حاصل (عمیرہ احمد) - پارٹ 1

urdu stories

"ایکسکیوزمی سسٹر!" روش پر دھیمے قدموں کے ساتھ چلتی ہوئی وہ گروپ میں سب سے پیچھے تھی، جب اس نے بینچ پر بیٹھے ہوئے اس لڑکے کو اچانک اٹھ کر سسٹر الزبتھ کی طرف بڑھتے اور انھیں روکتے دیکھا تھا
مجھے آپ سے بات کرنی ہے، میں عیسائی ہونا چاہتا ہوں- اس کے لیے مجھے کیا 
کرنا ہو گا
 
بھیگے لہجے میں کہے گئے اس بلند جملے نے پورے گروپ کو رک جانے پر مجبور کر دیا تھا- وہ بھی باقی سب کی طرح اس کا چہرہ دیکھنے لگی تھی
وہ سفید شرٹ اور سیاہ جینز میں ملبوس سترہ اٹھارہ سال کا ایک دراز قد لڑکا تھا- اس کے سیاہ چمکیلے بال بے ترتیب تھے- شاید اس نے دو تین دن سے شیو بھی نہیں کی تھی- اس کی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں، پلکیں ابھی تک بھیگی ہوئی تھیں- شاید وہ اس بینچ پر کچھ دیر پہلے تک بیٹھا رو رہا تھا- اس کی صاف رنگت کی وجہ سے آنکھوں کے گرد پڑے ہوئے حلقے بہت نمایاں نظر آ رہے تھے
اس نے چند لمحوں میں ہی اس کے پورے سراپا کا جائزہ لے لیا تھا
"یور نیم(آپ کا نام )؟" سسٹر الزبتھ نے کچھ حیرانی سے اس سے پوچھا تھا
"محمد حدید-" اس کے جواب پر ایک لمحے کے لئے اس کا سانس رک گیا تھا
سسٹر الزبتھ نے بے اختیار مڑ کر اس کو دیکھا تھا- چند سیکنڈ کے لیے دونوں کی نظرین ملی تھیں
"میں اس کے متعلق کچھ نہیں کہ سکتی-"
سسٹر الزبتھ یک دم محتاط ہو گئی تھیں- اس کی آواز قدرے مدھم ہو گئی تھی-
"آپ کو فادر سے بات کرنا چاہیے
انھوں نے اس سے کہا تھا-
"اس کے لیے مجھے کہاں جانا چاہیے-"
اس نوجوان کے چہرے کے اضطراب میں اضافہ ہو گیا تھا- سسٹر الزبتھ نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا تھا اور پھر چند قدم آگے بڑھ کر اس نوجوان کو ایک طرف لے گئی تھیں، کچھ دیر وہ دونوں وہاں باتیں کرتے رہے تھے- پھر اس نوجوان نے اپنا والٹ نکال کر سسٹر کو ایک پن اور کارڈ دیا تھا- سسٹر نے کارڈ کی پشت پر کچھ لکھ کر اسے پکڑا دیا تھا- وہ کسی ڈمی کی طرح سب کچھ دیکھتی رہی تھی-
"اسے کیا چاہیے ہو گا جس کی طلب اسے---------"
اس نے اسے دیکھتے ہوئے سوچنے اور بوجھنے کی کوشش کی تھی- گلے میں پڑی ہوئی سونے کی چین جو اس کے کھلے گریبان سے جھلک رہی تھی اور ہاتھ میں باندھی ہوئی کرسچن ڈائر کی گھڑی اسے کسی معمولی گھرانے کا فرد بھی ظاہر نہیں کر رہے تھے اور اگر روپیہ پاس ہے اور روپیہ کمانے کے لیے کسی باہر کے ملک کے ویزے، وہاں سیاسی پناہ اور پھر نیشنیلٹی کی بھی ضرورت نہیں تو پھر یہ، یہ سب کیوں کرنا چاہتا ہے-"
