گرلز ہاسٹل - قسط نمبر 2

urdu stories online


ایک ہفتے کہ اندر اندر ہی بانو کماری چودھری کفایت اللہ کی تیسری بیوی بن کر حویلی میں داخل ہوئی۔ بانو کماری کو چودھری صاحب سے تو کوئی خاص شغف تھا نہیں، اسے تو بس اس بچے کی فکر تھی جو اس کہ پیٹ میں پل کر دن بدن اس دنیا میں تشریف لانے کی اپنی مدت پوری کر رھا تھا۔ اسے اپنا گناہ چھپانے اور اسے چودھری کفایت اللہ کہ سر تھوپنے کا اس سے بہتر حل دکھائی نہیں دیا تھا۔ 

خیر اس کہ حویلی میں داخل ہونے کہ بعد حویلی کہ کثیر التعداد ملازمین کی چہمگوئیاں تو عروج پر تھیں سو تھیں، اس کی دونوں سوتنے بھی اس کی توقعات کہ عین برعکس اس کہ استقبال کہ لیے ہاتھوں میں پھولوں کی پتیوں کی ٹرے اٹھاۓ، دروازے پر موجود تھیں۔ بانو کماری کو یہ سب دیکھ کہ جو جھٹکا لگا وہ تو جیسے تیسے برداشت کر لیا، لیکن اگلا جھٹکا جو اسے لگا وہ اس کی قوتِ برداشت سے بہت اوپر تھا۔ اس کی سوتنوں نے اس کا کمرہ کسی نئی نویلی دلہن کی طرح سجایا تھا۔ بانو کماری تو زمین بوس ہوتے ہوتے بچی۔ خیر سے اس نے کمال مہارت سے چہرے کہ تاثرات سنجیدہ رکھے۔ اس کہ پیچھے ظاہر ہے اسکی اماں حضور کی پڑھائی ہوئی پٹی کا ہاتھ تھا۔

“دیکھ بانو! وہاں کسی سے بھی کوئی فالتو بات کرنے کی ضرورت نہیں۔ تو وہاں فقط چند دنوں کی مہمان ہے۔ ہر کسی سے رعب اور تحکم سے بات کرنا۔ چودھری مُوّا تجھ پہ لٹو ہے، اس بات کو اچھی طرح کیش کرنا۔ اور جلد ہی سب کچھ اپنے نام لگوا کہ رفو چکر ہونا۔ اس سے پہلے اگر یہ بلونگڑا یا بلونگڑی اس دنیا میں دفعان ہو ہی گئی تو اسے بھی ان کہ سر پہ تھوپ کہ نکل آنا۔ میں تب تک اگلا شکار ڈھونڈ لوں گی۔”
ماں کی کہی باتیں اسے لفظ بہ لفظ ازبر تھیں۔ اور وہ جانتی تھی کہ اس کہ پاس ان پہ عمل پیرا ہونے کہ علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خضر منان کی پوسٹنگ کوۂ کمالیہ کہ گاؤں بھوربن میں ہوئی تھی۔ وہاں موجود سی۔ایم۔ ایچ ہسپتال میں وہ واحد سرجن تھا۔ اسے اپنے پیشے سے عشق تھا۔ وہ ایک غریب ماں باپ کا بیٹا تھا، جس کا واحد خواب ایک کامیاب سرجن بننا تھا۔ یہ اسکی پہلی پوسٹنگ تھی۔ اس نے مسیحائی کہ فرائض سر انجام دینے کہ لیے پاک فوج کو منتخب کیا تھا۔ شمالی علاقے میں واقع گاؤں بھوربن کی وجۂ شہرت جہاں اونچے پہاڑ، بہتے چشمے اور تاحدِ نگاہ ، آنکھوں کو خیرہ کردینے والا سبزہ تھا، وہیں کئی سال پرانی عمارت میں بنا واحد گرلز کالج اور ہاسٹل بھی تھا۔ جہاں ہر کچھ عرصے بعد کسی نہ کسی معصوم دوشیزہ کا قتل ہوتا تھا۔ اور تمام بڑے ملکر اس کو دبانے اور لواحقین کہ منہ بند کروانے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ ڈاکٹر خضر منان نے اس کہ علاوہ اور بھی بہت کچھ سن رکھا تھا۔ لیکن وہ سنی سنائی باتوں پہ یقین کرنے والوں میں سے نہیں تھا۔ وہ تب تک نہیں مانتا جب تک حقیقت اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیتا۔ 

