آزمائش - پہلا حصہ

urdu stories online

یہ ماہ صیام کی چوتھی شب تھی۔ نماز تراویح کے بعد لوگ اپنے بستروں میں گھسے، اگلے روزے کے منتظر تھے۔ بالآخر وہ رات بھی تمام ہونے کی نوید لے کر آگئی۔ “اٹھو، جاگو! اللہ کی رحمتوں کا میلہ لوٹ لو۔” یہ شرف الدین کی آواز تھی جو گاؤں بھر کی گلیوں میں منادی کرکے سب کو سحری کے لیے جگاتا اور خود عین سحری کے وقت سوجاتا تھا۔ وہ خود روزے نہیں رکھتا تھا، نہ ہی مسجد میں اس کے بچے نظر آتے تھے۔

“شرفو! تم سب کو روزے کے لیے جگاتے ہو، مگر خود نہیں رکھتے؟” ایک دن ایک شخص نے اس سے استفسار کر ہی لیا۔ “جناب! آپ کے صرف انتیس یا تیس روزے ہوتے ہیں اور ہمارے روزے تو سال بھر ہی چلتے رہتے ہیں،” اس نے آزردگی سے کہا۔ “بھلا یہ کیا بات ہوئی…؟” “یہی تو بات ہے جناب،” وہ بولا۔ “جب ہمارے پاس کھانے کو ہی نہیں ہوتا تو ہم روزہ کیا رکھیں گے؟ میں خود روزہ نہیں رکھتا۔ بلاشبہ یہ گناہ ہے مگر دوسروں کو جگاتا ہوں، یہ کارِ ثواب ہے۔ چنانچہ میں ایک نیکی اور ایک گناہ سے پلڑا برابر کرلیتا ہوں۔” “استغفراللہ! تم کون ہوتے ہو، یہ طے کرنے اور نیکی گناہ کی جمع تفریق سے پلڑا برابر کرنے والے؟” نیکی کی ترغیب دینے والے صاحب بری طرح برہم ہوئے اور توبہ توبہ کا ورد کرتے ہوئے اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔

یہ تھا شرف الدین، غربت و افلاس کی چکی کے دو پاٹوں کے بیچ میں پستا ہوا ایک مجبور اور غریب مزدور۔ دن بھر محنت مزدوری کرتا اور رات کو سوئے ہوئے لوگوں کو جگانے میں لگ جاتا، مگر اس بار محنت مزدوری بھی ختم ہو کر رہ گئی تھی۔ کورونا وائرس خود تو رخصت ہوگیا تھا مگر اپنے پیچھے بے روزگاری کا عفریت چھوڑ گیا تھا۔ اس رات بھی وہ اپنی جھلنگا سی چارپائی پر پڑا، سوچوں کی یلغار سے نبرد آزما تھا۔ اس کے دونوں بیٹے ماں کے پہلو میں خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ وہ انہیں دیکھ کر بے ساختہ مسکرا دیا۔ “یہی تو دن ہوتے ہیں بے فکری کے، کھیلنے کودنے اور کھانے پینے کے،” وہ سوچنے لگا۔ اسی طرح نہ جانے کتنا وقت گزر گیا۔ دونوں بچے جن کی عمریں بالترتیب آٹھ اور دس سال تھیں، یوں سوئے ہوئے تھے جیسے منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئے ہوں، مگر ظاہری بات ہے کہ ایسا ہرگز نہیں تھا۔ سونے کا چمچ تو نہیں، آج وہ چاولوں کے دو دو چمچ کھا کر سوئے تھے۔

اسی لمحے شرفو کو کھانسی کا دورہ پڑا اور وہ اپنی چارپائی پر دہرا ہوگیا۔ یہ سلسلہ کئی لمحوں تک جاری رہا۔ کچھ دیر میں طبیعت بحال ہوئی اور اس کی نظریں چھت کی جانب کسی غیر مرئی نکتے پر مرکوز ہوگئیں۔ “تم جاگ گئے ہو، شرف الدین؟” معاً اس کی بیوی کی آواز آئی اور وہ خیالات کی فوجوں سمیت پسپا ہوگیا۔ “سویا ہی کب تھا میں…؟” 

