میرا نام سلمان ہے۔ زیادہ پڑھا لکھا تو نہیں مگر کسی لڑکی کی شہزادی کو کیسے پیار کرنا ہے یہ میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ میری تعلیم محض ایف اے ہے۔ اور میری عمر 24 سال ہے۔ ، 5 فٹ 7 انچ قد ہے ، زیادہ تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے کوئی نوکری تو ملی نہیں گھر میں سب سے بڑا ہونے کی وجہ سے گھر کی ساری زمہ داری مجھ پر آگئی تھی۔ 20 سال کی عمر میں میں نے کام شروع کیا۔ میں آپکو یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ میرا تعلق ملتان سے ہے۔ شاہ رکنِ عالم میں ایک چھوٹا سا گھر ہے جو والد صاحب نے اچھے وقتوں میں اپنی زندگی میں ہی بنا لیا تھا جو اب ہماری واحد جائداد تھا۔ 20 سال کی عمر میں جب والد صاحب اس دنیا سے چلے گئے تو میری والدہ نے مجھے کوئی کام ڈھونڈںے کا کہا کیونکہ گھر کا خرچہ بھی چلانا تھا اور سب سے بڑا ہونے کے ناطے یہ کام مجھی کو کرنا تھا۔ مجھ سے چھوٹا ایک بھائی اور 3 بہنیں تھیں جنکی عمر ابھی بہت کم تھی۔
کام ڈھونڈنے کی غرض سے میں حسین آگاہی بازار چلا گیا جہاں تھوڑی سی جدو جہد کے بعد مجھے ایک شخص نے ایک دکان کا پتا بتایا جنہیں ایک سیلز مین کی ضرورت تھی جو نہ صرف گاہک سے بات کر سکے بلکہ حساب کتاب کا بھی پکا ہو۔ میں ان صاب کی بتائی ہوئی دکان پر پہنچ گیا۔ دوپہر 12 بجے کا وقت تھا ابھی بازار میں زیادہ چہل پہل نہ تھی۔ میں دکان میں داخل ہوگیا تو سامنے ایک باریش بزرگ کاونٹر پر موجود تھے اور انکے سامنے کچھ خواتین کھڑی تھیں، مجھے دکان پر آتا دیکھ کر ان بزرگ نے ایک کپڑا آگے کر دیا جو وہ پردے کے لیے استعمال کرتے تھے، اب میں بزرگ کو تو دیکھ سکتا تھا مگر خواتین اور میرے درمیان اب ایک پردہ آچکا تھا اور میں دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ آخر ایسی بھی کیا بات ہے کہ ان کو پردے کی ضرورت پڑ گئی جبکہ وہ خواتین پہلے ہی برقع پہنے ہوئے تھیں۔ خیر میں دکان کا جائزہ لینے لگا ۔
یہ کاسمیٹکس اور آرٹیفیشل جیولری کی دکان تھی۔ کچھ دیر بعد پردہ ہٹا اور وہ خواتین وہاں سے نکل گئیں۔ اب بزرگ میری طرف متوجہ ہوئے اور بولے بولو بیٹا کیا چاہیے؟؟؟ میں نے بزرگ کی طرف دیکھا اور کہا سر مجھے جاب چاہیے۔ میں نے سنا ہے کہ آپکو ایک سیلز مین کی ضرورت ہے۔ یہ سن کر بزرگ نے کہا، ہاں ہاں میں نے مظفر کو کہا تھا کہ کوئی اچھے گھرانے کا بچہ ہو تو بتائے مجھے سیلز مین کی بہت ضرورت ہے۔ کیا لگتے ہو مظفر کے تم؟؟؟ میں نے کہا کچھ نہیں انکل، میں تو مختلف دکانوں پر جا جا کر جاب کا پوچھ رہا تھا تو کچھ پیچھے ایک دکاندار نے ہی مجھے آپکے بارے میں بتایا کہ آپکو ضرورت ہے تو میں ادھر آگیا۔
اس پر انہوں نے کہا کہ بیٹا ایسے تو میں کسی کو نہیں رکھ سکتا، مجھے تو اعتماد والا لڑکا چاہیے۔ ان بزرگ کا نام اقبال تھا۔ میں نے کہا سر آپ بے فکر رہیں مجھ سے آپکو کبھی کوئی شکایت نہیں ہوگی، مجھے جاب کی بہت سخت ضرورت ہے، میں نے اقبال صاحب کو گھرکا پتہ اور گھر کے حالات سب کچھ بتا دیا۔ اس پر اقبال صاحب کے لہجے میں پہلے سے زیادہ نرمی اور پیار آگیا، مگر وہ ابھی تک ہچکچا رہے تھے ، پھر انہوں نے کہا بیٹا خواتین اور لڑکیوں سے بحث کرنی پڑے تو کر لو گے؟؟؟ میں نے انہیں بتایا جی انکل میرے سکول میں لڑکیاں بھی تھیں اور فی میل استانیاں بھی اور میں بہت اچھا اور سب کا پسندیدہ سٹوڈنٹ تھا، آپکو میری وجہ سے کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔
پھر انہوں نے مجھے کہا اچھا چلو تم ابھی جاو، میں تھوڑا سوچ لوں، کل صبح 10 بجے آجانا تم مگر کسی بڑے کو لے کر آنا بہتر ہے اسی مارکیٹ میں کوئی واقف ہو تو اسے لے آنا۔ میں نے انکل سے ہاتھ ملایا اور انکا شکریہ ادا کرتے ہوئے فورا گھر چلا گیا۔ گھر جا کر میں نے امی سے اس بارے میں بات کی تو انہوں نے کافی سوچنے کے بعد ابو کے ایک اچھے دوست کا پتہ مجھے بتایا کہ ان سے جا کر ملو شاید وہ کوئی مدد کر سکیں اس سلسلے میں۔ میں اسی وقت ابو کے دوست سے ملنے چلا گیا، کچھ دیر بعد انکے گھر پہنچا تو قسمت سے وہ گھر پر ہی مل گئے، وہ اپنی بیوی اور 2 بیٹیوں کے ساتھ کہیں گھومنے کے لیے جا رہے تھے مگر میرے آنے کی وجہ سے انہوں نے اپنا پروگرام تھوڑی دیر کے لیے معطل کر دیا تھا۔ میں اپنا تعارف تو جاتے ہی کروا چکا تھا جسکی وجہ سے مجھے انکل اور آنٹی نے بڑے پیار سے اپنے گھر میں بٹھایا اور انکی ایک بیٹی جسکی عمر مشکل سے 15 سال ہوگی میرے لیے میٹھے پانی کا ایک جگ اور ایک شربت لے آئے۔ میں غٹا غٹ 2 گلاس چڑھا گیا تھا کیونکہ صبح سے پھر پھر کر مجھے کافی پیاس لگی ہوئی تھی۔ میں نے انکل کو اپنی مشکل بتائی اور ان سے مدد مانگی تو وہ کچھ دیر سوچنے کے بعد بولے کہ فکر نہیں کرو تمہارا کام ہوجائے گا۔ کل صبح تم پہلے میرے گھر آجانا میں تمہیں اپنے ساتھ لے چلوں گا اور اقبال صاحب کو تمہاری گارنٹی دے دوں گا۔ کچھ دیر اپنی خدمت کروانے کے بعد میں واپس گھر آگیا۔
اگلے دن صبح صبح انکل کے گھر جا دھمکا۔ انکل پہلے ہی تیار ہو چکے تھے، 10 بجنے میں ابھی تھوڑا وقت تھا، انکل نے اپنی بائیک نکالی اور سیدھے حسین آگاہی بازار میں داخل ہونے کے بعد اسی دکان کے سامنے لے جا کر میں نے بائک روکنے کو کہا۔ انکل میرے ساتھ دکان میں داخل ہوئے اور اقبال صاحب کو اپنا تعارف کروایا اور اپنا ملازمتی کارڈ نکال کر اقبال صاحب کو دکھا دیا۔ میرے یہ انکل محکمہ جنگلات میں ملازم تھے، سرکاری ملازم کا کارڈ دیکھ کر اقبا ل صاحب کو اطمینان ہوگیا اور وہ بولے کہ اگر آپ بچے کی ضمانت دیتے ہیں تو میں اسے رکھ لیتا ہوں، روزانہ ایک ٹائم کا کھانا دوں گا اور شروع میں 6000 روپے تنخواہ ہوگی اگر اس نے دل لگا کر کام کیا تو تنخواہ بڑھا دی جائے گی۔ میں نے فورا حامی بھر لی تو انکل نے کہا ٹھیک ہے اقبال صاحب میں چلتا ہوں، بِن باپ کے بچہ ہے اسے اپنا ہی بچہ سمجھیے گا اور میں گاہے بگاہے چکر لگاتا رہوں گا امید ہے آپکو اس سے کوئی شکایت نہیں ہوگی۔
یہ کہ کر انکل چلے گئے جبکہ اقبال صاحب بے کاونٹر کا ایک چھوٹا سا دروازہ کھول کر مجھے اندر آنے کو کہا تو میں اب کاونٹر کےپیچھے کھڑا تھا۔ کاونٹر کے اندر جاتے ہوئے میری نظر دکان کے اس حصے میں پڑی جہاں کل کچھ خواتین کھڑی تھیں تو میرے 14 طبق روشن ہوگئے۔ وہاں عورتوں کے اندر کے استعمال کے کپڑے یعنی بریزئیر پڑے تھے۔ اب مجھے سمجھ لگی کہ کل وہ خواتین اپنے لیے بریزئیر خرید رہی ہونگی تبھی اقبال صاحب نے پردہ گرا دیا تھا۔ خیر میں اندر آگیا تو اقبال صاحب نے مجھے کام سمجھانا شروع کر دیا۔
کچھ ہی دیر میں دکان میں کچھ خواتین آئیں تو اقبال صاحب نے کہا تم نے صرف خاموشی سے دیکھنا ہے کہ گاہک سے کس طرح بحث کی جاتی ہےاور اسے مطمئن کیا جاتا ہے۔ میں نے ہاں میں سر ہلایا، خواتین نے اپنے لیے کچھ میک اپ کا سامان خریدا اور میں اقبال صاحب کی ڈیلنگ پر غور کرتا رہا۔ ۔ اسی طرح سارا دن مختلف خواتین گاہے بگاہے آتی رہیں اور میں چپ چاپ اقبال صاحب کو دیکھتا رہا، دوپہر میں انہوں نے اپنے گھر سے کھانا منگوایا جو انکا ایک چھوٹا بیٹا دینے آیا تھا۔ میں نے بھی انکے ساتھ ہی کھانا کھایا۔ پورا دن اسی طرح گزر گیا۔ رات کو 7 بجے اقبال صاحب نے مجھے چھٹی دے دی تو میں جلدی سے گھر چلا گیا کہ کہیں اندھیرا نہ
ہوجائے۔
اگلے دن میں دوبارہ سے ٹھیک بجے دکان پر پہنچ گیا تو اس وقت دکان میں ایک خاتون کھڑی تھیں، خاتون نے اپنا چہرہ تھوڑے سے دوپٹے سے ڈھانپ رکھا تھا۔ اپنے قد کاٹھ سے وہ ایک بڑی عمر کی عورت لگ رہی تھی، میں اقبال صاحب کو سلام کر کے اندر ہی چلا گیا تو اقبال صاحب نے اشارے سے مجھے اپنے پاس ہی بلا لیا۔ میں نے دیکھا کہ اقبال صاحب کے ہاتھ میں ایک سکن کلر کا بڑے سائز کا برا تھا جو انہوں نے عورت کے ہاتھ میں تھما دیا۔ عورت نے برا کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر تھوڑا نیچے کیا اور کاونٹر کی اوٹ لے کر اسکو کھول کر دیکھنے کے بعد ویسے ہی واپس دے دیا اور بولی اس سے بڑا سائز دکھائیں۔
اقبال صاحب تھوڑا سا نیچے جھکے اور وہ برا واپس اپنی جگہ پر رکھنے کے بعد ساتھ والی لائن سے دوسرا برا نکال کر اس خاتون کو پکڑا دیا، انہوں نے دوبارہ سے وہ کاونٹرکی اوٹ میں لیجا کر کھول کر دیکھا اور پھر پوچھا اسکے کتنے پیسے؟ تو اقبال صاحب نے 300 کا مطالبہ کیا۔ خاتون نے اپنی چادر ہٹا کر اپنی قمیص میں ہاتھ ڈالا اور اپنے سپیشل لاکر سے ایک چھوٹا سا پرس نکالا اور اقبال صاحب کو 300 روپے نکال کر دیے اور وہ برا اپنے ہاتھ میں موجود شاپر میں کپڑوں کے نیچے چھپا کر فوری دکان سے نکل گئیں۔
خاتون کے جانے کے بعد اقبال صاحب نے مجھے دوبارہ سے وہاں موجود چیزوں کے بارے میں معلومات دیں اور انکے ریٹ بتانے شروع کر دیے، ساتھ میں ایک لسٹ بھی دے دی اور مجھے کہا اسے یاد کر لینا۔ میں سارا دن اس لسٹ کو فارغ وقت میں دیکھتا رہا اور چیزوں کے ریٹش ذہن نشین کرتا رہا، جبکہ کسٹمرز کے آںے پر میں اقبال صاحب کے ساتھ کھڑا ہوکر انکی ڈیلنگ دیکھتا۔
ایک ہفتہ ایسے ہی گزر گیا۔ ایک ہفتے بعد اقبال صاحب نے مجھے کہا کہ بیٹا اب جو خواتین سرخی پاوڈر لینے آئیں گی انکو تم نے ڈیل کرنا ہے اور جو کوئی اپنے اندر کے کپڑے لینے آئیں گی انکو میں دیکھوں گا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے انکل، لیکن اگر مجھے کسی چیز میں پریشان ہو تو آپ نے میری مدد کرنی ہے۔ انکل نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولے فکر نہیں کرو میں یہیں پر موجود ہوں۔ بے فکر ہوکر تم آج کام شروع کرو۔ کچھ ہی دیر کے بعد ایک ادھیڑ عمر خاتون دکان میں آئیں جنکے ساتھ انکی 2 بیٹیاں بھی تھیں۔ وہ خاتون اقبال صاحب کے سامنے جا کر کھڑی ہوگئیں اور ہلکی آواز میں بولیں، بچیوں کے لیے اندرونی کپڑے چاہیے۔ تو اقبال صاحب تھوڑا سا آگے ہوکر کھڑے ہوگئے اور چھوٹے سائز کے برا نکال کر دکھانے لگے، انکی ایک چھوٹی بیٹی نے بھِی آگے ہوکر دیکھنا چاہے تو آنٹی نے اسے گھور کر دیکھا اور پیچھے رہنے کی ہدایت کی، وہ لڑکی واپس میرے سامنے آکر کھڑی ہوگئی، میں نے اسکے سینے کی طرف دیکھا تو مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ اس پر ابھی تازہ تازہ جوانی آئی ہے اسکو سب سے چھوٹے سائز کا برا ہی فِٹ آئے گا۔
جتنی دیر میں آںٹی نے اپنی بچیوں کے لیے برا خریدے، اتنی دیر میں انکی بیٹی نے مجھ سے کچھ لپ اسٹک دکھانے کو کہا، میں نے فوری ایک سرخ رنگ کی لپ اسٹک اسے دکھائی تو اس نے کہا کوئی اچھا کلر دکھاو نہ۔ میں نے ایک اور میرون کلر کی لپ اسٹک اسے دکھائی اور کہا یہ دیکھیں باجی یہ آپکے ہونٹوں پر بہت اچھی لگے گی۔ میں نے زیادہ اوور ہونے کی کوشش کی تو اس لڑکی نے مجھے گھور کر دیکھا اور لپ اسٹک واپس کاونٹر پر رکھ کر پیچھے ہوکر کھڑی ہوگئی۔ مجھے تھوڑی شرمندگی بھی ہوئی اور تھوڑا ڈر بھی گیا کہ کہیں یہ اپنی ماں کو میری شکایت نہ لگادے۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا اور کچھ ہی دیر بعد خاتون نے اپنی لڑکیوں کے برا خریدے اور دکان سے نکل گئیں۔ شکر ہوا کہ اقبال صاحب نے بھی میری بات نہیں سنی تھی۔
مختصر یہ کہ آہستہ آہستہ میں یہ سیکھ گیا تھا کہ خواتین سے کس طرح بات کرنی ہے، کس طرح کی لڑکی سے فری ہونا ہے اور کس طرح کی لڑکی سے صرف کام کی ہی بات کرنی ہے۔ مجھے یہ کام کرتے ہوئے 2 ماہ کا عرصہ ہوگیا تھا اس دوران اقبال صاحب بھی میری کارکردگی اور سعادت مندی سے بہت خوش تھے۔ وہ اکثر اوقات مجھے دکان پر اکیلا چھوڑ کر دوپہر کے ٹائم اپنے گھر سستانے کے لیے چلے جاتے تھے۔ دوپہر کے وقت گاہک کم ہوتے تھے اس لیے مجھے کبھی کوئی مشکل پیش نہی آئی تھی۔ ابھی تک میں کاسمیٹکس اور جیولری وغیرہ کی اشیا کی سائیڈ پر ہی تھا اور برا وغیرہ سیل کرنے کا مجھے کوئی تجربہ نہیں تھا۔ ایک دن یوں ہوا کہ اقبال صاحب دوپہر کے وقت سستانے کے لیے اپنے گھر چلے گئے ، انکے جاتے ہی ایک ماڈرن خاتون دکان میں داخل ہوئیں۔ انکی عمر کوئی 30 کے لگ بھگ ہوگی، ساتھ ایک چھوٹا بچہ تھا جسکی عمر مشکل سے 5 سال ہوگی جو انکی انگلی پکڑ کر انکے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ خاتون نے سفید رنگ کی باریک قمیص پہن رکھی تھی اور نیچے سے ایک موٹی شمیص پہن رکھی تھی جو عموما عورتیں اپنی قمیص کے نیچے مگر برا کے اوپر پہنتی ہیں۔
خاتون کے گلے میں دوپٹہ تھا جو انکے سینے تک کو ڈھانپنے کے لیے کافی تھا۔ اندر آکر خاتون نے میری طرف دیکھا پھر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولیں تم ہی ہوتے ہو دکان پر ؟؟؟ یا تمہاری ساتھ کوئی اور ہوتا ہے؟؟؟ میں نے کہا میں تو ملازم ہوں بیگم صاحبہ دکان کے مالک ہوتے ہیں مگر ابھی وہ آرام کرنے گھر گئے ہیں۔ خاتون نے کہا اچھا۔۔۔۔ تو تم سب کچھ سیل کرتے ہو دکان پر؟؟؟ یہ انہوں نے ذو معنی انداز میں کہا، میں نے نہ سمجھتے ہوئے کہا جی میڈیم سب کچھ سیل کرتا ہوں بتائیں آپکو کیا چاہیے۔۔ اصل میں شکل و صورت سے میں 20 سال کا ہونے کے باوجود بچہ ہی لگتا تھا اس لیے وہ خاتون سوچ رہی تھیں کہ نہ جانے اس بچے کو لیڈیز انڈر گارمنٹس کا پتا بھی ہوگا یا نہیں۔ پھر خاتون نے کچھ سوچا اور بولیں مجھے اپنے لیے کچھ برا چاہیے ہیں، کوئی اچھے سے دکھا دو۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا، میں سمجھا شاید میں نے سننے میں غلطی کی ہے، میں نے دوبارہ پوچھا جی میڈیم کیا چاہیے؟؟؟ تو وہ بولیں ارے بھائی برا چاہیے ہیں وہ دکھا دو میرے سائز کے مطابق۔ جب انہوں نے اپنے سائز کا کہا تو میں نے ڈائریکٹ اپنی نظروں کا مرکز انکے سینے کو بنا لیا، مگر مجھے خواتین کے سائز کا اسطرح دیکھ کر اندازہ نہیں تھا کیونکہ کبھی دوکان پر میں نے برا سیل ہی نہیں کیا تھا۔
میں نے نطریں انکے سینے پر جمائے تھوڑی کانپتی ہوئی آواز میں پوچھا میم کیا سائز ہے آپکا؟ خاتون نے بغیر ہچکچائے پورے اطمینان سے جواب دیا، ویسے تو 34 بھی صحیح آجاتا ہے مگر وہ کبھی کبھی تھوڑا تنگ ہوجا تا ہے تو تم 36 سائز میں ہی دکھاو۔ یہ سن کر میں نے خاتون کو آگے آنے کو کہا تو وہ آگے آگئیں، اور میں اس کاونٹر کے سامنے کھڑا ہوگیا جہاں برا پڑے ہوتے تھے، کاونٹر میں مختلف لائنیں بنی ہوئی تھیں ہر لائن کے شروع میں ایک چھوٹی سی پرچی لگی ہوئی تھی جس پر اس لائن میں پڑے ہوئے برا کا نمبر لکھا تھا۔ میں نے 36 والی لائن دیکھی اور اس میں جو پہلا برا پڑا تھا وہ اٹھا کر کانپتے ہاتھوں کے ساتھ میڈیم کو پکڑا دیا۔ نجانے کیوں میرے دل میں ایک انجانا سا خوف تھا ہ میں کچھ غلط کر رہا ہوں۔ حالانکہ اس میں کوئی غلط بات نہیں تھی لیکن اسکے باوجود میرے دل میں خوف تھا کہ ابھی کوئی اور نہ آجائےاور وہ مجھے برا بیچتے ہوئے دیکھ لے گا تو نہ جانے کیا ہوجائے گا۔
میڈیم نے میرے کانپتے ہاتھوں سے برا پکڑا اور فورا ہی واپس پکڑا دیا اور بولیں نہیں یہ نہیں کوئی اچھی کوالٹی کا دکھاو۔ اگر نیٹ والا ہے تو وہ دکھاو۔ میں نے وہ برا انکے ہاتھ سے پکڑ کر واپس رکھا اور نیچے بیٹھ کر اسی لائن میں نیٹ والے برا دیکھنے لگا، تھوڑی سی کوشش کے بعد مجھے کالے رنگ میں ایک نیٹ والا برا مل گیا جو کافی سافٹ تھا۔ اور کوالٹی سے بھی اچھا لگ رہا تھا، میں نے وہ برا اٹھا کر میڈیم کو پکڑایا تو انہوں نے وہ پکڑا اور میرے سامنے ہی اسکو کھول لیا۔ میرے اوسان خطا ہوگئے، ابھی تک میں نے جتنی خواتین کو برا خریدتے دیکھا تھا وہ کاونٹر کی اووٹ میں برا کھول کر دیکھتی تھیں مگر انہوں نے میرے سامنے ہی کاونٹر کے اوپر برا کھولا اور اسکو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگیں۔ پھر بولیں اس میں اور کون کون سے کلر ہیں؟؟؟ میں نے ہکلاتے ہوئے کہا میم ۔۔ یہ کل کلر بھی اچھ ۔ ۔ اچھا ہے۔۔۔ خاتون ہلکا سا مسکرائیں وہ سمجھ گئی تھیں کہ آج سے پہلے میں نے برا سیل نہیں کیے کبھی ۔ پھر وہ ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ بولیں بیٹا کوئی اور کلر ہے تو دکھا دو۔ میں وہ برا انکے ہاتھ سے لینے لگا تو انہوں نے کہا نہیں یہ یہیں رہنے دو تم اور کلر دکھاو۔ میں نے نیچے بیٹھ کر سرخ اور سکن کلر میں بھی اسی طرح کا برا نکال لیا اور انکے سامنے رکھ دیا۔
میرے ہاتھ ابھی تک کانپ رہے تھے اور میرے ہونٹ خشک ہوچکے تھے۔ شاید میرے چہرے سے میری پریشانی کچھ زیادہ ہی واضح ہورہی تھی۔ پھر خاتون نے مجھ سے انکی قیمت پوچھی تو میں نے بغیر سوچے سمجھے 500 روپے قیمت بتا دی ، کیونہ اسکی کوالٹی مجھے پہلے والے برا سے زیادہ اچھی لگی تھی تو میں نے سوچا یہ مہنگا بھی ہوگا۔ خاتون نے کوئی بحث نہیں کی اور سرخ رنگ کا برا ایک سائیڈ پر کر کے باقی 2 مجھے واپس کر دیے اور بولیں کوئی اور ڈیزائن ہے تو وہ بھی دکھا دو۔ میں نے دل ہی دل میں میڈیم کو برا بھلا کہا اور بیٹھ کر دوبارہ سے برا کے مختلف ڈیزائن دیکھنے لگا میں تو چاہ رہا تھا وہ فوری مجھے پیسے پکڑائیں اور یہاں سے چلتی بنیں تاکہ میری جان چھٹے۔ مگر وہ تو جان چھوڑںے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں شاید انکو میری حالت دیکھ دیکھ کر مزہ آرہا تھا۔
اب کی بار میں نے ایک اور ڈیزائن کا برا نکالا جس کے کپ یعنی کے اگلا حصہ جو مموں کے اوپر آتا ہے وہ فوم والا تھا اور کافی موٹا تھا، اور اسکے کپ پر خوبصورت لیس لگی ہوئی تھی۔ اور دونوں کپس کے درمیان بھی ایک چھوٹا سا پھول بنا ہوا تھا۔ یہ برا نیلے اور کالے رنگ میں تھا۔ میں نے دونوں کلر نکال کر میڈیم کو دکھادیے۔ انہوں نے ہاتھ میں پکڑ کر برا کو کھولا اور کپ کو ہلکا سا دبا کر دیکھا اور پھر اسکا ڈیزائن دیکھا تو بولیں اصل چیز تو تم نے اب دکھائی ہے، یہ خوبصورت ہیں۔ پھر دونوں رنگوں کو باری باری دیکھتی رہیں پھر انہوں نے دونوں برا میرے سامنے کر دیے اور بولیں ان میں سے کونسا کلر اچھا لگے گا؟؟ انکا یہ سوال تو مجھ پر بجلی بن کر گرا۔ اب میں انہیں کیسے بتا سکتا تھا کہ کونسا کلر اچھا لگے گا۔ مگر میں نے ہمت جمع کر کے کہا میم آپکے رنگ کے مطابق تو کالے رنگ کا ہی اچھا لگے گا۔ میں نے کس مشکل سے یہ بات کی میں ہی جانتا ہوں۔
میری بات سن کر میڈیم زیرِ لب مسکرائی اور بولیں ٹھیک ہے اسکے کتنے پیسے ہونگے؟؟ میں نے کہا میڈیم اسکے بھی 500 ، تو وہ بولیں ٹھیک ہے یہ نیلے رنگ کا واپس رکھ دو، میں نے نیل ےرنگ کا برا واپس رکھا تو میڈیم نے نیٹ کا برا اور فوم والا کالا برا دونوں میرے ہاتھ میں پکڑائے اور بولیں انکو شاپر میں ڈال دو۔ میں نے جلدی جلدی ایک سفید شاپر اٹھایا اور دونوں برا اس میں ڈال کر خاتون کو پکڑا دیے۔ انہوں نے ایک نظر مجھے اور پھر ایک نظر شاپر پر ڈالی پھر شاپر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولیں، یہ اسکو بازار میں اسی طرح لے کر پھروں گی میں؟؟؟ اسکو کسی خاکی کاغذ کے لفافے میں پیک کرو پھر کالے رنگ کے شاپر میں ڈالو وہ لفافہ۔ انکی بات سن کر مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا، ایک دو بار میں نے اقبال صاحب کو اسی طرح کاغذ کے خاکی لفافے میں برا ڈال کر دیتے ہوئے دیکھا تھا۔
میں نے میڈیم کے کہنے کے مطابق برا پیک کیے اور انہیں تھما دیے۔ میڈیم نے اپنے ہینڈ بیگ سے ایک چھوٹا پرس نکالا اور اس میں سے 1000 کا ایک نوٹ مجھے تھماتے ہوئے بولیں، پورے لوگے یا کچھ رعایت بھی کرو گے؟؟ میں نے کہا میڈیم فکس ریٹ ہے ہمارا لیکن آپکو 50 روپے کی رعایت کر دوں گا۔ یہ کہ کر میں نے 50 روپے میڈیم کو پکڑاے تو انہوں نے وہ پیسے لیکر اپنے پرس میں ڈالے اور جاتے ہوئے مجھے ایک شرارتی مسکراہٹ سے دیکھ کر گئیں۔ شاید ابھی بھی وہ میری حالت سے محظوظ ہورہی تھیں۔ انکے جاتےہی میں نے کولر سے 2 گلاس پانی پیے اور گہرے گہرے سانس لیکر اپنی حالت درست کی۔ اسکے بعد کچھ مزید عورتیں آئیں مگر وہ سب لپ اسٹک پاوڈر کے لیے آئی تھیں۔
👇👇
برا کا سائز - پارٹ 2 |
0 تبصرے