اس کی نوکری کہ پہلے ہی دن ہسپتال میں ایک جوان لڑکی کی لاش پوسٹ مارٹم کہ لیے موجود تھی۔ ایسے ہی واقعات کو لیکر یہاں بہت کم ڈاکٹرز و سرجنز ٹکتے تھے۔ جلد ہی وہ اپنا تبادلہ دوسرے شہروں میں کروا لیتے تھے۔ خضر منان کہ بارے میں بھی یہی افواہیں گردش کر رھی تھیں کہ وہ بھی جلد از جلد اپنا تبادلہ یہاں سے کہیں اور کروا لے گا۔ لڑکی کو مرے ہوئے تقریباً دو دن گزر چکے تھے۔حیرت کی بات یہ تھی کہ لاش کو ہسپتال میں لانا والا نہ تو لڑکی کا کوئی رشتہ دار تھا اور نہ کوئی دوست۔ بلکہ اس کا تو لڑکی کہ حلقۂ احباب سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔ وہ درمیانی عمر کا ایک بارعب مرد تھا۔ جو کالے رنگ کی قمیض شلوار میں ملبوس عجیب سے حلیے میں تھا۔ دونوں کلائیوں میں تانبے کہ کڑے تھے۔

 انگلیوں میں نگینے والی انگوٹھیاں۔ اس کہ گلے میں صلیب والا بڑا سا لاکٹ واضح دکھائی دے رھا تھا۔ وہ بہت ٹھہر ٹھہر کر اور دھیمے لہجے میں گفتگو کرتا تھا۔ ایک بات کر کہ نجانے کہاں کھو جاتا تھا۔ ہمہ وقت خلا میں کسی غیر مرئی نقطے پہ نگاہیں مرکوز کیے ہوئے معلوم ہوتا تھا۔ اس کی موجودگی میں وہشت اور غیر موجودگی میں گھبراہٹ ہوتی تھی۔ وہ جو بھی تھا اس دنیا کا باسی کم از کم نہیں تھا۔ بھلا کون ہوگا جو دو دن بعد ایک لڑکی کی قبر کشائی کر کہ اس کی کفن میں لپٹی لاش رات کی تاریکی میں بازؤں میں بھر کر تنِ تنہا ہسپتال آن وارد ہوتا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نگینہ یعقوب ایک رات باہر فٹ پاتھ پہ گزارنے کہ بعد پھر سے اپنے چھوٹے سے ڈربہ گھر میں بیٹھی کالے برتن مانجھ رھی تھی۔ جمیکا جس نے ساری رات آنکھوں میں کاٹی تھی، نلکے سے پانی نکلنے کی آواز پر صحن میں دوڑتی ہوئی چلی آئی۔ اور آکہ نگینہ کہ گلے کہ گرد اپنے بازو حمائل کر دیے۔ دونوں نجانے کتنی ہی دیر بنا آواز کہ روتی رھیں۔ پھر یعقوب کی گرجدار آواز سنکر چونک کہ سیدھی ہوئیں۔ یعقوب نے آتے ہی نگینہ کو دوہتھڑ مارنا اپنا فرض سمجھا تھا۔ نگینہ لڑکھڑاہی لیکن فوراً ہی سیدھی ہو بیٹھی۔
“کھانا لا کر دے کمبخت!”

حقارت اور نفرت سے کہتا، صحن میں تھوکتا ہوا کمرے میں جانے لگا۔ نگینہ اپنے شوہرِ نامدار کہ ہاتھوں پھر سے بے توقیر ہوکر ، دوپٹے کہ پلو سے ہاتھ پونچھتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کی اگلی منزل ڈربے گھر کی ڈربہ سی رسوئی تھی۔ جمیکا یہ سب دیکھتے ہوئے دل ہی دل میں کڑھتی رھی۔ اسے یعقوب مسیح سے نفرت تھی۔ یا شاید نفرت بہت چھوٹا لفظ تھا اس جذبے کہ لیے جو وہ یعقوب مسیح کہ لیے محسوس کرتی تھی۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ یعقوب مسیح کہ منہ پر تکیہ رکھ کہ اس کی سانسیں ضبط کر لے۔ یہ سب سوچتے ہوئے ہی اس کی سانسیں دھونکنی کی مانند چلنے لگی تھی۔ نگینہ پہ اتنا ظلم ہوتا تھا۔ پھر بھی وہ بیچاری سر جھکا کہ اپنے کام میں مگن رھتی تھی۔ نجانے وہ کس مٹی کی بنی تھی؟ نجانے وہ کون تھی؟ جمیکا کو تو کبھی کبھی اس کہ انسان نما مخلوق ہونے پہ بھی شبہ ہوتا تھا۔کیا معلوم وہ انسان تھی بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔یا نہیں۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب سے دوشیزہ کا قتل ہوا تھا، تب سے ملحقہ گاؤں بھوربھن اور گرد و نواح میں عجیب خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔ جن کی بچیاں ہاسٹل میں مقیم تھیں سبھی اپنی بچیوں کی خیر خیریت دریافت کرنے کہ لیے وہاں موجود تھے۔ کیونکہ سالانہ امتحانات شروع ہونے والے تھے لہذا کوئی بھی اپنی بیٹیوں کو گھر نہیں لے جا سکا۔ فقط ہاسٹل کہ مہمان خانے میں ہی ان سے ملنے پہ اکتفا کیا۔ انھی والدین میں بھوربھن سے دور واقع ایک اور گاؤں چھچھی سیاہ کا رہائشی علی اصغر بھی تھا۔ جو اپنی بیٹی کومل سے ملکر اپنے گاؤں واپس جا رھا تھا۔ بد قسمتی سے اسے وہاں سے نکلنے میں دیر ہو گئی۔ پکی سڑک بھوربھن گاؤں سے تقریباً آٹھ سے دس کلو میٹر کہ فاصلے پر تھی۔ اور گرلز ہاسٹل بھوربھن گاؤں سے دو کلو میٹر دور واقع تھا۔ 

ہاسٹل کہ اردگرد فقط پہاڑیاں اور سبزہ تھا۔ پہاڑی کو کاٹ کر ہی ہاسٹل جانے کہ لیے راستہ بنایا گیا تھا۔ جو ڈھلوان کی صورت اترتا تھا۔ اور نیچے جاکر بھوربھن گاؤں کی سمت جانے والی پتھریلی پگڈنڈی سے ملتا تھا۔ پھر وہاں سے دس کلومیٹر کہ فاصلے پہ پکی سڑک گزرتی تھی۔ ذاتی گاڑیوں والے افراد بھی پتھریلی ڈھلوان سے نیچے گاؤں کہ ہی کسی راستے پہ ہی گاڑی کھڑی کرتے تھے۔ اور اوپر ہاسٹل جانے کا راستہ پیدل طے کرنا ہوتا تھا۔ پہاڑی لوگ تو چند منٹوں میں اوپر پہنچ جاتے تھے جبکہ شہر سے آۓ دیگر لوگوں کو پہاڑی ڈھلوان عبور کرنا بلاشبہ جان جوکھوں کا کام لگتا تھا۔ اسی پہاڑی ڈھلوان سے سیدھا جانے کہ بجائے اگر دائیں جانب جھانکا جائے تو وہ راستہ بھی فقط پانچ کلو میٹر بعد پکی سڑک کو ملتا تھا۔ اسی راستے پہ جھرنوں کہ بیچ اس بوڑھی عورت کی کٹیا بھی تھی جس کہ سینے میں ہاسٹل والی عمارت کو لیکر بیش قیمتی راز مدفن تھے۔ 

اس بوڑھی کی حرکتوں اور اس راستے کہ بارے میں مشہور دیگر کہانیوں کو لیکر کوئی بھی اس راستے کی جانب نہیں پھٹکتا تھا۔ اسی لیے لوگ بہ نسبت لمبا راستہ چننے پہ مجبور ہو جاتے۔ علی اصغر کی موت شاید اس کہ تعقب میں تھی اسی لیے اس نے چھاچھی سیاہ جانے کہ لیے اس شارٹ کٹ کا انتخاب کیا۔ کہ یہاں سے جلدی پکی سڑک پہ پہنچ جائے گا، پھر وہاں سے کوئی بھی گاڑی اسے اس کی منزل پہ پہنچا دیتی۔

وہ پہاڑی آدمی تھا، اسی لیے آناً فاناً پہاڑی ڈھلوان پہ پھلانگتا جانے لگا۔ رات کی تاریکی بھی اپنے پر پھیلا چکی تھی۔ وہاں مکمل سکوت تھا۔ ہاں پہاڑی سے بہتے جھرنے کی آواز خوابناک ماحول میں عجیب اتعاش پیدا کر رھی تھی۔ آسمان پہ اکا دکا تارے بھی دکھائی دے رھے تھے۔ ہاں چندا ماما بادلوں کی اوٹ لیکر آنکھ مچولی کا دلنشین کھیل کھیل رھے تھے۔ علی اصغر پرانا پہاڑی گیت گنگتا ہوا اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھا۔ کہ اچانک اسے اس خوابناک ماحول میں بانسری کی دلکش آواز سنائی دی۔ بجانے والا کوئی بہت ہی دلسوز دھن بجا رھا تھا۔ علی اصغر نے ایسی سریلی اور دلنشین دھن پہلی دفعہ سنی تھی۔

اس کہ وجود پہ یکدم ہی رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ دل کی دھڑکنیں نجانے کیوں اتھل پتھل ہونے لگیں۔ دھن سنتے ہی اس پہ ایک عجیب دیوانگی سی طاری ہونے لگی۔ اس کہ قدم خود بخود دھن کی سمت اٹھتے چلے گئے۔ جوں جوں وہ قدم بڑھا رھا تھا دھن کی آواز قریب سے قریب تر محسوس ہو رھی تھی۔ دھن کہ علاوہ بہتے جھرنے کی آواز بھی کان کہ بلکل پاس معلوم ہو رھی تھی۔ وہ مجنوؤں کی حالت میں اب پہاڑی سلسلے کی اونچی نیچی ڈھلوانوں پہ دوڑا چلا جا رھا تھا۔ وہ اب کافی اونچائی پہ کھڑا تھا جب اسے نیچے گہرائی میں کٹیا سے دور کوئی اپسرا دکھائی دی۔ وہ جھرنے کہ بلکل پاس، علی اصغر کی جانب پشت کیے بیٹھی تھی۔ 

سفید لباس دور دور تک اطراف میں پھیلا تھا۔ چاند بھی اب بادلوں کی اوٹ سے نکل کر عین اس اپسرا کہ سر پہ چمک رھا تھا۔ فلک بھی نیلی چادر میں تارے ٹانکے بھر پور آب و تاب سے جلوہ نما تھا۔ اردگرد موجود پہاڑیوں پہ اگا تاحدِ نگاہ سبزہ اور قریب ہی اونچے پہاڑ سے بہتا جھرنا، وہ پریوں جیسے سفید لباس میں بیٹھی کوئی شہزادی اور اس کہ لبوں سے نکلنے والی دلسوز دھن۔۔۔۔۔۔۔۔ آہ۔۔۔۔۔ علی اصغر کہ لیے یہ منظر جنت سے کم نہیں تھا۔ وہ وارفتگی سے اپسرا کی جانب دوڑا چلا گیا۔ سانسیں بے ترتیب تھیں، بدن اس موسم میں بھی پسینے سے تر ہو چکا تھا۔ اسے فقط اس اپسرا کا دیدار کرنا تھا۔ اپسرا اب بانسری کو ہونٹوں سے الگ کر کہ پہاڑی گیت گنگنا رھی تھی۔ ارے یہ تو وہی گیت تھا جو کچھ وقت پہلے علی اصغر گنگنا رھا تھا۔ اس کی جوانی کہ دنوں کا مشہور و رومانوی پہاڑی گیت۔ جس کی آواز نے علی اصغر کو دیوانہ بنایا تھا وہ سامنے آتی تو وہ تو شاید ہوش ہی کھو بیٹھتا۔ یہی سوچ کہ وہ مزید تیزی سے اس کہ سر تک پہنچ گیا۔ اس کا لباس دور دور تک زمین پہ پھیلا ہوا تھا۔ اور وہ اپسرا جھرنے کی جانب رخ کیے بیٹھی تھی۔ 

لباس کا ایک حصہ جھرنے سے بہتے پانی میں لگ رھا تھا۔ لیکن وہ اس سب سے بے نیاز و بے خبر اپنے آپ میں مگن گیت گاۓ جارھی تھی۔ غور کرنے پہ علی اصغر کو معلوم پڑا کہ اپسرا کا لہجہ بھیگا ہوا ہے۔ شاید وہ کسی کو یاد کر رھی تھی؟ کتنا خوش نصیب ہوگا نا وہ جسے یہ حسین و جمیل دوشیزہ یاد کر کہ اداس ہو رھی تھی؟ علی اصغر نے بے اختیار یہ سوچا اور تڑپ کر آگے بڑھا۔ وہ اب جھرنے میں لگنے والا دوشیزہ کا سفید لباس نکالنے کہ لیے ہاتھ بڑھا ہی رھا تھا کہ دور موجود کٹیا سے ایک پاگل بوڑھی اماں چلائی:
“رک جا کمبخت! بھاگ جا یہاں سے۔ دفعہ ہوجا۔ اس کو چھونا مت۔ اپنے اوپر رحم کھا۔ بھاگ جا یہاں سے۔”

بوڑھی اماں کا کپکپاتا اور تنبیہ کرتا لہجہ، علی اصغر کہ ہوش اڑانے کہ لیے کافی تھا۔ اس سے ہہلے کہ وہ کوئی جواب دیتا، اپسرا نے بے اختیار گنگنا بند کیا۔ گیلی سانس اندر کھینچی۔ پل بھر کو خاموشی نے وہاں ڈیرے ڈال لیے۔ پانی بہنے کی آواز اب مزید اونچی محسوس ہو رھی تھی۔ علی اصغر یونہی کمر کہ بل جھکا ہوا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ دوشیزہ کا لباس پانی سے نکالتا، وہ اپسرا خود ہی لباس کو سمیٹتے ایک جھٹکے سے اٹھی۔ اور اس سے پہلے کہ علی اصغر سیدھا ہوتا اس کہ سر تک پہنچ گئی۔ اسے بازوؤں سے پکڑ کر سیدھا، اپنے عین سمانے کھڑا کیا۔ اور علی اصغر کو تب لگا کہ اس کا دل اس کہ حلق کہ راستے باہر آچکا ہے۔ کیونکہ اس اپسرا کی شکل جتنی خوبصورت تھی اتنی ہی بھیانک بھی تھی ۔

 اس سے پہلے اُس نے خونصورتی و بد صورتی کا ایسا بدترین امتزاج اپنی زندگی میں نہیں دیکھا تھا۔ اپسرا نے اب اسے تھوڑی سے پکڑ کر اس کہ وجود کو ہوا میں لہرایا تھا۔ علی اصغر کہ پاؤں تلے سے واقعتاً زمین چھین لی گئی تھی۔ وہ اس اپسرا کہ نازک ہاتھ میں بے آب کی مچھلی کی طرح تڑپ رھا تھا۔اس اپسرا کہ ناخن اس کی گلے میں پیوست ہو چکے تھے۔ اس کی خون کی نھنھی نھنھی بوندیں تیز رفتاری سے گلے سے نچلے دھڑ کی جانب محوِ سفر تھیں۔ اپسرا نے اس کہ جسم کی نجانے کتنی ہی باریک رگیں ایک جھٹکے میں اپنے نوکیلے اور تیز دھار ناخنوں سے کاٹ ڈالیں تھیں۔ خون اب تیزی سے جسم کہ نچلے حصے کو بگھو رھا تھا۔ 

اس کا لباس چپک رھا تھا۔ آنکھوں کہ آگے بے اختیار اندھیرا چھانے لگا۔ نقاہت سے پپوٹوں کو جنبش بھی نہیں دی جارھی تھی۔ خون اب برق رفتاری سے محوِ سفر تھا۔ باریک رگیں مسلسل ادھیڑی جا رھی تھیں۔ اپسرا نے اب اسے زمین پہ کھڑا کیا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ نقاہت و کمزوری کہ سبب زمین بوس ہوتا اس نے خون سے لت پت ہاتھ سے اس کی کنپٹی کو پکڑا ، اور اپنے نوکیلے ناخن اندر پیوست کر دیے۔ اس وقت علی اصغر کو لگا کہ نجانے کتنی ہی نھنھی نھنھی سوئیاں بیک وقت اس کی کھوپڑی سے ہوتے ہوئے اس کہ دماغ میں پیوست کی جا رھی ہیں۔ درد و اذیت کی اگر کوئی حد ہوتی ہے تو وہ اس وقت اس کہ عروج پر تھا۔ اوپر سے کمال تو یہ کہ اس کہ منہ سے ایک بھی چیخ نہیں نکل پائی۔ نہ وہ کراہ پایا تھا۔ نجانے یہ کیسی کیفیت تھی یا کوئی جادو تھا۔ یا یہ کوئی ڈائن تھی۔ کون تھی یہ؟ کیسی مخلوق تھی کہ جسکہ ناخن اس کی انگلیوں سے بھی لمبے تھے۔ 

جن کی دھار کسی تیز دھاری خنجر سے کسی طور کم نہیں تھی۔ اس کہ نوکیلے ناخنوں پہ کوئی سفوف لگا تھا۔ جو علی اصغر کہ جسم میں داخل ہو کر اس کہ زخموں پہ نمک کا کام کر رھا تھا۔ اس اپسرا نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچا تو اس کہ ہاتھ میں علی اصغر کا بھیجہ تھا۔ آخری لفظ جو اپسرا نے علی اصغر کی پھٹی ہوئی سوالیہ نگاہیں دیکھتے ہوئے اس کی سماعتوں کی زینت بنایا تھا، وہ تھا، “میں۔۔۔۔۔کیتھرین۔۔۔۔ ہوں !!!!”

اور آخری منظر جو اس کی بصارت نے قید کیا وہ اس کہ بھیجے کو اپسرا نے بوڑھی عورت کی جانب اچھالا تھا جو شاید اسے ہی پکانے کہ لیے آگ سلگھائے بیٹھی تھی!

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے