کوۂ کمالیہ کہ پہاڑی سلسلے کہ بیچ و بیچ واقع واحد گرلز ہاسٹل سے ایک اور جوان لڑکی کی تشدد زدہ لاش ملی تھی۔ پچھلی بار کی طرح اس بار بھی لاش کا ٹھکانہ وہاں موجود پرسرار کمرہ نمبر گیارہ۔بارہ کا دروازہ تھا۔لاش دروازے کہ عین سامنے پڑی ہوئی ملی تھی۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا تھا۔
ایک بار پہلے بھی تواتر سے لڑکیوں کی لاشیں ملنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ وہ تو بعد ازاں حکومت و دیگر اداروں کی مداخلت سے اور کافی کچھ لین دین کر کہ معاملے کو دبا دیا گیا تھا۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو ملک کہ شمالی علاقہ جات کی جانب واقع پہاڑی سلسلے کوۂ کمالیہ کی طرف ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی آمدورفت ماند پڑ جاتی۔ جس سے حکومت کہ علاوہ مقامی تاجروں و گھریلو صنعت کاروں کو اچھا خاصہ نقصان اٹھانا پڑتا کہ ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ ہی وہاں آنے والے سیاح تھے۔ اب کافی عرصے بعد ایک اور لڑکی کی لاش ملی تھی۔ حیران کن بات یہ تھی کہ یہ لاش پہلے ملنے والی لاشوں کی طرح ہی بدترین تشدد کا شکار تھی۔ لاش کی ہرباریک رگ بڑی مہارت سے کاٹی گئی تھی۔
پورے جسم میں موجود فقط باریک ترین رگیں ہی کاٹی گئی تھیں۔ اور خون ضائع ہو جانا موت کا سبب بنا تھا۔ جبکہ حیرت انگیز طور پہ لاش کہ قریب خون کا ایک قطرہ بھی موجود نہیں تھا۔ ایسا معلوم ہو رھا تھا جیسے کسی نے کمال مہارت سے سارا خون قطرہ قطرہ کر کہ نچوڑ لیا ہوےا چوس لیا ہو۔ اس کہ علاوہ قابلِ غور بات یہ بھی تھی کہ کوئی بھی عام انسان اتنی مہارت سی انسانی جسم کی باریک رگیں ایک رات میں نہیں کاٹ سکتا، وہ بھی اتنی صفائی سے دیکھنے والا دنگ رہ جائے۔ رگوں کہ علاوہ لاش کہ دائیں ہاتھ کہ ناخن بھی اسی مہارت سے جسم سے جدا کیے گئے تھے۔ ان ناخنوں پہ شاید لال رنگ کی ناخن پالش لگی ہوئی تھی۔ کیونکہ ناخن لاش کہ بلکل قریب سجا کر رکھے گئے تھے۔
اتنا عرصہ خاموش رھنے کہ بعد یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہو جانا ہاسٹل انتظامیہ کی کارکردگی پہ ایک بڑا سوالیہ نشان تھا۔ ہاسٹل و کالج کا سربراہ 60 سالہ برطانوی نژاد کرسچئن پروفیسر مائیکل کلارک تھا۔ جس نے پچھلی بار کی طرح اس بار بھی اپنے وسیع ذرائع استعمال کرتے ہوہے معاملے کو دبانے کی بھر پور کوشش کی تھی۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو اس کہ گرلز کالج و ہاسٹل کی ساکھ بری طرح متاثر ہوتی، جو وہ کسی قیمت پر بھی افورڈ نہیں کرسکتا تھا۔ پہلے ہی والدین اپنی لڑکیوں کو بمشکل کالج میں تعلیم دلوانے پہ رضامند ہوتے تھے، اور اس سے بھی کم والدین ہاسٹل میں جوان بچیوں کی مستقل رہائش کہ حق میں تھے۔ مائیکل کلارک کا کاروبار ویسے بھی مندی کا شکار تھا۔ وہ اس لیول پر مزید نقصان برداشت کرنے کی حالت میں بہرحال نہیں تھا۔
کوۂ کمالیہ کہ اردگرد بسنے والے گاؤں والوں میں گرلز ہاسٹل کی عمارت کو لیکر بہت زیادہ قصے کہانیاں مشہور تھیں۔ کچھ کہ مطابق اس ہاسٹل میں ایک ڈائن زمانہ قدیم سے رھتی ہے۔ اور اکثر لوگوں کا یہ بھی دعوہ تھا کہ انھوں نے کئی مرتبہ ہاسٹل کی چھت پہ سفید سر سے لیکر پاؤں کو چھوتے چغے میں کسی عورت کو چلتے ہوئے دیکھا ہے۔ جو ہاسٹل کی چھت کی چھوٹی دیواروں پہ اتنے آرام اور آسانی سے چل رھی تھی جیسے وہ اتنی اونچی دیوار پہ نہیں بلکہ نرم و گداز قالین پہ چل رھی ہو۔ نجانے وہ ہی ڈائن تھی یا کوئی چھلاوہ تھا۔ جو بھی تھا اس کا چہرہ تو کبھی واضح نہیں ہوا تھا۔ لیکن لوگوں کہ خیال کہ مطابق وہی ہے جو وقتاً فوقتاً اپنے خون کی پیاس بجھانے کہ لیے لڑکیوں کو اپنا نشانہ بناتی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ لڑکیاں خودکشی کرتی ہیں جبکہ کچھ کا خیال تھا کہ ڈائن کہ علاوہ کوئی گروہ ہے جو لڑکیوں کو استعمال کر کہ بے دردی سے انکا قتل کر دیتا ہے۔ غرضیکہ جتنے منہ اتنی باتیں!