وہ کھانستے ہوئے بولا۔ “عید میں کتنے دن رہ گئے ہیں؟” وہ مستفسر ہوئی۔ “تم کیوں پوچھ رہی ہو؟” “میں نہیں، بچے پوچھ رہے تھے،” اس نے آہستگی سے کہا کہ مبادا کوئی سن نہ لے۔ “آج کے بعد سترہ دن باقی ہیں،” اس نے بتایا۔ “بچوں کے کپڑوں کا کیا کریں گے؟” وہ بولی، “جوتے تو پرانے ہی چل جائیں گے۔” “تو کپڑے بھی پرانے ہی چلا لینا،” اس نے حسرت ناک سرگوشی کی۔ “کب تک چلاؤں یہ کپڑے؟” وہ بڑبڑائی۔”اسماء، تم دیکھ تو رہی ہو۔ میں بیماری اور دن بہ دن گرتی صحت کی وجہ سے کام پر نہیں جا پاتا۔ سچ پوچھو تو اب مشقت والا کام نہیں ہوتا۔ کاش! میری پرانی ملازمت بحال ہوجائے، وہاں تو لکھنے پڑھنے کا ہی کام ہے،” وہ بولا۔ “ٹھیکیدار سے پچھلی مزدوری لینے گیا تھا، اس نے دروازہ ہی نہیں کھولا۔” “کیوں؟” اسماء اٹھ کر بیٹھ گئی۔ “فون پر کہہ رہا تھا کہ حالات خراب ہیں، پیمنٹس رکی ہوئی ہیں، صبر کرو۔” “تو اسے کہنا تھا نا کہ کب تک صبر کریں؟” “یہ اس کا نہیں، ہمارا مسئلہ ہے اسماء،” وہ سنجیدگی سے بولا۔ “اس کا کیا ہے… اس نے تو کافی کچھ جوڑ جمع کر رکھا ہے۔” “مہینہ ختم ہونے والا ہے،” وہ پھر سے بولی۔ “مالک مکان بھی دھمکی دے گیا ہے۔ ٹھیکیدار سے کہنا تھا کہ مزدور کی اجرت پسینہ خشک ہونے سے پہلے دیتے ہیں۔” “تم پڑھی لکھی باتیں کرتی ہو، مگر اب ایسی باتوں پر کوئی کان نہیں دھرتا۔ یہاں پر پسینہ تو کیا، خون خشک ہو جاتا ہے اور اجرت نہیں ملتی،” اسے دوبارہ کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔

“کہہ تو تم ٹھیک ہی رہے ہو،” اس نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا۔ “میں تمہیں پانی دیتی ہوں، تم دوا تو لو گے نہیں،” وہ چارپائی سے اترتے ہوئے بولی۔ “دوا کہاں سے آئے گی اسماء؟ گھر چل جائے، یہی بڑی بات ہے،” وہ پھر کھانسنے لگا تھا۔”یہ لو پانی پیو، شاید آرام آ جائے،” وہ اس کی طرف گلاس بڑھاتے ہوئے بولی۔”تھوڑی سی چینی دے دو، مجھے اس سے آرام آجاتا ہے،” اس نے گلاس پکڑتے ہوئے کہا۔”چینی سے آرام تو آ جائے گا مگر شوگر تیز ہوجائے گی۔ ویسے بھی چینی ختم ہوگئی ہے،” وہ اس کی چارپائی پر بیٹھتے ہوئے بولی۔ “اچھا، کیا کہہ رہا تھا مالک مکان؟””وہی جو ہر بار کہتا ہے،” وہ خفگی سے بولی۔ “بڑا ہی کوئی واہیات آدمی ہے۔ تم سے کتنی بار کہا ہے دروازہ نہ کھولا کرو، اندر سے ہی پوچھ لیا کرو۔””ہاں! جیسے تم تو اسے جانتے ہی نہیں…” وہ اس کی ٹانگیں دبانے لگی۔”میں جانتا ہوں، اسماء،” وہ افسردگی سے بولا۔ “اس کی نظر خراب اور نیت میں فتور ہے۔””چھوڑو، تم بھی کیا باتیں لے کر بیٹھ گئے،” وہ بات بدلتے ہوئے بولی۔ “کہہ رہا تھا کہ عید سے تین دن پہلے کرایہ دے دینا ورنہ مکان خالی کر دینا۔”شرفو نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ “کیوں دبا رہی ہو میری ٹانگیں… تم بھی تو تھک جاتی ہو۔””تم ساری رات لوگوں کو جگاتے ہو، دن بھر مزدوری کرتے ہو، میں کیا کرتی ہوں؟” وہ دوبارہ اس کی ٹانگیں دبانے لگی۔”وقاص نے آج مجھ سے بات نہیں کی…” اس نے اپنے چھوٹے بیٹے کا نام لیا۔ “کہہ رہا تھا، بابا سے ناراض ہوں،” وہ بتانے لگی۔ “اس کے دوستوں نے عید کے کپڑے لے لیے ہیں نا، اس لیے۔””اور شہباز…؟””وہ کچھ نہیں کہتا مگر اس کی آنکھیں بہت بولتی ہیں،” وہ بڑے بیٹے سے متعلق بتانے لگی۔”اچھا چلو، اللہ کوئی راستہ نکالے گا،” وہ کروٹ بدلتے ہوئے بولا۔ “جاؤ تم بھی اب سو جاؤ۔