وہ ابھی بھی الجھی ہوئی تھی- چند منٹوں بعد اس نے اس نوجوان کو والٹ جیب میں ڈال کر واپس اسی بینچ کی طرف جاتے دیکھا تھا اور سسٹر الزبتھ کو اپنی جانب آتے دیکھا تھا- ان کی واپسی پر کسی نے اس سے کوئی سوال نہیں کیا تھا، روش پر پھر پہلے کی طرح سب کی چہل قدمی شروع ہو گئی تھی مگر وہ وہاں سے جانا نہیں چاہتی تھی- ان لوگوں کے ساتھ چلتے ہو ئے اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا- وہ لڑکا اب بھی اسی بینچ پر بینچ کی پشت سے ٹیک لگائے چہرہ ڈھانپے بیٹھا ہوا تھا- بے اختیار اس کا دل بھاگ کر اس کے پاس جانے کو چاہا- صرف ایک لمحے کے لیے صرف ایک بات کہنے کے لیے
اس نے مڑ کر اپنے آگے چلتے ہوئے گروپ کو دیکھا تھا اور خود کو بے بس پایا تھا- وہ پیچھے جانا چاہتی تھی، واپس وہیں مگر وہ آگے چلتی جا رہی تھی- اسے پتا تھا یہ روش سیدھا اس پارک سے باہر لے جائے گی- وہ واپس وہاں نہیں آ سکے گی- اسے جو بھی کرنا تھا بہت جلدی میں کرنا تھا مگر اسے آخر کیا کرنا تھا
روش پر چلتے چلتے وہ گھاس پر چلنے لگی تھی، بڑے نہ محسوس طریقے سے اس نے اپنا جوتا اتار دیا تھا اور پھر اسی طرح سب لوگوں کے ساتھ چلتی رہی- ایک بار پھر اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا- بہت دور بینچ پر اب وہ ایک نقطے کی صورت میں نظر آ رہا تھا- مگر وہ وہاں تھا- وہ لوگ گیٹ کے پاس پہنچ گئے تھے
"اوہ گاڈ سسٹر! میں اپنا جوتا وہیں گھاس پر بھول آئی، مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ میں ننگے پاؤں چل رہی تھی-" اس نے سسٹر الزبتھ سے کہا تھا
"کہاں اتارا تھا؟" سسٹر نے کچھ تشویش سے دیکھا تھا
"مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ اس درخت کے پاس جو جھاڑی نظر آ رہی ہے وہیں سے گذرتے گذرتے میں نے جوتا اتارا تھا- میرا خیال تھا ہم واپس ادھر سے ہی گزریں گے تو میں جوتا پہن لوں گی مگر پھر آپ نے اس گیٹ سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا- میں بس پانچ منٹ میں لے کر آتی ہوں-" اس نے چلتے ہوئے کہا تھا
وہ واپس مڑ گئی تھی- روش پر چلنے کے بجائے اس نے گھاس پر بھاگنا شروع کر دیا تھا- وہ جلد از جلد اس کے پاس پہنچ جانا چاہتی تھی- چند منٹ بھاگنے کے بعد اس نے سر اٹھا کر اس نظر آنے والے بینچ کو دیکھا تھا جس پر وہ بیٹھا ہوا تھا مگر اب وہ بینچ خالی نظر آ رہا تھا- اسے بے اختیار ٹھوکر لگی تھی- اس بینچ کے قریبی بینچ بھی خالی نظر آ رہے تھے- وہ بے اختیار آگے بھاگتی چلی گئی- اس نے پارک کی روشوں پر چلتے لوگوں میں اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی مگر وہ اسے نظر نہیں آیا تھا
اس نے بے اختیار بھاگ کر گیٹ سے باہر نکلنے کی کوشش کی تھی، اس کی چادر کا ایک کونا گیٹ میں اٹک گیا تھا- وہ اسے چھڑانے میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی، ننگے سر اور ننگے پیر بھاگتی ہوئی وہ گیٹ پار کر کے باہر نکل گئی تھی- گاڑی تب تک ایک زناٹے کے ساتھ ٹرن کر کے سڑک پر پہنچ چکی تھی- جب تک وہ سڑک پر پہنچتی، تب تک کار اس کی پہنچ سے بہت دور ہو چکی تھی
اس نے بے بسی سے دور جاتی ہوئی کار کو دیکھا تھا- پھر ایک ٹھنڈک سی اس کے جسم میں اترتی گئی تھی- پہلی بار اسے احساس ہوا کہ وہ گیٹ کے باہر اور اندر جانے والے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن چکی ہے- اسے ان نظروں کی پرواہ نہیں تھی- اسے اس وقت کسی بھی چیز کی پرواہ نہیں تھی- گیٹ کے قریب آتے ہی اس نے چوکیدار کے ہاتھ میں اپنی چادر دیکھ لی تھی- اس نے اسے دیکھ کر چادر اس کی طرف بڑھا دی تھی، ہونٹ بھینچتے ہوئے اس نے چادر لے کر اوڑھ لی تھی-
"کیا بات ہے بی بی؟"کیا ہوا ہے؟"
چوکیدار متجسس تھا- اس نے جواب نہیں دیا تھا، چپ چاپ اندر چلی گئی تھی- روش سے گھاس پر اتر کر اس نے مطلوبہ جگہ جوتا تلاش کرنے کی کوشش کی تھی- اسے جوتا نہیں ملا یا تو وہ جگہ بھول چکی تھی یا پھر کوئی جوتا اٹھا چکا تھا- چند منٹ وہ گھاس پر بے دلی سے جوتا ڈھونڈتی رہی پھر واپس اس گیٹ کی طرف چل دی جہاں سسٹرز اس کا انتظار کر رہی تھیں
گھاس پر چلتے چلتے اس نے اپنے پیر میں کوئی چیز چھبتی محسوس کی تھی- وہ رک گئی تھی- اس نے پیر اٹھا کر دیکھنے کی کوشش کی تھی- اسے اندازہ نہیں ہوا کہ پاؤں میں کیا چبھا تھا- اب وہ گھاس سے ہٹ کر روش پر چلنے لگی تھی-
"تم نے پریشان کر دیا، اتنی دیر؟ میں تو ڈر گئی تھی ابھی تمھارے پیچھے آنے والی تھی-" سسٹر الزبتھ نے اسے دیکھتے ہی کہا تھا- تبھی ان کی نظر اس کے پیروں پر پر تھی-
"کیا ہوا؟ جوتا نہیں ملا؟" انھوں نے کچھ حیران ہو کر پوچھا تھا
اس نے سر کی جنبش سے انکار کیا تھا- سسٹر نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا تھا اور پھر کچھ متفکر ہو گئی تھیں
"تمہیں کیا ہوا ہے؟ اتنی پریشان کیوں ہو؟"
"کچھ نہیں ہوا...... سسٹر کچھ بھی نہیں ہوا بس جو ڈھونڈ رہی تھی، وہ نہیں ملا حالانکہ میں نے تو...... یقین کریں میں نے تو بہت کوشش کی تھی پھر بھی پتا نہیں کیوں........"
وہ بڑبڑائی تھی- سسٹر الزبتھ نے اس کی آنکھوں میں امڈتی ہوئی نمی کو دیکھا تھا اور پھر اس کے گال چھوتے ہی ہوئے اسے جیسے تسلی دینے کی کوشش کی تھی-
"کم ان ایک جوتے کے گم ہو جانے پر اتنی پریشانی ، کوئی بات نہیں- ہو جاتا ہے ایسا کئی دفعہ ایسا ہو جاتا ہے مگر اس میں رونے والی کون سی بات ہے؟ ابھی راستے سے دوسرا جوتا خرید لیں گے-"
سسٹر الزبتھ نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا تھا- باقی سسٹرز نے بھی اسے تسلی دی تھی اور پھر اسے چئیر اپ کرنے کی کوشش کرنے لگی تھیں- وہ آنکھوں میں تیرتی ہوئی نمی کو اپنے اندر اتارنے کی کوشش کرنے لگی تھی