بہرحال اس بات سے تو سب متفق تھے کہ ہاسٹل کی عمارت کہ بارے میں تمام تر معملومات ایک ہی شخصیت کہ پاس سے مل سکتی ہیں۔ جو کسی زمانے میں اس عمارت میں رہائش رکھے ہوئی تھی۔ وہ ایک بوڑھی عورت تھی۔ جو پہاڑی پہ بنی اپنی کوٹھڑی میں اکیلی رھتی تھی۔ نہ وہ کسی سے ملتی تھی اور نہ ہی کوئی اس سے ملنے کی جسارت کر سکتا تھا۔ کیونکہ وہ ہر آنے والے کا اتنا برا حشر کرتی تھی کہ وہ خود کو بھی نہیں پہچان پاتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر انسان کی زندگی میں وہ سہانا دور ضرور آتا ہے جب وہ خود کو ماورائی مخلوق سمجھنے کی غلطی کر بیٹھتا ہے۔ جب وہ اپنے نازک وجود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کرتا ہے اور جب اس کہ اردگرد ہمہ وقت ایک دلنشین دھن موجود رھتی ہے جو بے اختیار اسے سر دھننے پر مجبور کرتی ہے۔ جب اس پہ کسی کی باتوں یا نصیحتوں کا کچھ اثر نہیں ہوتا یا یوں کہہ لیجیے کہ وہ کسی دوسرے کو خاطر میں لانا اپنی توہین سمجھتا ہے۔
جب دنیا کو اپنی انگلیوں پہ گھمانے کی ایسی لت پڑ جاتی ہے ہر ذی روح ، ہر رشتہ چاھے وہ کتنا ہی معتبر کیوں نہ ہو، کمتر لگتا ہے۔ یا ہم اپنے علاوہ ہر دوسرے کو کمتر شمار کرتے ہیں۔ نہ فقط کمتر بلکہ ذلیل اور گھٹیا بھی!
بانو کماری پہ بھی فی الوقت ویسا ہی ایک دور پورے آب و تاب سے طلوع ہوا تھا۔ بانو کماری ثریا بیگم کی اکلوتی چشم و چراغ تھی۔ خوبصورت اتنی کہ مانوں چاند بھی شرما جائے۔ ثریا بیگم آۓ روز اپنی راج کماری کی نظریں اتارتیں اور اس کہ سر سے پیسے وار کہ کسی غریب مسکین کی نظر کرتی دکھائی دیتی تھیں۔ قدرت بھی جب دینے پہ آتی ہے تو چھپر پھاڑ عنایت کرتی ہے، بانو کماری کو بھی سب کچھ وافر مقدار میں عطا کیا گیا تھا۔ حسن، دولت، شہرت، روپیہ، پیسہ، مقام ، ذہانت غرضیکہ کُل ملا کہ وہ ایک دیوی تھی۔
جو اگر ہمسایہ ملک میں پیدا ہوتی تو شاید اسکی پوجا کی جاتی۔ یہاں بھی معاملہ خیر سے پوجا سے کچھ کم نہیں تھا۔ بانو کماری جب بھرپور جوانی کی بہاریں دیکھنے میں مگن تھی تو اس کی ماں ثریا بیگم اس کہ لیے تگڑی “آسامی” کی تلاش جاری رکھے ہوئے تھیں۔ جو نہ صرف انکی بیٹی کو بیاہ لے جائے ، بلکہ اپنی جائیداد بھی بانو کماری کہ نام کرے، اور پھر یہ ماں بیٹی یا تو اس کا صفایا کر دیں یا خود رفو چکر ہو جائیں۔ کیونکہ چھوٹے موٹے “ہاتھ” مارنے سے اب کچھ حاصل نہیں ہورھا تھا۔ مہنگائی جو اتنی بڑھ گئی تھی۔ وہ ایک ایسے محلے میں رہائش پذیر تھے جہاں راتوں کو بھی دن کا سماں ہوتا تھا۔ بانو کماری کی شہرت دور دور تک پھیل چکی تھی۔ ثریا بیگم خوشی سے پھولے نہ سماتی تھیں کیونکہ ان کہ وارے نیارے ہونے کو تھے۔ بانو کا نشئی باپ اس جہانِ فانی میں ، دھرتی پہ بوجھ بنا ہمہ وقت ہلکورے لیتا دنیا کو اپنے ساتھ گھومتا ہوا دیکھتا رہتا تھا۔ فقط ثریا بیگم ہی تھیں جو اپنے “بھاری بھرکم” کندھوں پہ ان دونوں کی ذمہداریاں لادھے ہوئے تھیں۔
خیر سے ثریا بیگم بھی اپنی جوانی میں بڑی کمال کی “چیز” مشہور تھیں۔ لیکن اب چونکہ ان میں وہ دم خم نہیں رھا تھا لہذا انکی “مانگ” میں کافی حد تک کمی واقع ہو چکی تھی۔ اب کیونکہ انکی جگہ انکی بیٹی لینے والی تھی۔ لہذا وہ ایسے ہی کسی شکار کی تلاش میں تھیں، کہ ایک دن ان کہ “ڈیرے” پہ ایک غیر ملکی بابو کی آمد ہوئی۔ بانو کماری تو اسے دیکھتے ہی دم بخود رہ گئی۔ ابھی تک اسکا پالا فقط پاکستانی مردوں سے ہی پڑا تھا، انگریزی بابو سے اسکا ٹاکرا پہلی بار ہوا تھا۔ اور انگریزی بابو نے پہلے ہی وار میں اس حسن کی دیوی کو چاروں خانے چت کیا تھا۔ انگریزی بابو نے بھی روز کا آنا جانا اپنا معمول بنا لیا۔ اسے بھی بانو کماری کی لت لگ گئی تھی۔ ثریا بیگم کی زیرک نگاہیں انگریزی بابو کہ آر پار ہوئیں تو انھیں اس بات کا ادراک ہوا کہ یہ بابو تو فقط دل بہلانے کہ لیے یہاں آتا ہے، بانو سے اسے کوئی طوفانی قسم کی محبت نہیں ہوئی، نہ ہی وہ بانو کو اپنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ سمجھنے کہ بعد ثریا بیگم نے اپنی بیٹی کو اس بابو سے ازحد دور رھنے کی ہدایات جاری کیں، لیکن افسوس تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ کیونکہ ان کی راج کماری بیٹی، بانو کماری کا خیر سے حمل ٹھہر گیا۔
بس پھر کیا تھا، ثریا بیگم نے تو چیخ چیخ کہ گھر سر پر اٹھا لیا۔ اور انگریزی بابو بھی بانو کو سہانے خواب دکھانے کہ بعد وہاں سے ایسا رفو چکر ہوا کہ اس دن کہ بعد اسکی دھول بھی نہ دکھائی دی۔
اب ثریا بیگم سر باندھ کہ بیٹھ گئیں۔ اگر یہ خبر نکل جاتی تو ایک طرف جو بدنامی ہوتی سو ہوتی دوسری طرف جس بات کی انھیں زیادہ پریشانی تھی وہ یہ تھی کہ ان کی بیٹی کی “مانگ” میں کمی واقع ہو جائے گی۔ بلکل یوں کہہ لیا جائے کہ اس کی مانگ معدوم ہو کہ رہ جائے گی۔ “عزت” پہ دھبہ لگنے والی بات ثریا بیگم نے ناک سے مکھی کی طرح اڑا دی، کیونکہ “عزت بے عزتی” سے ان کا مانوں دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔ ہاں مانگ میں کمی والی بات سے ثریا بیگم نے دلِ ناتواں کو مستقل روگ لگا لیا تھا۔ بانو نےتو خود کو کمرے میں بند کر کہ انگریزی بابو کی بے وفائی کہ غم کو سینےسے ایسا لگایا کہ کسی چیز کا ہوش نہیں رھا۔کچھ وقت بعد ثریا بیگم جلد ہی روگ سے باہر آگئیں یا یوں کہہ لیا جائے کہ روگ سے باہر آنا ہی پڑا۔ اب وہ دروازے میں بیٹھ کر بانو کہ لیے مناسب اور مالدار “خریدار” کی راہ تکنے لگیں۔ جوں جوں دن بیتتے جا رھے تھے ثریا بیگم کی پریشانی سوا ہو رھی تھی۔ بانو کی مانگ میں اتنی گرانی وہ برداشت کرنےسے قاصر تھیں۔ تبھی ایک دن بانو کا نشئی باپ جھومتے اور ہلکورے لیتے اپنی عمر کہ “بظاہر” سفید پوش مرد کو اپنے ٹھکانے پہ لایا۔
جس کا نام چودھری کفایت اللہ تھا۔ اسی دن بانو بھی خیر سے اپنے کمرے سے باہر نکل کر اپنی ماں کہ پاس بیٹھ کر غربت کا رونا رو رھی تھی۔ جب پیٹ میں بھوک سے مروڑ اٹھے تو انگریزی بابو کا خیال اور روگ گدھے کہ سر سے سینگ کی طرح غائب ہو گیا۔ اب دونوں ماں بیٹی کسی مناسب شکار کی تلاش میں دروازے پہ نگاہیں گاڑھے بیٹھی تھیں۔ ماں کو سب سے زیادہ پریشانی اس بچے کی تھی، جسے جلد از جلد فانی و ظالم دنیا کہ درشن کرانے سے پہلے ہی موت کی ابدی نیند سلانا تھا۔ اس کا باپ لڑکھڑاتا ہوا اونچے شملے والے چودھری صاحب کو لیے گھر میں داخل ہوا تو چودھری کفایت اللہ کی تیز نگاہ بانو کہ نازک اور کومل سراپے کہ آر پار ہو گئی۔ بس پھر کیا تھا، اگلے ہی دن چودھری کفایت اللہ جو دولت کہ دیوتا تھے، اپنے من میں بانو کی مراد سجائے پھر سے اس کہ گھر آن وارد ہوئے۔ ثریا بیگم نے تو کافی ناک بھوں چڑھانے کی ناکام کوشش کی، لیکن بانو کہ والد ماجد نے ہلکورے لیتے، یہ رشتہ بصدِ شوق قبول فرما لیا۔ کیونکہ ان کی جیب چودھری صاحب نے خوب خوب گرم کی تھی۔
ثریا بیگم کو جو چیز کھلتی تھی وہ دونوں کی عمروں میں پندرہ سولہ سال کا فرق تھا۔ بانو نے تو پہلے صاف انکار کیا۔ کیونکہ وہ کہیں نہ کہیں ابھی بھی اپنے خوابوں کہ شہزادے، انگریزی بابو کی راہ تک رھی تھی۔ لیکن اماں حضور کی دن بدن گرتی مانگ اور آسمان کو چھوتی مہنگائی کہ علاوہ پیٹ میں پلنے والے بچے کو دیکھتے ہوئے چودھری کفایت اللہ جیسی امیر کبیر آسامی کہ علاوہ ان ماں بیٹی کو کوئی دوسرا نظر نہ آیا۔ بانو کماری اور ثریا بیگم کو جلد ہی آٹے دال کا بھاؤ معلوم پڑ گیا۔ فقر و فاقہ اور بے عزتی سے بچنے کہ لیے یہی مناسب سمجھا گیا کہ فی الوقت چودھری کفایت اللہ کا “مضبوط” ہاتھ تھام لیا جائے۔ پھر سب کچھ ہڑپ کر کہ، اس مضوط ساتھ کہ چنگل سے اپنا آپ چھڑا کہ اپنی راہ ناپی جائے! اور اگلا شکار دیکھا جائے۔ جسکی تلاش ثریا بیگم نے خیر سے ، ابھی سے شروع کر دی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اس نے دیکھا کہ وہ اونچے نیچے پہاڑوں پہ دیوانہ وار دوڑی چلی جارھی تھی۔ ایسے پہاڑ کہ جن پہ قدم قدم چلنا بھی ایک دشوار گزار معمہ تھا، وہ اتنی آسانی سے وہاں بھاگ رھی تھی جیسے اس کہ قدموں تلے نوکیلے پتھر نہ ہوں بلکہ نرم و گداز قالین ہو۔ وہ اوپر، اور اوپر چڑھتی چلی جارھی تھی۔ اس کہ ہاتھ میں ایک لاٹھی تھی اور سینے سے لگا سفید رنگ کا اس کا ٹیڈی بئیر۔ جسے وہ خواب میں بھی ساتھ لیکر آئی تھی۔ اتنے اوپر چڑھنے کہ بعد نہ تو اس کا سانس پھولا تھا اور نہ بلندی پہ آکسیجن کی کمی کہ سبب اس کی طبیعت بگڑی تھی۔
وہ پیدائشی ایستھما کی مریضہ تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ اور اوپر چڑھتی انگریز فوج کہ سپہ سالاروں والے لباس میں ملبوس ایک نقاب پوش اس کہ سامنے آیا اور اسے ایک زبردست دھکا دیا۔ اس کی ایک دلخراش چیخ بلند ہوئی اور وہ پہاڑوں سے نیچے گہرائی میں گرتی چلی گئی۔ اس کا دل ڈوبنے لگا تھا۔ سانسیں بگڑنے لگی تھیں۔ اسے ایستھما کا شدید نوعیت کا اٹیک آرھا تھا۔ اس کہ منہ سے گھٹی گھٹی چیخیں بلند ہو رھی تھیں۔ سانسیں اس قدر بے ربط تھیں کہ منہ سے الفاظ ادا نہیں ہو رھے تھے اور نہ ہی کسی کو مدد کہ لیے پکارا جا سکتا تھا۔ وہ اسی کیفیت میں اٹھ بیٹھی، اور دیکھ کر ششدر رہ گئی کہ اس کا نازک وجود پسینے میں شرابور ہے اور کسی زرد پتے کی مانند ہولے ہولے کانپ رھا ہے۔
وہ کسی کو بلانا چاھتی تھی، مدد کہ لیے پکارنا چاھتی تھی۔ لیکن تبھی اسے یاد آیا کہ وہ کسے بلاتی؟ کون تھا اسکا اس بھرے جہان میں۔ ایک اسکی ماں ہی تھی جسے اس کہ ظالم باپ نے کل ہی دھکے مار کہ گھر سے بے دخل کر دیا تھا ۔ اس کا نام “جمیکا یعقوب” تھا۔ یعقوب مسیح اور اسکی بیوی نگینہ یعقوب مسیح نے اسے پالا تھا۔ ابھی وہ فقط سولہ برس کی تھی۔ لیکن ایسے خواب اسے تب سے آتے تھے جب وہ بارویں برس میں داخل ہوئی تھی۔ اور تب سے اب تک یہ خواب کسی جونک کی مانند اس سے چمٹ گئے تھے۔ یہ پہاڑی سلسلے اس نے حقیقت میں کبھی نہیں دیکھے تھے۔ دیکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ یعقوب مسیح ایک حویلی میں ڈرائیور کی نوکری کرتا تھا۔ مر مر کہ اتنا کماتا تھا کہ ان تینوں کا گزارا ہو سکے۔ یہ الگ بات تھی کہ یعقوب مسیح کہ خواب بہت اونچے تھے۔
اس کی بیوی نگینہ یعقوب مسیح کی زندگی گھر اور یعقوب سے شروع ہوکر جمیکا پہ ختم ہو جاتی تھی۔ وہ عجیب عورت تھی، جسے نہ زیورات اور مہنگے کپڑوں سے کوئی لگاؤ تھا اور نہ ہی عیش و عشرت سے کوئی غرض۔ وہ بس اپنی چھوٹی سی دنیا میں مگن اور یعقوب مسیح کہ ہاتھوں روز بات بے بات پٹنے سے ہی خوش تھی۔ یعقوب مسیح کہ جس کی بے لگام خواہشات جب پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتیں یا جب وہ اپنی قلیل رقم راتوں رات دگنی اور چار گنی کرنے کی لالچ میں جوۓ میں ہار آتا تو وہ اپنا سارا غصہ اور فرسٹریشن نگینہ پہ ہی نکالتا تھا۔
جمیکا یہ سب چھپ چھپ کہ دیکھا کرتی تھی۔ وہ حیران ہوتی تھی کہ ساری رات نگینہ مار کھا کہ بھی اگلی صبح بلکل ایسے اٹھتی تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اور جمیکا وہ پوری رات لرزتے کانپتے آنکھوں میں کاٹتی تھی۔

0 تبصرے