” “وہ… میں ایک بات کرنا چاہتی ہوں،” اس نے جھجکتے ہوئے کہا۔”ہاں بولو، سن رہا ہوں،” وہ کروٹ بدلے بغیر بولا۔ “وہ… میں سوچ رہی تھی کہ حاجی صاحب کے گھر کام کرنے چلی جایا کروں…” اسماء نے کہا اور وہ یوں تڑپ کر اٹھا جیسے کسی زہریلے بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔”کیا… کیا کہہ رہی ہو اسماء؟” وہ بے یقینی سے بولا۔ “تم جانتی بھی ہو، تم نے کیا بات کی ہے؟””میں جانتی ہوں، مگر…””بس اب چپ ہو جاؤ۔ گھر سے باہر قدم رکھنے کا سوچنا بھی مت،” وہ برہمی سے بولا۔ “لوگ کام سے زیادہ کام کرنے والیوں کو گھورتے ہیں۔””شرف الدین، انسان خود ٹھیک ہو تو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ویسے بھی عید تک ہی کی تو بات ہے۔””اسماء! یہ سب کتابی باتیں ہیں۔ جو ٹھیک ہوتا ہے، اسے ہی سب غلط کہتے ہیں،” وہ تلخی سے بولا۔ “اوپر سے مہنگائی عفریت کی طرح بڑھتی چلی جا رہی ہے۔””اسی لیے تو کہہ رہی ہوں کہ عید تک حاجی صاحب…””میں اچھی طرح جانتا ہوں اسے،” وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔ “مجھے بھی کہہ رہا تھا، مگر میں جانتا ہوں، وہ کیوں کہتا ہے۔””تم بہتر سمجھتے ہو، شرفو، میں نے تو سوچا تھا کہ چلو کچھ آسرا ہو جائے گا،” وہ اس کی چارپائی سے اٹھتے ہوئے کہنے لگی۔ “چلو! اللہ مالک ہے۔”وہ کچھ نہیں بولا، مگر وہ اس سے خفا بھی نہیں تھا۔ اسے گہری سوچوں نے گھیر لیا تھا۔ اسماء سے اس کی شادی کو دس سال ہو چکے تھے۔ اسے وہ دن یاد آنے لگے، جب وہ اس سے پہلی بار ملا تھا۔

اسماء سے اس کی ملاقات رملہ کی شادی پر ہوئی تھی۔ رملہ، اسماء کی کزن تھی اور شرف الدین ان دونوں کے دور پار کے رشتہ دار کا اکلوتا بیٹا تھا۔ کسی بھی شادی پر عمومی طور پر کئی شادیوں کے راستے کھل جاتے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں، لڑکیاں، لڑکے بھی ساتھ آئے ہوتے ہیں۔ تعارف اور تجدیدِ مراسم بھی ہوجاتی ہے۔ نئے تعلقات استوار اور پرانے رشتے بحال ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ یہ اسماء اور شرف الدین کی پہلی ملاقات تھی۔ وہ ایک دراز قد اور انتہائی خوبصورت لڑکی تھی، اتنی کہ پوری شادی میں ہر نگاہ کا مرکز بنی ہوئی تھی۔ اس لحاظ سے شرف الدین بھی کچھ کم نہیں تھا۔ وہ بھی ایک وجیہہ و شکیل اور صحت مند نوجوان تھا، اور ایک پرائیویٹ فرم میں اچھی ملازمت کر رہا تھا۔ سچ کہتے ہیں، رشتے اور تعلقات اس وقت مضبوط ہوتے ہیں جب آپ مالی طور پر مضبوط ہوں۔