پچھلے کئی دنوں سے وہ سسٹر الزبتھ کے دیئے ہوئے پتے پر جا رہا تھا- فادر جوشوا کے پاس جا کر اس نے انھیں سب کچھ کہ دیا تھا- اس کے ساتھ کیا ہوا تھا- وہ خود کو کیا سمجھ رہا تھا، اس کا ذہنی خلجان
اس نے ہر چیز کھل کر بتائی تھی- فادر جوشوا نے بڑی محبّت اور توجہ سے اس کی ساری گفتگو سنی تھی اور پھر دیر تک اسے اولڈ اور نیو ٹیسٹمنٹ سے کچھ چنی ہوئی باتیں بتاتے رہے- حضرت عیسٰی کی مسیحائی اور معجزات، مدر میری کی بے گناہی اور پاکبازی، ان کی آزمائش، حضرت عیسٰی کی تنہا زندگی جو انھوں نے لوگوں کے لیے وقف کر دی تھی اور پھر ان ہی لوگوں کے ہاتھوں ان کا دار پر چڑھایا جانا، وہ کسی سحر زدہ معمول کی طرح ان کی باتیں سنتا رہا- پہلی بار اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ یہی سب کچھ سننا چاہتا تھا- یہی سب کچھ جاننا چاہتا تھا- یہی سب کچھ محسوس کرنا چاہتا تھا
"مجھے کچھ نہیں چاہیے فادر! میں کسی financial gains (مالی مفاد) کے لیے ادھر نہیں آیا، میں تو صرف سکون چاہتا ہوں- mental composure ذہنی یکسوئی کی ضرورت ہے مجھے اور وہ سب کچھ مجھے اپنے مذہب سے نہیں ملا- مجھے لگتا ہے یہ سب کچھ مجھے یہاں مل جائے گا- میں چاہتا ہوں مجھے رات کو نیند آ جائے، میں سب کچھ بھلا دینا چاہتا ہوں، میں کسی چیز کے بارے میں سوچنا ہی نہیں چاہتا-"
وہ بول رہا تھا اور فادر جوشوا ملائمت سے مسکرا رہے تھے
تم ہر چیز حاصل کر لو گے میرے بچے ہر چیز- مگر کچھ انتظار کرنا ہو گا تمہیں اور اس وقت کے دوران تم جتنے ثابت قدم رہو گے تمہاری آئندہ زندگی اتنی ہی اچھی ہو گی-"
"فادر میں کروں گا-" اس نے اضطراب سے فادر جوشوا کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا تھا- انھوں نے ہاتھ سے اس کے ہاتھ کو نرمی سے تھپکا تھا
"فادر! میں جانتا ہوں- میں روز آپ کے پاس آ کر آپ سے کرنا چاہتا ہوں- آپ سے بہت کچھ جاننا چاہتا ہوں-" اس نے ان سے اجازت لینا چاہی تھی
"شیور تم ہر روز میرے پاس آ جایا کرو-"
اور اس دن کے بعد سے وہ ہر روز ان کے پاس جا رہا تھا- ایک ڈیڑھ گھنٹہ وہ ان کے پاس بیٹھا رہتا، پھر اٹھ کر آ جاتا
مگر اس ایک ڈیڑھ گھنٹہ میں اس کے اندر بہت کچھ بدل جاتا تھا- اسے اپنے ہر سوال کا جواب وہاں مل جاتا تھا- اس کا ڈپریشن اور فرسٹریشن مکمل طور پر تو ختم نہیں ہوا تھا لیکن کم ضرور ہو گیا تھا
فادر جوشوا نے اسے کچھ دوسرے پادریوں اور سسٹرز سے بھی ملوایا تھا اور ان سب سے مل کر اسے یوں لگتا تھا جیسے اس کا ہاتھ پکڑنے اس کی مدد کرنے کے لیے بہت سے لوگ موجود تھے اور ہر ایک پہلے سے زیادہ مخلص تھا- اسے اپنی نئی دنیا بہت اچھی لگ رہی تھی
چند ہفتوں میں وہ بڑی حد تک بدل چکا تھا- ابھی اس نے باقاعدہ طور پر مذہب تبدیل نہیں کیا تھا- ابھی فادر جوشوا کی دی ہوئی کتابیں اور پمفلٹس پڑھتا رہتا تھا- چند ہفتوں کے اندر مذہب تبدیل کرنے کا اس کا فیصلہ مستحکم ہو گیا تھا- جو تھوڑی بہت جھجھک تھی وہ بھی اب ختم ہو گئی تھی- ایک ڈیڑھ ہفتے تک باقاعدہ طور پر وہ اپنا مذہب تبدیل کرنے والا تھا
31 دسمبر کی رات کو Thanks giving prayer کے لیے وہ کیتھڈرل آیا تھا- وہ کئی دنوں سے باقاعدہ چرچ جا کر سروس اٹینڈ کر رہا تھا مگر کیتھڈرل وہ پہلی بار آیا تھا- سروس ابھی شروع نہیں تھی- لوگوں کا رش اندر آ جا رہا تھا- پوری کیتھولک کمیونٹی وہاں اکھٹی ہوئی تھی کم از کم جو شہر میں تھے- غیر ملکیوں کی ایک بڑی تعداد بھی وہاں موجود تھی- کیتھڈرل کے لانز میں بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد تھی جو سروس اٹینڈ کرنے کا بجائے خوش گپیوں میں مصروف تھی کیونکہ سال کا آخری دن تھا اور نیو ائیر کی تقریبات پہلے ہی شروع ہو چکی تھیں
وہ طائرانہ نظروں سے سب لوگوں کا جائزہ لیتے ہوئے چرچ میں داخل ہو گیا تھا- بنچوں کی قطاروں پر نظر ڈالتے ہوئے اس نے اپنے لیے کوئی خالی جگہ تلاش کرنے کی کوشش کی تھی- اگلی قطاروں میں کچھ جگہ اسے نظر آ ہی گئی تھی- وہ ایک بینچ پر جا کر خاموشی سے بیٹھ گیا- دعا کی کتاب نکال کر اس نے ہاتھ میں لے لی تھی- کچھ دیر تک وہ اسے دیکھتا رہا پھر اس نے کتاب بند کر دی- ایک عجیب سے اداسی اس کے وجود پر چھا رہی تھی، اسے اپنا آپ اس ماحول کا حصہ نہیں لگ رہا تھا- وہ سب پیدائشی عیسائی تھے اور وہ پیدائشی مسلمان تھا- ان میں سے ہر ایک اسے خود سے سپیریئر لگ رہا تھا- وہ بہت سے کمپلیکسز کا شکار تھا مگر اس طرح احساس کمتری اسے پہلی بار ہو رہا تھا- سروس کی تیاری جاری تھی- اس پر ایک عجیب سی تھکن سوار تھی، بینچ کی پشت سے ٹیک لگا کر اس نے آنکھیں بند کر لیں-تب ہی اسے احساس ہوا تھا اس کے بائیں جانب کوئی آ کر بیٹھا تھا- اس نے آنکھیں نہیں کھولی تھیں- جانتا تھا آھستہ آھستہ تمام بینچیں لوگوں سے بھر جائیں گی-
"بہت اچھا لگ رہا ہے یہاں؟" اس نے اپنے قریب ایک مدھم پر سکون مگر اجنبی آواز سنی تھی- اس نے اب بھی آنکھیں نہیں کھولی تھیں
"شاید یہ جملہ کسی اور سے کہا گیا ہے-" اس نے سوچا تھا
"آج کی شام میری زندگی کی سب سے اچھی شام ہے حدید!" آواز وہی تھی مگر اس بار اس کا نام بھی لیا گیا تھا- اس نے برق رفتاری سے آنکھیں کھول کر اپنے بائیں جانب دیکھا تھا- اس کے بہت قریب سیاہ سوٹ میں ملبوس ایک لڑکی بالکل اسی کی طرح بینچ کی پشت سے ٹیک لگائے اور آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی-
سیاہ چادر اس کے سر کو ڈھانپے ہوئے تھی- سیاہ چادر کی اوٹ میں سے نظر آنے والے چہرے پر عجیب طرح کا سکون اور ٹھہراؤ تھا- مگر اس کیفیت کے بغیر بھی وہ بے حد خوبصورت نظر آتی
اس نے گہری نظروں سے اس کا جائزہ لیا تھا اور پھر الجھن کا شکار ہو گیا تھا- وہ لڑکی اب آنکھیں بند کیے ٹیک لگائے خاموش تھی اور وہ سوچ رہا تھا کیا واقعی وہ اس سے مخاطب ہوئی تھی یا اسے غلط فہمی ہو گئی تھی- وہ اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا- اس سے پہلے کہ وہ اس سے کچھ پوچھتا دفعتاً اس نے آنکھیں کھول دی تھیں مگر اس کی طرف دیکھنے کی بجائے وہ سامنے لگے ہوئے ہولی کراس کو دیکھ رہی تھی
"اس دن میں نے سوچا تھا میں دوبارہ کبھی تمہیں دیکھ نہیں پاؤں گی اور دوبارہ نہ دیکھتی تو--"
وہ سامنے دیکھتے ہوئے اسطرح بولی تھی جیسے کوئی سرگوشی کر رہی ہو- حدید اب واقعی الجھن کا شکار ہو گیا تھا
"دیکھیں میں نے آپ کو پہچانا نہیں ہے- میرا خیال ہے ہم پہلے کبھی نہیں ملے اور نہ ہی مجھے سمجھ میں آ رہا ہے کہ آپ کو میرا نام کیسے معلوم ہوا؟ کیا آپ اپنا انٹروڈکشن کروائیں گی-"
اس بار پہلی دفعہ اس نے اپنی نظرین ہولی کراس سے ہٹاتے ہوئے اس پر مرکوز کر دی تھیں- حدید نے زندگی میں بہت سی آنکھیں دیکھی تھیں- ایسی آنکھیں جو پہلی نظر میں ہی بندے کو ہپناٹائز کر لیتی ہیں، ایسی آنکھیں جنھیں آپ بار بار دیکھنا چاہتے ہیں، ایسی آنکھیں جو سب کچھ کہہ دیتی ہیں، جو کوئی راز بھی نہیں رہنے دیتیں، ایسی آنکھیں جنھیں دیکھ کر یہ خیال آتا ہے کہ شاید دنیا انہی آنکھوں کو دکھانے کے لیے بنائی گئی ہے- ہنسنے والی آنکھیں دل میں اتر جانے والی نظرین- سحرزدہ کر دینے والی نگاہیں
مگر اس نے کبھی بھی اتنی اداس آنکھیں نہیں دیکھی تھیں- جب وہ آنکھیں بند کے بیٹھی تھی تو وہ سوچ رہا تھا کہ اس کی پلکیں بہت خوبصورت ہیں- جب اس نے آنکھیں کھولی تھیں تو اس نے دیکھا تھا کہ آنکھوں کا رنگ بھی بہت خوبصورت تھا- ڈارک بلیک مگر اب اس کی نظر نہ دراز پلکوں پر تھی نہ آنکھوں کے رنگ پر بلکہ صرف اداسی پر تھی جو آنکھوں میں تھی- وہ کچھ پزل ہو گیا تھا
"آپ نے مجھے اس لئے نہیں پہچانا کیونکہ آپ نے مجھے کبھی دیکھا ہے نہ مجھ سے ملے ہیں- مگر میں آپ کو اس لیے پہچانتی ہوں کیونکہ آپ کو دیکھ بھی چکی ہوں اور آپ سے مل بھی چکی ہوں حدید-"
کرسٹینا نے ایک گہری سانس لی تھی- "اس دن میں نے آپ کو پارک میں دیکھا تھا- آپ سسٹر الزبتھ پاس آئے تھے-"
اس نے حدید کو یاد دہانی کروائی تھی- حدید نے غور سے اسے دیکھا مگر پہچان نہیں پایا، اس دن ویسے بھی وہ جس کیفیت میں تھا شاید کسی کو بھی نہ پہچان پاتا اور سسٹرز کے جس گروپ کے پاس وہ گیا تھا، وہ خاصا لمبا چوڑا تھا- اب ان میں یہ لڑکی بھی شامل تھی یا نہیں وہ نہیں جانتا تھا مگر اس نے سر ہلا دیا
"ہاں، ہو سکتا ہے آپ وہاں ہوں- بہرحال میں نے آپ کو نہیں دیکھا-"
سروس شروع ہو چکی تھی- اس نے بشپ کو چبوترے پہ جاتے دیکھا تھا-
"کیا آپ کچھ دیر کے لیے میرے ساتھ باہر چل سکتے ہیں؟" حدید نے ایک مدھم سرگوشی سنی تھی
"مگر میں یہاں پر سروس اٹینڈ کرنے آیا ہوں-" اس نے کچھ ہچکچاتے ہوئے اس سے کہا تھا
"پلیز-" اس بار اس کی آواز التجائیہ تھی- وہ کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتا رہا اور پھر خاموشی سے کھڑا ہو گیا- Nave کی بجائے وہ aisle سے ہو کر باہر آ گئے تھے-
باہر بھی لوگوں کا ایک ہجوم تھا- یوں لگ رہا تھا جیسے آوازوں اور قہقہوں کا ایک طوفان آیا ہوا تھا
"میرے ساتھ آؤ-" باہر آتے ہی اس نے کرسٹینا کو کہتے سنا تھا- وہ خاموشی سے اس کے پیچھے چل پڑا- وہ اسے کیتھڈرل کے عقبی حصہ میں لے آئی تھی- اس طرف نسبتاً خاموشی تھی- وہ وہاں موجود ایک بینچ پر بیٹھ گئی- حدید اسے دیکھتا ہوا اسی بینچ پر بیٹھ گیا- بینچ کے قریب لیمپ پوسٹ کی روشنی نے ان دونوں کو بہت نمایاں کر دیا تھا
"تم کرسچن کیوں ہونا چاہتے ہو؟" کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اس نے پوچھا تھا-
"تم مسلمان کیوں ہونا چاہتی ہو؟" سوال کا جواب سوال سے دیا گیا تھا-
"کیونکہ یہ سچا مذہب ہے-"
"میں بھی Christianity (عیسائیت) کے بارے میں یہی سوچتا ہوں-"
"تم غلط سوچتے ہو، اسلام کے علاوہ کوئی مذہب سچا نہیں ہے-"
"کیا میں بھی یہ کہوں کہ تم غلط سوچتی ہو، Christianity (عیسائیت) کے علاوہ کوئی ریلیجن (مذہب) سچا نہیں ہے-" حدید کی ثابت قدمی اس سے کم نہیں تھی-
وہ کچھ بےبسی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی تھی
"تمہیں اپنے مذہب سے اتنی نفرت کیوں ہے؟"
"اگر یہی سوال میں تم سے پوچھوں تو ----- تمہیں اپنے مذہب سے اتنی نفرت کیوں ہے؟" حدید نے ایک بار پھر اس کے سوال کا جواب سوال سے دیا تھا-
"مجھے اپنے مذہب سے نفرت نہیں ہے-" کرسٹینا نے ہلکی آواز میں کہا تھا-
"پھر بھی تم اپنا مذہب چھوڑ دینا چاہتی ہو؟"
وہ اس کا چہرہ دیکھنے لگی تھی
"اس لیے چھوڑ دینا چاہتی ہوں کیونکہ میں نے سچائی پا لی ہے-"
"کون سی سچائی، کیسی سچائی؟ مجھے تو آج تک اپنے مذہب میں کوئی سچائی نظر نہیں آئی- مجھے اگر کہیں سچائی نظر آئی ہے تو تمھارے مذہب میں-" وہ جیسے یک دم پھٹ پڑا تھا
"بعض دفعہ جو چیز آپ کو نظر آتی ہے وہ فریب ہوتا ہے نظر کا دھوکہ اور جب تک یہ بات پتا چلتی ہے بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے- اتنی دیر کہ نہ آپ آگے جا سکتے ہیں نہ پیچھے- میں چاہتی ہوں حدید! تمھارے ساتھ یہ نہ ہو-"
حدید نے اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھے تھے مگر اس کی آواز میں لرزش تھی- وہ بے یقینی کے عالم میں اسے دیکھنے لگا تھا
"آخر یہ میری اتنی ہمدرد کیوں بن رہی ہے؟"اس نے تلخی سے سوچا تھا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے