کی آمد شروع ہو چکی تھی ۔ ہر مہمان اپنی پسند کی نشست پر بیٹھتا جا رھا تھا ۔ مہمانوں میں مرد اور عورتیں دونوں تھے۔ عورتوں کی تعداد زیادہ تھی۔ شیطان نما انسانوں کی یہ سالانہ تقریب تھی۔ ایک بڑے شیطان کے ہاتھوں یہاں اعزازات دیے جانے تھے۔ اس تقریب میں ان انسانوں کو جو شیطان کے چیلے تھے اور اب شیطانوں کا روپ دھار چکے تھے، انعامات ملنے تھے۔ خصوصی انتظام کے تحت انہیں گھروں سے لایا اور پھر واپس چھوڑا جانا تھا۔
یہ تقریب دراصل ایک خواب کی کیفیت میں منعقد ہوتی تھی۔ جب بندہ سو کر اٹھتا تو اپنے سرہانے رکھے ایوارڈ کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں ایک فلم سی چل جاتی اور جسے ایوارڈ نہ ملتا، اس کے سرہانے تقریب کا پرساد موجود ہوتا ۔ یہ ایک کوٸلے جیسا چھوٹا ٹکڑا ہوتا۔ اسے دانتوں سے کاٹ کر کھایا جاتا تھا۔
کھلے آسمان تلے ہونے والی یہ سالانہ تقریب شروع ہونے والی تھی۔ سارے مہمان آ چکے تھے۔ اب ایک مونڈھا بھی خالی نہ تھا۔ ہر مہمان کو ان کی نشستوں پر ایک بڑی پلیٹ میں کھانا مہیا کیا جا چکا تھا۔ لوگ اپنی اپنی پلیٹیں خالی کر کے مونڈھوں کے ساتھ رکھ چکے تھے۔ اب مٹی کے پیالوں میں مشروب پیا جا رہا تھا۔ یہ خون نما تلخ مشروب مہمان مزے سے چسکیاں لے کر پی رہے تھے۔
اتنے میں ایک دیو نما شخص اسٹیج پر نمودار ہوا۔ اس کے ہاتھ پاؤں اور جسم دھویں کی سی کیفیت لئے ہوئے تھے جبکہ چہرہ ٹھوس مگر مکروہ تھا۔ اسٹیج پر اس کے نمودار ہوتے ہی ایک ہلچل سی مچ گئی۔ سارے مہمان اپنے ہاتھوں میں مٹی کے پیالے لئے ہوئے احتراماً کھڑے ہو گئے۔ پھر جب وہ دیو نما شخص ہلتا جلتا ایک بڑے مونڈھے پر بیٹھ گیا تو اس کے بیٹھتے ہی اور سب لوگ بھی اپنی نشستوں پر براجمان ہو گئے ۔
لوگوں کے بیٹھتے ہی ایک شخص سرخ لباس پہنے، اسٹیج پر پہلوانوں کی طرح چلتا آیا اور اسٹیج کے درمیان کھڑا ہو گیا۔ اس سخت چہرے والے شخص نے حاضرین پر نظر ڈالی اور چیخ کر بولا ۔۔
مائی پنکھی حاضر ہو ۔۔
اگلی قطار میں مونڈھے پر بیٹھی مائی پنکھی اپنا نام سن کر سرخ لباس سنبھالتی تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ سیڑھیاں چڑھ کر اسٹیج پر پہنچی تو اسے دیکھ کر بڑے مونڈھے پر بیٹھا شیطان اپنی جگہ کھڑا ہو گیا۔
مائی پنکھی اس کے سامنے جھکنے لگی تو اس نے اشارے سے روکا اور بولا ۔۔ آج تو ہمیں تیرے سامنے جھکنا چاہئے تو پہلی انسان ہے جس نے یہ اعزاز حاصل کیا ہے ۔۔
تیری بڑی مہربانی بگا ۔۔۔ مائی پنکھی بولی۔
آ بیٹھ جا ۔۔۔ بگا نے اپنے برابر رکھے خالی مونڈھے کی طرف اشارہ کیا۔
مائی پنکھی کے لئے یہ ایک اور اعزاز تھا کہ اسے بگا کے برابر بیٹھنے کی جگہ مل رہی تھی۔ مائی پنکھی کے مونڈھا سنبھالنے کے بعد بگا بھی اپنے مونڈھے پر براجمان ہو گیا۔
اتنے میں ایک کالی چمکتی ہوئی عورت تھال میں ایک جگمگاتا تاج لے کر آئی۔ اس کے پیچھے دو عورتیں اور تھیں۔ وہ دونوں مائی پنکھی کے پیچھے آ کر کھڑی ہو گئیں جبکہ تاج لانے والی عورت بگا کے سامنے آکر رک گئی۔
چند لمحوں بعد سخت چہرے والا شخص پھر نمودار ہوا۔ اس نے اسٹیج کے درمیان کھڑے ہو کر مائی پنکھی کے کارناموں پر روشنی ڈالنا شروع کی ۔۔۔
بتایا گیا کہ مائی پنکھی کو یہ اعزاز کس وجہ سے عطا کیا گیا ہے۔ مختلف شیطانی قو تیں حاصل کرنے کے لئے مائی پنکھی نے جو جتن کئے ، آج اس کے صلے میں اسے " رانی" کا خطاب دیا اور تاج پوشی کی جا رہی تھی۔
سپاس نامہ پڑھ کر وہ سخت چہرے والا شخص پہلوانوں کی طرح چلتا واپس چلا گیا ۔ تب وہ چمکتی ہوئی کالی عورت بگا کی جانب بڑھی۔ اس نے جھک کر تاج پیش کیا۔
بگا نے جگمگاتا تاج مائی پنکھی کے سر پر رکھا اور بولا ۔۔
” پنکھی ، آج سے تو رانی ہوئی ۔"
سر پر تاج سجاتے ہی حاضرین نے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں۔ پیچھے کھڑی عورتوں نے فورا تاج سنبھال لیا۔ اور مائی پنکھی کے سر پر اچھی طرح جما دیا۔ تب رانی پنکھی کھڑی ہوئی۔ اسے اٹھتے دیکھ کر بگا بھی کھڑا ہو گیا۔ دونوں ساتھ چلتے ہوئے اسٹیج کے درمیان میں آ کر کھڑے ہو گئے۔
بگا نے ہاتھ اٹھا کر ہوا میں لہرایا تو حاضرین نے یک لخت تالیاں بجانا بند کر دیں اور اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے۔
پھر بگا، رانی پنکھی کو لے کر سیڑھیوں سے اترا اور باٸیں جانب آگے بڑھا۔ تھوڑے فاصلے پر ایک رتھ کھڑا ہوا نظر آیا۔ اس رتھ میں آٹھ سفید گھوڑے جتے ہوئے تھے۔ بگا نے رانی پنکھی کو سہارا دے کر رتھ میں بٹھایا اور اس سے مخاطب ہو کر بولا ۔۔
پنکھی، اب تو رانی ہو گئی، اب تو مجھے اپنا راجہ کب بنائے گی؟
دیکھ بگا ۔۔ مجھے ابھی اور آگے جانا ہے۔ تیری رانی بن کر اپنی راہ کھوٹی نہیں کرنا چاہتی ۔۔۔ رانی پنکھی نے فیصلہ کن انداز میں کہا اور یہ جواب بگا کا دل چیر گیا۔
پنکھی ۔۔ پھر دیکھ لے؟ ۔۔۔ بگا کے لہجے میں دھمکی تھی۔
اب کیا دیکھنا ۔۔۔ رانی پنکھی نے بے اعتنائی سے جواب دیا۔ اب اسے پنکھ لگ چکے تھے۔
0 تبصرے