خیر، یہ مہندی کی رات تھی اور لڑکیاں پوری طرح سے سج دھج کر تتلیوں کی طرح اُڑتی پھر رہی تھیں۔ رملہ کا گھر بقعۂ نور بنا ہوا تھا۔ مہندی کے گیت، لڑکیوں کا شور و غل اور ڈھول کی تھاپ کے ساتھ تالیوں کا تال میل سماں باندھ رہا تھا، مگر شرف الدین کو سوائے اسماء کے کچھ نظر ہی نہیں آ رہا تھا۔ اس کی نگاہیں اسی پر جمی ہوئی تھیں اور یہ بات اسماء نے بھی نوٹ کرلی تھی۔ اسی لمحے شرف الدین کے سیل فون نے سگنل دیا اور وہ بلا ارادہ چھت پر چلا گیا۔ یہ سردیوں کی ایک یخ بستہ رات تھی۔ وہ کافی دیر تک کسی سے فون پر بات کرتا رہا، پھر وہیں ایک پرانی سی کرسی پر بیٹھ گیا۔

“تم نے دیکھا، کیسے تمہیں گھور رہا تھا؟” معاً اسے ایک کھنکتی ہوئی آواز سنائی دی۔ یہ دو لڑکیاں تھیں جو سیڑھیاں چڑھتی ہوئی چھت پر آ رہی تھیں، جن میں سے ایک بلاشبہ اسماء تھی۔”دیکھنے دو، اس سے کیا ہوتا ہے؟” اسماء نے جواب دیا۔”مگر یار لڑکا برا نہیں ہے۔ خوبرو ہے۔ میں نے سنا ہے جاب بھی کر رہا ہے،” اس کی سہیلی نے کہا۔”تو پھر کرتے ہیں تمہاری بات۔” اسماء اسے چھیڑنے لگی۔ “بڑی خبر رکھ رہی ہو اس کی…””اسماء، میں یہ سب تمہارے لیے کر رہی ہوں۔””اچھا جی! تو تمہیں اتنی جلدی کیوں ہے مجھے پیا گھر بھیجنے کی؟” وہ مصنوعی ناراضی سے بولی۔”اس لیے کہ شاید تمہاری شادی پر میری بھی کسی سے ملاقات ہوجائے،” وہ کھکھلا کر ہنسنے لگی۔

”ویسے نام کیا ہے؟” اسماء نے پوچھا۔”نرگس،” وہ شوخی سے بولی۔”میں تمہارا نہیں، اس کا پوچھ رہی ہوں۔””اس کا… کس کا؟””نرگس! میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گی،” وہ جھنجھلا کر بولی۔”شرف الدین…” نرگس بولی۔ “دقیانوسی سا نام ہے، مگر وہ خود دقیانوسی نہیں ہے۔””شرف الدین،” وہ بڑبڑائی۔”ہاں ہاں یاد کر لو، کہیں بھول نہ جاؤ،” اس نے کہا اور ہنسنے لگی۔”جہنم میں جاؤ، میں جا رہی ہوں،” وہ واپس مڑتے ہوئے بولی۔”اچھا اچھا ٹھہرو، میں سیریس ہوں،” اس نے کہا اور یوں صورت بنالی جیسے ابھی رو دے گی۔”اچھا! اتنا سیریس ہونے کو نہیں کہا تھا۔ تم تو کسی مریض کی طرح سیریس ہوگئی ہو،” وہ بولی اور نرگس کے قہقہے پھر سے گونجنے لگے۔

پھر ایک دم دونوں خاموش ہو کر گویا ساکت ہوگئیں۔ ان دونوں کی مترنم ہنسی میں مردانہ قہقہہ بھی شامل ہوگیا تھا جو بلاشبہ شرف الدین کا تھا۔ وہ کب سے ان کی باتیں سن رہا تھا مگر “سیریس مریض” والی بات پر وہ بھی اپنی ہنسی نہیں روک پایا تھا۔”تو آپ ہمارا پیچھا کر رہے ہیں؟” نرگس نے زیر لب مسکراتے ہوئے کہا، جبکہ اسماء کو چھپنے کے لیے جگہ نہیں مل رہی تھی۔”محترمہ، پیچھا میں نہیں، بلکہ آپ کر رہی ہیں اور ایک شریف النفس انسان کی غیبت بھی،” اس نے اسماء پر نظریں جماتے ہوئے بولا۔”نہیں۔ ہم تو آپ کے نام کی ٹرانسلیشن کر رہے تھے،” اسماء کانپتی ہوئی آواز میں بولی۔”کیوں! میرا نام سلیبس میں آگیا ہے؟” وہ اسے چھیڑنے پر تل گیا تھا۔ نن… نہیں تو۔ نہیں تو کیا؟ کچھ نہیں۔ وہ بولی اور نرگس کے قہقہے گونجنے لگے۔

“تمہیں تو میں نیچے جاکر پوچھتی ہوں،” اس نے دانت پیستے ہوئے سرگوشی کی۔ “تمہیں بہت شوق تھا، چھت پر آئے گا۔ میں جا رہی ہوں،” وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھنے لگی۔”آپ جائیں گی تو میں شور مچادوں گا،” وہ اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے سنجیدگی سے بولا۔”شور مچادیں گے؟” اسماء خود کو سنبھالتے ہوئے حیرت سے بولی۔”تو اور کیا … عزت صرف خواتین کی ہی نہیں، ہماری بھی ہوتی ہے اور آپ نے میرا پیچھا کیا ہے،” 

اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ “استغفراللہ،” وہ بولی۔”کیا آپ مجھ سے شادی کریں گی؟” اس نے ایک دم سوال کا گولہ داغ دیا۔”کک… کیا؟” “شادی،” وہ سنجیدہ ہوگیا۔ نرگس کا ہنسی کے مارے بُرا حال ہورہا تھا، پھر وہ بھاگتی ہوئی سیڑھیاں اتر گئی۔”آپ نے جواب نہیں دیا،” وہ بولا۔”ایسے تھوڑی ہوتا ہے،” اس نے کہا۔”تو پھر کیسے ہوتا ہے؟ کیا میں آپ کو پسند نہیں یا میرا نام دقیانوسی ہے؟””میں نے ایسا تو نہیں کہا …””یعنی آپ یہ رشتہ قبول کرتی ہیں؟””جی! نن… نہیں۔”اسی لمحے نرگس اور اس کی سہیلیوں نے دھاوا بول دیا۔”مبارک ہو تم کو یہ شادی تمہاری!” وہ سب مل کر گیت گانے لگیں۔ چھت پر ایک سماں بندھ گیا تھا۔”تو یہ سب آپ اور نرگس کی ملی بھگت تھی،” وہ شرف الدین سے مخاطب ہوئی۔”ہاں، اور کوئی طریقہ واردات سمجھ میں نہیں آ رہا تھا،” وہ بولا۔ “چنانچہ نرگس سے ہی کہنا پڑا۔”دوسری لڑکیاں مسکراتی نظروں سے انہیں دیکھ رہی تھیں۔ 

یہ سب نرگس اور اسماء کی مشترکہ سہیلیاں تھیں۔”آپ مجھے بھی اچھے لگے، مگر میں ابھی پڑھ رہی ہوں،” وہ پُراعتماد لہجے میں بولی۔ “تاہم شادی کے لیے آپ کو میرے والدین سے بات کرنی ہوگی۔””وہ مارا!” لڑکیوں نے بیک زبان ایک نعرہ مستانہ بلند کیا۔ “چلو! رملہ کو بھی بتاتے ہیں،” وہ سب کہتی ہوئی چلی گئیں۔ ان کے ساتھ اسماء بھی جاچکی تھی۔

المختصر، اس خوشگوار واقعے کے نتیجے میں اسماء کی شادی شرف الدین سے ہوگئی۔ ان دنوں وہ سیکنڈ ایئر کے امتحانات دے رہی تھی۔ چنانچہ شادی تک تعلیم بھی 
مکمل ہوگئی اور وہ شرف الدین کی دلہن بن کر اس کے گھر آ گئی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے